Home Page Urdu Islamic Article HR Email Ids Zikar Azkaar
Namaz Quran & Tableegh School HR ID Ulema Ikram Bayanat
Listen Quran Majeed Read Quran Majeed Social Media Ramzan
Khulasa Quran Majeed Latest jobs
سائیکل معیشت کی دشمن ہے۔ ایک ملٹی نیشنل بینک کے سی ای او نے معاشی ماہرین کو اس وقت سوچ میں ڈال دیا جب اس نے کہا کہ: سائیکل ملکی معیشت کیلئے تباہی کا باعث ہے - اس لئے کہ سائیکل چلانے والا کار نہیں خریدتا، وہ کار خریدنے کے لئے قرض بھی نہیں لیتا۔ کار کی انشورنس نہیں کرواتا - پیٹرول بھی نہیں خریدتا۔ اپنی گاڑی سروس اور مرمت کے لئے نہیں بھیجتا۔ کار پارکنگ کی فیس ادا نہیں کرتا۔ وہ ٹال پلازوں پر ٹیکس بھی ادا نہیں کرتا۔ سائیکل چلانے کی وجہ سے صحت مند رہتا ہے موٹا نہیں ہوتا !! صحت مند رہنے کے باعث وہ دوائیں نہیں خریدتا۔ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پاس نہیں جاتا۔ حتیٰ کہ ملک کے جی ڈی پی میں کچھ بھی شامل نہیں کرتا۔ اس کے برعکس ہر نیا فاسٹ فوڈ آؤٹ لیٹ اپنے ملازمین کے علاوہ کم از کم 30 طرح کے لوگوں کے لئے روزگار کا سبب بنتا ہے۔ جن میں ڈاکٹر ، امراض قلب کے ماہر، ماہرِ معدہ و جگر، ماہر ناک کان گلہ، دندان ساز، کینسر سپیشلسٹ، حکیم اور میڈیکل سٹور مالکان وغیرہ شامل ہیں۔ چنانچہ یہ بات ثابت ہوئی کہ سائیکل معیشت کی دشمن ہے اور مضبوط معیشت کے لئے صحت مند افراد سخت نقصان دہ ہیں۔
نوٹ:- پیدل چلنے والے معیشت کےلئے اور بھی خطرناک ھیں۔ کیونکہ وہ سائیکل بھی نہیں خریدتے
کلاس روم طلبہ اور طالبات سے بھرا ہوا تھا۔ ہر کوئی خوش گپیوں
میں مصروف تھا ، ، کان پڑی آوازسُنائی نہ دیتی تھی، اتنے
میں پرنسپل کلاس روم میں داخل ہوئے، کلاس روم میں سناٹا
چھاگیا ۔
پرنسپل صاحب نے اپنے ساتھ آئے ہوئے ایک صاحب کا تعارف
کراتے ہوئے کہا یہ ہمارے کالج کے وزیٹنگ پروفیسر، پروفیسر انصاری ہیں، آپ مفکر
دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ یہ آپ کو کامیاب زندگی گزارنے کے کچھ گر
بتائیں گے۔ ان کے کئی لیکچر ہوں گے۔ جو اسٹوڈنٹس انٹرسٹڈ ہوں وہ ان کے لیکچر میں باقاعدگی
سے شریک ہوں۔
*1*
Sabaq01
کلاس روم میں سناٹا طاری تھا۔ طلبا کی نظریں کبھی پروفیسر کی
طرف اٹھتیں اور کبھی بلیک بورڈ کی طرف۔ پروفیسر کے سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں
تھا۔ سوال تھا ہی ایسا۔
وزیٹنگ پروفیسر انصاری نے ہال میں داخل ہوتے ہی
بغیر ایک لفظ کہے بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی۔ پھر اپنا رخ طلبا کی
طرف کرتے ہوئے پوچھا….
‘‘تم میں سے کون ہے جو اس لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا
کردے؟’’….
‘‘یہ ناممکن ہے۔’’، کلاس کے ایک ذہین طالبعلم نے آخر کار اس
خاموشی کو توڑتے ہوئے جواب دیا۔ ‘‘لکیر کو چھوٹا کرنے کے لیے اسے مٹانا پڑے گا اور
آپ اس لکیر کو چھونے سے بھی منع کررہے ہیں۔’’ باقی طلبا نے بھی گردن ہلا کر اس کی
تائید کردی۔
پروفیسر نے گہری نظروں سے طلبا کو دیکھا اور کچھ کہے
بغیر مسکراتے ہوئے بلیک بورڈ پر اس لکیر کے نیچے ہی اس سے بڑی ایک اور
لکیر کھینچ دی۔ اب اوپر والی لکیر کے سامنے یہ لکیر چھوٹی نظر آرہی
تھی۔
پروفیسر نے چاک ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا:
‘‘آپ نے آج اپنی زندگی کا ایک بڑا سبق سیکھا ہے،
وہ یہ ہے دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، ان کو بدنام کیے بغیر،
ان سے حسد کیے بغیر، ان سے الجھے بغیر ان سے آگے کس طرح نکلا جاسکتا ہے….’’
