Tuesday, September 22, 2020

Urdu Article: Fashion, Message for Married Women, Shadi Shuda Kamyab Zindagee, Golden Chain, Aik Lerki ka qissa

 

Home Page  Urdu Islamic Article  HR Email Ids  Zikar Azkaar

Namaz Quran & Tableegh   School HR ID  Ulema Ikram Bayanat

Listen Quran Majeed   Read Quran Majeed  Social Media  Ramzan

Khulasa Quran Majeed


 

 

 👩‍🎤 فیشن کی اس دور نے عورت کو بلکل ننگا کر دیا ہے۔۔۔۔!!!!

آج ایک نہایت اہم مسئلے پر بات کریں
مجھے پتا۔
بہت سی عیاش اور بگڑی ہوئی اولادیں میری پوسٹ کو دیکھ کر Scroll Down کر دیں گی۔
کیونکہ اتنی غیرت نہیں کہ سامنا کر سکو۔ 🤐
ہمارے معاشرے میں اکثر اوقات دیکھ رہا ہوں کہ لڑکیوں نے ایسا لباس اوڑھنا شروع کر دیا۔
کہ وہ اگر لباس نا بھی پہنیں تو بلکل ایسی نظر آئیں جیسی اس لباس میں ہوتی۔
مطلب ۔
وہ حدیث پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پوری ہوگئی۔
ایک زمانہ آئے گا جب عورت لباس میں بھی ننگی ہوگی۔ 😕

اور لباس ہے کیا۔
ٹائیٹ جینز، شارٹ قمیض ، اور گلے اتنے کھلے جیسے کدھے کو سوٹ پہنانا ہو۔
اور دوپٹہ ختم ہوتا جارہا۔
اپنی زینت کی چیزیں سب کو دیکھائی جارہی۔

میرا سوال ہے۔
ایسی سب لڑکیوں سے۔۔
کیا آپ ایسا گھٹیا لباس پہن کر غیر مردوں کو یہ دیکھانا چاہتی ہو کہ یہ دیکھو ہمارے جسم میں یہاں یہاں حوس نما گوشت زیادہ ہے۔🤐 اور یہاں پر یہ کچھ ہے۔ 😡
اور سب سے بڑے بےغیرت اور دلال ہیں وہ سب ماں باپ اور بھائی جن کی جوان بہنیں ایسا لباس پہن رہی جس سے انکا جسم صاف ظاہر ہوتا۔ 😡

اور یہ بات کل قیامت کے دن معلوم ہوگی۔
جب اللہ تعالی کے حضور اکیلے اکیلے جانا ہوگا۔
لڑکیوں کیا تمہیں ڈر نہیں لگتا۔😒
جب اکیلی اللہ تعالی کے سامنے حاضر ہوں گی۔۔کیا جواب دوگی اپنی آج کی بے حیائی فحاشی کا۔۔😒
آپ کو اس حدیث پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے معلوم نہیں ہوا۔
کہ جہنم میں سب سے زیادہ تعداد اس امت کی عورتوں کی ہے۔۔😕 قرآن کریم کے مطابق بھی۔
اللہ تعالی کا یہی حکم ہے۔
کہ مومن عورتوں کو چاہیے کہ مکمل اچھا لباس پہنیں اور اپنی زینت کی چیزیں کسی پر ظاہر مت کریں ۔

نا آپ اللہ تعالی کی مان رہے نا پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مان رہے۔
بلکہ اکڑ کر گناہ کر رہے۔فخریہ ہوکر۔ فیشن ہوتا۔  فیشن کی دوڑ میں ایک عورت کو عورت نے ہی ننگا کر کہ کھڑا کردیا۔
آج شیطان کی مان رہی ہو کل شیطان کے ساتھ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ بھی دیکھ لینا۔۔😭

