Home Page Urdu Islamic Article HR Email Ids Zikar Azkaar
Namaz Quran & Tableegh School HR ID Ulema Ikram Bayanat
Listen Quran Majeed Read Quran Majeed Social Media Ramzan
📌 غریب کا دستر خوان 📌
جلدی کرو افطاری کا وقت ہونے والا ہے،
ساجد صاحب گھڑی دیکھتے ہوئے بولے...
شربت بنا لیا بیگم...؟
جی بنا لیا، بیگم نے جواب دیا...
اور لسی بنا لی...؟
جی وہ بھی بنالی ہے، بیگم مسکراتے ہوئے
بولیں، ہاں دیکھو تو سہی! گرمی کس قدر شدید ہے، لسی کے بغیر تو گزارا ہی نہیں اور
پھر بیگم نے بچوں کے ساتھ ملکر ایک ایک چیز دستر خوان پر سجانا شروع کردی
یہ پکوڑے، یہ سموسے، یہ دہی بڑے، یہ
کسٹرڈ، یہ چناچاٹ، یہ فروٹ چاٹ... لسی الگ، روح افزا کا دودھ والا شربت الگ
اور بچوں کی فرمائش پر کوئس بھی بنایا گیا...
ارے بیگم! کھجوریں تو لے کر
آؤ...
کھجور سے روزہ کھولنا تو سنت ہے
بھئی...
جی جی لاتی ہوں، دھورہی ہوں، یہ لیجئے
کھجوریں بھی آگئیں، دستر خوان انواع و اقسام کے کھانوں سے سج گیا، بڑے چھوٹے سب
بیٹھ کر روزہ کھلنے کا انتظار کرنے لگے، چھوٹا بیٹا اسد کہنے لگا، امی چکن رول تو
بنائے نہیں آپ نے...؟
بیٹا اتنا کچھ تو ہے، اب باقی کل بنالیں گے،
سب کچھ آج ہی کھانا ہے کیا...؟
اچھا ٹھیک ہے لیکن کل ضرور بنائیے گا
امی!
اچھا ٹھیک ہے بیٹا.... ماں نے بڑے پیار سے
بیٹے کو بہلایا...
بیگم ! سالن کیا بنایا ہے، نماز کے بعد میں
کھانا کھاؤں گا گھر آکر، ساجد صاحب بیگم سے مخاطب ہوکر بولے، جی جی، سالن
بھی بنالیا ہے آپ کی پسند کا، کوفتے پہلے ہی بنا کر فریج میں رکھے ہوئے تھے، بس
منٹوں میں سالن بھی تیار ہوگیا ہے، بیگم فخر سے مسکرائیں...
واہ جناب، ہماری بیگم کی سلیقہ مندی کے کیا
کہنے... ماشاءاللہ
اور پھر سب گھر والوں نے دعا کے لئے ہاتھ
اٹھا دیئے...
"افطار کے وقت روزہ دار کی دعا قبول
ہوتی ہے "
==========================
بس ایک دیوار کا ہی تو فرق تھا، دیوار کے اس
پار شکیل کا گھر تھا...
==========================
اری نیک بخت کچھ ہے روزہ کھولنے کے
لئے...؟
تھکا ماندہ شکیل نقاہت زدہ چہرہ لئے اپنی
بیوی سے پوچھ رہا تھا، بیوی کچن سے ہی آواز لگا کر بولی ہاں ہاں اللہ کا شکر ہے،
سب کچھ ہے، بھوکے نہیں رہیں گے
اور پھر شکیل کی بیوی رضیہ اپنی چھوٹی بیٹی
کے ساتھ مل کر دستر خوان لگانے لگی، ابلے ہوئے آلوؤں کا سالن اور روٹیاں دستر خوان
پر لاکر رکھ دیں، ساتھ میٹھا شربت بھی، یہ میٹھا شربت وہ
"شربت" ہوتا ہے جس میں چینی کے سوا اور کچھ نہ ہو، نہ روح افزا،
نہ نورس، نہ کوئی اورمشروب، نہ ہی لیموں، صرف سادہ چینی کا میٹھا پانی اور گنتی کی
چھ سات سوکھی سی پکوڑیاں، سوکھی اس لئے کہ ان بیچاری پکوڑیوں کے نصیب میں نہ پیاز
نہ آلو نہ پالک، نہ بند گوبھی کچھ بھی نہیں....
کھائیں تو روزہ داروں کے حلق میں اٹکنے لگیں
مگر کیا کریں مجبوری ہے نا... آخر غریب کا بھی تو دل چاہتا ہے کچھ چٹ پٹا کھانے
کو....
* یہ ہے غریب کا دستر خوان *
شکیل کی دونوں بڑی بیٹیاں جو قرآن مجید کی
تلاوت کر رہی تھیں، وہ بھی آکر بیٹھ گئیں اور یہ مختصر سا گھرانہ روزہ کھلنے کا
انتظار کرنے لگا...