آگے بڑھنےکی خواہش انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اس خواہش
کی تکمیل کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دوسرے کو چھوٹا بنانے کی کوشش کی جائے۔ مگر ایسی
صورت میں انسان خود بڑا نہیں ہوتا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دوسروں سے الجھے بغیر خود
کو طاقتور اور بڑا بنانے پر توجہ دی جائے۔ دوسروں سے الجھے بغیر آگے بڑھنا،
ترقی کا صحیح طریقہ ہے۔ یہ طریقہ فرد کے لیے بھی بہتر ہے اور قوموں کے لیے بھی۔ اس
طریقے پر اجتماعی طور پر ہمارے پڑوسی ملک چین نے سب سے زیادہ عمل کیا ہے اور
بہترین نتائج حاصل کیے ہیں۔
*2*
Sabaq02
دوسرے دن کلاس میں داخل ہوتے ہی پروفیسر انصاری
نے بلیک بورٖڈ پر ایک بڑا سا سفید کاغذ چسپاں کردیا، اس کے بعد انہوں
نے اس سفید کاغذ کے درمیان میں مارکر سے ایک سیاہ نقطہ ڈالا، پھر اپنا
رخ کلاس کی طرف کرتے ہوئے پوچھا:
‘‘آپ کو کیا نظر آ رہا ہے….؟ ’’
سب نے ہی یک زبان ہو کر کہا‘‘ایک سیاہ نقطہ’’۔
طالب علم تعجب کا اظہار کررہے تھے سر بھی کمال
کرتے ہیں ، کل لکیر کھینچی تھی آج نقطہ بنادیا ہے ….
پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا ‘‘ حیرت ہے ! اتنا بڑا سفید کاغذ
اپنی چمک اور پوری آب و تاب کے ساتھ تو تمہاری نظروں سے اوجھل ہے، مگر ایک
چھوٹا سا سیاہ نقطہ تمہیں صاف دکھائی دے رہا ہے؟’’
زندگی میں کیے گئے لاتعداد اچھے کام سفید کاغذ کی طرح ہوتے ہیں
جبکہ کوئی غلطی یا خرابی محض ایک چھوٹے سے نقطے کی مانند ہوتی ہے۔ لوگوں کی اکثریت
دوسروں کی غلطیوں پر توجہ زیادہ دیتی ہے لیکن اچھائیوں کو نظر انداز کردیتی ہے۔
آپ کی ساری زندگی کی اچھائیوں پر آپ کی کوئی ایک کوتاہی یا کسی
غلطی کا ایک سیاہ نقطہ ان کو زیادہ صاف دکھائی دیتا ہے۔
آپ آدھا گلاس پانی کا بھر کر اگر 100 لوگوں سے پوچھیں گے
، تو کم از کم 80 فیصد کہیں گے آدھا گلاس خالی ہے اور 20 فیصد کہیں گے کہ آدھا
گلاس پانی ہے …. دونوں صورتوں میں بظاہر فرق کچھ نہیں پڑتا لیکن
درحقیقت یہ دو قسم کے انداز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک منفی اور دوسرا مثبت۔
جن لوگوں کا انداز فکر منفی ہوتا ہے وہ صرف منفی رخ سے چیزوں کو دیکھتے جبکہ
مثبت ذہن کے لوگ ہر چیز میں خیر تلاشکرلیتے ہیں۔
ہماری زندگی کے معاملات میں لوگوں کے ردعمل گہرے اثرات مرتب
کرتے ہیں۔ ‘‘لوگ کیا کہیں گے’’ جیسے روائتی جملے ہمیں ہمیشہ دو راہوں
پر گامزن کردیتے ہیں۔ یہ دوراہی فیصلہ لینے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی
ہے۔اس صورتحال میں صرف نفسیاتی الجھن کا شکار ہوکررہ جاتے ہیں۔
اس لیے آپ مستقل میں کوئی بھی کام کریں، کوئی بھی راہ چنیں ،
تو یہ یاد رکھیں کہ آپ ہر شخص کو مطمئننہیں کرسکتے ۔
*3*
Sabaq03
تیسرے دن پروفیسر نے اپنی کلاس کا آغاز کرتے ہوئے ایک گلاس