حدیث پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مطابق ۔
جو ایک نیک باپردہ عورت جس نے ساری زندگی کسی نامحرم مرد کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں رکھا۔ سختی سے پوری طرح باپردہ رہ کر زندگی گزاری۔
اللہ تعالی کے احکام کو پورا کیا۔
ایسی عورت کو کل قیامت کے دن جنت کے 8 دروازوں سے پکارا جائے گا۔۔🥰
بڑا سخت ترین عذاب ہے ایسی عورتوں کے لئے جو خود بے حیائی فحاشی کو پھیلانے کی دن رات کوشش کرتی ہیں اور اس سے اور لوگوں کو گناہ گار کرتی ہے۔ 🤐
آخر میں ایک بات۔
جس جس کو یقین ہے۔ کہ اسنے مرنا ہے۔ قبر کی سخت اندھیری رات دیکھنی ہے۔ قیامت کے دن اللہ پاک کا سامنا اکیلے کرنا ہے۔
وہ آج ہی توبہ کرے۔ اور ہمیشہ کی زندگی کو آج کی دو دن کی جھوٹی مکار زندگی کے بدلے چھوڑ نا دے۔

میرا سلام ان تمام قابل احترام خواتین کو جنہوں نے سخت گرمی میں بھی کسی شادی وغیرہ پر بھی احکام الہی کو قائم رکھا۔
ایسے غیرت مند بھائیوں کو بھی سلام جنہوں نے اپنے گھروں کی عورتوں پر کنڑول رکھا۔
اب جس کے دل پر مہر لگ گئی ہے۔ جس جس کا ایمان شیطان کے ہاتھ میں ہے وہ عورت ننگی رہ سکتی ہے مگر لباس اچھا نہیں پہنے گی۔ خود بھی جہنم کا راستہ ہموار کر رہی اور اپنے ساتھ اپنے بھائی ۔باپ شوہر بیٹے کو بھی جہنم میں دھکیل رہی😭

میرا کام بس بتانا ہے۔ کسی کے دماغ میں گھول کر نہیں ڈال سکتا۔
اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔“ آمین
✒️تحریر= گمنام سپاہی

 

 

 


ایک بوڑھی خاتون کا انٹرویو جنہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ پچاس سال کا عرصہ پرسکون طریقے سے ہنسی خوشی گزارا۔
 
خاتون سے پوچھا گیا کہ اس پچاس سالہ پرسکون زندگی کا راز کیا ہے؟
کیا وہ کھانا بنانے میں بہت ماہر تھیں؟
یا پھر ان کی خوبصورتی اس کا سبب ہے؟
یا ڈھیر سارے بچوں کا ہونا اس کی وجہ ہے یا پھر کوئی اور بات ہے؟

بوڑھی خاتون نے جواب دیا:
پرسکون شادی شدہ زندگی کا دار ومدار اللہ کی توفیق کے بعد عورت کے  ہاتھ میں ہوتا ہے، عورت چاہے تو اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے اور چاہے تو اس کے برعکس یعنی جہنم بھی بنا سکتی ہے،
اس سلسلے میں مال ودولت کا نام مت لیجیے، بہت ساری مالدار عورتیں جنکی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے، شوہر ان سے بھاگا بھاگا رہتا ہے۔

خوشحال شادی شدہ زندگی کا سبب اولاد بھی نہیں ہے، بہت ساری عورتیں ہیں جن کے چھ چھ سات سات بچے ہیں پھر بھی وہ شوہر کی محبت سے محروم ہیں بلکہ طلاق تک کی نوبت آجاتی ہے
بہت ساری خواتین اعلیٰ سے اعلیٰ ترین کھانا پکانے میں ماہر ہوتی ہیں دن دن بھر نئے سے نیا کھانا بناتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں ہر روز شوہر کی بدسلوکی کی شکایت رہتی ہے۔

انٹرویو لینے والی خاتون صحافی کو بہت حیرت ہوئی اس نے پوچھا:
پھر آخر آپ کی اس خوشحال زندگی کا راز کیا ہے؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا:
جب میرا شوہر انتہائی غصے میں ہوتا ہے تو میں خاموشی کا سہارا لے لیتی ہوں لیکن اس خاموشی میں بھی احترام شامل ہوتا ہے، میں افسوس کے ساتھ سر جھکا لیتی ہوں،
ایسے موقع پر بعض خواتین خاموش تو ہوجاتی ہیں لیکن اس میں تمسخر کا عنصر شامل ہوتا ہے اس سے بچنا چاہیے، سمجھدار آدمی اسے فوراً بھانپ لیتا ہے۔