شکیل نے ایک نظر دستر خوان کی طرف دیکھا اور
پھر اپنی تینوں معصوم بیٹیوں کی طرف، دل میں درد کی ایک لہر سی اٹھی......
اس عمر میں بچیوں کے کیا کیا شوق ہوتے ہیں ۔
اور میں تو ان معصوموں کو ڈھنگ سے کھلا بھی نہیں پاتا ۔۔۔۔
افطار کا وقت، قبولیت دعا کا وقت ہوتا ھے ۔
اور وہ سب دستر خوان کے چاروں طرف بیٹھ کر دعائیں مانگنے لگے۔۔۔۔
شکیل کی آنکھوں میں آنسو آگئے،،،، رب
کی بارگاہ میں فریاد کرنے لگا....
اے میرے اللہ! میری معصوم بچیوں کے نصیب
اچھے کر... آگے کہیں غربت کی چکی میں پسنے سے بچا لینا، میرے مولٰی انہیں نیک،
شریف اور خوشحال رشتے عطا فرما، بچیاں بہت سمجھدار اور صبر والی تھیں مگر سب سے
چھوٹا بیٹا احمد، وہ یہ سب برداشت نہیں کرپاتا تھا، ابھی میں اسد کے ساتھ اس کے
گھر چلاگیا تھا امی... اس کے گھر میں دستر خوان روزانہ بھرا ہوتا ہے ہر طرح کی
چیزوں سے، امی ہمارے گھر میں کیوں نہیں ہوتا یہ سب کچھ...؟
احمد ماں کی طرف دیکھ کر منہ بسورنے لگا...
مجھ سے نہیں کھائے جاتے، روز روز کبھی آلو،
کھی ٹنڈے، کبھی دال، کتنی دفعہ سمجھایا ہے بیٹے، صبر کرو، اللہ سب ٹھیک کردےگا،
رضیہ اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے بولی، صبر تو کرتا ہوں امی، مگر کبھی ہفتے میں ایک
دفعہ تو اچھا کھلا دیا کریں، کبھی اس شربت میں روح افزا تو ڈال دیا کریں، کبھی تو
گوشت یا مرغی کا سالن بنالیا کریں، یہ ٹنڈے، توری اور ابلے آلو ہی ہمارے نصیب میں
رہ گئے ہیں کیا...؟
چھوٹا احمد نہ جانے کیوں آج ضبط کے بندھن
چھوڑ بیٹھا تھا، ہچکیوں سے رو رہا تھا، ماں کا کلیجہ تڑپ اٹھا، بڑھ کے احمد کو
سینے سے لگالیا اور خود بھی سسک سسک کر رونے لگی....
صبر کر…
خود اعتمادی کو بڑھانے کے دس طریقے 🥀
● آپ اپنے ذہن اور خیالات کے آئینے میں اپنے
آپ کو ہمیشہ ایک کامیاب شخص کی حیثیت سے دیکھیں۔ اس تصویر کو کبھی اوجھل نہ ہونے
دیں۔ کبھی اپنی ناکامی کے بارے میں کوئی خیال اپنے ذہن میں نہ لائیں۔ اپنی ذاتی
تصویر کی حقیقت پر کبھی شبہ نہ کریں۔ ورنہ یہ چیز آپ کیلئے بڑی خطرناک ثابت ہو گی۔
لہٰذا آپ ہمیشہ خود کو ایک کامیاب شخص کی حیثیت سے دیکھیں‘ خواہ حالات کتنے ہی غیر
موافق کیوں نہ ہوں۔
● جب کبھی آپ کی صلاحیتوں سے متعلق کوئی
تخریبی خیال آپ کے دماغ میں آئے تو فوراً اس کی مقابلے میں ایک تعمیری خیال لا کر
اسے ذہن سے ختم کر دیں۔
● خیالوں ہی خیالوں میں مت سوچیں کہ فلاں
کام کرنے کے راستے میں یہ دشواریاں ہوں گی۔ ان خیالی دشواریوں سے بچیں۔ اصلی دشواریوں
کا بغور مطالعہ کریں اور ان پر قابو پانے کی کوشش کریں۔
● دوسرے لوگوں کے غم سے زیادہ متاثر
نہ ہوں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش مت کریں۔ یاد رکھیں کہ بعض لوگ بظاہر تو
خود کو پُر اعتماد ظاہر کرتے ہیں مگر اندر سے ان کی وہی حالت ہوتی ہے جو آپ کی ہے۔
● دن میں دس مرتبہ یہ ہمہ گیر الفاظ ضرور
دہرائیں کہ اگر رب کریم ہمارے ساتھ ہے تو پھر کون ہمارے خلاف ہو سکتا ہے۔
● اپنے اندر احساس کمتری اور خود اعتمادی کے
فقدان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ چیزیں اکثر اوقات بچپن میں انسان کے ذہن پر سوار
ہو جاتی ہیں۔ اپنے آپ کو پہچاننے سے بہت سی تکالیف کا علاج خود بخود ہو جاتا ہے۔
● اگر ہو سکے تو اونچی آواز میں ان الفاظ کو
ہر روز دن میں دس بار دہرائیں کہ میں اللہ کی مدد سے ہر کام کر سکتا ہوں۔
● اپنی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ لگانے کی
کوشش کریں پھر انہیں دس فیصد بڑھا دیں ۔ خود پسند بننے کی کوشش مت کریں بلکہ اپنی
عزت کرنا سیکھیں۔
● خود کو اللہ کی رضا پر چھوڑ دیں۔ پھر یقین
کر لیں کہ اب وہ آپ کے اندر کی تعمیری قوتوں کا محرک بن رہا ہے۔
● اپنے آپ کو ہر وقت یہ یاد دلاتے رہیں کہ
اللہ کی ذات آپ کے ساتھ ہے لہٰذا دنیا کی کوئی طاقت آپ کو شکست نہیں دے سکتی۔
جائیے اب خود اعتمادی کا ہتھیار آپ کے ساتھ ہے۔ آپ زندگی کے کسی میدان میں کبھی
ناکا م نہیں رہیں گے۔ خود اعتماد ی ہی وہ خوبی ہے جو آپ کو پُر وقار بنائے گی۔
انوکھی امداد ایسی بھی!
