Tuesday, September 22, 2020

Urdu Article: Hazrat Umar Farooq (RA) , حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ, Haya, Waldain ki Narazgi, Kamyab Shadi ka nusqa,

 

Home Page  Urdu Islamic Article  HR Email Ids  Zikar Azkaar

Namaz Quran & Tableegh   School HR ID  Ulema Ikram Bayanat

Listen Quran Majeed   Read Quran Majeed  Social Media  Ramzan

Khulasa Quran Majeed


 

 

 

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ

✅ ﺳﻦ ﮨﺠﺮﯼ ﮐﺎ ﺍﺟﺮﺍ ﮐﯿﺎ۔

✅ ﺟﯿﻞ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔

✅ ﻣﻮٔﺫﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮨﯿﮟ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮟ۔

✅ مسجدوں میں روشنی کا بندوبست کرایا۔

✅ پولیس ﮐﺎ محکمہ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔

✅ ﺍﯾﮏ ﻣﮑﻤﻞ ﻋﺪﺍﻟﺘﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ۔

✅ ﺍٓﺏ ﭘﺎﺷﯽ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮﺍﯾﺎ۔

✅ ﻓﻮﺟﯽ ﭼﮭﺎﻭٔﻧﯿﺎﮞ ﺑﻨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺝ ﮐﺎ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ۔

✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯿﺘﮯ ﺑﭽﻮﮞ، ﻣﻌﺬﻭﺭﻭﮞ، ﺑﯿﻮﺍﻭٔﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍﻭٔﮞ ﮐﮯ ﻭﻇﺎﺋﻒ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮯ۔

✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ، ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﯾﺪﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﮯ ﮈﮐﻠﯿﺌﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔

✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺍﻧﺼﺎﻓﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺠﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ

✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﻼﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ۔

✅ ﺍٓﭖ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﻗﺎﻓﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﻋﺪﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺗﮭﺎ کہ :

’’ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﭽﺎ ﺧﺎﺩﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔‘‘

ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻣﮩﺮ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ

’’ﻋﻤﺮ ! ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺕ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ‘‘

◾ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻭ ﺳﺎﻟﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺌﮯ۔

◾ ﺍٓﭖ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺳﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﯾﻨﭧ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

◾ ﺍٓﭖ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﮩﺎﮞ ﻧﯿﻨﺪ ﺍٓﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﺩﺭﺧﺖ ﭘﺮ ﭼﺎﺩﺭ ﺗﺎﻥ ﮐﺮ ﺳﺎﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﻨﮕﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺩﺭﺍﺯ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

◾ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﭘﺮ 14ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﯿﻮﻧﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺥ ﭼﻤﮍﮮ ﮐﺎ ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺍٓﭖ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﮭﺮﺩﺭﺍ ﮐﭙﮍﺍ ﭘﮩﻨﺘﮯ

ﺗﮭﮯ۔ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺗﮭﯽ۔

◾ ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺨﻤﯿﻨﮧ ﻟﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

◾ ﺍٓﭖ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺮﮐﯽ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ، ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﻨﺎ، ﭼﮭﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﭨﺎ ﻧﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ، ﺩﺭﺑﺎﻥ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔

◾ ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ ﻣﻈﻠﻮﻣﻮﮞ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ.

◾ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﻘﺮﮦ ﺍٓﺝ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺣﻘﻮﻕ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﭨﺮ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ “ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺍٓﺯﺍﺩ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺐ ﺳﮯ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ۔”

◾ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ “ﻋﻤﺮ ﺑﺪﻝ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﯿﺎ۔‘‘

◾ ﺍٓﭖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺗﮭﮯ، ﺟﻨﮩﯿﮟ ’’ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ‘‘ ﮐﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ …!

ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﮨﮯ ، *ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﻋﺪﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ

ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻋﺪﻝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﺪﻝِ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ …!

ﺍٓﭖ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﺗﮭﮯ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﻣﮑﺎﻥ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻭﺍﺣﺪ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻓﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﮯ ﻣﺮﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻋﻤﺮ (ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ) ﮐﻮ ﺑﮭﮕﺘﻨﺎ ﮨﻮﮔﯽ …!

ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺗﮭﯽ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ :

’’ ﻟﻮﮔﻮ ! ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔‘‘

ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ :

’’ ﺗﻢ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﮐﯽ ﺍﻃﻼﻉ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺩﯼ۔‘‘

ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﻮﻻ :

’’ﺟﺐ ﺗﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺗﮭﮯ، ﻣﯿﺮﯼ

ﺑﮭﯿﮍﯾﮟ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﻧﺪﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﻧﮑﮫ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮞﺪﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯿﮍﯾﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺍٓﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔‘‘

ﻣﯿﮟ نہایت ہی ناقص العقل و کم فہم فرحان بن عبدالرحمان ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﻭﮦ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﭘﮩﺎﮌ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﻨﮑﺮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﮔﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ 5ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﺌﯽ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ۔ﺟﺲ ﺟﺲ ﺧﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﮭﻨﮉﺍ ﺑﮭﺠﻮﺍﯾﺎ، ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﮐﯽ ﺻﺪﺍﺋﯿﮟ ﺍٓﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﻭﮨﺎﮞ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ …!

ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺻﺮﻑ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﭧ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﻧﻈﺎﻡ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ 245 ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ …!

ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮈﺍﮎ ﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻂ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ، ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻭﺭﺩﯼ ﭘﮩﻨﺘﺎ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﻓﻮﺟﯽ ﺟﻮﺍﻥ 6 ﻣﺎﮦ ﺑﻌﺪ ﭼﮭﭩﯽ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ، ﻣﻌﺬﻭﺭ، ﺑﯿﻮﮦ ﯾﺎ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ، ﻭﮦ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ، ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ

ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ، ﻣﺎﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﻤﺘﺮﯼ ﮐﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻠﻤﮧ ﺗﮏ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ …!

کچھ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﻮ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ کہ :

’’ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﮮ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﯾﺎﺩ ﺍٓﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔‘‘

ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻮﺍﮨﺮ ﻻﻝ ﻧﮩﺮﻭ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ کہ :

 ’’ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺍٓﺝ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻝ۔ﮔﺌﮯ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ (ﺣﻀﺮﺕ) ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ (ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ) ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔‘‘

ﺟﻦ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺘﺸﺮﻗﯿﻦ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ :

“ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﮏ ﻋﻤﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺁﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﯽ ﺩﯾﻦ ﮨﻮتا”

 

 

 

 

حیا کوئی کپڑے کا ٹکڑا نہیں ہے۔حیا!ایک رویہ ہے،ایک تعارف ہے،ایک نظام زندگی ہے،حیا! قوموں کی طاقت ہے ، حیا! معاشروں کی برکت ہے، حیا! حکمرانوں میں ہو تو۔خزانوں کے منہ بھر ے رہتے ہیں،اور دشمن بھی ان سے ڈرے رہتے ہیں، اور وہ عوام کی خدمت کے لیے کھڑے رہتے ہیں ۔ حیا! عوام میں ہو تو۔حکمراں کی رہنمائی کے لیۓ بیدار رہتے ہیں،اسکی پشتے بانی کےلیۓ تیار رہتے ہیں،کوئ حکم آجائےتو تابعدار رہتےہیں،مسابقت کی دوڑ میں رہوار رہتے ہیں!

حیا! والدین میں ہو۔!تو اولاد کی تربیت ہوتی ہے،حفاظت ہوتی ہے،،کفالت میں بھی عبادت ہوتی ہے،امانت میں دیانت ہوتی ہے!حیا! اولاد میں ہو تو۔والدین کی تکریم ہوتی ،ان کے مقام کی تفہیم ہوتی ہے،ان کے معمولات کی تعظیم ہوتی ہے، انکی اطاعت سے خاندان کی تنظیم ہوتی ہے ۔

 
حیا! اساتذہ میں ہو تو۔!نسلوں میں صحت مند اقدار پروان چڑھتی ہیں،نسلیں ارتقا کی منزلوں پر پاؤں رکھتی ہیں،،،حیا! دوستوں میں ہو تو۔! بھروسے کی تلوار پر مان اور شان کی سان چڑھتی ہے! زندگی کی خستہ جھریوں میں جان پڑتی ہے!

حیا! عورتوں میں ہوتو۔!گھروں میں سکون اور پیار ہوتا ہے،اور بدنظر کو راہ لیتے عار ہوتاہے، حیا! مردوں میں ہو تو۔!پھرفصیلوں میں نقب دشوار ہوتا ہے! کہ گھر کامالک خود ہی چوکیدار ہوتاہے!حیا! اللہ کی صفت ہے!

