Tuesday, September 22, 2020

Urdu Articleسلیمان الراجحی, Khush rehnay ka tariqa, Ameer Gareeb, Amal ka daromadar niyat per hay, Terbiyat ka nirala andaz, Apni Galti, Kanjoos,

 

Home Page  Urdu Islamic Article  HR Email Ids  Zikar Azkaar

Namaz Quran & Tableegh   School HR ID  Ulema Ikram Bayanat

Listen Quran Majeed   Read Quran Majeed  Social Media  Ramzan

Khulasa Quran Majeed


 

 سلیمان الراجحی انتقال کرگئے 😢😢
ان کا شمار دنیا کے 20 سخی / فیاض ترین افراد میں شمار ہوتا ہے۔

سعودی عرب کے شہر "القصیم" میں واقع  کھجوروں کے ایک باغ  میں کم و بیش کھجور کے 2 لاکھ درخت ھیں اور یہ باغ راہِ اللہ میں وقف ھے..
اِس باغ میں 45 قِسم کی کھجوریں ھوتی ھیں ، یہاں کی سالانہ پیداوار 10 ھزار ٹن کھجور ھے..
یہ باغ روئے زمین میں پایا جانے والا سب سے بڑا وقف ھے..
اِس باغ کی آمدنی سے دُنیا کے مختلف ممالک میں مساجد کی تعمیر ، خیراتی کام اور حرمین شریفین میں افطاری کے
دسترخوان لگائے جاتے ھیں..
یہ باغ سعودی عرب کے امیر ترین شخص "سلیمان الراجحي" نے اللہ کی راہ میں وقف کِیا ھے..
سلیمان الراجحي نے غُربت میں آنکھ کھولی ، وہ اسکول میں پڑھ رھے تھے کہ ایک دن اسکول اِنتظامیہ نے تفریحی ٹُوور تشکیل دِیا اور ھر طالب علم سے ایک ایک ریال جمع کروانے کو کہا ، یہ گھر میں جاتے ھیں مگر والدین کے پاس ایک ریال تک نہیں ھوتا ، یہ بہت روتا ھے ، ٹُوور کے لِئے جانے کی تاریخ قریب آتی ھے ، اِدھر اِن کے سہ ماھی اِمتحانات کا رزلٹ آتا ھے ، یہ کلاس میں پوزیشن لیتے ھیں اور ایک فلسطینی اُستاد بطورِ اِنعام اِنہیں 1 ریال دیتا ھے..
یہ دوڑتے ھوئے تفریحی پروگرام کے مسئول کے پاس جاتے ھیں اور 1 ریال جمع کراتے ھیں..
وقت کو جیسے پر لگ جاتے ھیں ، یہ اپنی تعلیم مکمل کر کے جدہ شہر میں ایک کمرے کو بنک کا نام دے کر کام شروع کرتے ھیں ، مختصر عرصے میں الراجحي کے نام سے بنکوں کا ایک جال پورے سعودی عرب میں پھیل جاتا ھے..
سلیمان الراجحي اپنے اِس فلسطینی اُستاد کی تلاش میں نِکلتے ھیں ، اُستاد سے ملاقات ھوتی ھے ، وہ ریٹائرڈ ھو چُکے ھیں ، معاشی حالات ایسے کہ گھر کا چولہا جلانا مُشکل ھوا پڑا ھے ، راجحی اپنے فلسطینی اُستاد کو گاڑی میں بِٹھاتے ھیں اور اُن سے کہتے ھیں کہ میرے اُوپر آپ کا قرض ھے..
