Home Page Urdu Islamic Article HR Email Ids Zikar Azkaar
Namaz Quran & Tableegh School HR ID Ulema Ikram Bayanat
Listen Quran Majeed Read Quran Majeed Social Media Ramzan
والدین کی ناراضگی ختم کرنے کے گُر
ایک عالم دین سے ایک نوجوان شخص نے شکایت کی کہ میرے والدین اڈھیر عمر ھیں اور اکثر و بیشتر وہ مجھ سے خفا رہتے ھیں حالانکہ میں انکو ہر وہ چیز مہیا کرتا ھوں جسکا وہ مطالبہ کرتے ھیں ۔۔
عالم دین نے نوجوان شخص کو سر سے پیروں تک دیکھا اور فرمانے لگے کہ بیٹا یہی تو انکی ناراضگی کا سبب ھے کہ جو وہ مانگتے ھیں تم انکو لا کر دیتے ھو ۔۔
نوجوان کہنے لگا کہ میں آپکی بات نہی سمجھ پایا تھوڑی سی وضاحت کر دیں ۔۔
عالم دین فرمانے لگے: بیٹا کیا کبھی تم نے غور کیا ھے کہ
جب تم دنیا میں نہیں آے تھے تو تمہارے آنے سے پہلے ھی تمھارے والدین نے تمھارے لئے ہر چیز تیار کر رکھی تھی ۔
تمھارے لئے کپڑے ۔
تمھاری خوراک کا انتظام
تمھاری حفاظت کا انتظام
تمہیں سردی نہ لگے اگر گرمی ھے تو گرمی نہ لگے ۔
تمہھارے آرام کا بندوبست
تمھاری قضاے حاجت تک کا انتظام تمھارے والدین نے تمھاری دنیا میں آنے سے پہلے ھی کر رکھا تھا ۔۔
پھر آگے چلو ۔۔۔
کیا تمھارے والدین نے کبھی تم سے پوچھا تھا کہ بیٹا تم کو سکول میں داخل کروائیں یا نہ ۔
اسی طرح کالج یا یونیورسٹی میں داخلے کیلئے تم سے کبھی پوچھا ھو، بلکہ تمھارے بہتر مستقبل کیلئے تم سے پہلے ھی سکول اور کالج میں داخلے کا بندوبست کر دیا ھو گا ۔۔
اسی طرح تمھاری پہلی نوکری کیلئے تمھارے سکول کی ٹرانسپورٹ کیلئے تمھارے یونیفارم کیلئے تمھارے والد صاحب نے کبھی تم سے نہیں پوچھا ھو گا بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق بہتر سے بہتر چیز تمھارے مانگنے سے پہلے ھی تمہیں لاکر دی ھو گی ۔۔
تمہہں تو شاید اسکا بھی احساس نہ ھو کہ جب تم نے جوانی میں قدم رکھا تھا تو تمھارے والدین نے تمھارے لئے ایک۔اچھی لڑکی بھی دھونڈنی شروع کر دی ھو گی جو اچھی طرح تمھاری خدمت کر سکے اور تمھارا خیال رکھ سکے ۔۔۔
لڑکی تلاش کرتے ھوے بھی انکی اولین ترجیح تمھاری خدمت ھی ھوگی بلکہ انکے تو ذھین میں کبھی یہ۔خیال بھی نہی آیا ھو گا کہ ھم ایسی دلہن بیٹے کیلئے لائیں جو ھماری خدمت بھی کرے اور ھمارے بیٹے کی بھی ۔۔۔
تمھارے لئے کپڑے ۔تمھاری پہلی سائکل۔تمھارا پہلا موٹر سائکل ۔تمھارا پہلا سکول ۔تمھارے کھلونے ۔تمھاری بول چال ۔تمھاری تربیت ۔تمھارا رھن سہن چال چلن رنگ دھنگ گفتگو کا انداز ۔۔۔۔۔یہاں تک کے تمھارے منہ سے نکلنے والا پہلا لفظ تک تمکو تمھارے ماں باپ نے مفت میں سیکھایا ھے اور تمھارے مطالبے کے بغیر سیکھایا ھے ۔۔۔
