Sunday, March 27, 2022

Urdu Islamic Article: Lerkiyan, Chugal Khor, Tameez o Tehzeeb, Momin, Ghussa mat Kero, Ustad, Namaz, Ashfaq Ahmed, Pakistani Lerki, Bacho ki tasveer, Doctor , bolywood, Molvi Sahab, Joke

   

Home Page  Urdu Islamic Article  HR Email Ids  Zikar Azkaar

Namaz Quran & Tableegh   School HR ID  Ulema Ikram Bayanat

Listen Quran Majeed   Read Quran Majeed  Social Media  Ramzan

Khulasa Quran Majeed Latest jobs Karachi School Free Islamic Gift 



"میرے دونوں بڑے بچوں کے ساتھ ایسا ہوچکا ہے، اور یہ تو عام معروف بات ہے، حیرت ہے آپ نہیں جانتے !"


ڈاکٹر صاحب بولے


"یہ انپڑھ گھرانوں کا تصور ہے کہ دانت نکلنے سے پیٹ خراب ہوتا ہے. حقیقت یہ ہے کہ جب بچے کے دانت نکلتے ہیں تو اس کے مسوڑوں میں کھجلی ہوتی ہے جس کے سبب وہ بار بار ہاتھ منہ میں ڈالنے لگتا ہے. چونکہ ہاتھوں پر جراثیم ہوتے ہیں سو یہ بچے کے پیٹ میں جاکر خرابی پیدا کر دیتے ہیں. حل اس کا یہ ہے کہ بچے کے دانت نکلنے کے ایام میں مناسب وقفے کے ساتھ دن میں چار بار اس کے ہاتھ صابن سے دھوئے جائیں"


یہ کہہ کر وہ پچھلی بار کی ہی طرح یوں ہاتھ ٹیبل پر رکھ کر بیٹھ گئے جیسے انہیں مزید کچھ نہیں کرنا. عرض کیا


"دوائی کوئی نہیں ؟"


فرمایا


"کوئی نہیں"


کچھ مدت بعد بچے کا گلا اور سینہ خراب ہوگیا، میں اس بار بھی اسے ڈاکٹر سمیر  کے پاس لے گیا مگر اس بار "انپڑھ گھرانوں" والی ڈوز سے بچنے کی خاطر دانشوری جھاڑنے سے مکمل گریز کرتے ہوئے بس اتنا کہا


"اس کا گلا اور سینہ خراب ہے"


"کیوں خراب ہے ؟"


"مجھے کیا پتا، میں تو انپڑھ گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں"


یہ میں نے جی ہی جی میں کہا، چونچ بند ہی رکھی. وہ معائنہ فرما کر بولے


"سری لیک بند کردیجئے، ٹھیک ہوجائے گا، سری لیک ہر بچے کو راس نہیں آتی"


"سری لیک کی جگہ کیا دیں ؟"


"دہی جو کھٹی ہرگز نہ ہو، ابلا ہوا آلو، یخنی، سبز چائے، شہد اور کھچڑی دیجئے"


"دوائی ؟"


"بچوں کو دوا صرف اشد ضرورت کے وقت دیتے ہیں اور وہ بھی ایک آدھ. وقاص کو کوئی اشد ضرورت نہیں"


میں بچے کو دس بارہ برس کی عمر تک بوقت ضرورت ڈاکٹر سمیر  کو ہی دکھاتا رہا اور اس پورے عرصے میں ایک دو بار ہی انہوں نے ایک آدھ دوا لکھ کر دی. وہ سختی سے اس بات کے قائل تھے کہ بچے کو دوا نہیں دینی چاہئے. آج بھی ان کے لئے دل سے دعاء نکلتی ہے کیونکہ وہ ایسے دور میں بچوں کو ادویات سے بچانے کے قائل تھے جس دور میں ڈاکٹرز پانچ سے دس دوائیں لکھ کر مریض کو کرتے تو مزید بیمار ہیں لیکن نسخے والے پیڈ کی لوح پر "ھوالشافی" پرنٹ کرا کر ثواب دارین کی امید  بھی رکھتے ہیں

 مجھے تو یہ سمجھ ہی نہیں آتی  کہ اس زوال کی وجہ کیا ھے لڑکیوں کو کوئی سمجھانے والا نہیں رہ گیا کیا ؟ 

نا والدین نا خاندان؟

 سب تماش بین بن گئے ؟


ہر وقت کے اپنے تقاضے اور خوبصورتی ھے۔ دلہن بنی لڑکیاں اس قدر بری لگتی ھیں ناچتی ھوئی جس کی کوئی حد نہیں کیا واقعی آپ کو آج تک کسی نے نہیں بتایا, نہیں سمجھایا کہ دلہن بننے کے کیا تقاضے ھیں؟ مت نکالیں گھونگٹ، مت نظریں جھکائیں مگر چہرے پہ حیا تو ھو دلہن پہ روپ ھی اس کے جھنپنے سے آتا ھے یہ روپ ہی تو ھے جو دلہن کو عام لڑکیوں سے منفرد اور بہت چارم فل بناتا ھے.


عجیب گندا رواج جانے شروع کہاں سے ھوا دلہا دلہن کے بوس و کنار اور دلہن کا پنڈال میں ناچتے ھوئے آنا۔ پہلے دلہن سہیلیوں کے ساتھ آتی تھی پھر رواج بدلا بھائی ساتھ آنے لگے پھر والدین کے ساتھ پنڈال میں آتی، یہ سب اچھا تھا ناچنا کیوں شروع کر دیا آخر ؟؟؟؟


اور تقریب کے دوران دلہا دلہن کے بوس و کنار دیکھ کے تو لگتا ھے ان سے پوچھا جائے کہ یہ ماں باپ کرائے کے ھیں کیا جو صرف تماش بینی کر رھے ھیں۔ آپ کو صحیح غلط بتا رھے ھیں نا اس بے باکی پہ خود شرمندہ ھو رھے ھیں۔


منفرد نظر آنے کی کوئی حد بھی تو ھو۔


پڑوسی ملک میں بھی بڑی بڑی سپر سٹار ھیروئنز اپنی شادی پہ ایسا ناچ گانا نہیں کرتیں جو ھمارے ملک میں شروع ھو چکا ھے۔


 عام عام درمیانے درجے کی ھیروئنز اور ٹک ٹاکرز اپنی شادی پہ وہ وہ اوچھا پن کر رھی ھیں جس کی کوئی مثال نا ھو ایک ایک ماہ ڈھولکیوں ، برائڈل شاور ، مایوں ، مہندی، شادی، ولیمہ سب پہ دل بھر کے ناچنے کے بعد شادی چار دن نہیں چلا سکتیں۔


کئی سالوں کے ریلیشن شپ اور پھر مہینہ بھر کی ڈانس پریکٹسز اور مہینہ بھر کے فنگشن پہ خوب اودھم مچانے کے بعد انکو خیال آتا ھے کہ مجھے تو گھر چلانے والی لڑکی چاھیے اور لڑکیوں کو کیرئیر کو فوقیت دینی ھے حیرت ھے یہ بنیادی باتیں آپ نے طے نہیں کیں تو کیا کیا۔


افسوس کا مقام یہ ھے کہ اس اندھی تقلید کے تحت ھمارے ارد گرد بھی مہندیوں مایوں پہ دلہنوں کا ناچنا عام ھو گیا ھے شادی پہ ناچتی ھوئی دلہن کی انٹری کا دیدار بھی جلد کسی نو دولتی کے گھر کی شادی میں ھو جائے گا۔

برائیڈل شاور تو مقبول عام ھوگیا۔


شادی ایک گھر کی بنیاد ھے

ایک گھرانے کی تشکیل 

اس کو ان خرافات سے پاک کر کے انجوائے کریں۔






حدیث نمبر دو

لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَّاتٌ ( بخاری حدیث نمبر 6056)

 چغل خور آدمی جنت میں نہ داخل ہو سکے گا 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 جن بری عادتوں کا تعلق زبان سے ہے ان میں ایک سنگین جرم چغل خوری بھی ہے چغل خوری کا مطلب یہ ہے کسی کی ایسی بات دوسروں کو پہنچانا جو اس شخص کی طرف سے اس دوسرے آدمی کو بدگمان اور ناراض کر کے باہمی تعلقات کو خراب کر دے 

 حدیث کا مطلب یہ ہے چغل غوری کی عادت ان سنگین گناہوں میں سے ہے جو جنت کے داخلے میں رکاوٹ بننے والے ہیں اور کوئی آدمی اس گندی اور شیطانی عادت کے ساتھ جنت میں نہ جا سکے گا. اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو چغل خوری کے اس سمگین گناہ سے محفوظ رکھے آمین یا رب العالمین








ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لئے ‏قران پاک کے 100 مختصر مگر انتہائی موثر پیغامات

 


1 گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو، 

سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 83


2  غصے کو قابو میں رکھو

سورۃ آل عمران ، آیت نمبر 134


3  دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو،

سورۃ القصص، آیت نمبر 77


4  تکبر نہ کرو، 

سورۃ النحل، آیت نمبر 23 


5  دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو، 

سورۃ النور، آیت نمبر 22


6  لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو، 

سورۃ لقمان، آیت نمبر 19


7  اپنی آواز نیچی رکھا کرو،

سورۃ لقمان، آیت نمبر 19


8  دوسروں کا مذاق نہ اڑایا کرو، 

سورۃ الحجرات، آیت نمبر 11


9  والدین کی خدمت کیا کرو،

سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23


‏10  والدین سے اف تک نہ کرو،

سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23


11  والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو،  

سورۃ النور، آیت نمبر 58


12  لین دین کا حساب لکھ لیا کرو،  

سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 282


13  کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو،  

سورۃ الإسراء، آیت نمبر 36


14  اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کے لیے مزید وقت دے دیا کرو،

سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 280


15  سود نہ کھاؤ،  

سورۃ البقرة ، آیت نمبر 278


16  رشوت نہ لو،  

سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 42


17  وعدہ نہ توڑو،  

سورۃ الرعد، آیت نمبر 20


‏18  دوسروں پر اعتماد کیا کرو،

سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12


19  سچ میں جھوٹ نہ ملایاکرو،  

سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 42


20  لوگوں کے درمیان انصاف قائم کیا کرو،  

سورۃ ص، آیت نمبر 26


21  انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو،  

سورۃ النساء، آیت نمبر 135


22  مرنے والوں کی دولت خاندان کے تمام ارکان میں تقسیم کیاکرو، 

سورۃ النساء، آیت نمبر 8


23  خواتین بھی وراثت میں حصہ دار ہیں، 

سورۃ النساء، آیت نمبر 7


24  یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو، 

سورۃ النساء، آیت نمبر 2


‏25  یتیموں کی حفاظت کرو،

سورۃ النساء، آیت نمبر 127 


26  دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو، 

سورۃ النساء، آیت نمبر 6


27  لوگوں کے درمیان صلح کراؤ، 

سورۃ الحجرات، آیت نمبر 10


28  بدگمانی سے بچو، 

سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12


29  غیبت نہ کرو، 

سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12


30  جاسوسی نہ کرو، 

سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12


31  خیرات کیا کرو، 

سورۃ البقرة، آیت نمبر 271


32  غرباء کو کھانا کھلایا کرو

سورة المدثر، آیت نمبر 44


33  ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کیا کرو، 

سورة البقرۃ، آیت نمبر 273


34  فضول خرچی نہ کیا کرو،

سورۃ الفرقان، آیت نمبر 67


‏35  خیرات کرکے جتلایا نہ کرو،

سورة البقرۃ، آیت 262


36  مہمانوں کی عزت کیا کرو،

سورۃ الذاريات، آیت نمبر 24-27


37  نیکی پہلے خود کرو اور پھر دوسروں کو تلقین کرو،  

سورۃ البقرۃ، آیت نمبر44


38  زمین پر برائی نہ پھیلایا کرو، 

سورۃ العنكبوت، آیت نمبر 36


39  لوگوں کو مسجدوں میں داخلے سے نہ روکو، 

سورة البقرة، آیت نمبر 114


40  صرف ان کے ساتھ لڑو جو تمہارے ساتھ لڑیں، 

سورة البقرة، آیت نمبر 190


41  جنگ کے دوران جنگ کے آداب کا خیال رکھو، 

سورة البقرة، آیت نمبر 190


‏42  جنگ کے دوران پیٹھ نہ دکھاؤ، 

سورة الأنفال، آیت نمبر 15


43  مذہب میں کوئی سختی نہیں،

سورة البقرة، آیت نمبر 256


44  تمام انبیاء پر ایمان لاؤ،

سورۃ النساء، آیت نمبر 150


45  حیض کے دنوں میں مباشرت نہ کرو، 

سورة البقرة، آیت نمبر، 222


46  بچوں کو دو سال تک ماں کا دودھ پلاؤ، 

سورة البقرة، آیت نمبر، 233


47  جنسی بدکاری سے بچو،

سورة الأسراء، آیت نمبر 32


48  حکمرانوں کو میرٹ پر منتخب کرو،  

سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 247


49  کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو، 

سورة البقرة، آیت نمبر 286


50  منافقت سے بچو، 

سورۃ البقرۃ، آیت نمبر  14-16


‏51  کائنات کی تخلیق اور عجائب کے بارے میں گہرائی سے غور کرو، 

سورة آل عمران، آیت نمبر 190


52  عورتیں اور مرد اپنے اعمال کا برابر حصہ پائیں گے، 

سورة آل عمران، آیت نمبر 195


53  بعض رشتہ داروں سے  شادی حرام ہے،  

سورۃ النساء، آیت نمبر 23


54  مرد…






 

 

 

 حدیث نمبر چار

الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ، وَجَنَّةُ الْكَافِرِ.(صحيح مسلم |كِتَابٌ : الزُّهْدُ وَالرَّقَائِقُ  رقم الحدیث 2956)

 دنیا مؤمن کے لئے قیدخانہ اور کافر کے لئے جنت ہے

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

تشریح :قید خانہ کی زندگی کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ قیدی اپنی زندگی میں آزاد نہیں ہوتا، بلکہ ہر چیز میں دوسروں کے حکم کی پابندی کر نے پر مجبور ہو تا ہے ، جب کھانے کو دیا گیا اور جو کچھ دیا گیا کھالیا، جو پینے کودیا گیا پی لیا، جہاں بیٹھنے کا حکم دیا گیا بیٹھ گیا، جہاں کھڑے ہونے کو کہا گیا وہاں کھڑا ہو گیا، الغرض قید خانہ میں اپنی مرضی بالکل نہیں ہوتی، بلکہ چار و ناچار ہر معاملے میں دوسروں کے حکم کی پابندی کرنی پڑتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسری خصوصیت قید خانہ کی یہ ہے کہ قیدی اس سے دل نہیں لگاتا، اور اسکو اپنا گھر نہیں سمجھتا، بلکہ ہر وقت اس سے نکلنے کا خواہش مند اور متمنی رہتا ہے۔ اور اس کے برعکس جنت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں جنتیوں کیلئے کوئی قانونی پابندی نہیں رہے گی، اور ہر جنتی اپنی مرضی کی زندگی گزار سکے گا، اور اس کی ہر خواہش اور ہر آرزو پوری ہوگی اس حدیث میں ایمان والوں کو خاص سبق دیا گیا وہ دنیا میں حکم اور شرعی قانون کی پابندی کی قید خانے والی زندگی گزاریں اور دنیا سے دل نہ لگائیں اور یہ حقیقت پیش نظر رکھیں کہ اس دنیا کو اپنی جنت سمجھنا اور اسے اپنا دل لگانا اور اس کے عیش کو اپنا اصل مقصود بنانا کافرانہ طریقہ ہے اگر اس کے دل کا تعلق اس دنیا کے ساتھ وہ ہے جو قید خانے کے ساتھ قیدی کا ہو تو وہ مومن ہے اور اگر اس نے اس دنیا سے اپنا دل ایسا لگا لیا کہ اس کو اپنا مقصود  مطلوب بنا لیا تو حدیث بتاتی ہے کہ اس کا یہ حال کافرانہ ہے




 




: حدیث نمبر سات

لَا تَغْضَبْ (صحيح البخاري | كِتَابٌ : الْأَدَبُ  | بَابُ الْحَذَرِ مِنَ الْغَضَبِ رقم الحدیث 6116)

 غصہ مت کیا کرو 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 تشریح :یہ ایک حقیقت ہے کہ بری عادتوں میں غصہ نہایت ہی خطرناک اور بہت ہی برے انجام والی عادت ہے۔ غصہ کی حالت میں آدمی کو نہ الله تعالی کی حدود کا خیال رہتا ہے نہ اپنے نفع اور نقصان کا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ انسان پر شیطان قابو جیسا غصہ کی حالت میں چلتا ہے ایسا شاید کسی دوسری  حالت میں نہیں چلتا گویا اس وقت انسان اپنے بس میں نہیں ہوتا،بلکہ شیطان کی مٹھی میں ہوتا ہے حد یہ ہے کہ غصہ کی حالت میں آدمی کبھی کبھی کفریہ کلمات بھی کہنے لگتا ہے،

 اسی لئے رسول اللہ نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا ہے کہ "غصہ دین و ایمان کو اس طرح خراب کر دیاہے جس طرح  ایلوا  شہد کو خراب اور بالکل ہی کڑوا کر دیتا ہے" 

