Showing posts with label Fatwa. Show all posts
Showing posts with label Fatwa. Show all posts

Monday, June 20, 2022

Youtube per channel banana , youtube ki kamai, Halal or Haram , Fatwa , یوٹیوب سے پیسے کمانا, یوٹیوب چینل کی کمائی کاحکم

 

   

Home Page  Urdu Islamic Article  HR Email Ids  Zikar Azkaar

Namaz Quran & Tableegh   School HR ID  Ulema Ikram Bayanat

Listen Quran Majeed   Read Quran Majeed  Social Media  Ramzan

یوٹیوب سے پیسے کمانا


سوال

 سوشل میڈیا جیسے یوٹیوب پر اگر کوئی چینل چلایا جائے اور اس پر یوٹیوب والے ادائیگی کرنا شروع کردیں تو یہ لینا جائز ہے ؟ جب کہ چینل پر کوئی ناجائز یا حرام کام نہیں کیا جا رہا۔ 

جواب

صورت مسئولہ میں یو ٹیوب پر جو چینل بنایا جاتا ہے  تو یقینا اس پر کوئی تصاویر یا ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہوں گی اب وہ یا تو جاندار کی ہوگی یا کسی  بے جان چیز کی ہوگی اگر وہ جاندار کی ہے تو یہ چینل بنانا اور اس پر پیسے کمانا جائز نہیں اور اگر وہ بے جان کی ہے تو  اس کا حکم یہ ہے کہ یو ٹیوب پر جو پیسہ کمایا جاتا ہے اس میں درحقیقت صارف اپنا مواد  ویڈیو  کی شکل میں بنا کر یوٹیوب کو دیتا ہے اور یوٹیوب کے صارفین اس مواد کو زیادہ دیکھتے ہیں،  یا پسند کرتے ہیں تو اس پر "یوٹیوب" صارف کو  طے شدہ رقم ادا کرتا ہے۔اس ادائیگی کے لیے وہ گوگل ایڈ سینس کا اکاؤنٹ استعمال کرتا ہے، لہذا اپنی ویڈیوز کے ذریعے پیسے کمانے کے لیے ان شرائط کا لحاظ ضروری ہے:

1-ویڈیوز میں کسی جان دار کی  تصویر نہ ہو۔

2-ویڈیو میں کسی غیر شرعی اور ناجائز امر کی ترویج نہ   کی گئی ہو۔

3- ویڈیو میں موسیقی نہ ہو۔

4- پیسوں کی وصولی یا ادائیگی  کرنے میں کوئی سودی معاملہ  یا فاسد عقد نہ کرنا پڑتا ہو۔

5-  جان دار کی تصاویر والے یا کسی طور پر بھی غیر شرعی اشتہارات اس چینل پر نہ چلتے ہوں۔

اگر ان شرائط کا لحاظ رکھ کر چینل چلایا جاسکتاہے تو اس کی کمائی جائز ہوگی۔

ہماری معلومات کے مطابق یوٹیوب پر ایسا چینل چلانا موجودہ دور میں تقریباً  ناممکن ہے، کیوں کہ اپنے تئیں اگر ان شرائط کا لحاظ رکھ بھی لیا جائے تو یوٹیوب انتظامیہ کی طرف سے چینل پر اپنی مرضی سے اشتہارات چلائے جاتے ہیں، جو مختلف ممالک اور علاقوں کے اعتبار سے تبدیل بھی ہوتے ہیں، جن میں بہت سے غیر شرعی امور پر مشتمل اشتہارات ہوتے ہیں، لہٰذا یوٹیوب پر چینل بناکر اس کے ذریعے کمانے سے اجتناب کیا جائے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم : الإجماع علٰی تحریم تصویر الحیوان، وقال: وسواء لما یمتهن أو لغیره فصنعه حرام لکل حال، لأن فیه مضاهاة لخلق اللّٰہ".

(فرع لا بأس بتكليم المصلي وإجابته برأسه، ۱/ ٦٧٤،  ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"قال ابن مسعود: صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازية: إستماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام ؛لقوله عليه الصلاة و السلام:  استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر؛ أي بالنعمة".

