Home Page Urdu Islamic Article HR Email Ids Zikar Azkaar
Namaz Quran & Tableegh School HR ID Ulema Ikram Bayanat
Listen Quran Majeed Read Quran Majeed Social Media Ramzan
وہ عورت روز اس نوجوان کو دیکھتی لیکن وہ بغیر اس کی طرف دیکھے سر جھکا کر اسکی گلی سے گزر جاتا ، دیکھنے میں وہ کسی مدرسے کا طالب علم لگتا تھا ، لیکن اتنا خوبصورت تھا کہ وہ دیکھتے ہی اسے اپنا دل دے بیٹھی اور اب چاہتی تھی کہ وہ کسی طرح اس پر نظرِ التفات
ڈالے ۔ لیکن وہ اپنی مستی میں مگن سر جھکائے زیر لب کچھ پڑھتا ہوا روزانہ ایک مخصوص وقت پر وہاں سے گزرتا اور کبھی آنکھ آٹھا کر بھی نہ دیکھتا
اس عورت کو اب ضد سی ہوگئی تھی وہ حیران تھی کہ کوئی ایسا نوجوان بھی ہوسکتا ہے جو اس کی طرف نہ دیکھے ، اور اسے ایسا سوچنے کا حق بھی تھا وہ اپنے علاقے کی سب سے امیر اور خوبصورت عورت تھی خوبصورت اتنی کہ جب وہ باہر نکلتی تو لوگ اسے بے اختیار دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ۔ اسے حیرت تھی کہ جس کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے لوگ ترستے ہیں وہ خود کسی کو پسند کرے اور وہ مائل نہ ہو، اسکی طرف دیکھنا گوارہ نہ کرے
اپنی انا کی شکست اور خوبصورتی کی توہین پر وہ پاگل ہوگئی اور کوئی ایسا منصوبہ سوچنے لگی جس سے وہ اس نوجوان کو حاصل کرسکے اور اسکا غرور توڑ سکے ، آخر کار شیطان نے اسے ایک ایسا طریقہ سجھا دیا جس میں پھنس کر وہ نوجوان اس کی بات مانے بنا رہ ہی نہیں سکتا تھا
اگلے دن جب وہ نوجوان اس گلی سے گزر رہا تھا تو ایک عورت اسکے قریب آئی اور کہنے لگی بیٹا میری مالکن تمہیں بلا رہی ہے ۔ نوجوان نے کہا اماں جی آپ کی مالکن کو مجھ سے کیا کام ہے ، اس عورت نے کہا بیٹا اس نے تم سے کوئی مسلئہ پوچھنا ہے وہ مجبور ہے خود باہر نہیں آسکتی ۔ نوجوان اس عورت کے ساتھ چلا گیا اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جو عورت اسے بلا رہی ہے اسکا منصوبہ کیا ہے وہ کیا چاہتی ہے وہ تو اپنی فطرتی سادہ دلی کی وجہ سے اسکی مدد کرنے کے لیے اس کے گھر آگیا اسکے ذہن میں تھا کہ شاید کوئی بوڑھی عورت ہے جو اپنی کسی معذوری کی وجہ سے باہر آنے سے قاصر ہے نوکرانی نے اسے ایک کمرے میں بٹھایا اور انتظار کرنے کا کہہ کر چلی گئی ، تھوڑی دیر بعد کمرے میں وہی عورت داخل ہوئی نوجوان نے بے اختیار اپنی نظریں جھکا لی کیونکہ اندر آنے والی عورت بہت خوبصورت تھی ،
نوجوان نے پوچھا جی بی بی آپ نے کونسا مسلئہ پوچھنا ہے ۔ عورت کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ آگئی اس نے اپنے دل کا حال کھول کر رکھ دیا اور کہا کہ میری سب سے بڑی خواہش ہے کہ میں ایک دفعہ تمہیں حاصل کرلوں
نوجوان یہ بات سن کر کانپ گیا اور کہنے لگا اللہ کی بندی اللہ سے ڈرو کیوں گناہ کی طرف مائل ہو رہی ہو ۔ اس نے عورت کو بہت سمجھایا لیکن عورت پر تو شیطان سوار تھا اس نے کہا کہ یا تو تم میری خواہش پوری کرو گے یا پھر میں شور مچاؤں گی کہ تم زبردستی میرے گھر میں داخل ہوئے اور میری عزت پر حملہ کیا