لیکن واضح رہے کہ شریعت میں جس غصہ کی ممانعت اور سخت مذمت کی گئی ہے اس سے مراد وہی غصہ ہے جو نفسانیت کی وجہ سے ہو اور جس سے مغلوب ہو کر آدمی اللہ تعالی کی حدود اور شریعت کے احکام کا پابند نہ رہے، لیکن جو غصہ اللہ کیلئے اور حق کی بنیاد پر ہو ، اور اس میں حدود سے تجاوز نہ ہو، بلکہ بندہ اس میں  حدود اللہ کا پورا پا بندر ہے، تو وہ کمال ایمان کی نشانی ہے۔





جس نے دنیا کو ترجیح دی اللہ تعالیٰ اس کے لئے دنیا کو وسیع کر دیتا ہے جس کے پیچھے وہ بھاگ بھاگ کے تھک جاتا ہے مگر اس کا دل نہیں بھرتا اور نا ھی کچھ حاصل ھوتا ھے اور جو اللہ کو ترجیح دیتا ہے اس کی دنیا محدود ہو جاتی ہے اور وہ اللہ سے قریب تر ہو جاتا ہے اور بہت لا حاصل چیزوں کا غم ختم ھو جاتا ھے♥️


💚❤️💚❤️💚❤️💚❤️💚❤️💚



 


اے پاک پروردگار    

ہمیں عقل ، تدبر اور تشکر والی زندگی عطاء فرما. 

ہمیں ﺩﯾﻦ، ﺩﻧﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮﺕ ﮐﯽ ﺑﮭﻼﺋﯽ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎ.

 ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرما. 

ہم اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں ہماری توبہ قبول فرما.

ہمیں دوسروں کو معاف کرنے اور درگزر کرنے کی توفیق عطا فرما.

آمین، ثم آمین


❤️💚❤️💚❤️💚❤️💚❤️💚❤️






کسی کو ذہن سے قبول کرنا اور کسی کو دل سے قبول کرنا ….

زمین آسمان کا فرق ہے ..

ذہن سے قبول رشتے ذہن تک سکون دیتے ہیں ..

دل کے رشتے روح  کو سکون دیتے ہیں ..

ذہن کے رشتے ٹوٹ بھی جائیں دل کے رشتے کبھی نہیں  ٹوٹتے ہیں ..

کبھی نہں💕


❤️💚❤️💚❤️💚❤️💚❤️💚❤️

[




ایسی تحریریں بہت کم ملتی ہیں, ضرور پڑھیں


ایک استاد صاحب نے کلاس میں موجود جسمانی طور پر ایک مضبوط بچے کو بُلایا اُسے اپنے سامنے کھڑا کیا۔ اپنا ہاتھ اُس کے کندھے پر رکھا اور بولے تگڑا ہو جا۔ پھر اُسے نیچے کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا یا - یوں کہہ لیجیئے کہ دبانا شروع کر دیا - وہ بچہ تگڑا تھا وہ اکڑ کر کھڑا رہا۔ استاد محترم نے اپنا پورا زور لگانا شروع کر دیا۔ وہ بچہ دبنے لگا اور بلآخر آہستہ آہستہ نیچے بیٹھتا چلا گیا۔ استاد محترم بھی اُسے دبانے کے لئے نیچے ہوتا چلا گیا۔ وہ لڑکا آخر میں تقریباً گر گیا اور اُس سے تھوڑا کم استاد محترم بھی زمین پر تھے۔ اُستاد صاحب نے اِس کے بعد اُسے اٹھایا اور کلاس سے مخاطب ہوئے؛


”آپ نے دیکھا مجھے اِس بچے کو نیچے گرانے کے لئے کتنا زور لگانا پڑا؟


دوسرا یہ جیسے جیسے نیچے کی طرف جا رہا تھا، میں بھی اِس کے ساتھ ساتھ نیچے جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ ہم دونوں زمین کی سطح تک پہنچ گئے۔“


استادِ محترم اُس کے بعد رکے لمبی سانس لی اور بولے؛

”یاد رکھئیے! ہم جب بھی زندگی میں کِسی شخص کو نیچے گرانے یا دبانے کی کوشش کرتے ہیں تو صرف ہمارا ہدف ہی نیچے نہیں جاتا ہم بھی اُس کے ساتھ زمین کی سطح تک آ جاتے ہیں۔ (مطلب انسانیت سے گِر جاتے ہیں) جب کہ اِس کے برعکس ہم جب کسی شخص کو نیچے سے اٹھاتے ہیں تو صرف وہ شخص اوپر نہیں آتا۔ ہم بھی اوپر اٹھتے چلے جاتے ہیں ہمارا درجہ، ہمارا مقام بھی بلند ہو جاتا ہے۔


اُستاد صاحب اِس کے بعد رکے اور بولے باکمال انسان کبھی کسی کو نیچے نہیں گراتا۔ وہ ہمیشہ گرے ہوﺅں کو اٹھاتا ہے۔ اور اُن کے ساتھ ساتھ خود بھی اوپر اٹھتا چلا جاتا ہے، وہ بلند ہوتا رہتا ہے۔


#مقتبس




 

 

 

 

 

ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺑﮯ ﻧﻤﺎﺯ...ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ. ﺇﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﻪ ﺳﻌﻮﺩﯼ ﻋﺮﺏ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﺭﯾﺎﺽ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﭘﯿﺶ ﺧﺪﻣﺖ ﮨﮯ. ﺍﯾﮏ ﭨﯿﮑﺴﯽ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ 4 ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﮮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺷﺮﻗﯿﺔ ﺟﻮﮐﮧ ﺭﯾﺎﺽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻼﻗﮧ ﮨﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﮩﺎ. ﺍﯾﮏ ﺁﮔﮯ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﻦ ﭘﯿﻬﭽﮯ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ. ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﭩﺮﻭﻝ ﭘﻤﭗ ﭘﺮ ﮔﺎﮌﯼ ﺭﮐﯽ ﺗﻮ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ ﮨﻢ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﮧ ﭘﮍﮪ ﻟﯿﮟ.....ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﺳﻨﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﮔﮯ...ﺗﻮ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﮧ ﭘﮍﮬﮯ.. .ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ.. .ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﻫﻢ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ...ﻣﮕﺮ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﺗﻮ ﺑﻨﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮈﺍﺋﺮﯾﮑﭧ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﮨﮯ.. .ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺴﯽ ﺑﻬﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ... .ﭘﻬﺮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮨﯽ ﺷﺨﺺ ﺟﻮ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﻤﺎﺯ ﺳﮯ.. .ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﺳﻤﯿﺖ ﮔﺎﮌﯼ ﺳﮯ ﺍﺗﺮ ﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﺿﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ... .ﯾﮩﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﭼﻼﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﮐﺮﻭﺍﺗﺎ ﮨﮯ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﺳﮑﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ....ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ......ﮐﯿﺎ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ.. .ﺩﻭﺳﺖ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ.. .ﻣﮕﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ. ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﺳﮯ ﮨﻼﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮔﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮈﺍﻻ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ..... .ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺟﮩﺎﻥ ﻓﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﮐﻮﭺ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﻫﮯ ﯾﮧ ﻭﮨﯽ ﺷﺨﺺ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﻮﺕ ﮐﯿﺴﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺁﺋﯽ.....ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﭘﯿﭩﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ...... .ﺍﺳﮑﮯ ﺑﻬﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﺍﻃﻼﻉ ﺩﯼ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ....ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﯿﮟ.. .ﻣﮕﺮ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺧﻮﺵ ﻗﺴﻤﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﻮ ﻣﻮﺕ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺪﮮ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﻬﺎﺋﯽ ﯾﻘﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ.. .ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﮯ.. .ﺍﺳﻨﮯ ﺗﻮ 15 ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﮬﯽ... .ﻭﮦ ﺗﻮ ﺑﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﺗﮭﺎ..... .ﻣﮕﺮ ﺩﯾﮑﻬﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﮐﺘﻨﯽ ﻭﺳﯿﻊ ﮨﮯ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﻧﺴﯽ ﻧﯿﮑﯽ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺧﺎﺗﻤﮧ ﺑﺎﻹﻳﻤﺎﻥ ﮨﻮﮔﯿﺎ..... ﺍﻟﻠﻪ ﺃﻛﺒﺮ.. . ﻫﻢ ﺳﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﯾﮧ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺧﺎﺗﻤﮧ ﺑﺎﻹﻳﻤﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎﻧﺎ. ﺁﻣﯿﻦ


 