 
حیا! رسول اللہ کی سنت ہے!حیا! مسلمان کا شعار ہے ! آج حیا کی حفاظت سب سے زیادہ دشوار ہے! مگر ہمیں اپنے شعار سے بے حد پیار ہے !سن لو!! کہ آج کامسلم اپنےشعارکا علمبردار ہےاور اسکے تحفظ کے لیۓ تیار ہے

 

 


ایک بوڑھی خاتون کا انٹرویو جنہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ پچاس سال کا عرصہ پرسکون طریقے سے ہنسی خوشی گزارا۔
 
خاتون سے پوچھا گیا کہ اس پچاس سالہ پرسکون زندگی کا راز کیا ہے؟
کیا وہ کھانا بنانے میں بہت ماہر تھیں؟
یا پھر ان کی خوبصورتی اس کا سبب ہے؟
یا ڈھیر سارے بچوں کا ہونا اس کی وجہ ہے یا پھر کوئی اور بات ہے؟

بوڑھی خاتون نے جواب دیا:
پرسکون شادی شدہ زندگی کا دار ومدار اللہ کی توفیق کے بعد عورت کے  ہاتھ میں ہوتا ہے، عورت چاہے تو اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے اور چاہے تو اس کے برعکس یعنی جہنم بھی بنا سکتی ہے،
اس سلسلے میں مال ودولت کا نام مت لیجیے، بہت ساری مالدار عورتیں جنکی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے، شوہر ان سے بھاگا بھاگا رہتا ہے۔

خوشحال شادی شدہ زندگی کا سبب اولاد بھی نہیں ہے، بہت ساری عورتیں ہیں جن کے چھ چھ سات سات بچے ہیں پھر بھی وہ شوہر کی محبت سے محروم ہیں بلکہ طلاق تک کی نوبت آجاتی ہے
بہت ساری خواتین اعلیٰ سے اعلیٰ ترین کھانا پکانے میں ماہر ہوتی ہیں دن دن بھر نئے سے نیا کھانا بناتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں ہر روز شوہر کی بدسلوکی کی شکایت رہتی ہے۔

انٹرویو لینے والی خاتون صحافی کو بہت حیرت ہوئی اس نے پوچھا:
پھر آخر آپ کی اس خوشحال زندگی کا راز کیا ہے؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا:
جب میرا شوہر انتہائی غصے میں ہوتا ہے تو میں خاموشی کا سہارا لے لیتی ہوں لیکن اس خاموشی میں بھی احترام شامل ہوتا ہے، میں افسوس کے ساتھ سر جھکا لیتی ہوں،
ایسے موقع پر بعض خواتین خاموش تو ہوجاتی ہیں لیکن اس میں تمسخر کا عنصر شامل ہوتا ہے اس سے بچنا چاہیے، سمجھدار آدمی اسے فوراً بھانپ لیتا ہے۔

نامہ نگار خاتون نے پوچھا:
ایسے موقعے پر آپ کمرے سے نکل کیوں نہیں جاتیں؟

بوڑھی خاتون نے جواب دیا:
نہیں ایسا کرنے سے شوہر کو یہ لگے گا کہ آپ اس سے جان چھڑا رہی ہیں، اس کی کوئی بات سننا ہی نہیں چاہتی ہیں،
ایسے موقعے پر خاموش رہنا چاہیے اور جب تک وہ پرسکون نہ ہوجائے اس کی کسی بات کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔

جب شوہر کسی حد تک پرسکون ہوجاتا ہے تو میں کہتی ہوں:
پوری ہوگئی آپ کی بات؟

پھر میں کمرے سے چلی جاتی ہوں، کیونکہ میرا شوہر بول بول کر تھک چکا ہوتا ہے اور چیخنے چلانے کے بعد اب اسے تھوڑے آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔

میں کمرے سے نکل جاتی ہوں اور اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہوں بس۔

خاتون صحافی نے پوچھا:
اس کے بعد آپ کیا کرتی ہیں، کیا آپ بول چال بند کرنے کا اسلوب اپناتی ہیں؟ ایک آدھ ہفتہ بات چیت ہی نہیں کرتیں؟

بوڑھی خاتون نے جواب دیا:
نہیں تو، اس بری عادت سے ہمیشہ بچنا چاہیے یہ دو دھاری ہتھیار ہے، جب آپ ایک ہفتے تک شوہر سے بات چیت نہیں کریں گی ایسے وقت میں جب کہ اسے آپ کے ساتھ مصالحت کی ضرورت ہے تو وہ اس کیفیت کا عادی ہو جائے گا اور پھر یہ چیز بڑھتے بڑھتے خطرناک قسم کی نفرت کی شکل اختیار کر لے گی۔

صحافی نے پوچھا، پھر آپ کیا کرتی ہیں؟
بوڑھی خاتون بولیں:
میں دو تین گھنٹے بعد شوہر کے پاس ایک گلاس جوس یا ایک کپ کافی لیکر جاتی ہوں اور محبت بھرے انداز میں کہتی ہوں:  پی لیجیے۔
حقیقت میں شوہر کو اسی کی ضرورت ہوتی ہے،

پھر میں اس سے نارمل انداز میں بات کرنے لگتی ہوں،
وہ پوچھتا ہے کیا میں اس سے ناراض ہوں؟
میں کہتی ہوں: نہیں تو،
اس کے بعد وہ اپنی سخت کلامی پر معذرت ظاہر کرتا ہے اور خوبصورت قسم کی باتیں کرنے لگتا ہے۔

انٹرویو لینے والی خاتون نے پوچھا: اور آپ اس کی یہ باتیں مان لیتی ہیں؟
بوڑھی خاتون بولیں:
بالکل میں کوئی اناڑی تھوڑی ہوں مجھے اپنے آپ پر پورا بھروسہ ہے۔
کیا آپ چاہتی ہیں کہ میرا شوہر جب غصے میں ہو تو میں اس کی ہر بات کا یقین کرلوں اور جب وہ پرسکون ہو تو اس کی کوئی بات نہ مانوں؟
خاتون صحافی نے پوچھا: اور آپکی عزت نفس (self respect)؟

بوڑھی خاتون بولیں: پہلی بات تو یہ کہ میری عزت نفس اسی وقت ہے جب میرا شوہر مجھ سے راضی ہو اور ہماری شادی شدہ زندگی پرسکون ہو،
دوسری بات یہ کہ شوہر بیوی کے درمیان عزت نفس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی،
جب بیوی اور شوہر ایک دوسرے کے لباس ہیں تو پھر کیسی عزت نفس؟

👌 شیئر اینڈ سپورٹ دى فیملی لائف ـ

 

 

 

والدین کی ناراضگی ختم کرنے کے گُر

ایک عالم دین سے ایک نوجوان شخص نے شکایت کی کہ میرے والدین اڈھیر عمر ھیں اور اکثر و بیشتر وہ مجھ سے خفا رہتے ھیں حالانکہ میں انکو ہر وہ چیز مہیا کرتا ھوں جسکا وہ مطالبہ کرتے ھیں ۔۔

عالم دین نے نوجوان شخص کو سر سے پیروں تک دیکھا اور فرمانے لگے کہ بیٹا یہی تو انکی ناراضگی کا سبب ھے کہ جو وہ مانگتے ھیں تم انکو لا کر دیتے ھو ۔۔

نوجوان کہنے لگا کہ میں آپکی بات نہی سمجھ پایا تھوڑی سی وضاحت کر دیں ۔۔

عالم دین فرمانے لگے: بیٹا کیا کبھی تم نے غور کیا ھے کہ
جب تم دنیا میں نہیں آے تھے تو تمہارے آنے سے پہلے ھی تمھارے والدین نے تمھارے لئے ہر چیز تیار کر رکھی تھی ۔
تمھارے لئے کپڑے ۔
تمھاری خوراک کا انتظام
تمھاری حفاظت کا انتظام
تمہیں سردی نہ لگے اگر گرمی ھے تو گرمی نہ لگے ۔
تمہھارے آرام کا بندوبست
تمھاری قضاے حاجت تک کا انتظام تمھارے والدین نے تمھاری دنیا میں آنے سے پہلے ھی کر رکھا تھا ۔۔
پھر آگے چلو ۔۔۔
کیا تمھارے والدین نے کبھی تم سے پوچھا تھا کہ بیٹا تم کو سکول میں داخل کروائیں یا نہ ۔
اسی طرح کالج یا یونیورسٹی میں داخلے کیلئے تم سے کبھی پوچھا ھو، بلکہ تمھارے بہتر مستقبل کیلئے تم سے پہلے ھی سکول اور کالج میں داخلے کا بندوبست کر دیا ھو گا ۔۔
اسی طرح تمھاری پہلی نوکری کیلئے تمھارے سکول کی ٹرانسپورٹ کیلئے تمھارے یونیفارم کیلئے تمھارے والد صاحب نے کبھی تم سے نہیں پوچھا ھو گا بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق بہتر سے بہتر چیز تمھارے مانگنے سے پہلے ھی تمہیں لاکر دی ھو گی ۔۔
تمہہں تو شاید اسکا بھی احساس نہ ھو کہ جب تم نے جوانی میں قدم رکھا تھا تو تمھارے والدین نے تمھارے لئے ایک۔اچھی لڑکی بھی دھونڈنی شروع کر دی ھو گی جو اچھی طرح تمھاری خدمت کر سکے اور تمھارا خیال رکھ سکے ۔۔۔
لڑکی تلاش کرتے ھوے بھی انکی اولین ترجیح تمھاری خدمت ھی ھوگی بلکہ انکے تو ذھین میں کبھی یہ۔خیال بھی نہی آیا ھو گا کہ ھم ایسی دلہن بیٹے کیلئے لائیں جو ھماری خدمت بھی کرے اور ھمارے بیٹے کی بھی ۔۔۔

تمھارے لئے کپڑے ۔تمھاری پہلی سائکل۔تمھارا پہلا موٹر سائکل ۔تمھارا پہلا سکول ۔تمھارے کھلونے ۔تمھاری بول چال ۔تمھاری تربیت ۔تمھارا رھن سہن چال چلن رنگ دھنگ گفتگو کا انداز ۔۔۔۔۔یہاں تک کے تمھارے منہ سے نکلنے والا پہلا لفظ تک تمکو تمھارے ماں باپ نے مفت میں سیکھایا ھے اور تمھارے مطالبے کے بغیر سیکھایا ھے ۔۔۔

اور آج تم کہتے ھو کہ۔جو کچھ وہ مجھ سے مانگتے ھیں میں انکو لا کر دیتا ھوں اسکے باوجود وہ۔خفا رھتے ھیں ۔۔۔

جاو والدین کو بن مانگے دینا شروع کرو ۔
انکی ضروریات کا خیال اپنے بچوں کی ضروریات کیطرح کرنا شروع کرو ۔۔