اٹھایا، جس کے اندر کچھ پانی موجود تھا۔انہوں نے وہ گلاس بلند کردیا، تاکہ تمام
طلبا اسےدیکھ لیں۔
‘‘سر کیا آپ وہی فلسفیانہ سوال تونہیں پوچھنا چاہ رہے کہ گلاس
آدھا خالی ہے یا آدھا بھرا ہوا ہے’’ ایک طالب علم نے جملہ کستے ہوئے کہا۔
پروفیسر نے مسکراتے ہوئے اس کی جانب دیکھا اور کہا
‘‘نہیں! آج میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کے خیال میں اس گلاس
کا وزن کیا ہوگا….؟’’
‘‘پچاس گرام’’، ‘‘سو گرام’’، ‘‘ایک سو پچیس گرام’’۔سب اپنے
اپنے انداز سے جواب دینے لگے۔
‘‘میں خود صحیح وزن بتا نہیں سکتا، جب تک کہ میں اس کا وزن نہ
کرلوں!….’’ پروفیسر نے کہا۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ‘‘ کیا ہوگا اگر میں اس گلاس
کو چند منٹوں کے لیے اسی طرح اٹھائے رہوں….؟’’
‘‘کچھ نہیں ہوگا!’’ طالب علموں نے جواب دیا۔
‘‘ٹھیک ہے، اب یہ بتاؤ کہ اگر میں اس گلاس کو ایک گھنٹے
تک یوں ہی اٹھائے رہوں تو پھر کیا ہوگا….؟’’ پروفیسر نے پوچھا۔
‘‘آپ کے بازو میں درد شروع ہوجائے گا۔’’ طلباء میں سے ایک نے
جواب دیا۔
‘‘تم نے بالکل ٹھیک کہا۔’’ پروفیسر نے تائیدی لہجے میں
کہا۔‘‘اب یہ بتاؤ کہ اگر میں اس گلاس کو دن بھر اسی طرح تھامے رہوں تو پھر کیا
ہوگا….؟’’
‘‘آپ کا باوزو شل ہوسکتا ہے۔’’ ایک طالب علم نے کہا۔‘‘آپ کا
پٹھا اکڑ سکتا ہے’’ ایک اور طالب علم بولا، ‘‘آپ پر فالج کا حملہ ہوسکتا ہے۔ آپ کو
اسپتال لازمی جانا پڑے گا!’’ ایک طالب علم نے جملہ کسا اور پوری گلاس قہقہے لگانے
لگی۔
‘‘بہت اچھا!’’ پروفیسر نے بھی ہنستے ہوئے کہا پھر پوچھا ‘‘لیکن
اس دوران کیا گلاس کا وزن تبدیلہوا….؟’’
‘‘نہیں۔’’ طالب علموں نے جواب دیا۔
‘‘تو پھر بازو میں درد اور پٹھا اکڑنے کا سبب کیا
تھا….؟’’پروفیسر نے پوچھا۔طالب علم چکرائے گئے۔
‘‘ گلاس کا بہت دیر تک اُٹھائے رکھنا ، بہتر ہوگا کہ اب
گلاس نیچے رکھ دیں!’’ ایک طالب علم نے کہا۔
‘‘بالکل صحیح!….’’ استاد نے کہا۔
‘‘ہماری زندگی کے مسائل بھی کچھ اسی قسم کے ہوتے ہیں۔ آپ انہیں
اپنے ذہن پر چند منٹ سوار رکھیں تو وہ ٹھیک لگتے ہیں۔انہیں زیادہ دیر تک
سوچتے رہیں تو وہ آپ کے لیے سر کا درد بن جائیں گے۔ انہیں اور زیادہ دیر تک تھامے
رہیں تو وہ آپ کو فالج زدہ کردیں گے۔ آپ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
دیکھیے….!اپنی زندگی کے چیلنجز (مسائل) کے بارے میں
سوچنا یقیناً اہمیت رکھتا ہے۔لیکن…. اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے
کہ ہر دن کے اختتام پر سونے سے پہلے ان مسائل کو ذہن سے اُتاردیا جائے۔ اس طریقے
سے آپ کسی قسم کے ذہنی تناؤ میں مبتلا نہیں رہیں گے۔ اگلی صبح آپ تروتازہ اور اپنی
پوری توانائی کے ساتھ بیدار ہوں گے اور اپنی راہ میں آنے والے کسی بھی ایشو، کسی
بھی چیلنج کو آسانی سے ہینڈل کرسکیں گے۔ لہٰذا گلاس کو یعنی مسائل پر غیر