"محلے میں بچوں کو عربی و ناظرہ قرآن
پڑھانے والی باجی کے گھر آٹا اور سبزی نہیں ہے، مگر وہ باپردہ خاتون باہر آکر مفت
راشن والی لائن میں لگنے سے گھبرا رہی ہیں."
فری راشن تقسیم کرنے والے نوجوانوں کو جیسے
ہی یہ بات پتا چلی، انہوں نے متاثرین میں فری سبزی و آٹا کی تقسیم فوراً روک دیا.
پڑھے لکھے نوجوان تھے. آپس میں رائے مشورہ کرنے لگے. بات چیت میں طے ہوا کہ نہ
جانے کتنے سفید پوش اپنی آنکھوں میں ضرورت کے پیالے لیے فری راشن کی لائنوں
کو تکتے ہیں، مگر اپنی عزت نفس کا بھرم رکھنے کی خاطر قریب نہیں پھٹکتے.
مشورے کے بعد نوجوانوں نے فری راشن کی تقسیم
کا بورڈ بدل دیا اور دوسرا بورڈ آویزاں کردیا.
ہر طرح کی سبزی 15 روپے کلو، مسالہ فری،
آٹا، چاول، دال 15 روپے کلو. خصوصی آفر.
اعلان سنتے ہی مفت خور بھکاریوں نے اپنی راہ
لی، سفید پوش اور لاچار طبقہ ہاتھوں میں دس بیس روپئے کے ساتھ خریداری کے لئے
آگیا. قطار میں کھڑا ہونے سے اسے گھبراہٹ نہ ہوئی، نہ ہلڑ بازی ہوئی.
لائن میں ایک طرف بچوں کو قرآن پڑھانے والی
باپردہ باجی بھی مٹھی میں معمولی سی رقم لیے اعتماد کے ساتھ نمناک آنکھوں کے ساتھ
کھڑی تھیں. ان کی باری آئی پیسے دیئے، سامان لیا اور اطمینان سے گھر آگئیں. سامان
کھولا، دیکھا ان کے ذریعہ ادا کی گئی پوری قیمت سنتِ یوسف کی طرح ان کے سامان میں
موجود ہے، لیکن انہیں خبر تک نہ ہو سکی تھی کہ کس نے وہ پیسے کب ان کے سامان میں
رکھا تھا.
نوجوان ہر خریدار کے ساتھ یہی کررہے تھے.
یقیناً علم کو جہالت پر مرتبہ حاصل ہے.
مدد کیجیے، پر عزتِ نفس مجروح نہ کیجیے!!
ضرورت مند سفید پوشوں کا خیال رکھئے، عزت دار مساکین کو عزت دیجیے.
یقین رکھئے اللہ تعالیٰ آپ پر زیادہ
بااختیار ہے.
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ
اوروں کو بھی شریک کریں, یہ صدقہ جاریہ ہوگا, اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو
گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر
ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو .. جزاک اللہ خیرا کثیرا.
A Thoughtful Post.
: آج سے 100 سال بعد مثال کے طور پر 2121
میں ہم سب اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ زیر زمین ہوں گے
اور اجنبی ہمارے گھروں میں رہیں گے
اور ہماری جائیداد غیر لوگوں کی ملکیت ہوگی
انہیں ہماری کچھ یاد بھی نہیں رہے گی ابھی
بھی ہم میں سے کون اپنے دادا کے باپ کا سوچے گا .. ہم اپنی نسلوں کی یاد میں
تاریخ کا حصه بن جائیں گے، جبکہ لوگ ہمارے نام اور شکلیں بھول جائیں
گی..