اور آج تم کہتے ھو کہ۔جو کچھ وہ مجھ سے مانگتے ھیں میں انکو لا کر دیتا ھوں اسکے باوجود وہ۔خفا رھتے ھیں ۔۔۔
جاو والدین کو بن مانگے دینا شروع کرو ۔
انکی ضروریات کا خیال اپنے بچوں کی ضروریات کیطرح کرنا شروع کرو ۔۔
اگر انکی۔مالی مدد نہی کر سکتے تو انکو اپنا قیمتی وقت دو ۔انکی خدمت کرو ۔گھر کی۔زمہ داریاں خود لو ۔۔جیسے اپنے بچوں کے باپ بنے ھو ویسے ھی اپنے والدین کی نیک اولاد بنو ۔۔اور انکو بن مانگے دینا شروع کرو ۔۔
اپنے آپ کو اس قابل بنا لو کہ انکو تم سے مانگنے کی یا مطالبے کی ضرورت ھی نہ پڑے ۔۔یا انکو کبھی تمھاری کمی محسوس ھی نہ ھو کم سے کم۔اتنا وقت تو انکو عطا کردو ۔۔۔۔انکو مسائل پوچھو ۔۔
اگر انکی مالی مدد نہیں کر سکتے تو انکی خدمت کرو
کیا کبھی ماں یا باپ کے پاوں کی پھٹی ھوئی ایڑیاں دیکھیں ھیں تم نے ؟؟
کیا کبھی ان پھٹی ھوئی ایڑیوں میں کوئی کریم یا تیل لگایا ھے جیسے وہ تمکو چھوٹے ھوتے وقت لگاتے تھے ؟؟
کیا کبھی ماں یا باپ کے سر میں تیل لگایا ھو کیونکہ جب تم بچے تھے تو وہ باقاعدہ تمھارے سر میں تیل لگا کر کنگھی بھی کرتے تھے ۔۔تمھای ماں تمھارے بال سنوارتی تھی کبھی ماں کے بال سنوار کر تو دیکھو ۔۔۔
کیا کبھی باپ کے پاوں دبائیں ھیں حالانکہ تمھارے باپ نے تمہیں بہت دفعہ دبایا ھو گا ۔۔۔
کیا کبھی ماں یا۔باپ کیلئے ہاتھ میں پانی یا تولیہ لے کر کھڑے ھوے ھو ۔جیسے وہ تمھارا منہ بچپن میں نیم گرم پانی سے دھویا کرتے تھے ۔۔۔۔
کچھ کرو تو سہی
انکو بغیر مانگے لا کر دو
انکی زمہ داریاں اٹھا کر دیکھو ۔
انکو وقت دے کر دیکھو
انکی خدمت کر کے دیکھو ۔
انکو اپنے ساتھ رکھو ھمیشہ
انکو اپنے آپ پر بوجھ مت سمجھو نعمت سمجھ کر دیکھو
جسطرح انہوں نے تم کو بوجھ نہیں سمجھا بغیر کسی معاوضہ کے تمھاری دن رات پرورش کر کے معاشرے کا ایک کامیاب انسان بنایا ھے ۔کم سے کم انکی وھی خدمات کا صلہ سمجھتے ھوے ان سے حسن سلوک کا رویہ اختیار کرو ۔۔
پھر دیکھنا وہ بھی خوش اور اللہ بھی خوش ۔۔
عالم دین کی یہ باتیں سن کر نوجوان اشک بار ھوگیا اور باقی کے حاضرین کی آنکھیں بھی۔نم ھو گئیں ۔۔
۔۔واقعی۔یہ حقیقت ھے کہ ایسے نصیحت آموز باتیں دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں نہی مل۔سکتی صرف اور صرف دینی علماء ھی ایسی تربیت کر سکتے ھیں ۔۔۔
اللہ۔ایسے علماء کا سایہ ھمیشہ۔قائم رکھے ۔۔
اور ھر انسان کو یہ۔توفیق اور خوش نصیبی عطا کرے کہ۔وہ۔اپنے والدین کی۔ڈیمانڈ سے پہلے ھی انکی۔ضروریات کو جانتے ھوے پایہ تکمیل تک پہنچا دے ۔۔
آمین یا رب العالمین ۔۔۔۔
مولانا روم رح فرماتے ہیں۔۔۔
❤❤❤💝💝💝
ایک شخص مسجد میں نماز ادا کرنے کیلئے اندھیری رات میں گھر سے نکلا ,
اندھیرے کی وجہ سے ٹھوکر لگی اور وه منہ کے بل کیچڑ میں گر گیا ..