ضروری سوچ بچار کو نیچے کرنا رکھنا یاد رکھیں۔’’
*4*
Sabaq04
پروفیسر نے کہا کہ کل ہر ایک طالب علم پلاسٹک کا
ایک شفاف تھیلا اور ٹماٹرساتھ لائے۔
جب طلباء تھیلا اور ٹماٹر لے آئے تو پروفیسر نے کہا
کہ :
‘‘آپ میں سے ہر طالب علم اس فرد کے نام پر جسے آپ نے
اپنی زندگی میں معاف نہیں کیا، ایک ایک ٹماٹر چن لیں اور اس پر اس فرد
کا نام اور تاریخ لکھ کر اسے اپنے پلاسٹک کے تھیلے میں ڈالتے جائیں۔’’
سب نے ایک ایک کرکے یہی عمل کیا، پروفیسر نے کلاس پر نظر
ڈالی تو دیکھابعض طالب علموں کے تھیلے خاصے بھاری ہوگئے۔
پھر پروفیسر نے سب طالب علموں سے کہا کہ:
‘‘ یہ آپ کا ہوم ورک ہے، آپ سب
ان تھیلوں کو اپنے ساتھ رکھیں، اسے ہر جگہ اپنے ساتھ لیے پھریں۔ رات کو سوتے وقت
اسے اپنے بیڈ کے سرہانے رکھیں، جب کام کر رہے ہوں تو اسے اپنی میز کے
برابر میں رکھیں۔ کل ہفتہ ، پرسوں اتوار ہے آپ کی چھٹی ہے، پیر کے روز آپ ان
تھیلوں کو لے کر آئیں اور بتائیں آپ نے کیا سیکھا۔ ’’
پیر کے دن سب طالب علم آئے تو چہرے پر پریشانی کے آثار
تھے، سب نے بتایا کہ اس تھیلے کو ساتھ ساتھ گھسیٹے پھرنا ایک آزار ہوگیا۔
قدرتی طور پر ٹماٹروں کی حالت خراب ہونے لگی۔ وہ پلپلے اور بدبودار ہوگئے
تھے۔
پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا ‘‘ اس ایکسرسائز سے کیا سبق
سیکھا….؟’’
سب طلبہ و طالبات خاموش رہے۔
‘‘اس ایکسر سائز سے یہ واضح ہوا کہ روحانی طور پر ہم اپنے آپ
پر کتنا غیر ضروری وزن لادے پھر رہے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم اپنی تکلیف
اور اپنی منفی سوچ کی کیا قیمت چکا رہے ہیں۔
ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ کسی کو معاف کردینا ، کسی پر احسان
کرنااس شخص کے لیے اچھا ہے لیکن دوسرے کو معاف کرکے ہم خود اپنے لیے لاتعداد
فوائد حاصل کرتے ہیں ۔ جب تک ہم کسی سے ناراض رہتے ہیں ، اس کے خلاف بدلہ
لینے کے لیے سوچتے ہیں اس وقت تک ہم کسی اور کا نہیں بلکہ خود اپنا خون
جلاتے ہیں۔ اپنے آپ کو اذیت اور مشقت میں مبتلا رکھتے ہیں۔ بدلے اور انتقام کی
سوچ، گلے سڑے ٹماٹروں کی طرح ہمارے باطن میں بدبو پھیلانے لگتی ہے۔ معاف نہ کرنا
ایک بوجھ بن کر ہمارے اعصاب کو تھکا دیتا ہے۔
*5*
Sabaq05
‘‘آج ہم نہیں پڑھیں گے….’’
پروفیسر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔ سارے طالب علم حیران
و پریشان ایک دوسرے کامنہ تکنے لگے۔
‘‘آپ دو دن ٹماٹروں کا تھیلا اٹھائے تھک گئے
ہوں گے۔ اس لیے آج آپ کے لیے چائے کافی میریطرف سے….’’
اسی دوران لیکچر ہال میں کالج کا پیُون داخل ہوا اس کے
ہاتھ میں کافی کے دو بڑے سے جگ تھے ۔ ساتھ ہی بہت سے کپ تھے،
پورسلین کے کپ، پلاسٹک کے کپ، شیشے کے کپ، ان میں سے بعض سادہ سے کپ تھے اور بعض
نہایت قیمتی، خوبصورت اور نفیس….