نوجوان یہ بات سن کر بہت پریشان ہوا ، اسے اپنی عزت کسی بھی طرح محفوظ نظر نہیں آرہی تھی ، اسکی بات مانتا تو گناہ گار ہوتا نہ مانتا تو لوگوں کی نظر میں برا بنتا ۔ وہ علاقہ جہاں لوگ اسکی شرافت کی مثالیں دیا کرتے تھے وہاں پر اس پر اس قسم کا الزام لگ جائے یہ اسے گوارہ نہیں تھا ، وہ عجیب مصیبت میں پھنس گیا تھا
دل ہی دل میں وہ اپنے اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور اللہ سے مدد چاہی تو اس کے ذہن میں ایک ترکیب آگئی اس نے عورت سے کہا کہ ٹھیک ہے میں تمہاری خواہش پوری کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن پہلے مجھے بیت الخلاء جانے کی حاجت ہے
عورت نے اسے بیت الخلاء کا بتا دیا اس نوجوان نے اندر جاکر ڈھیر ساری غلاظت اپنے جسم پر مل لی اور باہر آگیا ، عورت اسے دیکھتے ہیں چلا اٹھی یہ تم نے کیا کیا ظالم ۔ مجھ جیسی نفیس طبعیت والی کے سامنے اتنی گندی حالت میں آگئے ، دفع ہو جاؤ ، نکل جاؤ میرے گھر سے ۔
نوجوان فورا"اس کے گھر سے نکل گیا اور قریب ہی ایک نہر پر اپنے آپ کو اور اپنے کپڑوں کو اچھی طرح پاک کیا اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوا واپس مدرسے چلا گیا
نماز کے بعد جب وہ سبق میں بیٹھا تو تھوڑی دیر بعد استاد نے کہا کہ آج تو بہت پیاری خوشبو آرہی ہےکس طالب علم نے خوشبو لگائی ہے
وہ نوجوان سمجھ گیا کہ اس کے جسم سے ابھی بدبو گئی نہیں اور استاد جی طنز کر رہے ہیں وہ اپنے آپ میں سمٹ گیا اور اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے
تھوڑی دیر بعد استاد جی نے پھر پوچھا کہ یہ خوشبو کس نے لگائی ہے
لیکن وہ خاموش رہا آخر کار استاد نے سب کو ایک ایک کرکے بلایا اور خوشبو سونگھنے لگے ۔ اس نوجوان کی باری آئی تو وہ بھی سر جھکا کر استاد کے سامنے کھڑا ہوگیا ، استاد نے اس کے کپڑوں کو سونگھا تو وہ خوشبو اسکے کپڑوں سے آرہی تھی استاد نے کہا کہ تم بتا کیوں نہیں رہے تھے کہ یہ خوشبو تم نے لگائی ہے
نوجوان رو پڑا اور کہنے لگا استاد جی اب اور شرمندہ نہ کریں مجھے پتا ہے کہ میرے کپڑوں سے بدبو آرہی ہے لیکن میں مجبور تھا اور اس نے سارا واقعہ استاد کو سنایا
استاد نے کہا کہ میں تمہارا مذاق نہیں اڑا رہا خدا کی قسم تمہارے کپڑوں سے واقعی ہی ایسی خوشبو آرہی ہے جو میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں سونگھی اور یقینا"یہ اللہ کی طرف سے ہے کہ تم نے اپنے آپ کو گناہ سے بچانے کے لیے اپنے آپ کو گندگی لگانا پسند کرلیا لیکن اللہ نے اسی گندگی کو ایک ایسی خوشبو میں بدل دیا جو کہ اس دنیا کی نہیں لگتی
کہتے ہیں کہ اس نوجوان کے ان کپڑوں سے ہمیشہ ہی وہ خوشبو آتی رہی
کاش کہ یہ بات تیرے دل میں اتر جائے
خواہش صرف اتنی ہےکہ کچھ الفاظ لکھوں جس سے کوئی گمراہی کے راستے پر جاتے جاتے رک جائے نہ بھی رکے تو سوچ میں ضرور پڑ جائے
اگر آپ کو یہ تحریر (Post) پسند آئی ہو تو امانت میں خیانت
(یعنی کسی ہچکچاہٹ کے اپنے دوستوں سے شیئر کیجیئے)
اپنے دوست و احباب کو ضرور شیئر کریں
منقول از فیس بک
اصلاحی بات ہے... فرصت نکال کر ضرور پڑھیے..