کیچڑ سے اٹھ کر وه گھر واپس گیا اور لباس تبدیل کر کے دوبارہ مسجد کی طرف چل دیا .
ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ دوبارہ ٹھوکر لگی اور وه دوبارہ کیچڑ میں گر گیا ..
کیچڑ سے اٹھ کر وه ایک بار پھر گھر واپس گیا اور لباس تبدیل کر کے مسجد جانے کیلئے دوبارہ گھر سے نکل آیا .
اپنے گھر کے دروازے پر اسے ایک شخص ملا جو اپنے ہاتھ میں ایک روشن چراغ تھامے ہوئے تھا,
چراغ والا شخص چپ چاپ نمازی کے آگے آگے مسجد کی طرف چل دیا ..
اس بار چراغ کی روشنی میں نمازی کو مسجد تک پہنچنے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا اور وه بخیریت مسجد تک پہنچ گیا .
مسجد کے دروازے پر پہنچ کر چراغ والا شخص رک گیا ..
نمازی اسے وہیں چھوڑ کر مسجد میں داخل ہو گیا اور نماز ادا کرنے لگا .
نماز سے فارغ ہو کر وه مسجد سے باهر آیا تو اس نے دیکھا چراغ والا شخص اس کا منتظر ہے تاکہ اسے دوبارہ چراغ کی روشنی میں گھر تک چھوڑ آئے ...
جب نماذی گھر پہنچ گیا ..
تونمازی نے اس اجنبی سے پوچھا,
آپ کون ہیں ؟
اجنبی بولا ...
سچ بتاؤں تو میں ابلیس ہوں .
نمازی کی حیرت کی انتہا نہ رہی ..
اس نے پوچھا ..
تجھے تو میری نماز ره جانے پر خوش ہونا چاہئے تھا ...
پھر تو چراغ کی روشنی میں مجھے مسجد تک کیوں لایا ؟
ابلیس نے جواب دیا ..
جب تجھے پہلی ٹھوکر لگی تو الله نے تیرے عمر بھر کے گناه معاف فرما دئے ._
جب دوسری ٹھوکر لگی تو تیرے سارے خاندان کو بخش دیا ._
مجھے فکر ہوئی کہ اب اگر تو ٹھوکر کھا کر گرا تو کہیں الله تیرے سارے گاؤں کی مغفرت نه فرما دے ,,
اس لئے چراغ لے کر آیا ہوں کہ تو بغیر گرے مسجد تک پہنچ جائے ....
(حکایت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ)
فانی دنیا اور فکر آخرت پر ایک بہترین تحریر
یہ تحریر سب ممبرز ایک بار ضرور مکمل پڑھیں
سال 2020 یعنی آج:
سال 2120 یعنی کل.
اب سے صرف سو سال بعد اس تحریر کو پڑھنے والا ہر شخص زیر زمین مدفون ہوگا.
الا ما شاء اللہ.
ہماری ہڈیاں ریزہ ریزہ ہوکر رزق خاک ہوچکی ہوں گی.
تب تک ہماری جنت یا جہنم کا فیصلہ بھی معلوم ہوچکا ہوگا.
جبکہ اس دوران سطح زمین کے اوپر ہمارے چھوڑے ہوئے گھر کسی اور کے ہوچکے ہوں گے.
ہمارے کپڑے کوئی اور پہن رہا ہوگا اور ہماری محنت اور محبت سے حاصل شدہ گاڑیاں کوئی اور چلارہا ہوگا۔
اس وقت ہم کسی کے خیال میں بھی نہ ہوں گے.
بھلا آپ اپنے پڑ دادا یا پڑ دادی کے بارے میں کبھی سوچتے ہیں کیا....؟
تو کوئی ہمارے بارے میں کیوں سوچنے لگا؟؟
آج زمین کے اوپر ہمارا وجود, ہمارا ہر وقت کا شور و شغب,
ہٹو بچو کی صدائیں اور ان گھروں کو آباد کرنے کے لیے ہماری محنت ومشقت,
یہ سب کچھ ہم سے پہلے کسی اور کا تھا اور ہمارے بعد یقینی طور پر کسی اور کا ہونے والا ہے.
کوئی ایسا ہونے سے روک سکتا ہے تو روک لے.
اس دنیا سے گزرنے والی ہر نسل بمشکل اس پر غور کرتی ہے
خواہشات کی تکمیل کا موقع بھلا کسی کو اس دار الفناء میں کہاں مل سکتا ہے؟
ہماری زندگی درحقیقت ہمارے تصورات و خواہشات کے مقابلے میں بہت ہی مختصر ہے.