نامہ نگار خاتون نے پوچھا:
ایسے موقعے پر آپ کمرے سے نکل کیوں نہیں جاتیں؟

بوڑھی خاتون نے جواب دیا:
نہیں ایسا کرنے سے شوہر کو یہ لگے گا کہ آپ اس سے جان چھڑا رہی ہیں، اس کی کوئی بات سننا ہی نہیں چاہتی ہیں،
ایسے موقعے پر خاموش رہنا چاہیے اور جب تک وہ پرسکون نہ ہوجائے اس کی کسی بات کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔

جب شوہر کسی حد تک پرسکون ہوجاتا ہے تو میں کہتی ہوں:
پوری ہوگئی آپ کی بات؟

پھر میں کمرے سے چلی جاتی ہوں، کیونکہ میرا شوہر بول بول کر تھک چکا ہوتا ہے اور چیخنے چلانے کے بعد اب اسے تھوڑے آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔

میں کمرے سے نکل جاتی ہوں اور اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہوں بس۔

خاتون صحافی نے پوچھا:
اس کے بعد آپ کیا کرتی ہیں، کیا آپ بول چال بند کرنے کا اسلوب اپناتی ہیں؟ ایک آدھ ہفتہ بات چیت ہی نہیں کرتیں؟

بوڑھی خاتون نے جواب دیا:
نہیں تو، اس بری عادت سے ہمیشہ بچنا چاہیے یہ دو دھاری ہتھیار ہے، جب آپ ایک ہفتے تک شوہر سے بات چیت نہیں کریں گی ایسے وقت میں جب کہ اسے آپ کے ساتھ مصالحت کی ضرورت ہے تو وہ اس کیفیت کا عادی ہو جائے گا اور پھر یہ چیز بڑھتے بڑھتے خطرناک قسم کی نفرت کی شکل اختیار کر لے گی۔

صحافی نے پوچھا، پھر آپ کیا کرتی ہیں؟
بوڑھی خاتون بولیں:
میں دو تین گھنٹے بعد شوہر کے پاس ایک گلاس جوس یا ایک کپ کافی لیکر جاتی ہوں اور محبت بھرے انداز میں کہتی ہوں:  پی لیجیے۔
حقیقت میں شوہر کو اسی کی ضرورت ہوتی ہے،

پھر میں اس سے نارمل انداز میں بات کرنے لگتی ہوں،
وہ پوچھتا ہے کیا میں اس سے ناراض ہوں؟
میں کہتی ہوں: نہیں تو،
اس کے بعد وہ اپنی سخت کلامی پر معذرت ظاہر کرتا ہے اور خوبصورت قسم کی باتیں کرنے لگتا ہے۔

انٹرویو لینے والی خاتون نے پوچھا: اور آپ اس کی یہ باتیں مان لیتی ہیں؟
بوڑھی خاتون بولیں:
بالکل میں کوئی اناڑی تھوڑی ہوں مجھے اپنے آپ پر پورا بھروسہ ہے۔
کیا آپ چاہتی ہیں کہ میرا شوہر جب غصے میں ہو تو میں اس کی ہر بات کا یقین کرلوں اور جب وہ پرسکون ہو تو اس کی کوئی بات نہ مانوں؟
خاتون صحافی نے پوچھا: اور آپکی عزت نفس (self respect)؟

بوڑھی خاتون بولیں: پہلی بات تو یہ کہ میری عزت نفس اسی وقت ہے جب میرا شوہر مجھ سے راضی ہو اور ہماری شادی شدہ زندگی پرسکون ہو،
دوسری بات یہ کہ شوہر بیوی کے درمیان عزت نفس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی،
جب بیوی اور شوہر ایک دوسرے کے لباس ہیں تو پھر کیسی عزت نفس؟

👌 شیئر اینڈ سپورٹ دى فیملی لائف ـ

 