اُستاد آگے سے کہتا ھے کہ مجھ مسکین کا کِس پر قرض ھو سکتا ھے ، راجحی اپنے اُستاد کو یاد کراتے ھیں کہ سالوں پہلے آپ نے مجھے 1 ریال اِنعام دِیا تھا ، اُستاد مُسکراتا ھے کہ آپ اب وہ ایک ریال مجھے واپس کرنا چاھتے ھیں؟..
راجحی ایک بنگلے کے سامنے گاڑی کھڑی کرتا ھے جِس کے سامنے ایک بیش قیمت گاڑی بھی کھڑی ھے ، راجحی اپنے اُستاد سے کہتا ھے یہ بنگلہ اور گاڑی اب سے آپ کے ھیں ، مزید آپ کے تمام اخراجات ھمارے ذِمہ ھوں گے..
فلسطینی اُستاد کی آنکھوں میں آنسو آتے ھیں اور کہتا ھے کہ یہ عالی شان بنگلہ یہ مہنگی گاڑی یہ تو بہت زیادہ ھے..
راجحی کہتا ھے اِس وقت آپ کی جو خوشی ھے اِس سے بڑھ کر میری خوشی کا عالم تھا جب آپ نے مجھے 1 ریال اِنعام دِیا تھا..
ایسے محسن شناس اِنسان کو اللہ ضائع نہیں کرتا..
سلیمان الراجحی نے 2010 میں اپنے بچوں ، بیگمات اور عزیز و اقارب کو بُلا کر اپنی دولت اُن سب میں تقسیم کر دی اور اپنے حِصے میں جو کچھ آیا وہ سب وقف کر دِیا..
اِس وقت سلیمان الراجحي کے وقف کی مالیت 60 ارب ریال سے زیادہ ھے..
یہ سعودی الوطنیہ کمپنی اور الراجحی بینک کے مالک ہیں، جنہوں نے کورونا وائرس کیلئے 170/ ملین ریال امداد کے طور پر دیا ہے، اور مکہ مکرمہ کے اندر دو ہوٹل وزارت صحت کے حوالے کردیا ہے۔
گنیز بک میں اب تک سب سے بڑے وقف کے طور پر یہ باغ ریکارڈ کے طور پر درج ہے۔۔
فوربس میگزین نے انہیں دنیا کے بیس عظیم فیاض لوگوں میں شمار کیا ہے۔ ان کی سوانح حیات پڑھنے کے لائق ہے۔ شاید سعودی عرب کا کوئی شہر ایسا نہیں ملے گا، جہاں الراجحی فیملی کی طرف سے مسجدیں نہ تعمیر کی گئی ہو، نیز دعوتی سینٹرز، مقراۃ قرانيۃ خیراتی جمعیت وغیرہ میں آپ کا بھر پور تعاون رہتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ اپنے ملازمین کو ماہ ختم ہونے سے پہلے ان کی اجرت دے دیتے ہیں جن ملازمین کی تعداد ۱۵۰,۰۰۰ ڈیڑہ لاکھ سے ذیادہ ہے۔
اس عظیم ہستی کا  انتقال ہوگیا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں انہیں جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین. (منقول)