سال 2120 میں ہم سب پر اپنی اپنی قبر میں اس دنیا اور اپنی خواہشات کی حقیقت آشکار ہوچکی ہوگی۔۔۔
ہائے افسوس!!!
اس دھوکے کے گھر میں کیسی احمقانہ خواہشات اور کیسے جاہلانہ منصوبے ہم نے بنا رکھے تھے؟؟
تب ہم پر یہ حقیقت بھی عیاں ہوجائے گی کہ
اے کاش!
ہم نے اپنی ترجیحات میں
اللہ اور اس کے رسول
کی وفاداری کو سب سے پہلے و مقدم رکھا ہوتا تو
آج سب کچھ دنیا میں چھوڑ کر آنے کے بجائے قبر کا زاد راہ اور اعمال صالحہ کی شکل میں صدقہ جاریہ بھی ساتھ لاسکتے.
تب ہمیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہوگا کہ دنیا اس لائق ہرگز نہ تھی کہ
اس کے لیے اتنا سب کچھ جان, مال, وقت اور تمام صلاحیتیں اور جذبات داؤ پہ لگادی جاتیں۔۔۔۔
*آج یہ مضمون پڑھنے والے بہت سے لوگ 2120 میں یہ تمنا کر رہے ہوں گے
"رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ "
اے میرے پروردگار!
مجھے واپس دنیا میں بھیج دے تاکہ میں جو کچھ وہاں چھوڑ آیا ہوں اس میں واپس جاکر نیک اعمال کرسکوں. "
لیکن اس درخواست کا جواب بہت سخت ملے گا:
"كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ0"
(المؤمنون:99-100)
"ہرگز نہیں!
یہ تو صرف ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے
(قابل عمل نہیں ہے).
اب تو قیامت تک ان کے پیچھے باڑ لگادی گئی ہے. "
2120 میں قبر میں وہ یہ تمنا بھی کرے گا:
"يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي" (الفجر:24)
ہائے میری ہلاکت وبربادی! میں اپنی زندگی کے لئے کچھ آگے بھیج دیتا. "
موت کا فرشتہ میرے اور آپ کے نیک ہونے کے انتظار میں نہیں ہے.
آئیے!
موت کے فرشتہ کے انتظار کے بجائے موت کی تیاری کریں اور اعمال صالحہ والی زندگی اختیار کرلیں۔۔۔
یا اللہ یاکریم یا رحمان یا رحیم
ہمیں دین کی دعوت کے ساتھ جوڑ دے اور دین کی دعوت کے کام میں ہمیں استقامت دے اور دوسروں تک یہ پیغام پہنچانے کی توفیق عطا فرما
*_
1⃣: بچوں کو جگانے کے لیے ، اُن کے اوپر سے بستر ہر گز نہیں کھینچنا چاہیے ، نہ انھیں بار بار کہنا چاہیے کہ: اٹھو اٹھو ؛ اور نہ اُنھیں برا بھلا کہیں
2⃣: انھیں رات کو جلدی سُلانے کی کوشش کریں اور یہ ذہن دیں کہ: بیٹا ! صبح آپنے جلدی اٹھنا ہے اور پہلی آواز پہ اُٹھانا ہے اور زندگی بھر کے لیے یہ عادت بنانی ہے کہ پہلی آواز اور الارم کی پہلی ٹون پر بیدار ہو جانا ہے ۔
یہ عادت آپ کو کبھی سُست نہیں پڑنے دے گی ، اور حادثے کی صورت میں آپ کی معاون ثابت ہوگی ۔
3⃣: بچہ جب آپ کی پہلی آواز پر بیدار ہوجائے تو اُسے شاباش دیں اور اس کی تعریف کریں ؛ اگر بیدار نہ ہو تو اُسے جھڑکیں نہیں ، بلکہ اچھے انداز سے اس کا جذبہ بیدار کریں ۔
4⃣: بچے کو جلدی اٹھنے کا عادی بنانے کے لیے ، جلدی سونے کی عادت ڈالیں ۔
5⃣: بچوں کو جلدی سُلانے کے لیے ڈرائیں دھمکائیں نہیں ، بلکہ خود جلدی سوجائیں ، بچے بھی سوجائیں گے ۔