سو سال میں کئی اندھیرے اور ٹھہراؤ
آئیں گے
تب ہمیں اندازہ ہوگا کہ دنیا کتنی معمولی
تھی، اور سب کچھ اور دوسرے سے زیادہ پا لینے کے خواب کتنے نادان اور خسارے کی سوچ
کے حامل تھے،
اور ہم چاہیں گے کہ اگر ہم اپنی ساری زندگی
نیکیاں سمیٹتے اور نیکیاں کرتے ہوئے گزاریں تو وه موقع آج ھمارے پاس خوش قسمتی سے
موجود ھے.. جب تک ہم باقی ہیں۔۔
ابھی زندگی باقی ہے ۔۔
اے اللہ ہمیں ہدایت دے..
اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر کردے۔۔۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین
سڑک کنارے گھنٹوں کھڑے رہ کر غیر مسلموں میں
اسلامی پمفلٹ تقسیم کرنے والے اس سفید ریش سفید پوشاک بزرگ کا نام شیخ نعمت اللہ
خلیل ہے.
ان کا اصل تعلق ترکی سے ہے،یہ عہد سلطان
عبدالحمید کے علماء کرام کے شاگردوں میں سے ہے.
انہوں نے اپنی زندگی کے 15 سال مدینہ منورہ
میں اور 15 سال مکہ مکرمہ کی ایک مسجد میں امامت کرتے گزارے.
یہ عربی،ترکی،انگریزی،اردو اور جاپانی سمیت
کئی زبانوں پر مہارت رکھتے ہیں.
انہوں نے دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں 50 سے
زائد ملکوں کا سفر کیا اور ہزاروں لوگ ان کے ہاتھ مسلمان ہوئے.
دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں انہوں نے جاپان
میں 14 سال قیام کیا،انہوں نے جب دعوت کا کام شروع کیا جاپان میں 3 مسجدیں تھی 14
سال بعد ان کے ہاتھ سے 200 مسجدیں تعمیر و آباد ہوچکی تھیں.
1981 میں انہوں نے قرآن مجید کے 20000 نسخے
چائنہ کے مسلمانوں تک چائنہ میں خود جا کر پہنچا آئے.
یہ تین بار دعوت کے سلسلے میں سائبیریا گئے
جہاں درجہ حرارت منفی 40 ڈگری تھا.
نو مسلم مرد و خواتین کے لئے یہ اسلامی نام
رکھتے ہیں ایک بار جاپان میں مختلف تعلیمی اداروں کے 100 اساتذہ جن میں مرد و
خواتین تھے ان کے ہاتھ مسلمان ہوئے اب ہر ایک کو کھڑا کرکے نام آلاٹ کرنا لمبا
مرحلہ تھا چنانچہ شیخ نے اعلان کر دیا کہ تم میں جو مرد ہیں ان کا اسلامی نام محمد
اور خواتین کا نام فاطمہ ہوگا.
شیخ کی سب سے بڑی شہرت شراب خانوں میں جا کر
دعوت دین دینا ہے،ان کے ہاتھوں شراب خانوں سے تائب ہو کر دین کی طرف آنے والوں کی
تعداد بھی ہزاروں میں ہے.
ایک بار شیخ جرمنی کے شہر برلن کی مسجد میں
درس دینے کے بعد پوچھ بیٹھے کہ باقی مسلمان مسجد کیوں نہیں آتے ہیں کسی نے کہا شیخ
صاحب باقی میخانے میں پائے جاتے ہیں،یہ ایک گائیڈ لیکر شراب خانے پہنچے کچھ دیر
بعد 40 مسلم نوجوانوں کو اپنے ساتھ لیکر آئے.
ایک بار شیخ مسجد نبوی شریف میں بیٹھے ہوئے
تھے کہ ترکی نژاد ایک خوبرو جرمن نوجوان شیخ کے پاس آئے اور سلام کیا پھر پوچھا
شیخ صاحب کیا آپ نے مجھے پہچان لیا؟شیخ صاحب کے انکار پر کہا میں برلن کے میخانے
کا آخری شرابی ہوں اس دن آپ کی دعوت کے بعد میں نے نہ صرف شراب چھوڑ دی بلکہ کچھ
عرصہ بعد اس میخانے کو بھی خرید کر شراب کا سلسلہ ہی ختم کر دیا اب میں اپنی بیگم
کے ساتھ عمرے پر آیا ہوں.
شیخ نعمت اللہ خلیل ایک ایسا داعی جس اکیلے
نے کئی جماعتوں سے بڑھ کر دین کا کام کیا.