 

 

 

ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا:
 یہ میرے نوکر مجھ سے زیادہ کیسے خوش باش پھرتے ہیں. جبکہ ان کے پاس کچھ نہیں اور میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں.

وزیر نے کہا:
بادشاہ سلامت، اپنے کسی خادم پر قانون نمبر ننانوے کا استعمال کر کے دیکھیئے

 بادشاہ نے پوچھا:
 اچھا، یہ قانون نمبر ننانوے کیا ہوتا ہے؟

 وزیر نے کہا:
 بادشاہ سلامت، ایک صراحی میں ننانوے درہم ڈال کر، صراحی پر لکھیئے اس میں تمہارے لیئے سو درہم ہدیہ ہے،رات کو کسی خادم کے گھر کے دروازے کے سامنے رکھ کر دروازہ کھٹکھٹا کر ادھر اُدھر چھپ جائیں اور تماشہ دیکھ لیجیئے.

 بادشاہ نے یہ تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا اور جیسے وزیر نے سمجھایا تھا، ویسے ہی کیا، صراحی رکھنے کے بعد دروازہ کھٹکھٹایا اور چھپ کر تماشہ دیکھنا شروع کر دیا.

دستک سن کر اندر سے خادم نکلا، صراحی اٹھائی اور گھر چلا گیا. درہم گنے تو ننانوے نکلے، جبکہ صراحی پر لکھا سو درہم تھا.  خادم نے سوچا: یقینا ایک درہم کہیں باہر گرا ہوگا. خادم اور اس کے سارے گھر والے باہر نکلے اوردرہم کی تلاش شروع کر دی.

 ان کی ساری رات اسی تلاش میں گزر گئی. خادم کا غصہ اور بے چینی دیکھنے لائق تھی۔ اس نے اپنے بیوی بچوں کوسخت سست بھی کہا کیونکہ وہ درہم تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے.

کچھ رات صبر اور باقی کی رات بک بک اور جھک جھک میں گزری.

 دوسرے دن یہ ملازم محل میں کام کرنے کیلئے گیا تو اس کا مزاج مکدر، آنکھوں سے جگراتے، کام سے جھنجھلاہٹ، شکل پر افسردگی عیاں تھی.

بادشاہ سمجھ چکا تھا کہ ننانوے کا قانون کیا ہوا کرتا ہے.

 لوگ ان 99 نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو الله تبارک و تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہوتی ہیں. اور ساری زندگی اس ایک نعمت کے حصول میں سر گرداں رہ کر گزار دیتے ہیں جو انہیں نہیں ملی ہوتی

.اوروہ ایک نعمت بھی الله کی کسی حکمت کی وجہ سے رُکی ہوئی ہوتی ہے جسے عطا کر دینا الله کیلئے بڑا کام نہیں ہوا کرتا.

لوگ اپنی اسی ایک مفقود نعمت کیلئے سرگرداں رہ کر اپنے پاس موجود ننانوے نعمتوں کی لذتوں سے محروم مزاجوں کو مکدر کر کے جیتے ہیں.

 حاصل ہو جانے والی ننانوے نعمتوں پر الله تبارک و تعالٰی کا احسان مانیئے اور ان سے مستفید ہو کر شکرگزار بندے بن کر رہیئے.

یا الله پاک آپ ہمیں اپنا شکر گزار بندہ بنا دیں۔
آمین

 

 

 

 

 

امیر کون غریب کون

6ﻣﺎﮦ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﻓﺎﺋﯿﻮ ﺍﺳﭩﺎﺭ ﮨﻮﭨﻞ ﮐﮯ ﻣﯿﻨﺠﺮ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ
ﺳﺮ !... ﺍﯾﮏ ﮐﭗ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﮐﯿﺎ؟
__
ﻣﯿﻨﺠﺮ : " ﮨﺎﮞ !... ﺳﻮ ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ __ "
" ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ، ﺩﮮ ﺩﻭ !... " ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﻮ
ﭘﮑﻨﮏ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﮨﻮﭨﻞ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﮩﺮﯼ ﺗﮭﯽ __
ﺍﮔﻠﯽ ﺻﺒﺢ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮔﺎﮌﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﻮﮎ ﻟﮕﯽ _ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﭨﻮﭨﯽ ﭘﮭﻮﭨﯽ ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﯼ ﻭﺍﻟﯽ ﭼﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺭﻭﮐﺎ ﮔﯿﺎ _ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻼ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﻮ ﺷﺎﻧﺖ ﮐﯿﺎ ...
ﺩﻭﺩﮪ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﻮﻻ .. " ﺑﯿﭩﯽ !... ﮨﻢ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﺘﮯ ، ﺍﮔﺮ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﻮ ﻣﺰﯾﺪ ﺩﻭﺩﮪ ﻟﯿﺘﯽ ﺟﺎﺅ _ " ..
ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﮔﮭﻮﻡ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻣﯿﺮ ﮐﻮﻥ؟ ...
ﻓﺎﺋﯿﻮ ﺍﺳﭩﺎﺭ ﮨﻮﭨﻞ ﻭﺍﻻ ﯾﺎ ﭨﻮﭨﯽ ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﯼ ﻭﺍﻻ ؟
.
ﻣﻠﯽ ﺗﮭﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﭘﺮ ﻭﻗﺖ ﺑﯿﺖ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﺎﻏﺬ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﮐﻤﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺭﻭﭘﯿﮧ ﭘﯿﺴﮧ ﮐﻤﺎ ﮐﺮ ؟؟
ﻧﮧ ﮐﻔﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺐ ﮨﮯ ، ﻧﺎ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻤﺎﺭﯼ...🙏🙏🙏🙏