اگر انکی۔مالی مدد نہی کر سکتے تو انکو اپنا قیمتی وقت دو ۔انکی خدمت کرو ۔گھر کی۔زمہ داریاں خود لو ۔۔جیسے اپنے بچوں کے باپ بنے ھو ویسے ھی اپنے والدین کی نیک اولاد بنو ۔۔اور انکو بن مانگے دینا شروع کرو ۔۔

اپنے آپ کو اس قابل بنا لو کہ انکو تم سے مانگنے کی یا مطالبے کی ضرورت ھی نہ پڑے ۔۔یا انکو کبھی تمھاری کمی محسوس ھی نہ ھو کم سے کم۔اتنا وقت تو انکو عطا کردو ۔۔۔۔انکو مسائل پوچھو ۔۔
اگر انکی مالی مدد نہیں کر سکتے تو انکی خدمت کرو

کیا کبھی ماں یا باپ کے پاوں کی پھٹی ھوئی ایڑیاں دیکھیں ھیں تم نے ؟؟
کیا کبھی ان پھٹی ھوئی ایڑیوں میں کوئی کریم یا تیل لگایا ھے جیسے وہ تمکو چھوٹے ھوتے وقت لگاتے تھے ؟؟

کیا کبھی ماں یا باپ کے سر میں تیل لگایا ھو کیونکہ جب تم بچے تھے تو وہ باقاعدہ تمھارے سر میں تیل لگا کر کنگھی بھی کرتے تھے ۔۔تمھای ماں تمھارے بال سنوارتی تھی کبھی ماں کے بال سنوار کر تو دیکھو ۔۔۔

کیا کبھی باپ کے پاوں دبائیں ھیں حالانکہ تمھارے باپ نے تمہیں بہت دفعہ دبایا ھو گا ۔۔۔

کیا کبھی ماں یا۔باپ کیلئے ہاتھ میں پانی یا تولیہ لے کر کھڑے ھوے ھو ۔جیسے وہ تمھارا منہ بچپن میں نیم گرم پانی سے دھویا کرتے تھے ۔۔۔۔

کچھ کرو تو سہی
انکو بغیر مانگے لا کر دو
انکی زمہ داریاں اٹھا کر دیکھو ۔
انکو وقت دے کر دیکھو
انکی خدمت کر کے دیکھو ۔
انکو اپنے ساتھ رکھو ھمیشہ
انکو اپنے آپ پر بوجھ مت سمجھو نعمت سمجھ کر دیکھو
جسطرح انہوں نے تم کو بوجھ نہیں سمجھا بغیر کسی معاوضہ کے تمھاری دن رات پرورش کر کے معاشرے کا ایک کامیاب انسان بنایا ھے ۔کم سے کم انکی وھی خدمات کا صلہ سمجھتے ھوے ان سے حسن سلوک کا رویہ اختیار کرو ۔۔
پھر دیکھنا وہ بھی خوش اور اللہ بھی خوش ۔۔

عالم دین کی یہ باتیں سن کر نوجوان اشک بار ھوگیا اور باقی کے حاضرین کی آنکھیں بھی۔نم ھو گئیں ۔۔
۔۔واقعی۔یہ حقیقت ھے کہ ایسے نصیحت آموز باتیں دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں نہی مل۔سکتی صرف اور صرف دینی علماء ھی ایسی تربیت کر سکتے ھیں ۔۔۔

اللہ۔ایسے علماء کا سایہ ھمیشہ۔قائم رکھے ۔۔
اور ھر انسان کو یہ۔توفیق اور خوش نصیبی عطا کرے کہ۔وہ۔اپنے والدین کی۔ڈیمانڈ سے پہلے ھی انکی۔ضروریات کو جانتے ھوے پایہ تکمیل تک پہنچا دے ۔۔

آمین یا رب العالمین ۔۔۔۔۔

 

 

 

Urdu Article: Waldain ki narazgi, Molana Room مولانا روم رح, Fikre Akhirat, Bacho ki tarbiyat, Allah ki mohabbat, Tum Ganay Song sunti ho, Naikiya Zaya kaisay hoti hay,

 

Home Page  Urdu Islamic Article  HR Email Ids  Zikar Azkaar

Namaz Quran & Tableegh   School HR ID  Ulema Ikram Bayanat

Listen Quran Majeed   Read Quran Majeed  Social Media  Ramzan

Khulasa Quran Majeed


 

 

 والدین کی ناراضگی ختم کرنے کے گُر

ایک عالم دین سے ایک نوجوان شخص نے شکایت کی کہ میرے والدین اڈھیر عمر ھیں اور اکثر و بیشتر وہ مجھ سے خفا رہتے ھیں حالانکہ میں انکو ہر وہ چیز مہیا کرتا ھوں جسکا وہ مطالبہ کرتے ھیں ۔۔

عالم دین نے نوجوان شخص کو سر سے پیروں تک دیکھا اور فرمانے لگے کہ بیٹا یہی تو انکی ناراضگی کا سبب ھے کہ جو وہ مانگتے ھیں تم انکو لا کر دیتے ھو ۔۔

نوجوان کہنے لگا کہ میں آپکی بات نہی سمجھ پایا تھوڑی سی وضاحت کر دیں ۔۔

عالم دین فرمانے لگے: بیٹا کیا کبھی تم نے غور کیا ھے کہ
جب تم دنیا میں نہیں آے تھے تو تمہارے آنے سے پہلے ھی تمھارے والدین نے تمھارے لئے ہر چیز تیار کر رکھی تھی ۔
تمھارے لئے کپڑے ۔
تمھاری خوراک کا انتظام
تمھاری حفاظت کا انتظام
تمہیں سردی نہ لگے اگر گرمی ھے تو گرمی نہ لگے ۔
تمہھارے آرام کا بندوبست
تمھاری قضاے حاجت تک کا انتظام تمھارے والدین نے تمھاری دنیا میں آنے سے پہلے ھی کر رکھا تھا ۔۔
پھر آگے چلو ۔۔۔
کیا تمھارے والدین نے کبھی تم سے پوچھا تھا کہ بیٹا تم کو سکول میں داخل کروائیں یا نہ ۔
اسی طرح کالج یا یونیورسٹی میں داخلے کیلئے تم سے کبھی پوچھا ھو، بلکہ تمھارے بہتر مستقبل کیلئے تم سے پہلے ھی سکول اور کالج میں داخلے کا بندوبست کر دیا ھو گا ۔۔
اسی طرح تمھاری پہلی نوکری کیلئے تمھارے سکول کی ٹرانسپورٹ کیلئے تمھارے یونیفارم کیلئے تمھارے والد صاحب نے کبھی تم سے نہیں پوچھا ھو گا بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق بہتر سے بہتر چیز تمھارے مانگنے سے پہلے ھی تمہیں لاکر دی ھو گی ۔۔
تمہہں تو شاید اسکا بھی احساس نہ ھو کہ جب تم نے جوانی میں قدم رکھا تھا تو تمھارے والدین نے تمھارے لئے ایک۔اچھی لڑکی بھی دھونڈنی شروع کر دی ھو گی جو اچھی طرح تمھاری خدمت کر سکے اور تمھارا خیال رکھ سکے ۔۔۔
لڑکی تلاش کرتے ھوے بھی انکی اولین ترجیح تمھاری خدمت ھی ھوگی بلکہ انکے تو ذھین میں کبھی یہ۔خیال بھی نہی آیا ھو گا کہ ھم ایسی دلہن بیٹے کیلئے لائیں جو ھماری خدمت بھی کرے اور ھمارے بیٹے کی بھی ۔۔۔

تمھارے لئے کپڑے ۔تمھاری پہلی سائکل۔تمھارا پہلا موٹر سائکل ۔تمھارا پہلا سکول ۔تمھارے کھلونے ۔تمھاری بول چال ۔تمھاری تربیت ۔تمھارا رھن سہن چال چلن رنگ دھنگ گفتگو کا انداز ۔۔۔۔۔یہاں تک کے تمھارے منہ سے نکلنے والا پہلا لفظ تک تمکو تمھارے ماں باپ نے مفت میں سیکھایا ھے اور تمھارے مطالبے کے بغیر سیکھایا ھے ۔۔۔

اور آج تم کہتے ھو کہ۔جو کچھ وہ مجھ سے مانگتے ھیں میں انکو لا کر دیتا ھوں اسکے باوجود وہ۔خفا رھتے ھیں ۔۔۔

جاو والدین کو بن مانگے دینا شروع کرو ۔
انکی ضروریات کا خیال اپنے بچوں کی ضروریات کیطرح کرنا شروع کرو ۔۔

اگر انکی۔مالی مدد نہی کر سکتے تو انکو اپنا قیمتی وقت دو ۔انکی خدمت کرو ۔گھر کی۔زمہ داریاں خود لو ۔۔جیسے اپنے بچوں کے باپ بنے ھو ویسے ھی اپنے والدین کی نیک اولاد بنو ۔۔اور انکو بن مانگے دینا شروع کرو ۔۔

اپنے آپ کو اس قابل بنا لو کہ انکو تم سے مانگنے کی یا مطالبے کی ضرورت ھی نہ پڑے ۔۔یا انکو کبھی تمھاری کمی محسوس ھی نہ ھو کم سے کم۔اتنا وقت تو انکو عطا کردو ۔۔۔۔انکو مسائل پوچھو ۔۔
اگر انکی مالی مدد نہیں کر سکتے تو انکی خدمت کرو

کیا کبھی ماں یا باپ کے پاوں کی پھٹی ھوئی ایڑیاں دیکھیں ھیں تم نے ؟؟
کیا کبھی ان پھٹی ھوئی ایڑیوں میں کوئی کریم یا تیل لگایا ھے جیسے وہ تمکو چھوٹے ھوتے وقت لگاتے تھے ؟؟