(كتاب الحظر والإباحة، ٦/ ٣٤٨ - ٣٤٩، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

 

 

 

 

 

 

یوٹیوب چینل کی کمائی کاحکم


سوال

یوٹیوب ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں مختلف لوگ اپنی وڈیوز وغیرہ پوسٹ کرتے  ہیں اور اس سے پیسے کماتے ہیں۔ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی شخص ان کی ویڈیو دیکھتا ہے  تو اس سے پہلے اس کو ایک ایڈ دیکھنا پڑتا ہے۔ اور یوٹیوب وہ ایڈ دکھا کر اس ایڈ والی کمپنی سے جو پیسے لیتا ہے اسکا کچھ حصہ اس ویڈیو بنانے والے شخص کو ملتا ہے۔ تو اگر کوئی شخص ایسی ویڈیو ڈالے جس میں کوئی  نامحرم اور کوئی فحاشی وغیرہ نہ  ہو صرف ہنسی و مزاح ہو۔ تو کیا اس ویڈیو کی کمائی  جائز ہے؟  

جواب

یوٹیوب پر چینل بناکر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے کی صورت میں اگر اس چینل کے فالوورز  زیادہ ہوں تو یوٹیوب چینل ہولڈر کی اجازت سے اس میں اپنے مختلف کسٹمر کے اشتہار چلاتا ہے   ، اور اس کی ایڈورٹائزمنٹ اور مارکیٹنگ کرنے پر ویڈو اَپ لوڈ کرنے والے کو بھی پیسے دیتا ہے ۔ اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر چینل پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والا:

1۔  جان د ار  کی تصویر والی ویڈیو اپ لوڈ کرے، یا  اس ویڈیو  میں  جان دار کی تصویر ہو۔

2۔ یا اس ویڈیو میں میوزک  اور موسیقی ہو۔

3۔ یا اشتہار  غیر شرعی ہو  ۔

4۔  یا  کسی بھی غیر شرعی شے کا اشتہار ہو۔

5۔ یا اس کے لیے کوئی غیر شرعی معاہدہ کرنا پڑتا ہو۔

تو اس کے ذریعے پیسے کمانا جائز نہیں ہے،عام طور پر اگر ویڈیو میں مذکورہ خرابیاں  نہ بھی ہوں تب بھی یوٹیوب کی طرف سے لگائے   جانے والے  اشتہار میں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں، اور ہماری معلومات کے مطابق یوٹیوب  پر چینل بنانے کے بعد مخصوص مدت کے اندر چینل کے سبسکرائبرز اور ویورز مخصوص تعداد تک پہنچ جائیں تو یوٹیوب انتظامیہ اس چینل پر اپنی مرضی سے اشتہار چلاتی ہے، اور چینل بنانے والا ابتدا میں ہی اس معاہدے سے اتفاق کرلیتا ہے ، لہٰذا  اس کے بعد وہ مختلف ملکوں، جگہوں اور  یوزرز کی سرچنگ بیس کے حساب سے مختلف ایڈ چلاتے ہیں، مثلاً اگر  پاکستان میں اسی ویڈیو پر وہ کوئی اشتہار چلاتے ہیں، مغربی ممالک میں اس پر وہ کسی اور قسم کا اشتہار چلاتے ہیں، اسی طرح پاکستان میں ہی ایک شخص کی ڈیوائس پر کسی حلال چیز کا یا جائز اشتہار ہے تو دوسرے شخص کی سرچ کی بنیاد پر، اسی چینل پر ناجائز چیز کا اشتہار دیتے ہیں،   ان تمام مفاسد کے پیشِ نظر یوٹیوب پر  چینل بنانا اور اس پر ویڈیو اپ لوڈ کرکے  پیسے  کمانا  شرعاً  جائز نہیں ہے۔

نیز یوٹیوب پر چینل کے ذریعے آمدن کے حصول کے لیے جو معاہدہ ہوتاہے، اس میں جاندار کی تصاویر کے علاوہ یہ شرعی خرابی بھی پائی جاتی ہے کہ اس میں اجرت مجہول ہوتی   ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص یوٹیوب انتظامیہ کو فیس دے کر اپنے چینل پر اشتہارات بند کروائے تو بھی  اجرت کی جہالت کی وجہ سے یہ معاہدہ جائز نہیں ہوگا۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"قال ابن مسعود: صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازية: إستماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام ؛لقوله عليه الصلاة و السلام: استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر؛ أي بالنعمة".

( الدرالمختار، کتاب الحظر والاباحة،ج:٦،ص: ٣٤٨ - ٣٤٩، ط: سعيد)

ترمذی شریف میں ہے:

"عن أبي أمامة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تبيعوا القينات ولا تشتروهن ولا تعلموهن، ولا خير في ‌تجارة فيهن وثمنهن حرام، وفي مثل ذلك أنزلت عليه هذه الآية {ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله} إلى آخر الآية".