: اشفاق احمد کہتے ہیں جس پہ کرم ہے، اُس سے کبھی پنگا نہ لینا۔ وہ تو کرم پہ چل رہا ہے۔ تم چلتی مشین میں ہاتھ دو گے، اُڑ جاؤ گے۔

کرم کا فارمولا تو کوئی نہیں ۔اُس کرم کی وجہ ڈھونڈو۔

جہاں تک میرا مشاہدہ ہے، جب بھی کوئی ایسا شخص دیکھا جس پر ربّ کا کرم تھا، اُسے عاجز پایا۔

پوری عقل کے باوجود بس سیدھا سا بندہ۔

بہت تیزی نہیں دکھائے گا۔

اُلجھائے گا نہیں۔

رستہ دے دے گا۔

بہت زیادہ غصّہ نہیں کرے گا۔

سادہ بات کرے گا۔

میں نے ہر کرم ہوئے شخص کو مخلص دیکھا ـــ اخلاص والا۔۔۔ غلطی کو مان جاتا ہے۔ معذرت کر لیتا ہے۔ سرنڈر کردیتا ہے۔

جس پر کرم ہوا ہے ناں، میں نے اُسے دوسروں کے لئے فائدہ مند دیکھا۔*

یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کی ذات سے نفع ہو رہا ہو، اور اللہ آپ کے لئے کشادگی کو روک دے؛ وہ اور کرم کرے گا۔

میں نے ہر صاحبِ کرم کو احسان کرتے دیکھا ہے۔

حق سے زیادہ دیتا ہے۔

اُس کا درجن 13 کا ہوتا ہے، 12 کا نہیں۔

اللہ کے کرم کے پہیے کو چلانے کے لئے آپ بھی درجن 13 کا کرو اپنی زندگی میں۔

اپنی کمٹمنٹ سے تھوڑا زیادہ احسان کیا کرو۔

نئیں تو کیا ہو گا؟ حساب پہ چلو گے تو حساب ہی چلے گا

دل کے کنجوس کے لئے کائنات بھی کنجوس ہے۔

دل کے سخی کے لئے کائنات خزانہ ہے۔

جب زندگی کے معاملات اَڑ جائیں؛ سمجھ جاؤ تم نے دوسروں کے معاملات اَڑاۓ ہوۓ ہیں۔

آسانیاں دو؛ آسانیاں ملیں گی






: ایک پاکستانی لڑکی کی کارگزاری  اپنی عرب سہیلی کے بارے


اسکا دو ماہ کا بچہ تھا وہ پیمپر تبدیل کر وانے واش روم گئیں ۔مدد کے لئے میں بھی ساتھ ہو لی ۔بچے کو دھلانے کے بعد انھوں نے اسے مکمل وضو کروایا ۔میرے لئے یہ ایک نیا عمل تھا ۔وضو عموماً بڑے ہی کرتے ہیں اتنے چھوٹے بچوں کو وضو کروانے  کا تصور نہیں ۔

اس کے بہت سے کام الگ سے تھے۔ دو سالہ بیٹی کو کھانا کھلانے لگیں ہر نوالہ منہ میں ڈال کر کہتیں  الحمدللہ ،بچی بھی توتلی زبان میں دہراتی تب دوسرا نوالہ کھلاتیں۔ وہ مکمل یکسوئی سے بچوں میں مگن تھیں ۔اسی یکسوئی سے میں ان ماں بچوں کا مشاہدہ کیے جا رہی تھی۔

وہ یمن کی رہنے والی تھیں کالج میں ساتھ ہی عربی پڑھاتی تھیں یہیں دوستی ہو گئی۔خلوص اور محبت کے ساتھ اس دوستی کی  وجہ عربی زبان  تھی ۔انھیں ٹوٹی پھوٹی اردو اور انگریزی  آتی تھی۔دیار غیر میں ہم زبان کا مل جانا ایک نعمت ہوتی ہے۔وہ جیسے ہم زبان کی ترسی ہوئی تھیں۔

کچھ ہی دنوں بعد میری دعوت پر گھر چلی آئیں ان کا ہر ہر انداز الگ سا تھا اور میں سیکھنے کی شائق۔


 بچوں پر خاص توجہ سے عرب ماؤں کی فضیلت سمجھ آئی کہ وہ بچوں کا بہت خیال رکھنے والی ہوتی ہیں۔

بچوں سے  فارغ ہو کر  عفوا (معذرت)کہتے ہوئے میری طرف متوجہ ہوئیں۔ 

 مشکل سے روکے ہوئے سوالات میں سے پہلا سوال  پوچھا آپ اتنے چھوٹے بچے کو وضو کیوں کرواتی ہیں۔ ان کا جواب سوچ کی نئی جہت دینے والا تھا کہنے لگیں بچہ سب کچھ اسی  عمر میں سیکھتا ہے اپنی شخصیت کی بنیادیں رکھتا ہےاس عمر میں دیا جانے والا ہر تصور پختگی کے ساتھ بچے کی شخصیت میں پیوست ہو جاتا ہے۔

 پہلی  وجہ یہ ہے کہ پاکیزگی اسکی بنیادوں میں ڈالنا چاہتی ہوں اس لئے اسے پہلے دن سے وضو کی عادت ڈالی ہے۔

 امید ہے آخری دم تک پاکی کے ساتھ رہے گا اور اس کے اعضاء وضو روز قیامت روشن ہونگے ۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ معصوم ہے شیاطین کے حملے بھی ہوتے ہیں ان سے تحفظ ہوگا۔

جھٹ دوسرا سوال کیا ۔کھانے کے دوران ایک مرتبہ تو اللہ کا شکر ادا کرنا سمجھ آتا ہے یہ ہر ہر نوالے پر بات سمجھ نہیں آئی۔وہ مسکرائیں اور سمجھاتے ہوئے کہا ۔

میری پیاری سہیلی وہ رب جس نے ہمیں خاص طور پر بنایا تمام مخلوقات کو ہماری خدمت میں لگایا۔ ہم تو شکر ادا کر ہی نہیں سکتے ۔یہ نوالہ جو ہم منہ میں ڈالتے ہیں۔کتنے مراحل سے گزار کر ہمارے ہاتھوں میں دیا جاتا ہے۔اس کا شکر تو ہر سانس کے ساتھ واجب ہے۔ 

شکر کا احساس بچوں کی گھٹی میں ڈالنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ اس نے اللہ کی دی نعمتوں کا ایسا تذکرہ کیا کہ سر شرم سے جھک گیا۔ 

ہم ایک شکائتی ماحول میں پلنے والے لوگ ہیں ۔آپس میں ایک دوسرے سے تو نالاں رہتے ہی ہیں رب سے بھی شکوے شکائتوں ہی کا تعلق ہے ۔ اولین تعلق  شکر گزاری کا ہو یہ ان سے سیکھا۔ 

ان  کے سامنے بیٹھی زندگی کے کئی سبق لیتے وقت کا پتہ ہی نہ چلا۔

جو سبق سیکھے وہ آپ بھی سیکھئے

[

 

 

 میں کل اپنے ایک کاروباری دوست کے پاس دفتر گیا چائے پی گپ شپ لگاتے ہوئے گھر جانے کا وقت ہو گیا۔ جب دفتر سے باہر نکل رہے تھے تو کلرک نے آ کر ایک شکایت لگائی کی جناب فلاں چپڑاسی سست ہے کام نہیں کرتا، ڈرائیور نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔


میرے اُس دوست نے کہا اگر کام نہیں کرتا تو کس لیے رکھا ہو ہے، فارغ کرو اسے۔ میں نے فورا مداخلت کی اور کہا، کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ایک دفعہ اس سے بات کر لو، کیا پتہ اسکے کچھ مسائل ہوں۔ پھر میں نے اپنے دوست کو ایک آنکھوں دیکھا واقعہ سنایا۔


،،شیخ صاحب لاہور میں ایک معمولی سے دفتر میں ملازم تھے، دن کچھ ایسے پھرے کہ اسی دفتر کے صاحب کو پسند آ گئے اور یوں انکی فیملی میں ہی شیخ صاحب کی شادی ہو گئی۔


 قدرت شیخ صاحب پر مہربان تھی، دن رات اور رات دن میں بدلتے گئے اور شیخ صاحب ایک دکان سے ایک مارکیٹ اور پھر ایک فیکٹری سے دو، چار، اور پھر نہ جانے کتنی فیکٹریوں کے مالک بنتے گئے۔


دھن برستا گیا، دو بچے ہو گئے۔ شیخ صاحب نے کرائے والی کمرے سے ایک اپارٹمنٹ اور پھر لاہور کے انتہائی پوش علاقے میں دو کنال کی ایک کوٹھی خرید لی۔ مالی کی ضرورت پیش آئی تو چکوال سے آئے ہوئے سلطان کو فیکٹری سے نکال کر اپنی کوٹھی میں پندرہ سو روپے ماہوار پر اپنی کوٹھی پر ملازم رکھ لیا۔