پروفیسر نے تمام طالب علموں سے کہا کہ ‘‘سب اپنی مدد
آپ کے تحت وہ گرما گرم چائے کافی آپ خودلے لیں۔’’
جب تمام طالب علموں نے اپنے چائے اور کافی کے کپ ہاتھوں میں لے
لیے تو پروفیسر صاحب گویا ہوئے ۔
‘‘ آپ لوگ غور کریں …. تمام نفیس، قیمتی اور دیکھنے
میں حسین کافی کپ اٹھا لیے گئے ہیں، جبکہ سادہ اور سستے کپوں کو کسی نے ہاتھ نہیں
لگایا، وہ یوں ہی رکھے ہوئے ہیں۔’’
‘‘اس کا کیا مطلب سر’’۔ ایک طالب علم نے پوچھا
‘‘گو یہ عام سی بات ہے کہ آپ اپنے لیے سب سے بہترین کا انتخاب
کرتے ہیں لیکن یہی سوچ آپ کے کئی مسائل اور ذہنی دباؤ کی جڑ بھی ہے۔’’
سارے طالب علم چونک اٹھے، ‘‘ یہ کیا کہہ رہے ہیں سر اچھی چیز
کا انتخاب تو اعلیٰ ذوق کی علامت ہے۔ یہ مسائل کی جڑ کیسے ….؟’’
پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا:‘‘آپ سب کو حقیقت میں جس چیز کی
طلب تھی، وہ چائے یا کافی تھی…. نہ کہ کپ…. لیکن آپ سب نے دانستہ طور
پر بہتر کپوں کے لیے ہاتھ بڑھایا اور سب ایک دوسرے کے کپوں کو چور نگاہوں سے
دیکھتے رہے۔’’
میرے بچو …. نوجوانو… یاد رکھو…. زندگی کا اصل حسن باطن سے
پھوٹنے والی خوشیوں کی وجہ سے ہے۔ عالی شان بنگلہ، قیمتی گاڑی، دائیں بائیں
ملازمین، دولت کی چمک دمک کی وجہ سے بننے والے دوست یہ سب قیمتی کپ کی طرح ہیں۔
اگر اس قیمتی کپ میں کافی یا چائے بدمزہ ہو تو کیا آپ اسے پئیں گے؟۔
اصل اہمیت زندگی ، صحت اور آپ کے اعلیٰ کردار کی ہے۔ باقی سب
کانچ کے بنے ہوئے نازک برتن ہیں، ذرا سی ٹھیس لگنے سے یہ برتن ٹوٹ جائیں گے یا ان
میں کریک آجائے گا۔
یاد رکھیے! دنیا کی ظاہری چمک دمک کی خاطر اپنے آپ کو مت
گرائیے۔ بلکہ زندگی کے اصلی جوہر کو اُبھاریے۔
تمام تر توجہ صرف کپ پر مرکوز کرنے سے ہم اس میں موجود
کافی یعنی زندگی سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہ جاتے ہیں۔لہٰذا کپوں کو اپنے
ذہن کا بوجھ نہ بنائیں…. اس کی بجائے کافی سے لطف اندوز ہوں۔’’
*6*
Sabaq06
پروفیسر صاحب نے کلاس کا آغاز کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک پینسل
نکالی اور تمام طلبا کو دکھاتےہوئے کہا :
‘‘ آج کا سبق آپ اس پینسل سے سیکھیں گے….
پینسل میں پانچ باتیں ایسی ہیں جو ہم سب کے لیے جاننی ضروری ہیں!….
‘‘وہ کیا سر….’’ سب نے تجسس سے پوچھا
‘‘پہلی بات :یہ پینسل عمدہ اور عظیم کام کرنے کے قابل اس
صورت میں ہوسکتی ہے ، جب وہ خود کو کسی کے ہاتھ میں تھامے رکھنے کی اجازت
دے۔
دوسری بات :ایک بہترین پینسل بننے کے لیے وہ بار بار
تراشے جانے کے تکلیف دہ عمل سے گزرتی ہے۔
تیسری بات: وہ ان غلطیوں کو درست کرنے کی اہل رکھتی ہے ، جو اس
سے سرزد ہوسکتی ہیں۔
چوتھی بات :یہ پینسل کا سب سے اہم حصہ ہمیشہ وہ ہوگا جو
اس کے اندر یعنی اس کے باطن میں ہوتا ہے اور پانچویں بات : پینسل کو جس سطح
پر بھی استعمال کیا جائے، وہ لازمی اس پر اپنا نشان چھوڑ جاتی ۔ چاہے حالات
کیسے ہی ہوں۔’’
‘‘اب اس پینسل کی جگہ آپ اپنے کو لے لیں۔
آپ بھی عمدہ اور عظیم کام کرنے کے لیے قابل اسی
صورت میں ہوسکتے ہیں، جب آپ خود کو اپنے استاد یا راہنما کے ہاتھوں
میں تھامے رکھنے کی اجازت دیں۔
دوسری بات : آپ کو بات بار تراشے جانے کے تکلیف دہ عمل سے
گزرنا پڑے گا ۔ یہ مراحل دنیا میں زندگی کے مختلف مسائل کی صورت میں آپ کے
سامنے آئیں گے، ایک مضبوط فرد بننے کے لیے آپ کو ان مسائل کا اچھے
طریقے سے سامنا کرنا ہوگا۔
تیسری بات :یہ کہ اپنے آپ کو ان غلطیوں کو درست کرنے کے قابل
بنائیں جو آپ سے سرزد ہوسکتی ہیں۔
چوتھی بات: ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہمارے اندر ہے، ہمارا باطن
ہے ، ہمیں اسے کثافتوں اور آلائشوں سے بچانا ہے۔
پانچویں بات: آپ جس سطح پر سے بھی گزر کر جائیں، آپ اپنے نشان
ضرور چھوڑ جائیں۔ چاہے حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔
اس یقین کے ساتھ زندگی بسر کریں کہ اس دنیا کو آپ کی ضرورت ہے،
کیونکہ کوئی شے بھی فضول اور بے مقصد نہیں ہوتی۔
*7*
Sabaq07
پروفیسر صاحب نے کلاس میں داخل ہوتے ہوئے اپنے طالب علموں پر
نظر ڈالی اور کہا
“آج میں تمہیں زندگی کا نہایت اہم سبق سکھانے جارہا
ہوں….’’