اسٹوڈنٹس نے ٹیچر سے کہا سر آپ ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلیں 5 گیندوں پر ٹیچر نے 2 رن بنائے چھٹی گیند پر کلین بولڈ ہو گئے...💔
اسٹوڈنٹس نے شور مچا کر بھرپور خوشی ظاہر کی..
کلاس میں ٹیچر نے پوچھا کون کون چاہتا تھا کہ میں اسکی گیند پر آوٹ ہو جاٶں..؟
سب باٶلرز نے ہاتھ کھڑے کر دیئے..
ٹیچر ہنس دیئے پوچھا میں کرکٹر کیسا ہوں..؟
سب نے کہا بہت برے..
پوچھا میں ٹیچر کیسا ہوں جواب ملا بہت اچھے..
ٹیچر پھر ہنس دیئے..
صرف آپ نہیں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے میرے ہزارہا اسٹوڈنٹس جن میں کئی میرے نظریاتی مخالف ہیں گواہی دیتے ہیں کہ میں اچھا ٹیچر ہوں راز کی بات بتاؤں میں جتنا اچھا ٹیچر ہوں اتنا اچھا اسٹوڈنٹ نہیں تھا مجھے ہمیشہ سبق یاد کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور بات سمجھنے میں وقت لگا لیکن کیا آپ بتا سکتے ہیں اسکے باوجود مجھے اچھا ٹیچر کیوں مانا جاتا ہے..؟
سب نے کہا سر آپ بتائیں کیوں..؟
ٹیچر نے کہا ادب...
مجھے اچھی طرح یاد ہے اپنے ٹیچر کے ہاں دعوت کی تیاری میں انکی مدد کر رہا تھا فریزر سے برف نکالی جسے توڑنے کیلئے کمرے میں کوئی شے نہیں تھی استاد کام کیلئے کمرے سے نکلے تو میں نے مکا مار کر برف توڑ دی اور استاد کے آنے سے پہلے جلدی سے ٹوٹی ہوئی برف دیوار پر بھی دے ماری...
استاد کمرے میں آئے تو دیکھا کہ میں نے برف دیوار پر مار کر توڑی ہے انہوں نے مجھے ڈانٹا کہ تمہیں عقل کب آئیگی یوں برف توڑی جاتی ہے میں نے انکی ڈانٹ خاموشی سے سنی بعد میں انہوں نے اس بیوقوفی کا ذکر کئی جگہ کیا میں ہمیشہ بیوقوفوں کی طرح سر ہلا کر انکی ڈانٹ سنتا..
انہیں آج بھی نہیں معلوم کہ برف میں نے مکا مار کر توڑی تھی...
یہ بات میں نے انہیں اسلئے نہیں بتائی کہ وہ ایک ہاتھ سے معذور تھے انکی غیر موجودگی میں میں نے جوانی کے جوش میں مکا مار کر برف توڑ دی لیکن جب انکی معذوری کا خیال آیا تو سوچا کہ میرے طاقت کے مظاہرے سے انہیں احساس کمتری نہ ہو اس لیئے میں نے برف دیوار پر مارنے کی احمقانہ حرکت کی اور لمبے عرصے تک انکی ڈانٹ سنتا رہا...
اور ایک آپ لوگ ہیں کہ ایک دوسرے کو چیخ چیخ کر ہدایات دے رہے تھے کہ سر کو یارکر مار کر آوٹ کرو..