سلطان ایک انتہائی شریف اور اپنے کام سے کام رکھنے والا انسان تھا، نہ کسی سے کوئی جھگڑا، نہ کوئی عداوت، نہ کبھی کوئی شکائت۔ ایک بار شیخ صاحب دن کے دس بجے کسی کام سے گھر واپس آئے تو گاڑئ دروازے پر ہی کھڑی کر دی 

کہ ابھی واپس دفتر جانا تھا۔ دروازے سے گھر کے داخلئ دروازے کے درمیان اللہ جانے کیا ہوا کہ پودوں کو پانی دیتے سلطان کے ہاتھ سے پایپ پھسلا اور شیخ صاحب کے کپڑوں پر پوری ایک تیز پھوار جا پڑی،


شیخ صاحب بھیگ گئے۔ سلطان پاؤں میں گر گیا، گڑگڑا کر معافی مانگنے لگا کہ صاحب غلطی ہو گئی۔ لیکن شیخ صاحب کا دماغ آسمان پر تھا۔ غصے میں نہ آو دیکھا نہ تاو، وہیں کھڑے کھڑے سلطان کو نوکری سے ننکال دیا۔کہا شام سے پہلے اس گھر سے نکل جاوؐ۔


سلطان بیچارہ سامان کی پوٹلی باندھ کر گھر سے نکل کر دروازے کے پاس ہی بیٹھ گیا کہ شاید صاحب کا غصہ شام تک ٹھنڈا ہو جائے تو واپس بلا لیں۔ شام کو سیخ صاحب واپس آئے، دیکھا سلطان ابھی تک بیٹھا ہوا تھا، گارڈ کو کہا اسے دھکے دیکر نکال دو، یہ یہاں نظر نہ آئے، صبح ہوئی تو سلطان جا چکا تھا۔ رب جانے کہاں گیا تھا۔


وقت کزرتا گیا، شیخ صاحب کے تیزی سے ترقی پاتے کاروبار اور فیکٹریوں میں ایک ٹھہراوؐ سا آنے لگا۔ کاروبار میں ترقی کی رفتار آہستہ آہستہ کم پڑتی گئی۔ لیکن شیخ صاحب زندگی سے بہت مطمئن تھے۔


 پھر ایک فیکٹری میں آگ لگ گئی، پوری فیکٹری جل کر راکھ ہو گئی۔ کچھ مزدور بھی جل گئے۔ شیخ صاحب کو بئٹھے بٹھائے کروڑوں کا جھٹکا لگ گیا۔ کاروبار میں نقصان ہونا شروع ہوا تو شیخ صاحب کے ماتھے پر بل پڑنا شروع ہو گئے۔ بڑا بیٹا یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ تھا،


دوستوں کے ساتھ سیر پر مری گیا واپسی پر حادثہ ہوا تو وہ جوان جہان دنیا سے رخصت ہو گیا۔ شیخ صاحب کی کمر ٹوٹ گئی۔


نقصان پر نقصان ہوتے گئے۔ دو کنال کی کوٹھی بیچ کر دس مرلے کے عوامی طرز کے محلے میں آ گئے۔ جب عقل سے کچھ پلے نہ پڑا تو پیروں فقیروںںں کے ہاں چلے گئے کہ شاید کوئی دعا ہاتھ لگ جائے اور بگڑی ہوئی زندگی پھر سے سنور جائے۔ باقی ماندہ کاروبار بیچ کر اور کچھ دیگر پراپرٹی کو رہن رکھ کر بنک سے قرضہ لیا اور چھوٹے بیٹے کو ایک نیا کاروبار کر کے دیا۔


 اسکے پارٹنر دوست نے دغا کیا اور اکثر پیسہ ڈوب گیا۔ شیخ صاحب ساٹھ سال کی عمر میں چارپائی سے لگ گئے۔


ایک دن ایک پرانا جاننے والا ملنے آئا، حالات دیکھے تو بہت افسوس کیا۔ کہا شیخ صاحب انڈیا سے ایک بزرگ آئے ہوئے ہیں، بہت بڑے اللہ والے ہیں، داتا صاحب کے پاس ہی ایک مکان میں انکا چند دن کا قیام ہے، اگر ان کے پاس سے دعا کروا لیں تو اللہ کرم کرے گا۔


شیخ صاحب فورا تیار ہو گئے۔ اس مکان پر پہنچے، ملاقات کی، مسئلہ بیان کیا۔ انہوں نے آنکھیں بند کیں، کچھ دیر مراقبے کی کیفیت میں رہے، پھر آنکھیں کھولیں، شیخ کو دیکھا اور کہا "تم نے سلطان کو کیوں نکالا تھا؟"


چیخ کے سر کے اوپر گویا ایک قیامت ٹوٹ پڑی، آنکھوں سے آنسووؐں کی ایک نہ تھمنے والی لڑی جاری ہو گئی، شیخ بزرگ کے پاوؐں میں گر گیا، معافیاں مانگنے لگا۔ بزرگ نے اسے کہا میری بات سنو۔ پروردگار رازق ہے، وق رزق ضرور دے گا لیکن اسکا وسیلہ انسانوں کو ہی بنائے گا۔اوپر سے نیچے آتے پانی کی تقسیم جس طرح نہروں نالوں کی طرح ہوتی ہے رزق کی تقسیم اسی طرح ہے۔


 پروردگار کے نز…






 اپنے بچوں کی تصاویر پوسٹ کرنے کا عجیب رواج چل نکلا ہے اور خاص طور پر نومولود بچوں کی اور پھر کہتے ہیں ابھی تو اچھا/اچھی بھلی تھی اور بیٹا /بیٹی بیمار ہوگئی ہے لیکن بیماری کی سمجھ ڈاکٹر کو بھی نہیں آرہی؟ 🤔 او بھائی ڈاکٹر کو کیا سمجھ آئے گی 🤔


لگ جانے والی نظر تو انسان کو قبر میں اور اونٹ 🐪 کو ہانڈی میں پہنچا دیتی ہے


لہٰذا اپنے نومولود کی پیدائش کے اعلان کے ساتھ اپنے بچوں کی تصاویر پوسٹ کرنے سے اجتناب برتیں اور انہیں دم کیا کریں جیسے سیدالاولین و الآخرين صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بیٹوں و شہزادوں اور جنت کے نوجوانوں کے سرداروں سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو دم کیا کرتے تھے


حدیث نمبر: 4737

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏أخبرنَا جَرِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ:‏‏‏‏ أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ،‏‏‏‏ ثُمَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ كَانَ أَبُوكُمْ يُعَوِّذُ بِهِمَا إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ هَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْقُرْآنَ لَيْسَ بِمَخْلُوقٍ.


عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے لیے  (ان الفاظ میں)  اللہ تعالیٰ پناہ مانگتے تھے


 أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ 


میں تم دونوں کے لیے پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے کلمات کے ذریعہ، ہر شیطان سے، ہر زہریلے کیڑے  (سانپ بچھو وغیرہ)  سے اور ہر نظر بد والی آنکھ سے 


پھر فرماتے: تمہارے باپ  (ابراہیم)  اسماعیل و اسحاق کے لیے بھی انہی کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتے تھے ۔


ابوداؤد کہتے ہیں: یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے۔  


 تخریج دارالدعوہ:  صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ١٠ (٣٣٧١)، سنن الترمذی/الطب ١٨ (٢٠٦٠)، سنن ابن ماجہ/الطب ٣٦ (٣٥٢٥)، (تحفة الأشراف: ٥٦٢٧)، وقد أخرجہ: مسند احمد (١/٢٣٦، ٢٧٠) (صحیح  )


                   از ✍️ أبو حسن، میاں سعید




: اگر آپ وہ انسان ہیں جس کا سفر گانوں کے بغیر نہیں گُزرتا، تو میری صرف ایک بات اپنے ہر سفر سے پہلے یاد کر لیجئیے گا، یہ سفر آخری بھی تو ہوسکتا ہے، یہ جملہ ذہن میں آتے ہی ہمت کھو دیں گے آپ گانے سنتے سفر کرنے کی، کتنے ہی ایسے لوگ تھے جو گھروں سے نکلے دور دور کی منزلوں کے لیئے، لمبے سفروں پر، پَر رستے میں ہی زندگی کا سفر ختم ہو گیا، تو آپ کے پاس کیا گارنٹی ہے کہ آپ اسی منزل تک پہنچ پائیں گے جسکے لیئے آپ گھر سے نکلے ہیں، اور اگر رستے میں ہی موت کے فرشتوں نے آلیا، یا ایکسیڈینٹ ہو گیا تو کیا شیطان کی آواز سنتے دنیا سے جائیں گے❓کیا یہ ایمان والی موت ہوگی❓کیا یہ حسن خاتمہ ہو گا❓💖




 

.