وہ اپنے ہمراہ کانچ کی ایک بڑی برنی یعنی
جارJAR لائے تھے، انہوں نے اس جار کوٹیبل پر رکھا اور اپنے بیگ
سے ٹیبل ٹینس کی گیندیں نکال کر اس برنی میں ڈالنے لگے….اور تب تک ڈالتے رہے جب تک
اس برنی میں ایک بھی گیند کی جگہ باقی نہ رہی….
پروفیسر صاحب نے طالب علموں سے پوچھا“کیا برنی پوری بھر گئی
ہے….؟” “جی ہاں….”طالب علموں نے ایک ساتھ جواب دیا…..
پھر پروفیسر صاحب نے بیگ سے چھوٹے چھوٹے کنکر نکال کر اس برنی
میں بھرنے شروع کردیے، وہ دھیرے دھیرے برنی کو ہلاتے بھی جارہے تھے۔ کافی سارے
کنکر برنی میں جہاں جگہ خالی تھی سماگئے….
پروفیسر صاحب نے پھر سوال کیا:“کیا اب برنی بھرگئی ہے….؟”
طالب علموں نے ایک بار پھر “ہاں”کہا….
اب پروفیسر صاحب نے بیگ سے ایک تھیلی نکالی اور اس میں
سے ریت نکال کر دھیرے دھیرے اس برنی میں ڈالنی شروع کردی، وہ ریت بھی
اس برنی میں جہاں تک ممکن تھا بیٹھ گئی….
یہ دیکھ کر طلباء اپنی نادانی پر ہنسنے لگے….
پروفیسر صاحب نے ایک بار پھر سوال کیا
“کیا اب یہ برنی پوری بھرگئی ہے ناں….؟”
“جی!…. اب تو پوری بھر گئی ہے سر….”سب ہی نے ایک آواز
میں کہا….
پروفیسر نے بیگ کے اندر سے جوس کے دو ڈبّے نکال کر
جوس اس برنی میں ڈالا، جوس بھی ریت کے بیچ تھوڑی سی جگہ میں جذب
ہوگیا ….اب پروفیسر صاحب نے نہایت ہی گھبمیر آواز میں سمجھانا شروع کیا….
‘‘اس کانچ کی برنی کو تم لوگ اپنی زندگی سمجھو، ٹیبلٹینس کی
گیندیں تمہاری زندگی کے سب سے اہم کام ہیں….. مثلاً طرزِ معاشرت، حصولِ معاش،
تعلیموتربیت، خاندان ،بیوی بچے، نوکری ، صحت وتحفظ وغیرہ….
چھوٹے کنکر تمہاری عام ضروریات اور خواہشات ہیں۔ گاڑی، بنگلہ، نوکرچاکر، موبائل،
کمپیوٹر اور دیگراصرافِ زندگی وغیرہ….اور ریت کا مطلب ہے چھوٹی چھوٹی بےکار اور
فضول باتیں،جھگڑے، آوارہ گردی، ہوائی قلعہ بنانا، ٹائم پاس کرنا، وقت
کاضیاعوغیرہ ….
اگر تم نے کانچ کی برنی میں سب سے پہلے ریت بھری ہوتی تو
ٹیبل ٹینس کی گیند اور کنکرکے لیے جگہ ہی نہیں بچتی یا صرف کنکر بھردیے ہوتے تو
گیند نہیں بھرپاتے ، ریت ضرور آسکتی تھی….
ٹھیک یہی طریقہ کار زندگی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر تم فضول
اور لایعنی چیزوں کے پیچھے پڑے رہو گے اور اپنی زندگی اسی کے چکرمیں ختم
کردو گے تو تمہارے پاس اہم باتوں کے لیے وقت نہیں رہے گا….
ایک کامیاب اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے یہ اہم سبق
ہے ۔ اب یہ تم خود طے کرلو کہ تمہیں اپنی کانچ کی برنی کس طرح بھرنی
ہے’’….
طالب علم بڑے غور سے پروفیسر صاحب کی باتیں سن رہے
تھے، اچانک ایک طالبعلم نے پوچھا “سر! لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ جوس کے
دوڈبّےکیا ہیں؟”….