کیا کبھی ماں یا باپ کے سر میں تیل لگایا ھو کیونکہ جب تم بچے تھے تو وہ باقاعدہ تمھارے سر میں تیل لگا کر کنگھی بھی کرتے تھے ۔۔تمھای ماں تمھارے بال سنوارتی تھی کبھی ماں کے بال سنوار کر تو دیکھو ۔۔۔

کیا کبھی باپ کے پاوں دبائیں ھیں حالانکہ تمھارے باپ نے تمہیں بہت دفعہ دبایا ھو گا ۔۔۔

کیا کبھی ماں یا۔باپ کیلئے ہاتھ میں پانی یا تولیہ لے کر کھڑے ھوے ھو ۔جیسے وہ تمھارا منہ بچپن میں نیم گرم پانی سے دھویا کرتے تھے ۔۔۔۔

کچھ کرو تو سہی
انکو بغیر مانگے لا کر دو
انکی زمہ داریاں اٹھا کر دیکھو ۔
انکو وقت دے کر دیکھو
انکی خدمت کر کے دیکھو ۔
انکو اپنے ساتھ رکھو ھمیشہ
انکو اپنے آپ پر بوجھ مت سمجھو نعمت سمجھ کر دیکھو
جسطرح انہوں نے تم کو بوجھ نہیں سمجھا بغیر کسی معاوضہ کے تمھاری دن رات پرورش کر کے معاشرے کا ایک کامیاب انسان بنایا ھے ۔کم سے کم انکی وھی خدمات کا صلہ سمجھتے ھوے ان سے حسن سلوک کا رویہ اختیار کرو ۔۔
پھر دیکھنا وہ بھی خوش اور اللہ بھی خوش ۔۔

عالم دین کی یہ باتیں سن کر نوجوان اشک بار ھوگیا اور باقی کے حاضرین کی آنکھیں بھی۔نم ھو گئیں ۔۔
۔۔واقعی۔یہ حقیقت ھے کہ ایسے نصیحت آموز باتیں دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں نہی مل۔سکتی صرف اور صرف دینی علماء ھی ایسی تربیت کر سکتے ھیں ۔۔۔

اللہ۔ایسے علماء کا سایہ ھمیشہ۔قائم رکھے ۔۔
اور ھر انسان کو یہ۔توفیق اور خوش نصیبی عطا کرے کہ۔وہ۔اپنے والدین کی۔ڈیمانڈ سے پہلے ھی انکی۔ضروریات کو جانتے ھوے پایہ تکمیل تک پہنچا دے ۔۔

آمین یا رب العالمین ۔۔۔۔

 

 

مولانا روم رح فرماتے ہیں۔۔۔
❤❤❤💝💝💝
ایک شخص مسجد میں نماز ادا کرنے کیلئے اندھیری رات میں گھر سے نکلا ,
اندھیرے کی وجہ سے ٹھوکر لگی اور وه منہ کے بل کیچڑ میں گر گیا ..
کیچڑ سے اٹھ کر وه گھر واپس گیا اور لباس تبدیل کر کے دوبارہ مسجد کی طرف چل دیا .
ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ دوبارہ ٹھوکر لگی اور وه دوبارہ کیچڑ میں گر گیا ..
کیچڑ سے اٹھ کر وه ایک بار پھر گھر واپس گیا اور لباس تبدیل کر کے مسجد جانے کیلئے دوبارہ گھر سے نکل آیا .
اپنے گھر کے دروازے پر اسے ایک شخص ملا جو اپنے ہاتھ میں ایک روشن چراغ تھامے ہوئے تھا,
چراغ والا شخص چپ چاپ نمازی کے آگے آگے مسجد کی طرف چل دیا ..
اس بار چراغ کی روشنی میں نمازی کو مسجد تک پہنچنے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا اور وه بخیریت مسجد تک پہنچ گیا .
مسجد کے دروازے پر پہنچ کر چراغ والا شخص رک گیا ..
نمازی اسے وہیں چھوڑ کر مسجد میں داخل ہو گیا اور نماز ادا کرنے لگا .
نماز سے فارغ ہو کر وه مسجد سے باهر آیا تو اس نے دیکھا چراغ والا شخص اس کا منتظر ہے تاکہ اسے دوبارہ چراغ کی روشنی میں گھر تک چھوڑ آئے ...
جب نماذی گھر پہنچ گیا ..
تونمازی نے اس اجنبی سے پوچھا,
آپ کون ہیں ؟
اجنبی بولا ...
سچ بتاؤں تو میں ابلیس ہوں .
نمازی کی حیرت کی انتہا نہ رہی ..
اس نے پوچھا ..
تجھے تو میری نماز ره جانے پر خوش ہونا چاہئے تھا ...
پھر تو چراغ کی روشنی میں مجھے مسجد تک کیوں لایا ؟
ابلیس نے جواب دیا ..
جب تجھے پہلی ٹھوکر لگی تو الله نے تیرے عمر بھر کے گناه معاف فرما دئے ._
جب دوسری ٹھوکر لگی تو تیرے سارے خاندان کو بخش دیا ._
مجھے فکر ہوئی کہ اب اگر تو ٹھوکر کھا کر گرا تو کہیں الله تیرے سارے گاؤں کی مغفرت نه فرما دے ,,
اس لئے چراغ لے کر آیا ہوں کہ تو بغیر گرے مسجد تک پہنچ جائے ....

(حکایت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ)

 

 

فانی دنیا اور فکر آخرت پر ایک بہترین تحریر

یہ تحریر سب ممبرز ایک بار ضرور مکمل پڑھیں

سال 2020 یعنی آج:
سال 2120 یعنی کل.

اب سے صرف سو سال بعد اس تحریر کو پڑھنے والا ہر شخص زیر زمین مدفون ہوگا.

الا ما شاء اللہ.

ہماری ہڈیاں ریزہ ریزہ ہوکر رزق خاک ہوچکی ہوں گی.

تب تک ہماری جنت یا جہنم کا فیصلہ بھی معلوم ہوچکا ہوگا.

جبکہ اس دوران سطح زمین کے اوپر ہمارے چھوڑے ہوئے گھر کسی اور کے ہوچکے ہوں گے.

ہمارے کپڑے کوئی اور پہن رہا ہوگا اور ہماری محنت اور محبت سے حاصل شدہ گاڑیاں کوئی اور چلارہا ہوگا۔

اس وقت ہم کسی کے خیال میں بھی نہ ہوں گے.

بھلا آپ اپنے پڑ دادا یا پڑ دادی کے بارے میں کبھی سوچتے ہیں کیا....؟

تو کوئی ہمارے بارے میں کیوں سوچنے لگا؟؟

آج زمین کے اوپر ہمارا وجود, ہمارا ہر وقت کا شور و شغب,

ہٹو بچو کی صدائیں اور ان گھروں کو آباد کرنے کے لیے ہماری محنت ومشقت,

یہ سب کچھ ہم سے پہلے کسی اور کا تھا اور ہمارے بعد یقینی طور پر کسی اور کا ہونے والا ہے.

کوئی ایسا ہونے سے روک سکتا ہے تو روک لے.

اس دنیا سے گزرنے والی ہر نسل بمشکل اس پر غور کرتی ہے

خواہشات کی تکمیل کا موقع بھلا کسی کو اس دار الفناء میں کہاں مل سکتا ہے؟

ہماری زندگی درحقیقت ہمارے تصورات و خواہشات کے مقابلے میں بہت ہی مختصر ہے.

سال 2120   میں ہم سب پر اپنی اپنی قبر میں اس دنیا اور اپنی خواہشات کی حقیقت آشکار ہوچکی ہوگی۔۔۔

ہائے افسوس!!!

اس دھوکے کے گھر میں کیسی احمقانہ خواہشات اور کیسے جاہلانہ منصوبے ہم نے بنا رکھے تھے؟؟

تب ہم پر یہ حقیقت بھی عیاں ہوجائے گی کہ

اے کاش!

ہم نے اپنی ترجیحات میں
اللہ اور اس کے رسول
کی وفاداری کو سب سے پہلے و مقدم  رکھا ہوتا تو

آج سب کچھ دنیا میں چھوڑ کر آنے کے بجائے قبر کا زاد راہ اور اعمال صالحہ کی شکل میں صدقہ جاریہ بھی ساتھ لاسکتے.

تب ہمیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہوگا کہ دنیا اس لائق ہرگز نہ تھی کہ

اس کے لیے اتنا سب کچھ جان, مال, وقت اور تمام صلاحیتیں اور جذبات داؤ پہ لگادی جاتیں۔۔۔۔

*آج یہ مضمون پڑھنے والے بہت سے لوگ 2120 میں یہ تمنا کر رہے ہوں گے

"رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ "

اے میرے پروردگار!
مجھے واپس دنیا میں بھیج دے تاکہ میں جو کچھ وہاں چھوڑ آیا ہوں اس میں واپس جاکر نیک اعمال کرسکوں. "

لیکن اس درخواست کا جواب بہت سخت ملے گا:

"كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ0"

(المؤمنون:99-100)

"ہرگز نہیں!
یہ تو صرف ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے
(قابل عمل نہیں ہے).
اب تو قیامت تک ان کے پیچھے باڑ لگادی گئی ہے. "

2120 میں قبر میں وہ یہ تمنا بھی کرے گا:

"يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي" (الفجر:24)

ہائے میری ہلاکت وبربادی! میں اپنی زندگی کے لئے کچھ آگے بھیج دیتا. "

موت کا فرشتہ میرے اور آپ کے نیک ہونے کے انتظار میں نہیں ہے.