: سبق آموز


شاه رخ خان , سلمان خان.

عامر خان , سچن ٹیندولکر.

میسی , شاہد آفریدی بابر اعظم محمد رضوان .

وراٹ کوھلی ......

یہ ان لوگوں کے نام ہیں جو آپکو نہیں جانتے ...!

جنہیں آپکی کوئی پرواہ بھی نہیں...!

جنہیں آپکے مستقبل کی کوئی فکر نہیں....!

ان لوگوں نے آپکے لئے کبھی بھی کسی سے کچھ نہیں مانگا....!

ان لوگوں نے کبھی غلطی سے بھی آپکو یاد نہیں کیا...!

ان لوگوں نے کبھی آپ سے محبت کا اظہار بھی نہیں کیا...!

لیکن .!!

!!▬کوئی ہے ▬!!

• جو آپ سب کے لئے راتوں کو اٹھ اٹھ کر رویا تھا....!

• جس کو آپکی فکر ہمیشہ ستاتی رہتی تھی...!

• جس نے ہمیشہ اپنے اللہ سے آپکی جنت کو مانگا....!

• جس نے آپ سے حد درجہ محبت کی...!

• جس نے آپکے لئے پتھر بھی کھائے...!

• جس نے اپنے آخری وقت میں بھی آپکو یاد کیا...!

اور جو روز قیامت بھی ہماری شفاعت کے لئے رب کے حضور اپنی پیشانی سجدہ ریز کئے ہوئے ملے گا....

اور ہم نے کیا کیا۔؟؟ ہم نے اپنی زندگی ان لوگوں پر لگا دی جو ہمیں جانتے بھی نہیں....!

 ہم نے اپنے نہ جانے کتنے پیسے... ان لوگوں پر برباد کردئے جنہیں ہماری پرواہ کبھی تھی ہی نہیں ...!

 ہم نے ان لوگوں کو اپنا آئیڈیل بنایا جنکو کبھی ہمارے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملی....!

 کیا ہم نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو جاننے کی کوشش کی ؟

 جس ذات نے صرف اور صرف ہمارے اور آپکے لئے اتنی مشقتیں برداشت کیں ...!

 جو ہمارے غم میں راتوں کو اٹھ کر روتا رہا....!

 جس ذات نے ہمیں ساری زندگی یاد رکھا

ہم نے انھیں کتنا یاد رکھا ...!.

◕ ذرا سوچیں.....!!

کیا یہی انصاف کا تقاضا ہے...؟؟

کیا اسی کانام أمت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہونا ہے....؟؟

کیا واقعی ہمارے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کوئی اہمیت رکھتی ہے__ ؟؟

کیا ہم اپنے بہترین امتی ہونے کا، اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا حق ادا کر رہے ہیں۔۔؟؟


ہوں کروڑوں درود اور لاکھوں سلام۔۔۔

میرے آقا کے  نام۔۔۔

صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم❤





: کسی زمانے میں  روزانہ رات کو باقاعدگی سے ابو کی ٹانگیں دباتا اور سر کی مالش کرتا تھا پھر لیپ ٹاپ اور انڈرائڈ موبائل آیا اور اس فریضے کو گویا بھول ہی گیا۔


پچھلے دنوں ابا جی ایک لمبے سفر سے لوٹے تو تھکن کی وجہ سے چال میں کچھ لنگراہٹ سی محسوس ہوئی 

نہ جانے کیوں دل میں خیال آیا اور ابا کی ٹانگیں دبانے بیٹھ گیا ابا نے بس ایک سوال پوچھا۔ 


"بیٹا موبائل تو ٹھیک ہے نا"


یہ چند لفظوں کا ایک سوال نہیں ہزاروں لفظوں پے بھاری ایک نوحہ ہے۔


والدین بڑے حساس ہوتے ہیں انہیں سب نظر آتا ہے لیکن وہ اکثر کچھ نہیں کہتے۔ 


سوشل میڈیا میں غرق بچوں ۔۔۔

اپنے والدین کو وقت دو۔

ان کے چہرے پڑھو۔

ان کے کہنے کا انتظار نہ کرو۔


"ایسا نہ ہو کہ وقت گزر جائے اور پچھتانا پڑے"

"والدین دنیا کی سب سے عظیم نعمت ہیں ان کی قدر کر یں"





: ایک اُبلا انڈا کتنے کا ہے؟” گاڑی روک کر خاتون نے بوڑھے غریب سے پوچھا ۔

15روپے کا ایک بیٹی ۔۔۔ بزرگ نے سردی سے ٹھٹھرتی آواز میں کہا۔ 

50 کے 4 دیتے ہو تو بولو۔ خاتون بولی۔

لے لو بیٹی بزرگ نے یہ سوچ کر کہا کہ کوئی گاہک تو ملا۔


اگلے دن خاتون اپنے بچوں کو لے کر ایک مہنگے ریسٹورنٹ گئی اور سب بچوں کا من پسند کھانا آرڈر کیا، کھانا کھانے کے بعد جب بل 1900 روپے آیا تو پرس سے 2000 روپے نکال کر دیئے اور “Keep the Change” کہہ کر چلی گئی۔


تو گویا اِس خاتون نے فتح اِس میں سمجھی جس بوڑھے بزرگ انڈے بیچنے والے کو زیادہ پیسے دینے چاہئیے تھے تو اس کا حق مار لیا، اور جو پہلے ہی بڑے ناموں کے ریسٹورنٹ بنا کر عوام کو لوٹ رہے ہیں اُن کو 100 روپے زیادہ دے دیئے۔


▪☜ کبھی اِن غریبوں سے یہ سوچ کر ہی خریداری کر لیا کریں شائد ہم کسی کی مدد کا سبب بن جائیں۔ ان لوگوں سے چیزیں بلاوجہ بھی خرید لیا کرو کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو بھیک نہیں مانگتے۔

اس عمر میں یہ لوگ امیر ہونے کے لئے نہیں بلکہ دو وقت کی روٹی کے لئے کماتے ہیں ۔


ذرا سوچئے گا ضرور۔۔۔!

جزاک اللہ خیرا 

اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)




: 👈 مولوی صاحب اور ھوٹل​ 👉


شہر کے بیچ میں جامع مسجد کے دروازے کے سامنے ریحان کا چائے کا ہوٹل ہے۔ اس کا ہوٹل خوب چلتا ہے۔ اس نے ہوٹل کی دیوار پر پچاس انچ کی ایل ای ڈی لگا رکھی ہے جس پر سارا دن لوگ فلمیں دیکھتے ہیں۔ ہندی ، انگریزی ، چائنیز وغیرہ، رات دس بجے کے بعد والے شو بالغ افراد کے لئے ہوتے ہیں۔ ریحان کو فلموں کی کافی جانکاری ہے۔ ہارر ، رومانوی ، تاریخی ، آرٹ ہر طرح کی فلموں کا وسیع علم ہے۔

ریحان پانچ وقت کا نمازی بھی ہے۔ جیسے ہی اذان ہوتی ہے وہ دکان چھوٹے لڑکے کو سونپ کر مسجد کا رخ کرتا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ پنجگانہ نماز کی بدولت ہی اس کے کاروبار میں برکت ہے۔ یوں ریحان کا سارا دن فلموں میں اور پانچ مرتبہ کچھ منٹ مسجد میں گزرتے ہیں۔ مگر تمام لوگوں کا ماننا ہے کہ ریحان ایک نیک اور نمازی پرہیزگار آدمی ہے۔

مسجد کے امام کا نام مولوی "حافظ عبدالسبحان" ہے۔

پچیس سال کا خوب رو باریش نوجوان ، تازہ تازہ درس نظامی کر کے آیا ہے اور مسجد میں بلا معاوضہ امامت و تدریس سنبھالی ہے۔

نماز پڑھانے اور بچوں کو درس دینے کے بعد مسجد سے ملحق حجرے میں جا بیٹھتا ہے اور کتابوں میں کھو جاتا ہے۔ کل عصر کی نماز کے بعد مولوی صاحب کا چائے پینے کا من ھوا تو مولانا صاحب کے دل میں خیال آیا کیوں نا آج اپنے ریحان بھائی کے ہوٹل سے چائے پی جائے ۔ مسجد کے صدر دروازے پر ھوٹل ھے۔ چنانچہ وہ حجرے کا کواڑ لگا کر چپل پہنے ہوٹل میں داخل ہوئے ۔ تمام فلم بین جو پیشاب روکے ، آنکھیں پھاڑے فلم میں مست تھے ، مولوی صاحب کو دیکھ کر یوں چونکے جیسے کوئی خلائی مخلوق ہوٹل میں داخل ہو گئی ہو ۔ مولوی صاحب نے چائے کا کہا اور ایک کونے میں بیٹھ کر رسالہ پڑھنے لگ گئے، تیسری آنکھ سے دیکھنے والے کو صاف معلوم پڑتا تھا کہ اس وقت ہوٹل میں مجرم فقط ایک ذات تھی یعنی "مولوی حافظ عبدالسبحان صاحب"۔