إنا لله وإنا إليه راجعون
ڈاکٹر یحییٰ کوشک گزشتہ شام وفات پاگئے ہیں😥
ڈاکٹر یحییٰ کوشک وہ پہلا شخص تھا جس کو یہ
اعزاز حاصل تھا کہ زمزم کے کنواں کو صاف کرنے کی غرض سے کنویں کے اندر پانی میں
داخل ہوا تھا اور یہ 1979 کی بات ہے جب ملک خالد رحمہ اللہ زندہ تھے اور اس
نے کنواں کی تاریخی توسیع کی تھی اور چاہ زمزم کو صاف کیا تھا.
اس صفائی سے پہلے لوگ خود جاکر کنویں سے
پانی نکالتے تھے جس کے وجہ سے کنواں کے اندر کافی سارے سامان اور گندگی وغیرہ گر
جاتے تھے اور اس وجہ سے چشمے سے پانی نکلنا کافی کم ہوا تھا.
ڈاکٹر یحییٰ کوشک مرحوم جب کنواں میں داخل
ہوئے تو اس نے سارے گندگیوں کو باہر نکالا اور کنواں سے بہت سارے چیزوں کو ہٹایا
جو پانی روکنے کا سبب بن رہے تھے، جس کے وجہ سے زمزم کے چشمے سے پانی کا اخراج بہت
زیادہ ہوا اس کے بعد سے سعودی حکومت خود ہی کنواں سے پانی نکالتے ہیں اور پھر وافر
مقدار میں حجاج کرام میں تقسیم کرتے ہیں..
اللہ مرحوم کی کامل مغفرت فرمائے.. آمین
حیرت انگیز انفارمیشن ..
قرآن حکیم کا ایک ایک حرف اتنی زبردست
کیلکولیشن اور اتنے حساب و کتاب کے ساتھ اپنی جگہ پر فٹ ہے - اتنی بڑی کتاب میں
اتنی باریک کیلکولیشن کا کوئی رائٹر تصور بھی نہیں کرسکتا۔ بریکٹس میں دیے گئے یہ
الفاظ بطور نمونہ ہیں ورنہ قرآن کا ہر لفظ جتنی مرتبہ استعمال ہوا ہے وہ تعداد اور
اس کا پورا بیک گراؤنڈ اپنی جگہ خود علم و عرفان کا ایک وسیع جہان ہے۔ دنیا کا لفظ
اگر 115 مرتبہ استعمال ہوا ہے تو اس کے مقابل آخرت کا لفظ بھی 115 مرتبہ استعمال
ہوا ہے۔ وعلی ھذ القیاس۔
(دنیا وآخرت:115) (شیاطین وملائکہ:88)( موت
وحیات:145)(نفع وفساد:50)(اجر فصل108) (کفروایمان :25)(شہر:12)کیونکہ شہر کا مطلب
مہینہ اور سال میں 12 مہینے ہی ہوتے ہیں ( اور یوم کا لفظ 360مرتبہ استعمال ہوا
ہے) اتنی بڑی کتاب میں اس عددی مناسبت کا خیال رکھنا کسی بھی انسانی مصنف کے بس کی
بات نہیں۔ مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔۔۔
جدیدترین ریسرچ کے مطابق قرآن حکیم کے
حفاظتی نظام میں 19 کے عدد کا بڑا عمل دخل ہے ،اس حیران کن دریافت کا سہرا ایک
مصری ڈاکٹر راشد خلیفہ کے سر ہے جوامریکہ کی ایک یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر
تھے۔1968 ء میں انہوں نے مکمل قرآنِ پاک کمپیوٹر پر چڑھانے کے بعد قرآنِ پاک کی
آیات ان کے الفاظ و حروف میں کوئی تعلق تلاش کرنا شروع کردیا رفتہ ،رفتہ اور لوگ
بھی اس ریسرچ میں شامل ہوتے گئے حتی کہ 1972ء میں یہ ایک باقاعدہ سکول بن
گیا۔ریسرچ کے کاکام جونہی آگے بڑھا ان لوگوں پر قدم قدم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے
، قرآنِ حکیم کے الفاظ و حروف میں انہیں ایک ایسی حسابی ترتیب نظر آئی جس کے مکمل
ادراک کیلئے اس وقت تک کے بنے ہوئے کمپیوٹر ناکافی تھے۔
کلام اللہ میں 19 کا ہندسہ صرف سورہ مدثر
میں آیاہے جہاں اللہ نے فرمایا:دوزخ پر ہم نے انیس محافظ فرشتوں کو مقرر کر رکھا
ہے اس میں کیا حکمت ہے یہ تو رب ہی جانے لیکن اتنا اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ 19 کے
عدد کا تعلق اللہ کے کسی حفاطتی انتظام سے ہے پھر ہر سورت کے آغاز میں قرآنِ مجید
کی پہلی آیت بسم اللہ کو رکھا گیا ہے گویا کہ اس کا تعلق بھی قرآن کی حفاظت سے ہے