(ابواب التفسير،باب ومن سورة لقمان، ج:5،ص: 198،ط:دارالغرب الاسلامي -  بيروت)

جامع العلوم والحکم میں ہے:

"فالحاصل من هذه الأحاديث كلها ان ما حرم الله الإنتفاء به فإنه يحرم بيعه وأكل ثمنه كما جاء مصرحا به في الرواية الـمـتـقـدمـة ان الله إذا حرم شيئا حرم ثمنه وهذه كلمة عامة جامعة تطرد في كل ما كان المقصود من الإنتفاع به حرام، وهو قسمان: احدهما ما كان الإنتفاع به حاصلا مع بقاء عينه كالأصنام . ...... ويلتحق بذالك ما كانت منتفعة محرمة ككتب الشرك والسحر والبدع والضلال وكذالك الصور المحرمة وآلات الملاهي كالطنبور وكذالك شهداء الجواري للغناء".

(جامع العلوم والحكم لابن رجب، ج:3،ص: 1211-1212، ط :دالسلام للطبا عة والنشروالتوزيع -  بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ".

 ( كتاب الصلاة، مطلب مكروهات الصلاة، ج:1،ص:64، ط: سعيد)

فقہ السیرة میں ہے:

 "و الحق أنه لاينبغي تكلف أي فرق بين أنواع التصوير المختلفة ... نظراً لإطلاق الحديث".

( العبرولعظات ،السادس ،تاملات فيما عند الكعبة المشرفة،ص: 281،ط:دارالفكر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101965

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن


 

 

سوالات برائے یوٹیوب

https://www.banuri.edu.pk/search-questions?_chk=1&title=%DB%8C%D9%88%D9%B9%DB%8C%D9%88%D8%A8&kitab=&bab=&fasal=


https://binoria.org/darulifta-binoria/

https://www.thefatwa.com/urdu/index.html

https://www.banuri.edu.pk/darulifta

https://darulifta-deoband.com/home/en/Education--Upbringing/422

https://www.banuri.edu.pk/search-questions?_chk=1&title=%DB%8C%D9%88%D9%B9%DB%8C%D9%88%D8%A8&kitab=&bab=&fasal=

 

 

 

 

عورت کا تصویر کے بغیر اپنی آواز میں یوٹیوب پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنا, Youtube per channel banana , youtube ki kamai, Halal or Haram , Fatwa

   

Home Page  Urdu Islamic Article  HR Email Ids  Zikar Azkaar

Namaz Quran & Tableegh   School HR ID  Ulema Ikram Bayanat

Listen Quran Majeed   Read Quran Majeed  Social Media  Ramzan

Khulasa Quran Majeed Latest jobs Karachi School Free Islamic Gift 

 

عورت کا تصویر کے بغیر اپنی آواز میں یوٹیوب پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنا


سوال

حضرت میں یوٹیوب پر اپنا چینل بنانا چاہتی ہوں پر صرف اپنی آواز استعمال کریں گی اور چینل جو ہے وہ موبائل اور جدید ٹیکنالوجی کیے حوالے سے ہے۔ تو آپ بتائیں کیا میں اپنی آواز استعمال کرسکتی ہوں ؟

جواب

عورت کی آواز اگرچہ راجح قول کے مطابق ستر نہیں، لیکن عورت کے لیے بوقتِ ضرورت نامحرم سے بات کرنے میں یہ حکم ہے کہ وہ نرم لہجے میں بات نہ کرے ، بلکہ کڑک آواز میں اپنی ضرورت کی بات کرے، تاکہ جن مردوں کے دل میں مرض ہے وہ کسی بھی قسم کی طمع نہ رکھ سکیں،  اور فتنہ کا سدباب ہوسکے، یوٹیوب پر چینل بنانا کوئی ایسی ضرورت بھی نہیں ہے کہ جس کے لیے عورت کا اپنی آواز مرد تک پہنچانا ضروری ہو، نیز اگر یوٹیوب پر چینل بنانے کا مقصد آمدنی ہو تو  اس میں شرعًا بہت سے مفاسد ہیں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ :یوٹیوب پر چینل بناکر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے کی صورت میں اگر اس چینل کے فالوورز  زیادہ ہوں تو یوٹیوب چینل ہولڈر کی اجازت سے اس میں اپنے مختلف کسٹمر کے اشتہار چلاتا ہے، اور اس کی ایڈورٹائزمنٹ اور مارکیٹنگ کرنے پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والے کو بھی پیسے دیتا ہے۔ اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر چینل پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والا:

1.   جان د ار  کی تصویر والی ویڈیو اَپ لوڈ کرے، یا  اس ویڈیو  میں  جان دار کی تصویر ہو۔