6⃣: بچوں کو دیسی غذائیں ( گھی ، مکھن ، چُوری ، حلوہ ، کھجور ، گُڑ کے چاول وغیرہ ) کھلایا کریں ، تاکہ انھیں پرسکون نیند آئے اور طاقت ور بنیں
👈 اپنی نسلوں کی بہتر تربیت میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں آپکی دنیا اور آخرت سنور جائے گی۔
👈 اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بڑھ کر محبت کرنے والی ہستی 👉
ماں نے اپنے پانچ سالہ بچے کو نہلایا، نئے کپڑے پہنائے، خوشبو لگائی اور پیار دے کر گلی میں ننھے منے دوستوں سے کھیلنے کے لیے بھیج دیا۔ گلی میں دوستوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بچے نے اپنے کپڑے اور جسم کیچڑ اور مٹی سے لت پت کر دیے۔ جب گھر جانے کا وقت آیا تو وہ ڈر کے مارے گلی میں ہی دبکا……رہا کہ اگر گھر گیا تو یہ حشر دیکھ کر امی جان ڈانٹیں گی۔ جب بچہ کافی دیر تک گھر نہ آیا تو ماں پریشان ہو کر دروازے پر آ گئی اور بچے کو کیچڑ سے لتھڑا ہوا دیکھ کر سمجھ گئی کہ ننھے میاں گھر کیوں نہیں آ رہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے بچے کو بلایا اور کہا:‘‘میں کچھ نہیں کہتی۔ آ جاؤ تاکہ……میں تمہیں نہلا کر نئےکپڑے پہنا دوں۔ بچہ ڈرتے ڈرتے گھر آ جاتا ہے۔ ماں بچے کو پکڑ کر اس کے گندے کپڑے اتار دیتی ہے اور نہلا دھلا کر، صاف ستھرے کپڑے پہنا کر اورخوشبو لگا کر اسے کہتی ہے: ‘‘جاؤ جا کر کھیلو۔ لیکن اب کپڑے گندے نہیں کرنا۔’’ بچہ یہ سن کر خوشی خوشی ‘‘کپڑے گندے نہ کرنے……کا ننھا، کمزور اور معصوم سا عزم’’ لیے گلی کی طرف دوڑ لگا دیتا ہے۔
بالکل اسی طرح اﷲ تعالیٰ انسان کو گناہوں سے پاک صاف دنیا میں بھیجتا ہے۔ لیکن انسان دنیا میں آکر کفر،شرک اور دوسرے کئی گناہوں کی گندگیوں سے اپنے آپ کو لت پت کر لیتا ہے۔اب اﷲ اپنے ان گناہگار بندوں کو بتاتا ……ہے کہ:‘‘اے میرے وہ بندو!جنہوں نےاپنے آپ کو گناہوں کی گندگیوں سے آلودہ کر دیا ہے میرے پاس لوٹ آؤ تاکہ میں تمہیں اپنی رحمت سے نہلا دھلا کر دوبارہ گناہوں سے پاک کر دوں۔’’ اب جو بندہ اپنے رب کی پکار پر لبیک کہتا ہوا، اپنے پچھلے گناہوں پر نادم و شرمندہ ہو کر اور آئندہ گناہ نہ……کرنے کا عزم لے کر،اپنے رب کی طرف لوٹ آتا ہے تو اس کا رب اسے قبول فرماتا ہے اور اس سے گناہوں کی آلائشوں کو دور کر کے اسے تقویٰ کا لباس پہنا دیتا ہے۔اسے اپنے محبوب بندوں کی صف میں شامل فرما لیتا ہے۔
یہ دو اندازِ قبولیت ہیں۔ ایک انداز ِ قبولیت اس ماں کا ہے جو اپنے بچے سے شدید……محبت کرتی ہے اوردوسرا اندازِ قبولیت اس ہستی کا ہے جو اپنے بندے سے ستر ماؤں سے بھی بڑھ کر محبت کرتی ہے۔
╭•┄┅═❁✿✿✿✿❁═┅┄•╮
📚📖 اردو تحـــــــاریـــــــر 📖📚
╰•┄┅═❁✿✿✿✿❁
تم گانے سنتی ہو ؟
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کلاس کی لڑکی مجھ سے مخاطب تھی .
نہیں میں نہیں سنتی!