جیتنا سب کچھ نہیں ہوتا کبھی ہارنے سے زندگی میں جیت کے رستے کھلتے ہیں آپ طاقت میں اپنے ٹیچرز اور والدین سے بے شک بڑھ جاتے ہیں لیکن زندگی میں سب سے جیتنا چاہتے ہیں تو اپنے ٹیچرز اور والدین سے جیتنے کی کوشش نہ کریں آپ کبھی نہیں ہاریں گے...
اللہ پاک آپکو ہر میدان میں سرخرو کرے گا...♥️
💖 گلاس ٹوٹ گیا 💖
عربی اخبار میں شائع ہونے والی ایک خوبصورت تحریر
" یہ ایک سعودی طالبعلم کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہے جو حصول تعلیم کے لیئے برطانیہ میں مقیم تھا وہ طالبعلم بیان کرتا ہے کہ مجھے ایک ایسی انگریز فیملی کے ساتھ ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہنے کا اتفاق ہوا جو ایک میاں بیوی اور ایک چھوٹے بچے پر مشتمل تھی۔
ایک دن وہ دونوں میاں بیوی کسی کام سے باہر جا رہے تھے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر آپ گھر پر ہی ہیں تو ہم اپنے بچے کو کچھ وقت کے لیئے آپ کے پاس چھوڑ دیں؟ میرا باہر جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا
اس لیئے میں نے حامی بھر لی وہ بچہ مجھ سے کافی مانوس تھا کچھ دیر کھیلنے کے بعد وہ مجھ سے اجازت لے کر کچن میں گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد مجھے کسی برتن کے ٹوٹنے کی آواز آئ اور ساتھ ہی بچے کی چیخ سنائی دی میں جلدی سے کچن میں گیا
اور دیکھا کہ شیشے کے جس گلاس میں بچہ پانی پی رہا تھا وہ اس کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ چکا تھا اور بچہ ڈر کر اپنی جگہ سہما کھڑا تھا میں نے بچے کو تسلی دی اور کہا کہ تم پریشان نہ ہو اور امی واپس آئیں تو ان سے کہنا کہ گلاس انکل سے ٹوٹ گیا تھا پھر میں نے سوچا کہ اگلے دن ایک گلاس لا کر کچن میں رکھ دوں گا۔
یہ ایک معمولی واقعہ تھا اور میرے خیال میں پریشانی والی کوئی بات نہیں تھی، جلد ہی وہ دونوں میاں بیوی واپس آگئے اور میں نے بچے کو ان کے حوالے کر دیا وہ عورت جب کچن میں گئ اور گلاس ٹوٹا ہوا پایا تو بچے سے پوچھا
بچے نے اس کو وہی بتایا جو کہ میں اس کو سمجھا چکا تھا، اسی شام کو وہ بچہ میرے پاس بہت افسردہ حالت میں آیا اور مجھے کہا کہ انکل میں نے امی کو سچ بتا دیا ہے کہ وہ گلاس آپ نے نہیں بلکہ میں نے توڑا ہے ،،،،،
اگلی صبح میں یونیورسٹی جانے کے لیئے تیار ہو رہا تھا کہ میرے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو سامنے اس بچے کی ماں کھڑی تھی
اس نے مجھے صبح بخیر کہا اور نہایت سائستگی سے میرا نام لے کر کہا کہ ہم آپ کو ایک نفیس اور شریف آدمی سمجھتے ہیں مگر آپ نے ہمارے بچے کو جھوٹ بولنے کی ترغیب دے کر اپنا وقار خراب کر لیا ہے
ہم نے آج تک کسی بھی معمولی یا بڑی بات پر اپنے بچے سے جھوٹ نہیں بولا نہ کبھی اس کو جھوٹ بولنے کی ترغیب دی ہے