آئیے!

موت کے فرشتہ کے انتظار کے بجائے موت کی تیاری کریں اور اعمال صالحہ والی زندگی اختیار کرلیں۔۔۔

یا اللہ یاکریم یا رحمان یا رحیم
ہمیں دین کی دعوت کے ساتھ جوڑ دے اور  دین کی دعوت کے کام میں ہمیں استقامت دے اور دوسروں تک یہ پیغام پہنچانے کی توفیق عطا فرما  
*_

 

 

 


1⃣: بچوں کو جگانے کے لیے ، اُن کے اوپر سے بستر ہر گز نہیں کھینچنا چاہیے ، نہ انھیں بار بار کہنا چاہیے کہ: اٹھو اٹھو ؛ اور نہ اُنھیں برا بھلا کہیں
2⃣: انھیں رات کو جلدی سُلانے کی کوشش کریں اور یہ ذہن دیں کہ: بیٹا ! صبح آپنے جلدی اٹھنا ہے اور پہلی آواز پہ اُٹھانا ہے اور زندگی بھر کے لیے یہ عادت بنانی ہے کہ پہلی آواز اور الارم کی پہلی ٹون پر بیدار ہو جانا ہے ۔
یہ عادت آپ کو کبھی سُست نہیں پڑنے دے گی ، اور حادثے کی صورت میں آپ کی معاون ثابت ہوگی ۔
3⃣: بچہ جب آپ کی پہلی آواز پر بیدار ہوجائے تو اُسے شاباش دیں اور اس کی تعریف کریں ؛  اگر بیدار نہ ہو تو اُسے جھڑکیں نہیں ،  بلکہ اچھے انداز سے اس کا جذبہ بیدار کریں ۔
4⃣: بچے کو جلدی اٹھنے کا عادی بنانے کے لیے ، جلدی سونے کی عادت ڈالیں ۔
5⃣: بچوں کو جلدی سُلانے کے لیے ڈرائیں دھمکائیں نہیں ، بلکہ خود جلدی سوجائیں ، بچے بھی سوجائیں گے ۔
6⃣: بچوں کو دیسی غذائیں ( گھی ، مکھن ، چُوری ، حلوہ ، کھجور ، گُڑ کے چاول وغیرہ ) کھلایا کریں ، تاکہ انھیں پرسکون نیند آئے اور طاقت ور بنیں
👈 اپنی نسلوں کی بہتر تربیت میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں آپکی دنیا اور آخرت سنور جائے گی۔

 

 

 

👈 اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بڑھ کر محبت کرنے والی ہستی 👉


‏ماں نے اپنے پانچ سالہ بچے کو نہلایا، نئے کپڑے پہنائے، خوشبو لگائی اور پیار دے کر گلی میں ننھے منے دوستوں سے کھیلنے کے لیے بھیج دیا۔ گلی میں دوستوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بچے نے اپنے کپڑے اور جسم کیچڑ اور مٹی سے لت پت کر دیے۔ جب گھر جانے کا وقت آیا تو وہ ڈر کے مارے گلی میں ہی دبکا…‏…رہا کہ اگر گھر گیا تو یہ حشر دیکھ کر امی جان ڈانٹیں گی۔ جب بچہ کافی دیر تک گھر نہ آیا تو ماں پریشان ہو کر دروازے پر آ گئی اور بچے کو کیچڑ سے لتھڑا ہوا دیکھ کر سمجھ گئی کہ ننھے میاں گھر کیوں نہیں آ رہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے بچے کو بلایا اور کہا:‘‘میں کچھ نہیں کہتی۔ آ جاؤ تاکہ…‏…میں تمہیں نہلا کر نئےکپڑے پہنا دوں۔ بچہ ڈرتے ڈرتے گھر آ جاتا ہے۔ ماں بچے کو پکڑ کر اس کے گندے کپڑے اتار دیتی ہے اور نہلا دھلا کر، صاف ستھرے کپڑے پہنا کر اورخوشبو لگا کر اسے کہتی ہے: ‘‘جاؤ جا کر کھیلو۔ لیکن اب کپڑے گندے نہیں کرنا۔’’ بچہ یہ سن کر خوشی خوشی ‘‘کپڑے گندے نہ کرنے…‏…کا ننھا، کمزور اور معصوم سا عزم’’ لیے گلی  کی طرف دوڑ لگا دیتا ہے۔

 بالکل اسی طرح اﷲ تعالیٰ انسان کو گناہوں سے پاک صاف دنیا میں بھیجتا ہے۔ لیکن انسان دنیا میں آکر کفر،شرک اور دوسرے کئی گناہوں کی گندگیوں سے اپنے آپ کو لت پت کر لیتا ہے۔اب اﷲ اپنے ان  گناہگار بندوں کو بتاتا …‏…ہے کہ:‘‘اے میرے وہ بندو!جنہوں نےاپنے آپ کو گناہوں کی گندگیوں سے آلودہ کر دیا ہے میرے پاس لوٹ آؤ تاکہ میں تمہیں اپنی رحمت سے نہلا دھلا کر دوبارہ گناہوں سے پاک کر دوں۔’’ اب جو بندہ اپنے رب کی پکار پر لبیک کہتا ہوا، اپنے پچھلے گناہوں پر نادم و شرمندہ  ہو کر  اور آئندہ گناہ نہ…‏…کرنے کا عزم لے کر،اپنے رب کی طرف لوٹ آتا ہے تو اس کا رب اسے قبول فرماتا ہے اور اس سے گناہوں کی آلائشوں کو دور کر کے اسے تقویٰ کا لباس پہنا دیتا ہے۔اسے اپنے محبوب بندوں کی صف میں شامل فرما لیتا ہے۔
 
 یہ دو اندازِ قبولیت ہیں۔ ایک انداز ِ قبولیت اس ماں کا ہے جو اپنے بچے سے شدید…‏…محبت کرتی ہے اوردوسرا اندازِ قبولیت اس ہستی کا ہے جو اپنے بندے سے ستر ماؤں سے بھی بڑھ کر محبت کرتی ہے۔

╭•┄┅═❁✿✿✿✿❁═┅┄•╮​
    📚📖 اردو تحـــــــاریـــــــر 📖📚
╰•┄┅═❁✿✿✿✿❁

 

 

 

تم گانے سنتی ہو ؟
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کلاس کی لڑکی مجھ سے مخاطب تھی .
نہیں میں نہیں سنتی!
کیوں؟
میں نے کہا اسکے نقصانات کا تمہیں اسلام کی رو سے بتاؤں یا گورے چمڑی (اصلی لبرل)والوں کی رو سے بتاؤں ؟
کہنے لگی ہاں ہاں تم مولویوں کی وہی بات ہوگی کہ
"پگھلا ہوا سیسہ کانوں میں ڈالا جائے گا" .بھلا یہ بھی کوئی بات ہے؟
میں نے جواباً کہا:
گورے چمڑی والے کہتے ہیں کہ گانے زیادہ سننے سے آپکی "thinking ability " کمزور ہو جاتی ہے . کبھی غور کیا ہو جب بھی انسان گانے سنتا ہے تو وہ ایک "imaginary"خیالی دنیا میں چلا جاتا ہے جس کا long term یہ نقصان ہوتا ہے کے انسانی دماغ میں " limbic center"(انسانی دماغ کا وہ حصّہ جہاں long term میموری پڑی ہوتی ہے ) کمزور ہو جاتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ سوچنے اور یاد کرنے کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے. بلکل اسی طرح گانے آپکو جنسی اشتعال بھی دلاتے ہیں. گوگل پر آپکو اسکی لسٹ مل جائے گی کے کس گانے میں کتنا sexual instrument استعمال ہوا ہے . مثلاً hip hop music میں 145% sexual instrument استعمال ہوتا ہے..
کہنے لگی واو، تماری لاجک تو بہت اچھی ہے..
میں نے کہا میری لاجک اچھی نہیں ہے تم ذہنی طور پر انگریزوں کی غلام ہو. بات میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آئی تو تم نے مجھے مولوی کا طعنہ دیا اب انگریز کی بات آئی تو میری لاجک اچھی ہو گئی ؟
ویسے بھی جن تعلیمی اداروں میں ناچ گانوں اور موسیقی کی تربیت دی جاتی ہو وہاں ایکٹرز اور سنگرز پیدا ہوتے ہیں نہ کہ رابعہ بصری اور صلاح الدین ایوبی
👩‍🔧👨‍💼ٹیم ایڈمن
الفلاح اسلامک گروپ

 

 

 

 

نیکیاں.... ضائع کیسے ہوتی ہیں

1- آپ حجاب کر رہی ہیں لیکن میک اپ کے ساتھ اور حجاب کی عبا بہت تنگ اور نا محرم مردوں کے بیچ خوشبو لگانا۔۔۔ تو یہ قابل غور ہے

2- آپ نے داڑھی کو چہرے پر سجایا ہوا ہے لیکن نظریں جھکی ہوئی نہیں ہیں۔۔ تو قابل غور ہے

3- تمام عبادات ٹائم پر انجام دے رہے ہیں لیکن ریاکاری کے ساتھ۔۔ تو قابل غور ہے

4- باہر دوستوں کے ساتھ بہت نرم لہجہ اور رویہ لیکن گھر میں ماں، باپ، بیوی اور بچوں کے ساتھ بداخلاقی۔۔ تو قابل غور ہے

5- مہمانوں کی بہت آو بھگت اور خدمت لیکن ان کے جانے کے بعد ان کی غیبت۔۔ تو قابل غور ہے

6- صدقہ بہت زیادہ نکالنا لیکن اس کے ساتھ ساتھ فقراء کو طعنے تنکے دینا۔۔ تو قابل غور ہے