کیونکہ ہم دیکھتے ہیں بسم اللہ کے کل حروف بھی 19 ہی ہیں پھر یہ دیکھ کر مزید حیرت
میں اضافہ ہوتا ہے کہ بسم اللہ میں ترتیب کے ساتھ چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور
ان کے بارے میں ریسرچ کی تو ثابت ہوا کہ اسم پورے قرآن میں 19 مرتبہ استعمال ہوا
ہے لفظ الرحمن 57 مرتبہ استعمال ہوا ہے جو3×19 کا حاصل ہے اور لفظ الرحیم 114
مرتبہ استعمال ہو ہے جو 6×19 کا حاصل ہے اور لفظ اللہ پورے قرآن میں 2699 مرتبہ
استعمال ہوا ہے 142×19 کا حاصل ہے لیکن یہاں بقیہ ایک رہتا ہے جس کا صاف مطلب ہے
کہ اللہ کی ذات پاک کسی حساب کے تابع نہیں ہے وہ یکتا ہے۔ قرآن مجید کی سورتوں کی
تعداد بھی 114 ہے جو 6×19 کا حاصل ہے سورہ توبہ کےآغاز میں بسم اللہ نازل نہیں
ہوئی لیکن سورہ نمل آیت نمبر 30 میں مکمل بسم اللہ نازل کرکے 19 کے فارمولا کی
تصدیق کردی اگر ایسا نہ ہوتا تو حسابی قاعدہ فیل ہوجاتا۔
اب آئیے حضور علیہ السلام پر اترنے والی
پہلی وحی کی طرف : یہ سور علق کی پہلی 5 آیات ہیں :اور یہیں سے 19 کے اس حسابی
فارمولے کا آغاز ہوتا ہے! ان 5 آیات کے کل الفاظ 19 ہیں اور ان 19 الفاظ کے کل
حروف 76 ہیں جو ٹھیک 4×19 کا حاصل ہیں لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی جب سورہ علق کے
کل حروف کی گنتی کی گئ تو عقل تو ورطہ حیرت میں ڈوب گئی کہ اسکے کل حروف 304 ہیں
جو 4×4×19 کا حاصل ہیں۔ اور سامعین کرام ! عقل یہ دیکھ کر حیرت کی اتھاہ
گہرائیوںمیں مزید ڈوب جاتی ہے کہ قرآنِ پاک کی موجودہ ترتیب کے مطابق سورہ علق
قرآن پاک کی 96 نمبر سورت ہے اب اگر قرآن کی آخری سورت والناس کی طرف سے گنتی کریں
تو اخیر کی طرف سے سورہ علق کا نمبر 19 بنتا ہے اور اگر قرآن کی ابتدا سے دیکھیں
تو اس 96 نمبر سورت سے پہلے 95 سورتیں ہیں جو ٹھیک 5×19 کا حاصل ضرب ہیں جس سے یہ
بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ سورتوں کے آگے پیچھے کی ترتیب بھی انسانی نہیں بلکہ اللہ
تعالیٰ کے حسابی نظام کا ہی ایک حصہ ہے۔ قرآنِ پاک کی سب سے آخر میں نازل ہونے
والی سورت سورہ نصر ہے یہ سن کر آپ پر پھرایک مرتبہ خوشگوار حیرت طاری ہوگی کہ
اللہ پاک نے یہاں بھی 19 کا نظام برقرار رکھا ہے پہلی وحی کی طرح آخری وحی سورہ
نصرٹھیک 19 الفاظ پر مشتمل ہے یوں کلام اللہ کی پہلی اور آخری سورت ایک ہی حسابی
قاعدہ سے نازل ہوئیں۔
سورہ فاتحہ کے بعد قرآن حکیم کی پہلی سورت
سورہ بقرہ کی کل آیات 286 ہیں 2 ہٹادیں تو مکی سورتوں کی تعداد سامنے آتی ہے 6ہٹا
دیں تو مدنی سورتوں کی تعداد سامنے آتی ہے۔86 کو 28 کے ساتھ جمع کریں تو کل سورتوں
کی تعداد 114 سامنے آتی ہے۔
آج جب کہ عقل وخرد کو سائنسی ترقی پر بڑا
ناز ہے یہی قرآن پھر اپنا چیلنج دہراتا ہے حسابدان، سائنسدان، ہر خاص وعام مومن
کافر سبھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ آج بھی کسی کتاب میں ایسا حسابی نظام ڈالنا
انسانی بساط سے باہر ہے طاقتور کمپوٹرز کی مدد سے بھی اس جیسے حسابی نظام کے مطابق
ہر طرح کی غلطیوں سے پاک کسی کتاب کی تشکیل ناممکن ہوگی لیکن چودہ سو سال پہلے تو
اس کا تصور ہی محال ہے لہذا کوئی بھی صحیح العقل آدمی اس بات کا انکارنہیں کرسکتا
کہ قرآنِ کریم کا حسابی نظام اللہ کا ایسا شاہکار معجزہ ہے جس کا جواب قیامت تک
کبھی بھی نہیں ہوسکتا ..