 

 

 

"عورت کی عزت! "
اشفاق احمد مرحوم فرماتے ہیں کہ میں اپنی اہلیہ بانو کے ساتھ انگلینڈ کے ایک پارک میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں تبلیغی جماعت کے کچھ نوجوان چہل قدمی کرتے ہوئے پارک میں آئے، اتنے میں مغرب کا وقت ہوا تو انہوں نے وہیں جماعت شروع کر دی۔
ان نوجوانوں کو نماز پڑھتا دیکھ کچھ نوجوان لڑکیوں کا ایک گروپ ان کے پاس پہنچا اور نماز مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ آو دیکھتے ہیں کہ ان کے درمیان کیا بات ہوتی ہے۔
مرحوم فرماتے ہیں کہ ہم دونوں میاں بیوی وہاں چلے گئے اور نماز ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے۔
نماز ختم ہوتے ہی ان میں سے ایک لڑکی نے آگے بڑھ کر جماعت کروانے والے نوجوان سے پوچھا کہ کیا تمھیں انگلش آتی ہے؟
تو نوجوان نے کہا کہ جی ہاں آتی ہے۔
تو لڑکی نے سوال کیا کہ تم نے ابھی یہ کیا عمل کیا؟
تو نوجوان نے بتایا کہ ہم نے اپنے رب کی عبادت کی ہے۔
تو لڑکی نے پوچھا آج تو اتوار نہیں ہے تو آج کیوں کی؟
تو نوجوان نے اسے بتایا کہ یہ ہم روز دن میں پانچ بار یہ عمل کرتے ہیں، تو لڑکی نے حیرت سے پوچھا کہ پھر باقی کام کیسے کرتے ہو تم؟
تو اس نوجوان نے اسے مکمل طریقہ سے پوری بات سمجھائی۔
بات ختم ہونے کے بعد لڑکی نے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا تو نوجوان نے کہا کہ معذرت کے ساتھ میں آپ کو چھو نہیں سکتا، یہ ہاتھ میری بیوی کی امانت ہے اور یہ صرف اسے ہی چھو سکتا ہے۔
یہ سُن کر وہ لڑکی زمین پر لیٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور روتے ہوئے بولی کہ اے کاش! یورپ کا نوجوان بھی اسی طرح ہوتا تو آج ہم بھی کتنی خوش ہوتی۔
پھر بولی کہ واہ کتنی ہی خوش نصیب ہے وہ لڑکی جس کے تم شوہر ہو۔
یہ کہہ کر وہ لڑکی وہاں سے چلی گئی۔

اشفاق مرحوم فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ"بانو! آج یہ نوجوان اپنے عمل سے وہ تبلیغ کر گیا جو کئی کتابیں لکھنے سے بھی نہیں ہوتی۔"

بے شک عزت اور سر بلندی اسلام میں ہی ہے .
یا اللہ ہمیں اپنی خاص رحمت سے دین اسلام پر صحیح طرح عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور دین اسلام پر استقامت عطا فرما.
آمین ثم آمین💞💞

 

 

 

 

 

🍁گولڈن چین" کا آپ کو علم ہے؟؟

حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی مدظلہ نے ایک مرتبہ فرمایا .
یہ نیت کر لو کے یا اللہ میں جو بھی نیک عمل کروں اس کا ثواب حضرت آدَم عليه السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے ہر مسلمان کو پہنچا دینا.

فائدہ : مثال کے طور پر ہم نے ایک مرتبہ " سبحان اللہ " پڑھا اِس کی ایک نیکی ہوئی اور ایک نیکی کا دس گنا ثواب دیا جاتا ہے یعنی ہمیں دس نیکیاں ملی . اب ہَم نے اِس کا ثواب سارے مسلمانوں کو بخشا ، گویا ہَم نے ہر مسلمان کے ساتھ احسان کیا اور ہر مسلمان کے ساتھ احسان کرنے کے بدلے ہمیں ایک نیکی ملی ایک نیکی کا اجر دس گنا یعنی دس نیکی . اور کتنے مسلمان اِس دنیا سے گئے اور کتنے آئینگے کیا ہَم اِس کا اندازہ کر سکتے ہیں.