کیوں؟
میں نے کہا اسکے نقصانات کا تمہیں اسلام کی رو سے بتاؤں یا گورے چمڑی (اصلی لبرل)والوں کی رو سے بتاؤں ؟
کہنے لگی ہاں ہاں تم مولویوں کی وہی بات ہوگی کہ
"پگھلا ہوا سیسہ کانوں میں ڈالا جائے گا" .بھلا یہ بھی کوئی بات ہے؟
میں نے جواباً کہا:
گورے چمڑی والے کہتے ہیں کہ گانے زیادہ سننے سے آپکی "thinking ability " کمزور ہو جاتی ہے . کبھی غور کیا ہو جب بھی انسان گانے سنتا ہے تو وہ ایک "imaginary"خیالی دنیا میں چلا جاتا ہے جس کا long term یہ نقصان ہوتا ہے کے انسانی دماغ میں " limbic center"(انسانی دماغ کا وہ حصّہ جہاں long term میموری پڑی ہوتی ہے ) کمزور ہو جاتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ سوچنے اور یاد کرنے کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے. بلکل اسی طرح گانے آپکو جنسی اشتعال بھی دلاتے ہیں. گوگل پر آپکو اسکی لسٹ مل جائے گی کے کس گانے میں کتنا sexual instrument استعمال ہوا ہے . مثلاً hip hop music میں 145% sexual instrument استعمال ہوتا ہے..
کہنے لگی واو، تماری لاجک تو بہت اچھی ہے..
میں نے کہا میری لاجک اچھی نہیں ہے تم ذہنی طور پر انگریزوں کی غلام ہو. بات میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آئی تو تم نے مجھے مولوی کا طعنہ دیا اب انگریز کی بات آئی تو میری لاجک اچھی ہو گئی ؟
ویسے بھی جن تعلیمی اداروں میں ناچ گانوں اور موسیقی کی تربیت دی جاتی ہو وہاں ایکٹرز اور سنگرز پیدا ہوتے ہیں نہ کہ رابعہ بصری اور صلاح الدین ایوبی
👩🔧👨💼ٹیم ایڈمن
الفلاح اسلامک گروپ
نیکیاں.... ضائع کیسے ہوتی ہیں
1- آپ حجاب کر رہی ہیں لیکن میک اپ کے ساتھ اور حجاب کی عبا بہت تنگ اور نا محرم مردوں کے بیچ خوشبو لگانا۔۔۔ تو یہ قابل غور ہے
2- آپ نے داڑھی کو چہرے پر سجایا ہوا ہے لیکن نظریں جھکی ہوئی نہیں ہیں۔۔ تو قابل غور ہے
3- تمام عبادات ٹائم پر انجام دے رہے ہیں لیکن ریاکاری کے ساتھ۔۔ تو قابل غور ہے
4- باہر دوستوں کے ساتھ بہت نرم لہجہ اور رویہ لیکن گھر میں ماں، باپ، بیوی اور بچوں کے ساتھ بداخلاقی۔۔ تو قابل غور ہے
5- مہمانوں کی بہت آو بھگت اور خدمت لیکن ان کے جانے کے بعد ان کی غیبت۔۔ تو قابل غور ہے
6- صدقہ بہت زیادہ نکالنا لیکن اس کے ساتھ ساتھ فقراء کو طعنے تنکے دینا۔۔ تو قابل غور ہے
7- تہجد اور قرآن کثرت سے پڑھنا لیکن رشتہ داروں سے قطع تعلق۔۔ تو قابل غور ہے
8- روزہ رکھ رہے ہیں بھوک اور پیاس کی سختی کو برداشت کر رہے ہیں لیکن اس دوران بداخلاقی اور توہین بھی کر رہے ہیں۔۔ تو قابل غور ہے
9- دوسروں کے ساتھ نیکی کر رہے ہیں لیکن کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے نہ کہ رضاے الہی کے لئے۔۔ تو قابل غور ہے
10- فیس بک پر لا تعداد بہترین پوسٹیں اور ان پر لا تعداد لائیک اور کمنٹس لیکن سب شہرت کے لئے نہ کہ خدا کے لیے۔۔ تو قابل غور ہے
🛑 خبردار:🛑
*نیکیوں کو ضائع ھونے سے بچائیں آپ اتنی محنت کر رہے ہیں جبکہ وہ ساری کی ساری ضائع رہی ہیں اور نیکیوں کی باسکٹ خالی ھوتی جا رھی ھے
No comments:
Post a Comment