لہذا ہم آپ کو مزید اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے برائے مہربانی آپ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اپنے لیئے کسی دوسری رہائش کا بندوبست کر لیں
ہم مومنین ایک لمحہ کے توقف کے ساتھ اپنا ہلکا سا احتساب کریں کہ ہم میں سے تقریباً ہر بندہ صبح سے لے کر شام تک معمولی باتوں پر کتنی دفعہ جھوٹ بولتا ہے اور کتنی دفعہ ہمارے بچے جھوٹ بولتے ہیں جس پر ہمیں کوئی ملال نہیں ہوتا۔
الله ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں ہر حال میں سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے آمین✨
ترسیل: تنظیم اسلامی ممبئی
منقول
⭐علامہ ابن باز رحمہ اللہ کا فیصلہ ⭐
ایک بار کی بات ہے کہ اس زمانے میں ایک طالب علم کی شرارت اور یونیورسیٹی کے قوانین کا لحاظ نہ رکھنے کے سبب وہاں کے تمام اساتذہ نے اس کو یونیورسیٹی سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا ،
کیوں کہ سب اس کی حرکتوں سے تنگ آچکے تھے لیکن اس فیصلے پر آخری رائے علامہ ابن باز کی لینی باقی تھی، تمام اساتذہ اس مسئلہ کو لے کر ان کے پاس پہونچے اور سب نے مل کر کہا محترم ! اس طالب علم کی وجہ سے یونیورسیٹی کا ماحول خراب ہورہا ہے
کئی بار ہم لوگوں نے اپنے طور پر چاہا کہ وہ اپنی عادت سے باز آجائے ، اپنے اندر تبدیلی پیدا کرلے ، لیکن وہ اپنی عادت سے باز آنے کا نام نہیں لیتا ، دن بدن اس کی شرارتیں بڑھتی ہی جارہی ہیں ، اگر اس کو یونیورسیٹی سے نکال باہر نہ کیا گیا تو آنے والے وقت میں حالات اور بھی پیچیدہ ہو سکتے ہیں ،
اسی لئے آپ اس کے بارے میں ہم لوگوں کی رائے کو مان لیجئے ، اور اس طالب علم کو باہر کا راستہ دکھادیجئے ، تاکہ یونیورسیٹی کے اندر امن وامان کی فضاء قائم ہو ،
علامہ ابن بازؒ نے اساتذہ کی بات سننے کے بعد فوراً ہنگامی میٹنگ طلب کی اور اس طالب علم کو بھی علامہ کی خدمت میں حاضر کیا گیا ، وہ دل ہی دل یہ سوچ رہا تھا کہ شاید یہ اس کا آخری دن ہے کیونکہ معاملہ بہت آگے تک بڑھ گیا ہے ، لیکن اس وقت اس کی حیرت کی انتہاء نہ رہی جب اس نے دیکھا
کہ وقف کے مایہ ناز محقق، بے پناہ شہرت وعزت کے حامل علامہ ابن بازؒ کھڑے ہوئے اساتذہ سے مخاطب ہو کر اللہ کی حمدوثنا بیان کرنے کے بعد کہا ، بھائیو! اسلام ایک سیدھا دین ہے ہم خیر امت ہیں ، ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کی پیدائش کا مقصد ہی دنیا کو غلط راستے سے ہٹاکر سیدھا راستہ دکھانا ہے ،
ہم اس دنیا میں دین سے دور لوگوں کو ہدایت کی طرف بلانے کے لئے بھیجئے گئے ہیں ، جس طالب علم کے بارے میں آپ لوگ ہمارے پاس شکایت لے کر آئے ہیں وہ نہ تو میرا رشتہ دار ہے اور نہیں اس سے مجھے کوئی ناجائز ہمدردی ہے ، بس میں اتنا جانتا ہوں کہ یہ قوم کا ایک فرد ہے ، جس کا ضائع ہو جانا افسوس کی بات ہوگی ، یہ اپنی ماں باپ کو چھوڑ کر سات سمندر پار علم حاصل کرنے آیا ہے ممکن ہے شیطان کے بہکاوے میں مبتلا ہو کر اس نے ایسی حرکتیں کی ہوں گی ،