اچھی پوسٹس کو شئر کرکے صدقہ جاریہ کا حصہ
بنیں ، جزاک اللهﷻ
: یہ ہوتا ہے انصاف۔۔⚖
ملزم ایک 15 سالہ لڑکا تھا۔ ایک اسٹور سے
چوری کرتا ہوا پکڑا گیا۔ پکڑے جانے پر گارڈ کی گرفت سے بھاگنے کی کوشش کی۔ مزاحمت
کے دوران اسٹور کا ایک شیلف بھی ٹوٹا۔
جج نے فرد ِ جرم سنی اور لڑکے سے پوچھا
"تم نے واقعی کچھ چرایا تھا؟"
"بریڈ 🍔اور پنیر 🍕کا
پیکٹ" لڑکے نے اعتراف کرلیا۔
"کیوں؟"
"مجھے ضرورت تھی" لڑکے نے مختصر
جواب دیا۔
"خرید لیتے"
"پیسے نہیں تھے"
"گھر والوں سے لے لیتے"
"گھر پر صرف ماں ہے۔ بیمار اور بے
روزگار۔ بریڈ اور پنیر اسی کے لئے چرائی تھی۔"
"تم کچھ کام نہیں کرتے؟"
"کرتا تھا ایک کار واش میں۔ ماں کی
دیکھ بھال کے لئے ایک دن کی چھٹی کی تو نکال دیا گیا۔"
"تم کسی سے مدد مانگ لیتے"
"صبح سے مانگ رہا تھا۔ کسی نے ہیلپ
نہیں کی"
جرح ختم ہوئی اور جج نے فیصلہ سنانا شروع
کردیا۔
"چوری اور خصوصاً بریڈ کی چوری بہت
ہولناک جرم ہے۔ اور اس جرم کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ عدالت میں موجود ہر شخص، مجھ
سمیت۔ اس چوری کا مجرم ہے۔ میں یہاں موجود ہر فرد اور خود پر 10 ڈالر جرمانہ عائد
کرتا ہوں۔ دس ڈالر ادا کئے بغیر کوئی شخص کورٹ سے باہر نہیں جاسکتا۔" یہ کہہ
کر جج نے اپنی جیب سے 10 ڈالر نکال کر میز پر رکھ دیئے۔
"اس کے علاوہ میں اسٹور انتظامیہ پر
1000 ڈالر جرمانہ کرتا ہوں کہ اس نے ایک بھوکے بچے سے غیر انسانی سلوک کرتے ہوئے،
اسے پولیس کے حوالے کیا۔ اگر 24 گھنٹے میں جرمانہ جمع نہ کرایا گیا تو کورٹ اسٹور
سیل کرنے کا حکم دے گی۔"
فیصلے کے آخری ریمارک یہ تھے: "اسٹور انتظامیہ
اور حاضرین پر جرمانے کی رقم لڑکے کو ادا کرتے ہوئے، عدالت اس سے معافی طلب کرتی
ہے۔"
فیصلہ سننے کے بعد حاضرین تو اشک بار تھے
ہی، اس لڑکے کی تو گویا ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ اور وہ بار بار جج کو دیکھ رہا تھا۔
("کفر" کے معاشرے ایسے ہی نہیں
پھل پھول رہے۔ اپنے شہریوں کو انصاف ہی نہیں عدل بھی فراہم کرتے ہیں)
کبھی ہمارا معاشرہ بھی اس طرح ہوا کرتا تھا
۔
👈 کبھی تکبر کے بول نہ بولیں 👉
● ٢٠٠۵ء میں برازيل کے علاقے Campina میں
کچھ شرابی دوستوں کا گروپ سیر كو جا رہا تھا، تب ان میں سے ایک لڑکی کی ماں نے فکر
مند ہوتے ہوئے بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر کہا “جاؤ ، خدا تمہارے ساتھ ہے، تمہاري حفاظت
کرے، لڑکی نے جواب ديا اگر خدا ہمارے ساتھ سفر کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے
گاڑی کے اندر کوئی جگہ نہیں رہی، صرف گاڑی کی ڈگی میں جگہ مل سکتی ہے۔ ان کے جانے
کے کچھ ہی گھنٹے بعد خبر ملی کہ ایک خوفناک حادثے میں وہ سب کے سب لوگ ہلاک ہو گئے
۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ گاڑی کے پچھلے حصے کو نقصان نہیں پہنچا تھا۔
● مارلين (ڈاؤن مونرو) كى ايک پارٹی ميں جب
ايک عملی كام کے لئے مبلغین ميں سے ايک نے کہا (کہ خدا نے مجھے تمہارے پاس بھیجا
ہے) تب اس نے جواب ديا ’’اور خدا سے یہی کہو کہ (مجھے اس ہفتے اس كى ضرورت نہیں
ہے۔)‘‘
اس بات کے کہنے کے ايک ہفتے بعد ہی وہ اسی
گھر میں مر گئی۔
● ٹائی ٹینک بنانے والے تھامس اینڈیو نے ایک
صحافی سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ’’ اس جہاز کو تو خدا بھی نہیں ڈبو
سکتا‘‘ ۔ پھر اس جہاز کا جو حشر ہوا وہ سب کو معلوم ہے۔
● برازیل کے الیکشن میں ایک امیدوار نے ایک
انٹرویو میں کہا ’’اگر مجھے پچاس ہزار ووٹ مل جائیں تو مجھے خدا بھی نہیں ہرا
سکتا۔ ‘‘
اسے پچاس ہزار ووٹ مل گئے لیکن حلف اٹھانے
سے پہلے ہی اس کی موت ہو گئی۔۔۔۔
بے شک اللہ پاک بہت رحیم اور کریم ہیں لیکن
کبھی کبھی کسی کے تکبر پر اس کی پکڑ کر کے اسے دنیا کے لئے عبرت کا نشان بھی بنا
دیتے ہیں ۔ کبھی تکبر کے بول نہ بولیں کیونکہ یہ ایسا گناہ ہے جس پر کبھی کبھی
فوراََ بھی سزا مل جاتی ہے....