چائے پینے کے بعد حجرے میں لوٹ آئے ۔ نماز مغرب کی اذان دے کر مولوی صاحب مصلے امامت تک تشریف لائے تو مقتدیوں کے چہرے یوں بدلے ہوئے تھے جیسے کوفہ والوں کے مسلم بن عقیل کو دیکھ کر بدلے تھے ۔ اطراف میں بات پھیل چکی تھی کہ مولوی صاحب فلمیں بہت دیکھتے ہیں اور ان کے پیچھے نماز جائز نہیں ۔ مولوی صاحب کی چھٹی کروا دی گئی۔ 

عشاء کے وقت جب مولوی"حافظ عبدالسبحان" صاحب اپنا سامان سمیٹے مسجد سے نکل رہے تھے تو ریحان بھائی کے ہوٹل میں بیٹھے چاچا شریف نے ریحان کو پکارتے ہوئے کہا :

"اچھا کیا مولوی حافظ عبدالسبحان صاحب کی چھٹی کروا دی، ایسے مولویوں کی وجہ سے اسلام بدنام ہے اور ہم مسلمانوں کی عزت نہیں ہے ۔" ریحان نے ہاں میں ہاں ملائی اور پھر سے سب دوبارہ فلم میں مگن ہو گئے۔


یہ ہے ہمارے معاشرے کا حال، ریحان سارا دن فلمیں دیکھنے اور دکھانے والا نیک ہے اور مولوی صاحب پانچ منٹ چائے پینے گئے تو بہت بڑے گناہ گار ھوگئے۔۔۔۔۔۔

الله هم سب كو هدايت عطا فرمائے ... 

آمین ثم آمین یارب العالمین۔




: غیر سیاسی پوسٹ🤫🤫🤣🤣

ایک بادشاہ نے اپنے بہنوئی کی سفارش پر ایک شخص کو موسمیات کا وزیر لگا دیا۔ ایک روز بادشاہ شکار پر جانے لگا تو روانگی سے قبل اپنے وزیرِ موسمیات سے موسم کا حال پوچھا۔ وزیر نے کہا کہ موسم بہت اچھا ہے اور اگلے کئی روز تک اسی طرح رہے گا۔ بارش وغیرہ کا قطعاً کوئی امکان نہیں۔ بادشاہ مطمئن ہوکر اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ شکار پر روانہ ہو گیا۔ راستے میں بادشاہ کو ایک کمہار ملا۔ 

اس نے کہا حضور! آپ کا اقبال بلند ہو‘ آپ اس موسم میں کہاں جا رہے ہیں؟ 

بادشاہ نے کہا شکار پر۔

 کمہار کہنے لگا‘ حضور! موسم کچھ ہی دیر بعد خراب ہونے اور بارش کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ 

بادشاہ نے کہا‘ ابے او برتن بنا کر گدھے پر لادنے والے ‘ تو کیا جانے موسم کیا ہے ؟ میرے وزیر نے بتایا ہے کہ موسم نہایت خوشگوار ہے اور شکار کے لیے بہت موزوں اور تم کہہ رہے ہو کہ بارش ہونے والی ہے؟

پھر بادشاہ نے ایک مصاحب کو حکم دیا کہ اس بے پر کی چھوڑنے والے کمہار کو دو جوتے مارے جائیں۔ 

بادشاہ کے حکم پر فوری عمل ہوا اور کمہار کو دو جوتے نقد مار کر بادشاہ شکار کے لیے جنگل میں داخل ہو گیا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ گھٹا ٹوپ بادل چھا گئے ۔ ایک آدھ گھنٹہ بعد گرج چمک شروع ہوئی اورپھر بارش۔ بارش بھی ایسی کہ خدا کی پناہ۔ ہر طرف کیچڑ اور دلدل بن گئی۔ بادشاہ اور مصاحب کو سارا شکار بھول گیا۔ جنگل پانی سے جل تھل ہو گیا۔ ایسے میں خاک شکار ہوتا۔ بادشاہ نے واپسی کا سفر شروع کیا اور برے حالوں میں واپس محل پہنچا۔ واپس آکر اس نے دو کام کیے ۔ پہلا یہ کہ وزیرِ موسمیات کو برطرف کیا اور دوسرا یہ کہ کمہار کو دربار میں طلب کیا، اسے انعامات سے نوازا اور وزیرِ موسمیات بننے کی پیشکش کی۔ 

کمہار ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا‘ حضور! کہاں میں جاہل اور ان پڑھ شخص اور کہاں سلطنت کی وزارت۔ مجھے تو صرف برتن بنا کر بھٹی میں پکانے اور گدھے پر لاد کر بازار میں فروخت کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا۔ مجھے موسم کا رتی برابر پتہ نہیں۔ ہاں البتہ یہ ہے کہ جب میرا گدھا اپنے کان ڈھیلے کر کے نیچے لٹکائے تو اس کا مطلب ہے کہ بارش ضرور ہو گی۔ یہ میرا تجربہ ہے اور کبھی بھی میرے گدھے کی یہ پیش گوئی غلط ثابت نہیں ہوئی۔ 

یہ سن کر بادشاہ نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کمہار کے گدھے کو اپنا وزیرِ موسمیات مقرر کر دیا۔ 

مؤرخ کا کہنا ہے کہ گدھوں کو وزیر بنانے کی ابتدا تب سے ہوئی

*•┈•❀•🍃🌼•🌼•🌼🍃󠰢❀•┈•





اشفاق احمد اکثر کہا کرتے تھے کہ آدمی عورت سے محبت کرتا ہے جبکہ عورت اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے, اس بات کی مکمل سمجھ مجھے اس رات آئی, یہ گزشتہ صدی کے آخری سال کی موسمِ بہار کی ایک رات تھی. میری شادی ہوئے تقریباً دوسال ہو گئے تھے۔ اور بڑا بیٹا قریب ایک برس کا رہا ہوگا.

     

 

اس رات کمرے میں تین لوگ تھے, میں, میرا بیٹا اور اس کی والدہ! تین میں سے دو لوگوں کو بخار تھا, مجھے کوئی ایک سو چار درجہ اور میرے بیٹے کو ایک سو ایک درجہ. اگرچہ میری حالت میرے بیٹے سے کہیں زیادہ خراب تھی۔ تاہم میں نے یہ محسوس کیا کہ جیسے  کمرے میں صرف دو ہی لوگ ہیں, میرا بیٹا اور اسکی والدہ.*


    🤒

بری طرح نظر انداز کیے جانے کے احساس نے میرے خیالات کو زیروزبر تو بہت کیا لیکن ادراک کے گھوڑے دوڑانے پر عقدہ یہی کھلا کہ عورت نام ہے اس ہستی کا کہ جب اسکو ممتا دیت کر دی جاتی ہے تو اس کو پھر اپنی اولادکے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا. 

حتیٰ کہ اپنا شوہر بھی اور خاص طورپر جب اسکی اولاد کسی مشکل میں ہو.اس نتیجہ کے ساتھ ہی ایک نتیجہ اور بھی نکالا میں نے اور وہ یہ کہ اگر میرے بیٹے کے درد کا درمان اسکی کی والدہ کی آغوش ہے تو یقینا میرا علاج میری ماں کی آغوش ہو گی.

 

   💆‍♂💆‍♂ 

*اس خیال کا آنا تھا کہ میں بستر سے اٹھا اور ماں جی کے کمرہ کی طرف چل پڑا. رات کے دو بجے تھے پر جونہی میں نے انکے کمرے کا دروازہ کھولا وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئیں جیسے میرا ہی انتظار کر رہی ہوں. 

پھر کیا تھا, بالکل ایک سال کے بچے کی طرح گود میں لے لیا۔ 

اور توجہ اور محبت کی اتنی ہیوی ڈوز سے میری آغوش تھراپی کی کہ میں صبح تک بالکل بھلا چنگا ہو گیا.*

         

  💆

*پھر تو جیسے میں نے اصول ہی بنا لیا جب کبھی کسی چھوٹے بڑے مسئلے یا بیماری کا شکار ہوتا کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے سیدھا مرکزی ممتا شفا خانہ برائے توجہ اور علاج میں پہنچ جاتا.