2.   یا اس ویڈیو میں میوزک  اور موسیقی ہو۔

3.   یا اشتہار  غیر شرعی ہو۔

4.   یا  کسی بھی غیر شرعی شے کا اشتہار ہو۔

5.   یا اس کے لیے کوئی غیر شرعی معاہدہ کرنا پڑتا ہو۔

تو اس کے ذریعے پیسے کمانا جائز نہیں ہے۔

عام طور پر اگر  چینل بنانے والے کی اَپ لوڈ کردہ ویڈیو میں مذکورہ خرابیاں  نہ بھی ہوں تب بھی یوٹیوب کی طرف سے لگائے جانے والے  اشتہار میں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں، اور ہماری معلومات کے مطابق  یوٹیوب  پر چینل بناتے وقت ہی معاہدہ کیا جاتاہے کہ  مخصوص مدت میں چینل کے سبسکرائبرز اور  ویورز مخصوص تعداد تک پہنچیں گے تو یوٹیوب انتظامیہ اس چینل پر مختلف لوگوں کے اشتہارات چلانے کی مجاز ہوگی، اور چینل بنانے والا اس معاہدے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتاہے، الا یہ کہ اشتہارات بند کرنے کے لیے وہ باقاعدہ فیس ادا کرے اور چینل کو کمرشل بنیاد پر استعمال نہ کرے، اور ان اشتہارات کا انتخاب کسی بھی یوزر کی سرچنگ بیس یا لوکیشن یا مختلف لوگوں کے اعتبار سے مختلف ہوسکتاہے، چینل  بناتے وقت چوں کہ اس معاہدے پر رضامندی پائی جاتی ہے، لہٰذا یوٹیوب پر چینل بنانا ہی درست نہیں ہے، اور چینل بناتے وقت یوٹیوب انتظامیہ کو جب ایڈ چلانے کی اجازت دی جائے تو اس کے بعد وہ  مختلف ڈیوائسز کی سرچنگ بیس یا لوکیشن یا ملکوں کے حساب سے مختلف ایڈ چلاتے ہیں، مثلاً اگر  پاکستان میں اسی ویڈیو پر وہ کوئی اشتہار چلاتے ہیں، مغربی ممالک میں اس پر وہ کسی اور قسم کا اشتہار چلاتے ہیں،  اور پاکستان میں ہی ایک شخص کی ڈیوائس پر الگ اشتہار چلتاہے تو دوسرے شخص کی ڈیوائس پر دوسری نوعیت کا اشتہار چل سکتاہے، جس  میں بسااوقات حرام اور  ناجائز چیزوں کی تشہیر بھی کرتے ہیں، ان تمام مفاسد کے پیشِ نظر یوٹیوب پر ویڈیو اپ لوڈ کرکے پیسے کمانے کی شرعًا اجازت نہیں ہے۔

علاوہ ازیں یوٹیوب چینل کے ذریعے اگر آمدن مقصود ہو تو اس سلسلے میں انتظامیہ سے اجارے کا جو معاہدہ کیا جاتاہے  وہ بھی شرعی تقاضے پورے نہ ہونے  (مثلًا: اجرت کی جہالت) کی وجہ سے جائز نہیں ہوتا۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ یوٹیوب چینل بنا کر اس پر ویڈیوز اَپ لوڈ  کر کے  کمائی کی صورتیں  مندرجہ ذیل ہوتی  ہیں: 

۱) ایڈورٹائزمنٹ کے ذریعہ کمائی: یوٹیوب پر جب کوئی چینل کھولتا ہے اور اس پر مواد ڈالتا ہے تو چینل کھولنے والا گوگل کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ گوگل مختلف قسم کے  ایڈز اس کے چینل  پر چلائے، گوگل ان ایڈز سے جو کماتا ہے  45  فیصد خود رکھتا ہے اور  55  فیصد یوٹیوب چینل والے کو دیتا ہے۔گوگل   اشتہارات دینے والوں  سے لوگوں کے ہر کلک کے حساب سے رقم وصول کرتا ہے۔

۲) یوٹیوب کے جو  پریمیم کسٹمرز ہیں یوٹیوب ان سے سبسکرپشن فیس لیتا ہے اور جب وہ لوگ کسی چینل کو دیکھتے ہیں تو  یوٹیوب اس چینل والے کو اس سبسکرپشن فیس میں سے کچھ دیتا ہے۔

اب ہر ایک کا حکم ترتیب وار ذکر ہے:

۱) ایڈ کے ذریعہ کمائی  کی صورت شرعًا اجارہ کا معاملہ ہے جو گوگل اور یوٹیوب چینل کے مالک کے درمیان ہوتا ہے۔ گوگل  چینل کے مالک کو اس کے چینل کے استعمال پر  (ایڈ نشر کرنے کی صورت میں)  اجرت دیتا ہے۔