جو یونیورسیٹی کے نظام کے خلاف ہے ، یا جس سے آپ لوگوں کی عزت پہ حرف آتا ہو لیکن ذرا مجھے بتائیے کہ ہم تمام لوگ جن کے سینوں میں اسلام کی سربلندی اور اللہ کے پیغام کو عام کرنے کے لئے ارمان مچل رہے ہیں کیا ہمارا ایمان اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ سارے لوگ مل کر بھی ایک بچے کی اصلاح نہیں کرسکتے ہیں ؟ ؟ کیا ہمارے اندر سے استقامت اور صبر کا جذبہ ختم ہوگیا ہے ؟
علامہ ابن باز بولتے بولتے جذباتی ہوگئے اور ان کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے ، لبوں پہ تھرتھراہٹ پیدا ہوگئی ، علامہ کی یہ کیفیت دیکھ کر وہاں پہ موجود تمام اساتذہ کے آنکھیں بھی بھر آئیں ، وہ طالب علم بہت شرمندہ ہوا اور علامہ ؒ کی بات سن کر رونے لگا ، چند منٹ تک پوری مجلس میں خاموشی چھائی رہی اس کے بعد سبھی اساتذہ کھڑے ہوئے اور سبھوں نے مل کر بیک زبان کہا کہ محترم! ہم لوگوں نے جذبات میں غلط فیصلہ کرلیا ہے ، یہ طالب یونیورسیٹی میں ہی رہے گا
ہم تمام لوگ آپ سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ انشاء اللہ اس کو پورے طور پر ایک نیک انسان بنادیں گے جہاں تک ممکن ہوگا اس کی اصلاح کی کوش کریں گے ۔
اس و اقعہ کو گذرے ہوئے بیس سال کا طویل عرصہ بیت گیا اس بیچ کتنے طالب علم آئے گئے ، یونیورسیٹی کی پچھلی تمام یادیں ماضی کا حصہ بن کر رہ گئیں ، اس طالب علم کو فراغت حاصل کر کے نکلے ہوئے بھی زمانہ گذرگیا بیس سال کی لمبی مدت کے بعد علامہ ابن باز ؒ افریقہ تشریف لے گئے ، وہاں کے مختلف تاریخی جگہوں کو دیکھا وعظ ونصیحت کا سلسلہ ہر جگہ جاری رہا اسی بیچ ان کا گذر ایک ایسی جگہ سے ہوا جہاں کا چپہ چپہ مسلمانوں کی شان وشوکت کا گواہ تھا ، ہر طرف ٹوپی کرتا میں ملبوس لوگ سڑکوں پہ دکھائی دے رہے تھے، بلند وبالا مسجدوں سے آتی ہوئی اذان کی آوازیں اس پورے علاقے کو ایمان کی روشنی سے منور کئے ہوئی تھیں ،
گھروں سے قرآن کی تلاوت کی صدائیں صاف سنائی دے رہی تھیں ، علامہ ابن بازؒ کے ساتھ جو لوگ ان کی رہنمائی کررہے تھے ، انہوں نے بتایا کہ محترم یہ پورا علاقہ کبھی کفر کا گہوارہ تھا ، مختلف قسم کی بدعتیں یہاں رائج تھیں ، ایک خدائے واحد کی پرستش چھوڑ کر لوگ اپنی من مانی زندگی گذاررہے تھے لیکن سالوں قبل کی بات ہے کہ ایک عالم دین یہاں آئے انہوں نے کمر توڑ کوشش کی ، لوگوں کو ایک اللہ کی عباد ت کی طرف بلایا ، سکون واطمینان کو ترس رہے یہاں کے باشندوں نے جب اسلام کا پیغام سنا تو ماضی کی تمام خرافات سے توبہ کر کے اسلام قبول کرتے گئے ، اور آج الحمدللہ ! یہ بستی ہی نہیں پورا علاقہ اسلام کی روشنی سے جگمگا رہا ہے ،
علامہؒ نے پوچھا کہ کیا وہ عالم دین ابھی حیات سے ہیں؟ پتہ چلا کہ کچھ دور کے فاصلے پر جہاں لوگوں کا ہجوم ہے دو دراز مقامات سے لوگ ڈھیرسارے مسائل لے کر آتے ہیں ، وہ ہر وقت ان کے مسائل کا تشفی بخش جواب دیتے ہیں ، وہ وہیں پہ موجود ہوں گے ،