دعاؤں کا محتاج✍️✍️
ایڈمن
عامر حسین
ایک مرتبہ جب وہ کیپٹن تھے (تب پاکستان وجود
میں آچکا تھا )ایک کورس پر گئے جہاں انہیں پہلے سے موجود ایک میجر کے کمرے میں جگہ
ملی یعنی ہر آنے والے نئے افسر کو پہلے سے موجود افسران کے ساتھ اٹیچ کردیا گیااب
کمرے میں ایک کونے میں میجر صاحب کا بیڈتھا اور دوسرے کونے میں کیپٹن ضیا الحق کا
بیڈ جبکہ درمیان میں ایک ٹیبل تھی جس پر ضرورت کی چند اشیاء موجود تھیں رات گذری
اگلی صبح تمام افسران میس میں ناشتے کی میز پر موجود تھے تو اس میجر صاحب نے ازراہ
مذاق سب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور جولی موڈ میں کہنا شروع کیا”یار میرے ساتھ ایک
مولوی اٹیچ کر دیا گیا ہے ۔رات دوبجے اٹھ بیٹھتا ہے اور لائٹ آن کرکے دے سجدے پہ
سجدہ ،سجدے پہ سجدہ شروع کردیتا ہے اور پھر قرآن پاک کی لمبی تلاوت ،لگتا ہے یہ
کسی مذہبی مدرسے میں کوئی خاص کورس کرنے آیا ہے یار یہی تو ہمارے آرام کا کچھ وقت
ہوتا ہے تمام افسران میجر صاحب کی بات اور انداز گفتگو پر ہنسنے لگے مگر کیپٹن
ضیاالحق خاموشی کے ساتھ اپنا ناشتہ کرنے میں مصروف رہے ۔ناشتے کے بعد حسب معمول
لیکچر کے لئے چلے گئے ۔اب اگلی صبح ناشتے کی میز پر وہی میجر صاحب افسران کے ساتھ
کس طرح مخاطب ہیں انکی زبانی سنیے ”ڈئیر برادرز !میں اپنی کل کی بات پر آپ سب سے
اور بالخصوص کیپٹن صاحب سے بہت شرمندہ اور معذرت خواہ ہوں ۔مجھے افسوس ہے کہ بنا
کچھ دیکھے سمجھے میں نے ایسی بات کہی ۔رات دوسوابجے اچانک میری آنکھ کھلی ۔میں نے
دیکھا کہ میز پر ایک چھوٹا ٹیبل لیمپ پڑا ہے جس کی مدہم روشنی میں کیپٹن صاحب تہجد
کی نماز ادا کررہے ہیں نماز سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے اسی مدھم روشنی میں قرآن
پاک کی تلاوت کی اور پھر لیمپ بجھا کر لیٹ گئے۔ میرے ضمیر نے مجھے سخت ملامت کی کہ
ایک ایسے نوجوان نیک شخص کا میں نے مذاق اڑایا جوحقیقی معنوں میں اللہ کا عبادت گذار
بندہ ہے۔میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیپٹن صاحب نے اس وقت میری کسی بات کا
جواب کیوں نہ دیا اور نہ ہی برامنایا بلکہ انہوں نے ایسا راستہ اختیار کیا جو سنت
کے عین مطابق تھا ۔وہ لیکچر سے فارغ ہوکر بازار گئے وہاں سے ٹیبل لیمپ خریدا اور
پھر اس لیمپ کی ہلکی روشنی میں اپنی عبادت جاری رکھی یہ سوچ کر کہ میرا میزبان بھی
ڈسڑب نہ ہو اور میری عبادت میں بھی کوئی رکاوٹ نہ آئے ۔
No comments:
Post a Comment