 

 

 

 

 

ا

 

🌹 ہوشیار باش 🌹

1- آپ حجاب کر رہی ہیں لیکن میک اپ کے ساتھ اور حجاب کی عبا بہت تنگ اور نا محرم مردوں کے بیچ خوشبو لگانا۔۔۔ تو یہ قابل غور ہے

2- آپ نے داڑھی کو چہرے پر سجایا ہوا ہے لیکن نظریں جھکی ہوئی نہیں ہیں۔۔ تو قابل غور ہے

3- تمام عبادات ٹائم پر انجام دے رہے ہیں لیکن ریاکاری کے ساتھ۔۔ تو قابل غور ہے

4- باہر دوستوں کے ساتھ بہت نرم لہجہ اور رویہ لیکن گھر میں ماں، باپ، بیوی اور بچوں کے ساتھ بداخلاقی۔۔ تو قابل غور ہے

5- مہمانوں کی بہت آو بھگت اور خدمت لیکن ان کے جانے کے بعد ان کی غیبت۔۔ تو قابل غور ہے

6- صدقہ بہت زیادہ نکالنا لیکن اس کے ساتھ ساتھ فقراء کو طعنے تنکے دینا۔۔ تو قابل غور ہے

7- تہجد اور قرآن کثرت سے پڑھنا لیکن رشتہ داروں سے قطع تعلق۔۔ تو قابل غور ہے

8- روزہ رکھ رہے ہیں بھوک اور پیاس کی سختی کو برداشت کر رہے ہیں لیکن اس دوران بداخلاقی اور توہین بھی کر رہے ہیں۔۔ تو قابل غور ہے

9- دوسروں کے ساتھ نیکی کر رہے ہیں لیکن کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے نہ کہ رضاے الہی کے لئے۔۔ تو قابل غور ہے

10- فیس بک پر لا تعداد بہترین پوسٹیں اور ان پر لا تعداد لائیک اور کمنٹس لیکن سب شہرت کے لئے نہ کہ خدا کے لیے۔۔ تو قابل غور ہے

خبردار: نیکیوں کو ضائع ھونے سے بچائیں آپ اتنی محنت کر رہے ہیں جبکہ وہ ساری کی ساری ضائع رہی ہیں اور نیکیوں کی باسکٹ خالی ھوتی جا رھی ھے۔۔۔

 

 

 

 

"تربیت کا نرالا انداز"

میری والدہ نے ہمسائیوں کے دروازے پر دستک دی اور ان سے نمک مانگ لیا ،بیٹا یہ منظر دیکھ رہا تھا کہنے لگا امی کل ہی تو میں نمک بازار سے لے آیا تھا پھر یہ ہمسائیوں کے دروازے پر جانے کی کیا ضرورت تھی.
والدہ کہنے لگیں بیٹا ہمارے ہمسائے بہت غریب ہیں وہ وقتا فوقتا ہم سے کچھ نہ کچھ مانگتے رہتے ہیں مجھے معلوم ہے کہ ہمارے کچن میں نمک موجود ہے لیکن میں نے ان سے نمک اس لئے مانگ لیا ہے تاکہ وہ ہم سے کچھ مانگتے ہوئے  ہچکچاہٹ اور شرمندگی محسوس نہ کریں بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ ہمسائیوں سے حسب ضرورت چیزیں مانگی جا سکتی ہیں، یہ ہمسائیوں کے حقوق میں سے ہے.
خوبصورت معاشرے ایسی ماوں سے تشکیل پاتے ہیں
#منقول