یہ اجرت مندرجہ ذیل خرابیوں کی وجہ سے حلال نہیں ہے:

الف) گوگل کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی قسم كا بھی ایڈ چلائے، ان میںجائز ،ناجائز ہرقسم کی چیزوں کی تشہیر کی جاتی ہے ،نیز  اکثر ایڈ  ذی روح کی تصاویر پر مبنی ہوتی ہیں اور سائل کو انہیں ایڈز کی اجرت ملتی ہے، لہذا یہ اجرت کا معاہدہ  تعاون على الاثم  ہونے کی وجہ سے ناجائز  ہوگا اور کمائی بھی حلال  نہیں ہوگی۔

ب)  اجرت مجہول ہوتی ہے؛ کیوں کہ گوگل ایک متعین اجرت نہیں طے کرتا،  بلکہ اپنی کمائی کا  55 فیصد اجرت طے کرتا ہے اور گوگل کی کل اجرت مجہول ہوتی ہے تو  اس کا  55فیصد بھی مجہول ہوتا ہے۔ چینل کے استعمال کی اجرت کا تعلق وقت کے ساتھ ہونا چاہیے یعنی جتنی دیر اس پر ایڈ چلے اس حساب سے اجرت ملے؛ لہذا اگر چینل پر چلنے والے ایڈز اگر سب کے سب  شرعی دائرہ کے اندر بھی ہوں تب بھی یہ معاملہ شرعًا اجارہ فاسد ہوگا اور اجرت حلال نہیں ہوگی۔

۲) یوٹیوب پریمیم میمبر  سے بعض سہولیات (جو ویڈیوز دیکھنے اور ڈاون لوڈ کرنے سے متعلق ہوتی ہیں)کے بدلہ سبسکرپشن فیس  (اجرت)  لیتا ہے  اور  جب یہ  پریمیم  میمبر  کسی چینل کو دیکھتا ہے تو یوٹیوب اس پر چینل والے کو رقم دیتا ہے۔یہ رقم جو یوٹیوب یوٹیوب چینل والے کو دیتا ہےچینل استعمال کرنے کی اجرت ہے ۔یہ اجرت بھی مندرجہ ذیل وجوہ سے شرعًا جائز نہیں ہے:

الف)  چینل پر موجود ویڈیوز اگر  جاندار  کی تصاویر پر مشتمل ہیں تو یہ  "اجرت علی المعاصی"  ہونے کی وجہ سے حرام ہوگی۔ 

ب)اگر ویڈیو شرعی دائرہ کے مطابق ہو تب بھی اجرت مجہول ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہوگی؛ کیوں کہ چینل کے استعمال کی اجرت وقت کے ساتھ متعین ہونی چاہیے کہ اتنے وقت کی اتنی اجرت ہے یا پھر مکمل مہینہ یا سال کی اتنی اجرت ہے جب کہ مذکورہ صورت میں ہماری معلومات کے مطابق اس طرح چینل والے کی اجرت متعین نہیں ہوتی۔

الفتاوى الهندية میں ہے:

"و منها أن يكون مقدور الاستيفاء - حقيقة أو شرعًا فلايجوز استئجار الآبق و لا الاستئجار على المعاصي؛ لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا.... ومنها أن تكون المنفعة مقصودة معتادًا استيفاؤها بعقد الإجارة و لايجري بها التعامل بين الناس فلايجوز استئجار الأشجار لتجفيف الثياب عليها. .... ومنها أن تكون الأجرة معلومةً."

(کتاب الاجارۃ ج نمرب ۴ ص نمبر ۴۱۱،دار الفکر)

أحكام القرآن للجصاص  میں ہے:

"وقوله تعالى: وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى:ولا تعاونوا على الإثم والعدواننهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(سورہ مائدہ ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۹۶،دار احیاء التراث)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال ابن مسعود: صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازية: إستماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام ؛لقوله عليه الصلاة و السلام: استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر؛ أي بالنعمة".

( ٦/ ٣٤٨ - ٣٤٩، ط: سعيد)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202302

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

 

https://www.onlinefatawa.com/

https://binoria.org/darulifta-binoria/

https://www.thefatwa.com/urdu/index.html

https://www.banuri.edu.pk/darulifta

https://darulifta-deoband.com/home/en/Education--Upbringing/422

https://www.banuri.edu.pk/search-questions?_chk=1&title=%DB%8C%D9%88%D9%B9%DB%8C%D9%88%D8%A8&kitab=&bab=&fasal=