* وہاں پہنچ کر مُجھے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ بس میری شکل دیکھ کر ہی مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ لگا لیا جاتا. 

میڈیکل ایمرجنسی ڈیکلئر کر دی جاتی. 

مجھے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ماں جی ) کے ہی بستر پر لٹا دیا جاتا اور انکا ہی کمبل اوڑھا دیا جاتا, کسی کو یخنی کا حکم ہوتا تو کسی کو دودھ لانے کا, خاندانی معالج کی ہنگامی طلبی ہوتی, الغرض توجہ اور محبت کی اسی ہیوی ڈوز سے آغوش تھراپی ہوتی اور میں بیماری کی نوعیت کے حساب سے کبھی چند گھنٹوں اور کبھی چند پہروں میں روبہ صحت ہو کر ڈسچارج کر دیا جاتا.

     

یہ سلسلہ تقریباً تین ماہ قبل تک جاری رہا۔ 

وہ وسط نومبر کی ایک خنک شام تھی, جب میں فیکٹری سے گھر کیلئے روانہ ہونے لگا تو مجھے لگا کہ مکمل طور پر صحتمند نہیں ہوں, تبھی میں نے  آغوش تھراپی کروانے کا فیصلہ کیا اور گھر جانے کی بجائے ماں جی کی خدمت میں حاضر ہو گیا, لیکن وہاں پہنچے پر اور ہی منظر دیکھنے کو ملا. ماں جی کی اپنی حالت کافی ناگفتہ بہ تھی پچھلے کئی روز سے چل رہیے پھیپھڑوں کے عارضہ کے باعث بخار اور درد کا دور چل رہا تھا۔


    

میں خود کو بھول کر انکی تیمارداری میں جت گیا, مختلف ادویات دیں, خوراک کے معروف ٹوٹکے آزمائے. 

مٹھی چاپی کی,مختصر یہ کہ کوئی دو گھنٹے کی آؤ بھگت کے بعد انکی طبیعت سنبھلی اور وہ سو گئیں. 

میں اٹھ کر گھر چلا آیا. 

ابھی گھر پہنچے آدھ گھنٹہ ہی بمشکل گذرا ہوگا کہ فون کی گھنٹی بجی, دیکھا تو چھوٹے بھائی کا نمبر تھا, سو طرح کے واہمے ایک پل میں آکر گزر گئے. جھٹ سے فون اٹھایا اور چھوٹتے ہی پوچھا, بھائی سب خیریت ہے نا, بھائی بولا سب خیریت ہے وہ اصل میں ماں جی پوچھ رہی ہیں کہ آپکی طبیعت ناساز تھی اب کیسی ہے……


   ........ اوہ میرے خدایا…

     

     

اس روزمیرے ذہن میں ماں کی تعریف مکمل ہو گئی تھی۔ ماں وہ ہستی ہے جو اولاد کو تکلیف میں دیکھ کر اپنا دکھ,اپنا آپ  بھی بھول جاتی ہے.


   یا اللہ پاک جن کے والدین زندہ ہیں ان کو اپنے والدین کی قدر کرنے کی توفیق عطاء فرما اور جن کے والدین اس دنیا سے چلے گئے ہیں ان کو جنت میں اعلی مقام عطا فرما آمین ۔





عبدالستار ایدھی مرحوم سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا، آپ نے ہزاروں لاوارث لاشیں دفنائیں، کبھی کسی لاش کی بگڑی حالت یا اس پر تشدد دیکھ کر رونا آیا؟


انھوں نےآنکھیں بند کرکے گہری سوچ میں غوطہ زن ہوتے ہوئے کہا تشدد یا بگڑی لاش تو نہیں البتہ ایک مرتبہ میرے رضاکار ایک صاف ستھری لاش لے کر آئے جو تازہ انتقال کئے بوڑھے مگر کسی پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانے کی لگ رہی تھی. اس کےسفید چاندی جیسے بالوں میں تیل لگا ہوا تھا. اور سلیقے سے کنگھی کی ہوئی تھی. دھوبی کے دھلے ہوئے سفید اجلے کلف لگے سوٹ میں اس کی شخصیت بڑی باوقار لگ رہی تھی. مگر تھی وہ اب صرف ایک لاش، ایدھی صاحب پھر کچھ سوچتے ہوئے گویا ہوئے.


ہمارے پاس روزانہ کئی لاشیں لائی جاتی ہیں. مگر ایسی لاش جو اپنے نقش چھوڑ جائے. کم ہی آتی ہیں اس لاش کو میں غور سے دیکھ رہا تھا. کہ میرے رضاکار نے بتایا. اس نے کراچی کی ایک پوش بستی کا نام لے کر کہا کہ یہ لاش اس کے بنگلے کے باہر پڑی تھی.


ہم جونہی بنگلے کے سامنے پہنچے تو ایک ٹیکسی میں سوار فیملی جو ہمارا ہی انتظار کر رہی تھی اس میں سے ایک نوجواں برآمد ہوا اور جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک لفافہ ہمیں تھماتے ہوئے بولا۔ یہ تدفین کے اخراجات ہیں۔ پھر وہ خود ہی بڑبڑایا۔ یہ میرے والد ہیں۔ ان کا خیال رکھنا اچھی طرح غسل دے کر تدفین کر دینا۔ اتنے میں ٹیکسی سے آواز آئی۔ تمھاری تقریر میں فلائٹ نکل جائے گی۔ یہ سنتے ہی نوجواں پلٹا اور مزید کوئی بات کئے ٹیکسی میں سوار ہو گیا اور ٹیکسی فراٹے بھرتی ہوئی آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔


ایدھی صاحب بولے اس لاش کے متعلق جان کر مجھے بہت دکھ ہوا اور میں ایک بار پھر اس بدقسمت شخص کی جانب دیکھنے لگا تو مجھے ایسے لگا جیسے وہ بازو وا کئے مجھے درخواست کر رہا ہو کہ ایدھی صاحب ساری لاوارث لاشوں کے وارث آپ ہوتے ہیں مجھ بدقسمت کے وارث بھی آپ بن جائیں میں نےفوراً فیصلہ کیا کہ اس لاش کو غسل بھی میں دونگا اور تدفین بھی خود کرونگا پھر جونہی غسل دینے لگا تو اس اجلے جسم کو دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ جو شخص اپنی زندگی میں اس قدر معتبر اور حساس ہوگا۔ اس نے اپنی اولاد کی پرورش میں کیا ناز و نعم نہ اٹھائے ہونگے۔ مگر بیٹے کے پاس تدفین کا وقت بھی نہ تھا۔ اسے باپ کو قبر میں اتارنے سے زیادہ فلائٹ نکل جانے کی فکر تھی۔ اور یوں اس لاش کو غسل دیتے ہوئے میرے آنسو چھلک پڑے۔ پھر وہ اپنے کندھے پر رکھے کپڑے سے آنسو پونچھتے ہوئے بولے، اس دن میں انسانیت کی ڈوبتی نیٌا پر رو پڑا. 


خدارا  اپنی اولادوں کی  دینی تعلیم و تربیت  زیادہ فوکس کریں۔۔






‏سوچیں اگر تمام خواتین حجاب میں نظر آئیں 

تو تمام کپڑوں، جوتوں، جیولری، میک اپ، بالوں کے سٹال والے برانڈز کی تو مارکیٹ بند ھو جائے۔ 


اس لیے وہ خواتین کو فیشن کرنے کے لا تعداد طریقے بتاتے ہیں دنیا کو مزین کر کے دکھاتے ہیں۔


ان تمام حربوں کو ناکام کر کے حجاب کرنا واقعی کمال ھے...🤍


💕💕 لوگ موبائل کی تصویروں میں خوبصورت اور نمایاں نظر آنا چاہتے ہیں مگر اپنے کردار کی فکر نہیں کرتے اور بھول جاتے ہیں کہ انسان کا اچھا عمل، اچھا کردار ہی اس کی سب سے بہترین تصویر ہے





❤️💚❤️💚❤️💚❤️💚❤️💚❤️ 


نعمت کے معاملے میں اپنے سے کمتر کو دیکھیں شکر گزار بن جائیں گے

مصیبت کے معاملے میں اپنے سے زیادہ مصیبت والے کو دیکھیں

صبر کرنے والے بن جائیں گے

بیشک اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں مصلحت اور حکمت ہے⁦۔

اللہ تعالی  ہمیں صبر کرنے والا شاکر انسان بنائے۔ 

اپنے فضل وکرم سے ھماری تمام حاجات کو پورا فرمائے 

آمین یا رب العالمین


❤️💚❤️💚❤️💚❤️💚❤️💚❤️





No comments:

Post a Comment