ذرا سوچیے کے ایک مرتبہ " سبحان اللہ " پڑھ کر بخشنے پر کتنی نیکیاں ملی .
اب سوچ کیا رہے ہیں ابھی سے نیت کر لی جائے اور اپنے آخرت كے اکاؤنٹ میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں جمع کیجئے

اگر آپ اور زیادہ ثواب پانا چاہتے ہیں تو اِس بات کو دوسروں سے شیئر کیجئے اور انہیں بھی تاکید کریں کے وہ شیئر کریں .

جو بھی آپکی بات پر عمل کرے گا اسکو تو ثواب ملے گا اتنا ہی ثواب آپ کے اکاؤنٹ میں بھی جمع ھو جائے گا . . ان شاءالله.....
حضرت جی اسے " گولڈن چین " کہتے ہیں اب یہ آپ پر منحصر ہے کے آپ اپنی چین کتنی لمبی کرتے ہیں . ھم لوگ اپنی قبروں میں چلے جائینگے لیکن ھماری گولڈن چین کی وجہ سے اپنی قبر میں ھم کو ثواب مل سکتا ہے .

 

 

 

 

ایک لڑکی قصہ لکھتی ہے کہ✏

میں نے گھر کی صفائی کی اسی دوران بھائی نے فون کیا کہ میں بیوی بچوں سمیت تمہاری ملاقات کیلئے آرہا ہوں.🎀

کہتی ہے کہ میں باورچی خانہ چلی گئ ، تاکہ ان کیلئے جلدی میں کچھ تیار کرسکوں، پر گھر میں صرف دو تین آم ہی پڑے تھے،جلدی میں دو گلاس جوس تیار کرلی. 😥

   جب وہ آئے، تو بھائی کے ساتھ اس کی ساس بھی تھی!
جو کہ اس سے پہلے کبھی بھی نہیں آئی تھی،تو میں نے دو گلاس جوس ماں اور بیٹی کے سامنے رکھ دی اور پانی کا گلاس بھائی کے سامنے رکھ کر کہا کہ،مجھے معلوم ہے کہ آپ کو سیون اپ پسند ہے... بھائی نے جیسے ہی گلاس منہ سے لگایا تو سمجھ گیا کہ یہ تو پانی ہے،😜
اسی دوران ساس نے میرے بھائی سے کہا: بیٹا سیون اپ میرے معدے کیلئے اچھا ہے اس لئے میرا جوس تم پی لو اور سیون اپ مجھے دو! 😭
یہاں پر میرے اوسان خطاء ہوئے،سخت شرمندگی ہوئی کہ میری چالاکی رسوا ہوگئ، پر ﷲ میرا بھائی💚 سلامت رکھے.

   بھائی نے اپنی ساس سے کہا:اس گلاس سے تو میں نے کافی سیون اپ پی لیا ہے، آپ کیلئے میں فریج سے بوتل لاتا ہوں، اس نے گلاس لیا اور جلدی سے باہر نکلا، تھوڑی دیر بعد ہم نے گلاس ٹوٹنے کی آواز سنی! بھائی واپس آیا، ساس سے کہا کہ سیون اپ کا بوتل تو مجھ سے گر کر ٹوٹ پڑا،میں جلدی سے تمہارے لئے دکان سے ایک بوتل لے آتا ہوں؟ ساس نے سختی سے انکار کیا کہ چلو یہ میرے نصیب میں نہیں تھا.🙏

   جب وہ رخصت ہونے لگے تو بھائی پیچھے رہا،خدا حافظ کہا مصافحہ کیلئے ہاتھ دیا، اور اسی دوران ہاتھ میں پیسے بھی تھمادیے ، اور مسکرا کر بولا، میری پیاری بہن کچن میں گرے ہوئے سیون اپ کی جگہ کو دھو ڈالنا.