پروفیسر مسکرائے اور بولے “میں سوچ ہی رہا تھا کہ ابھی تک کسی
نے یہ سوال کیوں نہیں کیا…. اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں ہم کتنے ہی مصروف کیوں
نہ ہوں اور کس قدر ہی کامیابیاں کیوں نہ سمیٹ رہے ہوں لیکن اپنے گھر والوں، دوستوں
کےساتھ تعلق کی مٹھاس کی گنجائش ہمیشہ رکھنی چاہیے”….
*8*
Sabaq08
آج لیکچر کا آخری دن تھا ، کلاس روم کے طلبہ میں چہ مگوئیاں
جاری تھیں، اتنے میں پروفیسر صاحب کلاس روم میں داخل ہوئے، کلاس
روم کی بھنبھناہٹ آہستہ آہستہ گہری خاموشی میں بدلنے لگی۔ دیکھا کہ پروفیسر
کے پیچھے ایک غبارے والا ڈھیر سارے سرخ رنگ کے کلاس روم میں داخل ہورہا
ہے ….
پروفیسر کے اشارے پر غبارے والے نے ایک ایک کرکے سارے غبارے
طلباء میں تقسیمکردئیے….
‘‘سر آج ویلنٹائن ڈے نہیں ہے….’’ ایک طالب علم نے جملہ
کسا۔ ‘‘ سر!کیا آپ کی سالگرہ ہے؟’’ ایک اور طالب علم بولا۔
پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا:
‘‘آپ میں سے ہر ایک کومارکر کا استعمال کرتے ہوئے ا ن غباروں
پر اپنا نام لکھنا ہے ’’۔ سب نے پرفیسر کی کہنے پر نام
لکھ دئے ۔ اس کے بعد تمام غبارےجمع کرکے دوسرے کمرے میں ڈال دیے گئے۔
آپ پروفیسر نے تمام طالب علموں سے کہا کہ ‘‘اب سب غباروں والے کمرے میں
جائیں اور اپنے اپنے نام والا غبارہ تلاش کریں ، دھیان رہے کہ کوئی غبارہ نہ بھٹے
اور آپ سب کے پاس پانچ منٹ ہیں۔’’
ہر کوئی بدحواسی کے عالم میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے
ہوئے،دوسروں کو دھکیلتے ہوئے اپنے نام کا غبارہ تلاش کرنے لگا۔ ایک افراتفری کا
سماں تھا۔ سارے غبارے ایک ہی رنگ کے تھے، پانچ منٹ تک کوئی بھی اپنے
نام والا غبارہ تلاش نہ کرسکا…. یہ دیکھ کر پروفیسر انصاری نے کہا کہ
اب آپ کے پاس پانچ منٹ ہیں کوئی بھی غبارہ پکڑ لیں
اور اس کے نام والے شخص کودے دیں، دو تین منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ تمام افراد کے پاس
اپنے اپنے نام والے غبارے تھے۔
پروفیسر انصاری کلاس سے مخاطب ہوتے ہوئےبولے:
‘‘بالکل اسی طرح ہماری زندگی ہے، ہر کوئی بدحواسی کے
عالم میں اپنے ارد گرد خوشیاں تلاش کر رہا ہے یہ نہ جانتے ہوئے کہ وہ کہاں ہیں۔
یہ وقت بھی
گزر جائے گا۔۔
میں اسلام
آباد سے واپس نکل رہا تھا۔ سواں گارڈن کے علاقہ میں نماز عصر کا وقت ہوا تو میں
ایک مسجد میں نماز کیلئے رک گیا۔۔وضو خانہ میں رش تھا۔ ایک صاحب نے بتایا کہ مسجد
کے بیسمنیٹ میں بھی وضو کی جگہ ہے وہاں چلے جایئں۔ میں اس طرف گیا تو وہ مسجد کا
مدرسہ تھا۔ جہاں بچوں کی رہائش تھی انکا سامان پڑا ہوا تھا اور انہی کیلئے وضو کی
جگہ بھی بنی ہوئی تھی۔ نماز میں چونکہ ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ سو میں نے وضو کیا
اور ان چھوٹے چھوٹے فرشتہ نما صاف ستھرے مدرسہ کے بچوں کے قریب بیٹھ کر انکی
معصومانہ گپ شپ سے مستفیض ہونے لگ گیا۔ میرے بالکل سامنے ان کے چھوٹے چھوٹے ٹرنک
پڑے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک پرانا سا جستی چادر کے ایک ٹرنک پہ ایک جملہ دیکھ کر
نجانے کیوں میں چونک گیا۔ اس ٹرنک پہ لکھا تھا کہ۔۔