علامہؒ نے اسلام کے اس داعی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی چند لوگوں کے ساتھ ان کے پاس پہونچے قریب جاکر اس داعی سے علامہ کی نگاہیں ٹکرائیں تو وہاں پہ موجود تمام لوگوں نے جو منظر دیکھا اس سے سبھی لوگ حیران رہ گئے انہوں نے کیا دیکھا
کہ جیسے ہی علامہؒ دعوت وتبلیغ کرنے والے اس عالم دین کے پاس پہونچے تو وہ علامہؒ کو دیکھتے ہی دوڑتے ہوئے آئے اور گلے سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ، علامہ کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ معاملہ کیا ہے ؟
بالآخر اس عالم دین نے اپنے آنسو پوچھتے ہوئے اپنا تعارف پیش کیا اور کہا کہ محترم ! ممکن ہے آپ کو یاد نہ ہو میں وہی طالب علم ہوں جو آج سے بیس سال پہلے آپ کی مہربانی کی بنا پر مدینہ یونیورسیٹی سے نکلتے نکلتے بچ گیا ، اور میرا مستقبل تاریکی سے محفوظ رہا ، آپ کی نصیحتوں کا ہی اثر ہے کہ اللہ نے مجھے اس لائق بنادیا کہ آج لوگ امنڈتے ہوئے سیلاب کی طرف میرے ہاتھوں اسلام قبول کررہے ہیں پورا علاقہ اللہ کی وحدانیت سے گونج رہا ہے یہ سن کر علامہ نے انہیں ڈھیر ساری دعاؤں سے نواز ا اور کہا بیٹا! زندگی کے آخری سانس تک اسی طرح اپنے مشن میں لگے رہنا کیوں کہ ’’ یہ دنیا کی زندگی تو بس دھوکے کا سامان ہے اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور جو تم کررہے ہو یہ آخرت کی سب سے اچھی تیاری ہے۔
🍁" یــہ زندگی ہـے__!!!🍁
اک امتحاں مسلسل_!!!🍂
کبھی بے تحاشہ خوشیاں
کبھ غم کی شب مسلسل_!!!🍂
کبھی ساتھ ہو سبھی کا
کبھی ہوجائیں اکیلے__
کبھی ہو اداسی پل پل
کبھی قہقہے مسلسل__!!!🍂
کبھی ساتھ دوستوں کا
کبھی محفلوں میں رونق__
کبھی بھیڑ میں بھی تنہا
کبھی خاموشی مسلسل_!!!🍂
کبھی اپنوں سے لڑائی
کبھی ہو جاۓ جدائی__
کبھی بات بھی نہ کرنا
کبھی گفتگو مسلسل_!!!🍂
کبھی رب کو یاد کرنا
تسبیح نماز پل پل__
کبھی ایک سجدہ مشکل
اور دنیا میں گم مسلسل_!!!🍂
جب مشکلوں کا دور ہو
اور سازشوں کا زور ہو
جب رات بالکل گھور ہو…
اور تم بہت کمزور ہو
تم رب سے رشتہ جوڑ کر…
اور اس کا دامن تھام کر
تم اس کی رحمت مانگ کر…
تم اس پہ مشکل چھوڑدو
جب ظلمتوں پہ زور ہو…
اور زندگی بے جوڑ ہو
جب یاس کا کچھ زور ہو…
اور تم پر اس کا دور ہو
تم اخروی ایمان پر…
تم اس کا دامن تھام کر
جنت کا سودا کر ہی لو…
تم اس پر مشکل چھوڑدو
جب دوست سب ناراض ہوں…
اپنے ہی دل کی کاٹ ہو
جب مشکلیں ہزار ہوں…
کوئی نہ غم خوار ہو
تو رب سے رشتہ جوڑ کر…
تم درگزر کرتے رہو
ان جنتوں کی راہ میں…
تم اس پر مشکل چھوڑدو
عورت کی بربادی تب شروع ہو جاتی ہے جب اسے،مختلف، مردوں سے اپنی تعریف سننے کاچسکا پیدا ہو جاتا ہے
،لفظ مختلف غور طلب ہے،✌✌
No comments:
Post a Comment