 

 

 

 

 

اپنی غلطیاں

 غلطیوں کو مـان لینا آپکو  مزید غلطیوں سے بچا لیتا ہے,,,,,اگر آپ کو زندگی میں سکون چاہیے تو اکیلے بیٹھیں ، اپنے ہر عمل پر نظر ڈالیں ، جو  جو غلط کیا وہ تسلیم کرتے جائیں....!!!
 خود سے کہیــں    "ہاں یہ مجھ سے غلط ہوا ہے"   کوئی بہانہ نہیــں,,,,کسی پر الزام نہیــں,,,,خود سے سچ بولنا ہے,,,,,,اللّٰــــــہ سے معافی مانگیـں,,,,,جہاں غلطی ٹھیکــــــ کرنے کی گنجائش ہے آگے بڑھیـں اور ٹھیکــــــ کریں,,,,,آپ پر سکـون ہو جائیــں گے....!!!

اپنی نظروں میں گرا ہوا شخص کبھی سکون حاصل  نہیــں کر سکتا جبکہ سکـون سے بڑی کوئی چیز نہیـــں...!!!
"غلطیوں کو مان لینا  آپکو مزید غلطیوں سے بچا لیتا ہے"...!!! ✓💯
 

اکثر اوقات سچ کڑوا نہیں ہوتا، سچ بولنے کا انداز کڑوا ہوتا ہے- ہم سچ بولنے کے ساتھ ساتھ دراصل دوسرے کو ذلیل کر رہے ہوتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ ہماری ذلیل کرنے کی حرکت کو صرف سچ سمجھا جائے-

اللہ پاک ہمیں آسانیاں اور محبتیں بانٹنے کی توفیق دے-

آمین


مزید ایسی پوسٹیں حاصل کرنے کے لیے ھمارا گروپ جواٸن کریں

 

 

 

 

 

" کنجوس کا بیٹا اس سے بڑا کنجوس "

ایک کنجوس کی حکایت ہے
اس کے گھر کوئی مہمان وارد ہوا..
اس کنجوس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ آدھا کلو عمدہ گوشت لیتے آؤ۔ بیٹا گیا باہر اور کافی دیر بعد خالی ہاتھ لوٹا...

باپ نے پوچھا گوشت کہاں ھے ؟
بیٹا : میں قصائی کے پاس گیا اور کہا کہ جو سب سے عمدہ گوشت ہے تمھارے پاس وہ دیدو۔
قصائی نے کہا میں تمہیں ایسا گوشت دوں گا گویا کہ مکھن هو..
تو میں نے سوچا اگر ایسا ہی ہے تو مکھن ہی لے لوں۔
تو میں بقال کے پاس گیا اور کہا جو سب سے عمدہ مکھن ہے تمہارے پاس وہ دیدو..
بقال نے کہا میں تمہیں ایسا مکھن دوں گا گویا کہ شھد ہو۔
تو میں نے سوچا اگر ایسا ہی ہے تو شھد ہی خرید لوں تو میں شھد والے کے پاس گیا اور کہا جو سب سے عمدہ شھد ہے تمہارے پاس وہ دے دو..
تو شہد والے نے کہا میں تمہیں ایسا شھد دوں گا گویا کہ بالکل صاف شفاف پانی ہو..
تو میں نے سوچا اگر یہی قصہ ہے تو پانی تو ہے ہی گھر میں موجود۔
اس لئے میں خالی ھاتھ واپس آ گیا...
۔               😝😝😝😝😝

باپ : واہ بیٹے یہ تم نے بہت شاطرانہ عقل بھڑائی لیکن ایک نقصان کر دیا۔
وہ یہ کہ ایک دکان سے دوسری دکان جانے میں تمہاری چپل گِھس گئی ہوگی..
۔                😝😝😝😝😝

بیٹا: نہیں ابا ایسا نہیں ہے میں مہمان کی چپل پہن کے گیا تھا...........!!!!!

 

 

 

 

No comments:

Post a Comment