7- تہجد اور قرآن کثرت سے پڑھنا لیکن رشتہ داروں سے قطع تعلق۔۔ تو قابل غور ہے

8- روزہ رکھ رہے ہیں بھوک اور پیاس کی سختی کو برداشت کر رہے ہیں لیکن اس دوران بداخلاقی اور توہین بھی کر رہے ہیں۔۔ تو قابل غور ہے

9- دوسروں کے ساتھ نیکی کر رہے ہیں لیکن کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے نہ کہ رضاے الہی کے لئے۔۔ تو قابل غور ہے

10- فیس بک پر لا تعداد بہترین پوسٹیں اور ان پر لا تعداد لائیک اور کمنٹس لیکن سب شہرت کے لئے نہ کہ خدا کے لیے۔۔ تو قابل غور ہے

🛑 خبردار:🛑

*نیکیوں کو ضائع ھونے سے بچائیں آپ اتنی محنت کر رہے ہیں جبکہ وہ ساری کی ساری ضائع رہی ہیں اور نیکیوں کی باسکٹ خالی ھوتی جا رھی ھے

 

 

 

 

Urdu Article: Fashion, Message for Married Women, Shadi Shuda Kamyab Zindagee, Golden Chain, Aik Lerki ka qissa

 

Home Page  Urdu Islamic Article  HR Email Ids  Zikar Azkaar

Namaz Quran & Tableegh   School HR ID  Ulema Ikram Bayanat

Listen Quran Majeed   Read Quran Majeed  Social Media  Ramzan

Khulasa Quran Majeed


 

 

 👩‍🎤 فیشن کی اس دور نے عورت کو بلکل ننگا کر دیا ہے۔۔۔۔!!!!

آج ایک نہایت اہم مسئلے پر بات کریں
مجھے پتا۔
بہت سی عیاش اور بگڑی ہوئی اولادیں میری پوسٹ کو دیکھ کر Scroll Down کر دیں گی۔
کیونکہ اتنی غیرت نہیں کہ سامنا کر سکو۔ 🤐
ہمارے معاشرے میں اکثر اوقات دیکھ رہا ہوں کہ لڑکیوں نے ایسا لباس اوڑھنا شروع کر دیا۔
کہ وہ اگر لباس نا بھی پہنیں تو بلکل ایسی نظر آئیں جیسی اس لباس میں ہوتی۔
مطلب ۔
وہ حدیث پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پوری ہوگئی۔
ایک زمانہ آئے گا جب عورت لباس میں بھی ننگی ہوگی۔ 😕

اور لباس ہے کیا۔
ٹائیٹ جینز، شارٹ قمیض ، اور گلے اتنے کھلے جیسے کدھے کو سوٹ پہنانا ہو۔
اور دوپٹہ ختم ہوتا جارہا۔
اپنی زینت کی چیزیں سب کو دیکھائی جارہی۔

میرا سوال ہے۔
ایسی سب لڑکیوں سے۔۔
کیا آپ ایسا گھٹیا لباس پہن کر غیر مردوں کو یہ دیکھانا چاہتی ہو کہ یہ دیکھو ہمارے جسم میں یہاں یہاں حوس نما گوشت زیادہ ہے۔🤐 اور یہاں پر یہ کچھ ہے۔ 😡
اور سب سے بڑے بےغیرت اور دلال ہیں وہ سب ماں باپ اور بھائی جن کی جوان بہنیں ایسا لباس پہن رہی جس سے انکا جسم صاف ظاہر ہوتا۔ 😡

اور یہ بات کل قیامت کے دن معلوم ہوگی۔
جب اللہ تعالی کے حضور اکیلے اکیلے جانا ہوگا۔
لڑکیوں کیا تمہیں ڈر نہیں لگتا۔😒
جب اکیلی اللہ تعالی کے سامنے حاضر ہوں گی۔۔کیا جواب دوگی اپنی آج کی بے حیائی فحاشی کا۔۔😒
آپ کو اس حدیث پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے معلوم نہیں ہوا۔
کہ جہنم میں سب سے زیادہ تعداد اس امت کی عورتوں کی ہے۔۔😕 قرآن کریم کے مطابق بھی۔
اللہ تعالی کا یہی حکم ہے۔
کہ مومن عورتوں کو چاہیے کہ مکمل اچھا لباس پہنیں اور اپنی زینت کی چیزیں کسی پر ظاہر مت کریں ۔

نا آپ اللہ تعالی کی مان رہے نا پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مان رہے۔
بلکہ اکڑ کر گناہ کر رہے۔فخریہ ہوکر۔ فیشن ہوتا۔  فیشن کی دوڑ میں ایک عورت کو عورت نے ہی ننگا کر کہ کھڑا کردیا۔
آج شیطان کی مان رہی ہو کل شیطان کے ساتھ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ بھی دیکھ لینا۔۔😭

حدیث پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مطابق ۔
جو ایک نیک باپردہ عورت جس نے ساری زندگی کسی نامحرم مرد کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں رکھا۔ سختی سے پوری طرح باپردہ رہ کر زندگی گزاری۔
اللہ تعالی کے احکام کو پورا کیا۔
ایسی عورت کو کل قیامت کے دن جنت کے 8 دروازوں سے پکارا جائے گا۔۔🥰
بڑا سخت ترین عذاب ہے ایسی عورتوں کے لئے جو خود بے حیائی فحاشی کو پھیلانے کی دن رات کوشش کرتی ہیں اور اس سے اور لوگوں کو گناہ گار کرتی ہے۔ 🤐
آخر میں ایک بات۔
جس جس کو یقین ہے۔ کہ اسنے مرنا ہے۔ قبر کی سخت اندھیری رات دیکھنی ہے۔ قیامت کے دن اللہ پاک کا سامنا اکیلے کرنا ہے۔
وہ آج ہی توبہ کرے۔ اور ہمیشہ کی زندگی کو آج کی دو دن کی جھوٹی مکار زندگی کے بدلے چھوڑ نا دے۔

میرا سلام ان تمام قابل احترام خواتین کو جنہوں نے سخت گرمی میں بھی کسی شادی وغیرہ پر بھی احکام الہی کو قائم رکھا۔
ایسے غیرت مند بھائیوں کو بھی سلام جنہوں نے اپنے گھروں کی عورتوں پر کنڑول رکھا۔
اب جس کے دل پر مہر لگ گئی ہے۔ جس جس کا ایمان شیطان کے ہاتھ میں ہے وہ عورت ننگی رہ سکتی ہے مگر لباس اچھا نہیں پہنے گی۔ خود بھی جہنم کا راستہ ہموار کر رہی اور اپنے ساتھ اپنے بھائی ۔باپ شوہر بیٹے کو بھی جہنم میں دھکیل رہی😭

میرا کام بس بتانا ہے۔ کسی کے دماغ میں گھول کر نہیں ڈال سکتا۔
اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔“ آمین
✒️تحریر= گمنام سپاہی

 

 

 


ایک بوڑھی خاتون کا انٹرویو جنہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ پچاس سال کا عرصہ پرسکون طریقے سے ہنسی خوشی گزارا۔
 
خاتون سے پوچھا گیا کہ اس پچاس سالہ پرسکون زندگی کا راز کیا ہے؟
کیا وہ کھانا بنانے میں بہت ماہر تھیں؟
یا پھر ان کی خوبصورتی اس کا سبب ہے؟
یا ڈھیر سارے بچوں کا ہونا اس کی وجہ ہے یا پھر کوئی اور بات ہے؟

بوڑھی خاتون نے جواب دیا:
پرسکون شادی شدہ زندگی کا دار ومدار اللہ کی توفیق کے بعد عورت کے  ہاتھ میں ہوتا ہے، عورت چاہے تو اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے اور چاہے تو اس کے برعکس یعنی جہنم بھی بنا سکتی ہے،
اس سلسلے میں مال ودولت کا نام مت لیجیے، بہت ساری مالدار عورتیں جنکی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے، شوہر ان سے بھاگا بھاگا رہتا ہے۔

خوشحال شادی شدہ زندگی کا سبب اولاد بھی نہیں ہے، بہت ساری عورتیں ہیں جن کے چھ چھ سات سات بچے ہیں پھر بھی وہ شوہر کی محبت سے محروم ہیں بلکہ طلاق تک کی نوبت آجاتی ہے
بہت ساری خواتین اعلیٰ سے اعلیٰ ترین کھانا پکانے میں ماہر ہوتی ہیں دن دن بھر نئے سے نیا کھانا بناتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں ہر روز شوہر کی بدسلوکی کی شکایت رہتی ہے۔

انٹرویو لینے والی خاتون صحافی کو بہت حیرت ہوئی اس نے پوچھا:
پھر آخر آپ کی اس خوشحال زندگی کا راز کیا ہے؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا:
جب میرا شوہر انتہائی غصے میں ہوتا ہے تو میں خاموشی کا سہارا لے لیتی ہوں لیکن اس خاموشی میں بھی احترام شامل ہوتا ہے، میں افسوس کے ساتھ سر جھکا لیتی ہوں،
ایسے موقع پر بعض خواتین خاموش تو ہوجاتی ہیں لیکن اس میں تمسخر کا عنصر شامل ہوتا ہے اس سے بچنا چاہیے، سمجھدار آدمی اسے فوراً بھانپ لیتا ہے۔

نامہ نگار خاتون نے پوچھا:
ایسے موقعے پر آپ کمرے سے نکل کیوں نہیں جاتیں؟

بوڑھی خاتون نے جواب دیا:
نہیں ایسا کرنے سے شوہر کو یہ لگے گا کہ آپ اس سے جان چھڑا رہی ہیں، اس کی کوئی بات سننا ہی نہیں چاہتی ہیں،
ایسے موقعے پر خاموش رہنا چاہیے اور جب تک وہ پرسکون نہ ہوجائے اس کی کسی بات کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔

جب شوہر کسی حد تک پرسکون ہوجاتا ہے تو میں کہتی ہوں:
پوری ہوگئی آپ کی بات؟

پھر میں کمرے سے چلی جاتی ہوں، کیونکہ میرا شوہر بول بول کر تھک چکا ہوتا ہے اور چیخنے چلانے کے بعد اب اسے تھوڑے آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔

میں کمرے سے نکل جاتی ہوں اور اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہوں بس۔

خاتون صحافی نے پوچھا:
اس کے بعد آپ کیا کرتی ہیں، کیا آپ بول چال بند کرنے کا اسلوب اپناتی ہیں؟ ایک آدھ ہفتہ بات چیت ہی نہیں کرتیں؟

بوڑھی خاتون نے جواب دیا:
نہیں تو، اس بری عادت سے ہمیشہ بچنا چاہیے یہ دو دھاری ہتھیار ہے، جب آپ ایک ہفتے تک شوہر سے بات چیت نہیں کریں گی ایسے وقت میں جب کہ اسے آپ کے ساتھ مصالحت کی ضرورت ہے تو وہ اس کیفیت کا عادی ہو جائے گا اور پھر یہ چیز بڑھتے بڑھتے خطرناک قسم کی نفرت کی شکل اختیار کر لے گی۔

صحافی نے پوچھا، پھر آپ کیا کرتی ہیں؟
بوڑھی خاتون بولیں:
میں دو تین گھنٹے بعد شوہر کے پاس ایک گلاس جوس یا ایک کپ کافی لیکر جاتی ہوں اور محبت بھرے انداز میں کہتی ہوں:  پی لیجیے۔
حقیقت میں شوہر کو اسی کی ضرورت ہوتی ہے،

پھر میں اس سے نارمل انداز میں بات کرنے لگتی ہوں،
وہ پوچھتا ہے کیا میں اس سے ناراض ہوں؟
میں کہتی ہوں: نہیں تو،
اس کے بعد وہ اپنی سخت کلامی پر معذرت ظاہر کرتا ہے اور خوبصورت قسم کی باتیں کرنے لگتا ہے۔

انٹرویو لینے والی خاتون نے پوچھا: اور آپ اس کی یہ باتیں مان لیتی ہیں؟
بوڑھی خاتون بولیں:
بالکل میں کوئی اناڑی تھوڑی ہوں مجھے اپنے آپ پر پورا بھروسہ ہے۔
کیا آپ چاہتی ہیں کہ میرا شوہر جب غصے میں ہو تو میں اس کی ہر بات کا یقین کرلوں اور جب وہ پرسکون ہو تو اس کی کوئی بات نہ مانوں؟
خاتون صحافی نے پوچھا: اور آپکی عزت نفس (self respect)؟

بوڑھی خاتون بولیں: پہلی بات تو یہ کہ میری عزت نفس اسی وقت ہے جب میرا شوہر مجھ سے راضی ہو اور ہماری شادی شدہ زندگی پرسکون ہو،
دوسری بات یہ کہ شوہر بیوی کے درمیان عزت نفس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی،
جب بیوی اور شوہر ایک دوسرے کے لباس ہیں تو پھر کیسی عزت نفس؟

👌 شیئر اینڈ سپورٹ دى فیملی لائف ـ

 

 

 

 

"عورت کی عزت! "
اشفاق احمد مرحوم فرماتے ہیں کہ میں اپنی اہلیہ بانو کے ساتھ انگلینڈ کے ایک پارک میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں تبلیغی جماعت کے کچھ نوجوان چہل قدمی کرتے ہوئے پارک میں آئے، اتنے میں مغرب کا وقت ہوا تو انہوں نے وہیں جماعت شروع کر دی۔
ان نوجوانوں کو نماز پڑھتا دیکھ کچھ نوجوان لڑکیوں کا ایک گروپ ان کے پاس پہنچا اور نماز مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ آو دیکھتے ہیں کہ ان کے درمیان کیا بات ہوتی ہے۔
مرحوم فرماتے ہیں کہ ہم دونوں میاں بیوی وہاں چلے گئے اور نماز ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے۔
نماز ختم ہوتے ہی ان میں سے ایک لڑکی نے آگے بڑھ کر جماعت کروانے والے نوجوان سے پوچھا کہ کیا تمھیں انگلش آتی ہے؟
تو نوجوان نے کہا کہ جی ہاں آتی ہے۔
تو لڑکی نے سوال کیا کہ تم نے ابھی یہ کیا عمل کیا؟
تو نوجوان نے بتایا کہ ہم نے اپنے رب کی عبادت کی ہے۔
تو لڑکی نے پوچھا آج تو اتوار نہیں ہے تو آج کیوں کی؟
تو نوجوان نے اسے بتایا کہ یہ ہم روز دن میں پانچ بار یہ عمل کرتے ہیں، تو لڑکی نے حیرت سے پوچھا کہ پھر باقی کام کیسے کرتے ہو تم؟
تو اس نوجوان نے اسے مکمل طریقہ سے پوری بات سمجھائی۔
بات ختم ہونے کے بعد لڑکی نے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا تو نوجوان نے کہا کہ معذرت کے ساتھ میں آپ کو چھو نہیں سکتا، یہ ہاتھ میری بیوی کی امانت ہے اور یہ صرف اسے ہی چھو سکتا ہے۔
یہ سُن کر وہ لڑکی زمین پر لیٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور روتے ہوئے بولی کہ اے کاش! یورپ کا نوجوان بھی اسی طرح ہوتا تو آج ہم بھی کتنی خوش ہوتی۔
پھر بولی کہ واہ کتنی ہی خوش نصیب ہے وہ لڑکی جس کے تم شوہر ہو۔
یہ کہہ کر وہ لڑکی وہاں سے چلی گئی۔

اشفاق مرحوم فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ"بانو! آج یہ نوجوان اپنے عمل سے وہ تبلیغ کر گیا جو کئی کتابیں لکھنے سے بھی نہیں ہوتی۔"

بے شک عزت اور سر بلندی اسلام میں ہی ہے .
یا اللہ ہمیں اپنی خاص رحمت سے دین اسلام پر صحیح طرح عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور دین اسلام پر استقامت عطا فرما.
آمین ثم آمین💞💞

 

 

 

 

 

🍁گولڈن چین" کا آپ کو علم ہے؟؟

حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی مدظلہ نے ایک مرتبہ فرمایا .
یہ نیت کر لو کے یا اللہ میں جو بھی نیک عمل کروں اس کا ثواب حضرت آدَم عليه السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے ہر مسلمان کو پہنچا دینا.

فائدہ : مثال کے طور پر ہم نے ایک مرتبہ " سبحان اللہ " پڑھا اِس کی ایک نیکی ہوئی اور ایک نیکی کا دس گنا ثواب دیا جاتا ہے یعنی ہمیں دس نیکیاں ملی . اب ہَم نے اِس کا ثواب سارے مسلمانوں کو بخشا ، گویا ہَم نے ہر مسلمان کے ساتھ احسان کیا اور ہر مسلمان کے ساتھ احسان کرنے کے بدلے ہمیں ایک نیکی ملی ایک نیکی کا اجر دس گنا یعنی دس نیکی . اور کتنے مسلمان اِس دنیا سے گئے اور کتنے آئینگے کیا ہَم اِس کا اندازہ کر سکتے ہیں.

ذرا سوچیے کے ایک مرتبہ " سبحان اللہ " پڑھ کر بخشنے پر کتنی نیکیاں ملی .
اب سوچ کیا رہے ہیں ابھی سے نیت کر لی جائے اور اپنے آخرت كے اکاؤنٹ میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں جمع کیجئے

اگر آپ اور زیادہ ثواب پانا چاہتے ہیں تو اِس بات کو دوسروں سے شیئر کیجئے اور انہیں بھی تاکید کریں کے وہ شیئر کریں .

جو بھی آپکی بات پر عمل کرے گا اسکو تو ثواب ملے گا اتنا ہی ثواب آپ کے اکاؤنٹ میں بھی جمع ھو جائے گا . . ان شاءالله.....
حضرت جی اسے " گولڈن چین " کہتے ہیں اب یہ آپ پر منحصر ہے کے آپ اپنی چین کتنی لمبی کرتے ہیں . ھم لوگ اپنی قبروں میں چلے جائینگے لیکن ھماری گولڈن چین کی وجہ سے اپنی قبر میں ھم کو ثواب مل سکتا ہے .

 

 

 

 

ایک لڑکی قصہ لکھتی ہے کہ✏

میں نے گھر کی صفائی کی اسی دوران بھائی نے فون کیا کہ میں بیوی بچوں سمیت تمہاری ملاقات کیلئے آرہا ہوں.🎀

کہتی ہے کہ میں باورچی خانہ چلی گئ ، تاکہ ان کیلئے جلدی میں کچھ تیار کرسکوں، پر گھر میں صرف دو تین آم ہی پڑے تھے،جلدی میں دو گلاس جوس تیار کرلی. 😥

   جب وہ آئے، تو بھائی کے ساتھ اس کی ساس بھی تھی!
جو کہ اس سے پہلے کبھی بھی نہیں آئی تھی،تو میں نے دو گلاس جوس ماں اور بیٹی کے سامنے رکھ دی اور پانی کا گلاس بھائی کے سامنے رکھ کر کہا کہ،مجھے معلوم ہے کہ آپ کو سیون اپ پسند ہے... بھائی نے جیسے ہی گلاس منہ سے لگایا تو سمجھ گیا کہ یہ تو پانی ہے،😜
اسی دوران ساس نے میرے بھائی سے کہا: بیٹا سیون اپ میرے معدے کیلئے اچھا ہے اس لئے میرا جوس تم پی لو اور سیون اپ مجھے دو! 😭
یہاں پر میرے اوسان خطاء ہوئے،سخت شرمندگی ہوئی کہ میری چالاکی رسوا ہوگئ، پر ﷲ میرا بھائی💚 سلامت رکھے.