اسی طرح میرے پیارے بھائی نے میری کمزوری پر پردہ بھی ڈالا اور میرے ساتھ مدد بھی کی۔

 محبت کیساتھ رہے اور اپنے بہنوں کا خاص خیال رکھے اور دوسروں کے بہنوں کو عزت کے نگاہ سے دیکھے

 

 

 

 

 

اُردُو زُبان کا خون کیسے ہوا ؟
 اور ذمہ دار کون ہے؟

یہ ہماری پیدائش سے کچھ ہی پہلے کی بات ہے جب مدرسہ کو اسکول بنا دیا گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔۔
لیکن ابھی تک انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔ صرف انگریزی کے چند الفاظ ہی مستعمل تھے،
مثلا":
ہیڈ ماسٹر،
فِیس،
فیل،
پاس وغیرہ
 "گنتی" ابھی "کونٹنگ" میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ اور "پہاڑے" ابھی "ٹیبل" نہیں کہلائے تھے۔

60 کی دھائی میں چھوٹے بچوں کو نام نہاد پڑھے لکھے گھروں میں "خدا حافظ" کی جگہ "ٹاٹا" سکھایا جاتا اور مہمانوں کے سامنے بڑے فخر سے معصوم بچوں سے "ٹاٹا" کہلوایا جاتا۔
زمانہ آگے بڑھا، مزاج تبدیل ہونے لگے۔
 عیسائی مشنری سکولوں کی دیکھا دیکھی کچھ نجی (پرائیوٹ) سکولوں نے انگلش میڈیم کی پیوند کاری شروع کی۔
 سالانہ امتحانات کے موقع پر کچھ نجی (پرائیویٹ) سکولوں میں پیپر جبکہ سرکاری سکول میں پرچے ہوا کرتے تھے۔ پھر کہیں کہیں استاد کو سر کہا جانے لگا- اور پھر آہستہ آہستہ سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔
 پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تو نہایت تیزی سے جاری ہے۔

اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت، کلاس میں تبدیل ہوگئی- اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلوز بن گئے۔

ہمیں بخوبی یاد ہے کہ 50 اور 60 کی دھائی میں؛ اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم اور دہم، جماعتیں ہوا کرتی تھیں، اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔
پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لباس اوڑھ لیا-
اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔
 تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔

گرمیوں کی چھٹیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کی جگہ سمر ویکیشن اور وِنٹر ویکیشن آگئیں۔
 چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا کام نہ رہا بلکہ ہولیڈے پریکٹس ورک ہو گیا ۔
 پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنے لگی۔
امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے-
 ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ مڈٹرم اور فائینل ایگزامز کی اصطلاحات آگئیں-
 اب طلباء امتحان دینے کیلیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ سٹوڈنٹس ایگزام کیلیے ایگزامینیشن سینٹر جاتے ہیں۔
قلم،
دوات،
سیاہی،
تختی، اور
سلیٹ
 جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں ان کی جگہ لَیڈ پنسل، جیل پین اور بال پین آگئے- کاپیوں پر نوٹ بکس کا لیبل ہوگیا-

نصاب کو کورس کہا جانے لگا
 اور اس کورس کی ساری کتابیں بستہ کے بجائے بیگ میں رکھ دی گئیں۔
ریاضی کو میتھس کہا جانے لگا۔
 اسلامیات اسلامک سٹڈی بن گئی- انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئی- اسی طرح طبیعیات، فزکس میں اور معاشیات، اکنامکس میں، سماجی علوم، سوشل سائنس میں تبدیل ہوگئے-

پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے اب اسٹوڈنٹس سٹڈی کرنے لگے۔
پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔
 اساتذہ کیلیے میز اور کرسیاں لگانے والے، ٹیچرز کے لیے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔

داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے۔.... اول، دوم، اور سوم آنے والے طلبہ؛ فرسٹ، سیکنڈ، اور تھرڈ آنے والے سٹوڈنٹ بن گئے۔
پہلے اچھی کارکردگی پر انعامات ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے۔
بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے۔
 یہ سب کچھ سرکاری سکولوں میں ہوا ہے۔

باقی رہے پرائیویٹ سکول، تو ان کا پوچھیے ہی مت۔ ان کاروباری مراکز تعلیم کیلیے کچھ عرصہ پہلے ایک شعر کہا گیا تھا،

مکتب نہیں، دکان ہے، بیوپار ہے
مقصد یہاں علم نہیں، روزگار  ہے۔

اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے، ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔

زنان خانہ اور مردانہ تو کب کے ختم ہو گئے۔ خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا۔

باورچی خانہ کچن بن گیا اور اس میں پڑے برتن کراکری کہلانے لگے۔
غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کر کے واش روم بن گیا۔
 مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔

مکانوں میں پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔
 دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا، پہلے مہمانوں کی آمد پر گھنٹی بجتی تھی اب ڈور بیل بجنے لگی۔
 کمرے روم بن گئے۔ کپڑے الماری کی بجائے کپبورڈ میں رکھے جانے لگے۔

"ابو جی" یا "ابا جان" جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور لفظ دقیانوسی لگنے لگا، اور ہر طرف ڈیڈی، ڈیڈ، پاپا، پپّا، پاپے کی گردان لگ گئی حالانکہ پہلے تو پاپے(رس) صرف کھانے کے لئے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں-
اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ "امی" یا امی جان  "ممی" اور مام میں تبدیل ہو گیا۔

سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔
 چچا، چچی، تایا، تائی، ماموں ممانی، پھوپھا، پھوپھی، خالو خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ "انکل اور آنٹی" میں تبدیل ہوگئے۔
 بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے۔
 یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔

ساری عورتیں آنٹیاں، چچا زاد،
 ماموں زاد، خالہ زاد بہنیں اور بھائی سب کے سب کزنس میں تبدیل ہوگئے، نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔

نہ جانے ایک نام تبدیلی کے زد سے کیسے بچ گیا ۔ ۔ ۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین پہلے بھی ماسی کہلاتی تھیں اب بھی ماسی ہی ہیں۔

گھر اور سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتے۔
 دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے، آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نےخریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے۔
سڑکیں روڈز بن گئیں۔
 کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی، یعنی کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنادیا گیا۔
کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا،
 نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔

ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔ پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی، وہ اب آفس بن گیا اور منتھلی سیلری ملنے لگی ہے اور جو کبھی صاحب تھے وہ باس بن گئے ہیں،
بابو کلرک اور چپراسی پِیّن بن گئے۔
 پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا-

سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔ طوائفیں آرٹسٹ بن گئیں
 اور محبت کو 'لَوّ' کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔
 صحافی رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے۔

کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔

اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں، عام آدمی تک نے اس میں حتی المقدور حصہ لیا ہے-

اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا ہے۔

ہم ایک جملے میں تین چار انگریزی الفاظ کا تڑکا لگانے کو تہذیب بلکہ مینرز سمجھنے لگے ہیں اور وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں

وائے ناکامیِ متاع کارواں جاتا رہا
 کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

ہم کہاں سے کہاں آگئے اورکہاں جارہے ہیں؟
 دوسروں کا کیا رونا روئیں، ہم خود ہی اس کے ذمہ دار ہیں. دوسرا کوئی نہیں۔
 بہت سے اردو الفاظ کو ہم نے انگریزی قبرستان میں مکمل دفن کر دیا ہے اور مسلسل دفن کرتے جا رہے ہیں. اور روز بروز یہ عمل تیزتر ہوتا جا رہا ہے۔

روکیے، خدا را روکیے،
 ارود کو مکمل زوال پزیر ہونے سے روکیے۔

اگر آپ مناسب سمجھیں تو قوم کو بیدار کرنے کی خاطر اس تحریر کو شیئر کریں.

ملاحظہ: قومیں اپنی قومی زبان کو پروان چڑھا کر ہی ترقی کرتی ہیں۔ موجودہ زمانے کا یہی سکہ بند اصول ہے۔ جاپان اور چین اس کی زندہ مثال ہیں

 

 

 

 

No comments:

Post a Comment