   بھائی نے اپنی ساس سے کہا:اس گلاس سے تو میں نے کافی سیون اپ پی لیا ہے، آپ کیلئے میں فریج سے بوتل لاتا ہوں، اس نے گلاس لیا اور جلدی سے باہر نکلا، تھوڑی دیر بعد ہم نے گلاس ٹوٹنے کی آواز سنی! بھائی واپس آیا، ساس سے کہا کہ سیون اپ کا بوتل تو مجھ سے گر کر ٹوٹ پڑا،میں جلدی سے تمہارے لئے دکان سے ایک بوتل لے آتا ہوں؟ ساس نے سختی سے انکار کیا کہ چلو یہ میرے نصیب میں نہیں تھا.🙏

   جب وہ رخصت ہونے لگے تو بھائی پیچھے رہا،خدا حافظ کہا مصافحہ کیلئے ہاتھ دیا، اور اسی دوران ہاتھ میں پیسے بھی تھمادیے ، اور مسکرا کر بولا، میری پیاری بہن کچن میں گرے ہوئے سیون اپ کی جگہ کو دھو ڈالنا.

اسی طرح میرے پیارے بھائی نے میری کمزوری پر پردہ بھی ڈالا اور میرے ساتھ مدد بھی کی۔

 محبت کیساتھ رہے اور اپنے بہنوں کا خاص خیال رکھے اور دوسروں کے بہنوں کو عزت کے نگاہ سے دیکھے

 

 

 

 

 

اُردُو زُبان کا خون کیسے ہوا ؟
 اور ذمہ دار کون ہے؟

یہ ہماری پیدائش سے کچھ ہی پہلے کی بات ہے جب مدرسہ کو اسکول بنا دیا گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔۔
لیکن ابھی تک انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔ صرف انگریزی کے چند الفاظ ہی مستعمل تھے،
مثلا":
ہیڈ ماسٹر،
فِیس،
فیل،
پاس وغیرہ
 "گنتی" ابھی "کونٹنگ" میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ اور "پہاڑے" ابھی "ٹیبل" نہیں کہلائے تھے۔

60 کی دھائی میں چھوٹے بچوں کو نام نہاد پڑھے لکھے گھروں میں "خدا حافظ" کی جگہ "ٹاٹا" سکھایا جاتا اور مہمانوں کے سامنے بڑے فخر سے معصوم بچوں سے "ٹاٹا" کہلوایا جاتا۔
زمانہ آگے بڑھا، مزاج تبدیل ہونے لگے۔
 عیسائی مشنری سکولوں کی دیکھا دیکھی کچھ نجی (پرائیوٹ) سکولوں نے انگلش میڈیم کی پیوند کاری شروع کی۔
 سالانہ امتحانات کے موقع پر کچھ نجی (پرائیویٹ) سکولوں میں پیپر جبکہ سرکاری سکول میں پرچے ہوا کرتے تھے۔ پھر کہیں کہیں استاد کو سر کہا جانے لگا- اور پھر آہستہ آہستہ سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔
 پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تو نہایت تیزی سے جاری ہے۔

اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت، کلاس میں تبدیل ہوگئی- اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلوز بن گئے۔

ہمیں بخوبی یاد ہے کہ 50 اور 60 کی دھائی میں؛ اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم اور دہم، جماعتیں ہوا کرتی تھیں، اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔
پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لباس اوڑھ لیا-
اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔
 تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔

گرمیوں کی چھٹیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کی جگہ سمر ویکیشن اور وِنٹر ویکیشن آگئیں۔
 چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا کام نہ رہا بلکہ ہولیڈے پریکٹس ورک ہو گیا ۔
 پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنے لگی۔
امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے-
 ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ مڈٹرم اور فائینل ایگزامز کی اصطلاحات آگئیں-
 اب طلباء امتحان دینے کیلیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ سٹوڈنٹس ایگزام کیلیے ایگزامینیشن سینٹر جاتے ہیں۔
قلم،
دوات،
سیاہی،
تختی، اور
سلیٹ
 جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں ان کی جگہ لَیڈ پنسل، جیل پین اور بال پین آگئے- کاپیوں پر نوٹ بکس کا لیبل ہوگیا-

نصاب کو کورس کہا جانے لگا
 اور اس کورس کی ساری کتابیں بستہ کے بجائے بیگ میں رکھ دی گئیں۔
ریاضی کو میتھس کہا جانے لگا۔
 اسلامیات اسلامک سٹڈی بن گئی- انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئی- اسی طرح طبیعیات، فزکس میں اور معاشیات، اکنامکس میں، سماجی علوم، سوشل سائنس میں تبدیل ہوگئے-

پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے اب اسٹوڈنٹس سٹڈی کرنے لگے۔
پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔
 اساتذہ کیلیے میز اور کرسیاں لگانے والے، ٹیچرز کے لیے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔

داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے۔.... اول، دوم، اور سوم آنے والے طلبہ؛ فرسٹ، سیکنڈ، اور تھرڈ آنے والے سٹوڈنٹ بن گئے۔
پہلے اچھی کارکردگی پر انعامات ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے۔
بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے۔
 یہ سب کچھ سرکاری سکولوں میں ہوا ہے۔

باقی رہے پرائیویٹ سکول، تو ان کا پوچھیے ہی مت۔ ان کاروباری مراکز تعلیم کیلیے کچھ عرصہ پہلے ایک شعر کہا گیا تھا،

مکتب نہیں، دکان ہے، بیوپار ہے
مقصد یہاں علم نہیں، روزگار  ہے۔

اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے، ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔

زنان خانہ اور مردانہ تو کب کے ختم ہو گئے۔ خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا۔

باورچی خانہ کچن بن گیا اور اس میں پڑے برتن کراکری کہلانے لگے۔
غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کر کے واش روم بن گیا۔
 مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔

مکانوں میں پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔
 دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا، پہلے مہمانوں کی آمد پر گھنٹی بجتی تھی اب ڈور بیل بجنے لگی۔
 کمرے روم بن گئے۔ کپڑے الماری کی بجائے کپبورڈ میں رکھے جانے لگے۔

"ابو جی" یا "ابا جان" جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور لفظ دقیانوسی لگنے لگا، اور ہر طرف ڈیڈی، ڈیڈ، پاپا، پپّا، پاپے کی گردان لگ گئی حالانکہ پہلے تو پاپے(رس) صرف کھانے کے لئے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں-
اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ "امی" یا امی جان  "ممی" اور مام میں تبدیل ہو گیا۔

سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔
 چچا، چچی، تایا، تائی، ماموں ممانی، پھوپھا، پھوپھی، خالو خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ "انکل اور آنٹی" میں تبدیل ہوگئے۔
 بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے۔
 یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔

ساری عورتیں آنٹیاں، چچا زاد،
 ماموں زاد، خالہ زاد بہنیں اور بھائی سب کے سب کزنس میں تبدیل ہوگئے، نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔

نہ جانے ایک نام تبدیلی کے زد سے کیسے بچ گیا ۔ ۔ ۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین پہلے بھی ماسی کہلاتی تھیں اب بھی ماسی ہی ہیں۔

گھر اور سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتے۔
 دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے، آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نےخریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے۔
سڑکیں روڈز بن گئیں۔
 کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی، یعنی کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنادیا گیا۔
کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا،
 نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔

ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔ پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی، وہ اب آفس بن گیا اور منتھلی سیلری ملنے لگی ہے اور جو کبھی صاحب تھے وہ باس بن گئے ہیں،
بابو کلرک اور چپراسی پِیّن بن گئے۔
 پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا-

سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔ طوائفیں آرٹسٹ بن گئیں
 اور محبت کو 'لَوّ' کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔
 صحافی رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے۔

کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔

اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں، عام آدمی تک نے اس میں حتی المقدور حصہ لیا ہے-

اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا ہے۔

ہم ایک جملے میں تین چار انگریزی الفاظ کا تڑکا لگانے کو تہذیب بلکہ مینرز سمجھنے لگے ہیں اور وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں

وائے ناکامیِ متاع کارواں جاتا رہا
 کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

ہم کہاں سے کہاں آگئے اورکہاں جارہے ہیں؟
 دوسروں کا کیا رونا روئیں، ہم خود ہی اس کے ذمہ دار ہیں. دوسرا کوئی نہیں۔
 بہت سے اردو الفاظ کو ہم نے انگریزی قبرستان میں مکمل دفن کر دیا ہے اور مسلسل دفن کرتے جا رہے ہیں. اور روز بروز یہ عمل تیزتر ہوتا جا رہا ہے۔

روکیے، خدا را روکیے،
 ارود کو مکمل زوال پزیر ہونے سے روکیے۔

اگر آپ مناسب سمجھیں تو قوم کو بیدار کرنے کی خاطر اس تحریر کو شیئر کریں.

ملاحظہ: قومیں اپنی قومی زبان کو پروان چڑھا کر ہی ترقی کرتی ہیں۔ موجودہ زمانے کا یہی سکہ بند اصول ہے۔ جاپان اور چین اس کی زندہ مثال ہیں