یہ وقت بھی
گزر جائے گا۔
میں بے
ساختہ کھڑا ہوا۔۔اس ٹرنک کے پاس گیا اور اس لکھائی پہ ہاتھ پھیرنے لگ گیا۔ میری یہ
حرکت بے ساختہ تھی۔ اور میرے گرد پتہ نیئں کیوں دکھ، درد اور کرب کا ایک ہالا سا
بن گیا تھا۔ میں نے اس بچے کے بارے میں پوچھا کہ اس ٹرنک کا مالک بچہ کون ہے۔؟ پتہ
چلا وہ اوپر مسجد میں نماز کیلئے چلا گیا ہے۔ باقی بچے بھی جارہے تھے میں بھی انہی
کیساتھ اوپر آگیا۔ میں بظاہر نماز میں کھڑا تھا مگر دوران نماز بھی ٹرنک پہ لکھا
وہ جملہ کہ "یہ وقت بھی گزر جائے گا " میرے حواس پہ چھایا رہا۔نماز سے
فارغ ہو کر میں دوبارہ نیچے آگیا اور اس بچے سے ملا۔ میں نے اسکی انگلی پکڑی اور
اسکو ٹرنک کے پاس لے گیا۔ یہ آٹھ سال کا ایک خوبصورت بچہ تھا جس کا نام عبدالشکور
تھا۔ میں نے اس ننھے فرشتے سے حال احوال پوچھا اور اس جملے کے معانی پوچھنے لگ
گیا۔ وہ ٹال مٹول سے کام لینے لگ گیا۔ میں اصرار کرنے لگا کہ آپ نے اس جملے کو
کہاں سے لیا اور اپنے ٹرنک کیلئے اسی جملے کا انتخاب کیوں کیا۔۔وہ مسکرایا۔۔اور
یوں مسکرایا کہ اسکی آنکھیں نم ہو گیئں۔۔آنسووں کی ایک لکیر اسکی آنکھوں سے نمودار
ہوئی اور گالوں سے ہوتی مسجد کی صفوں میں جزب ہو گئی۔۔وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر
کہہ نہیں پا رہا تھا۔۔۔میں نے اسکو تسلی دی، ایک بچے کو پانی لانے کا کہا اور اسکے
پاس بیٹھ گیا۔ زرا سی دیر بعد وہ کچھ بحال ہوا اور بتایا کہ میں تین سال کا تھا کہ
میرے والد محترم ایک حادثہ میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔۔ایک بہن ہے جو مجھ سے دو سال
بڑی ہے۔ والدہ محترمہ اور بہن گھر میں ہیں۔ والد صاحب کی خواہش تھی کہ میں حافظ
بنوں۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار امی سے کیا تھا۔ وہ فوت ہوئے تو امی نے انکی
خواہش پوری کرنے کا ارادہ کر لیا۔ رشتہ دار ہیں نہیں۔ بس چھوٹا سا کنبہ یے۔ امی
اور بہن لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں اور مجھے یہاں داخل کروا گیئں ہیں۔ میں
ایک سال سے یہاں پڑھ رہا ہوں۔ مہینہ بعد وہ آتیں ہیں اور مجھے دو دن کیلئے گھر لے
جاتی ہیں۔۔اس دوران ابو کی قبر پہ بھی جاتے ہیں اور بتا کر آتے ہیں کہ انکی خواہش
پہ میں حافظ بن رہا ہوں۔ میں گھر، امی جی اور بہن کو دیکھ کر پریشان ہوتا ہوں تو
امی کہتی ہیں شکورے یہ وقت بھی گزر جائے گا۔۔مجھے یہ بات بہت اچھی لگی اور ایک دن
ایک پینٹر انکل مسجد کا کام کرنے آئے تو میں نے ان سے اپنے ٹرنک پہ یہی جملہ لکھوا
لیا۔ رات کبھی کبھی مجھے دیر تک نیند نہیں آتی۔۔ابو یاد آتے ہیں۔۔امی اور بہن کا
کام کرنا یاد آتا ہے۔۔بے چین ہوتا ہوں تو میں اٹھ کر اس جملے کو دہرا لیتا
ہوں۔۔احساس محرومی کا کوئی لمحہ آئے یا بچوں کے پاس کوئی ایسی چیز دیکھوں جو
باوجود خواہش کے میں حاصل نہیں کرپاتا تو میں اپنے اس ٹرنک کے سامنے آ کر کھڑا
ہوتا ہوں اور پوری توجہ سے امی جی کے اس قول کو پڑھ لیتا ہوں۔۔۔
اس کے بعد
اس نے کیا کہا۔۔اور میں نے کیا سنا۔۔یہ میں نہ تو لکھ سکتا ہوں اور نہ بتا پاوں
گا۔۔بس اتنا عرض ہے کہ ملک بھر میں اس طرح کے بچے بھی ہمارے بچے ہیں۔ اور جب کبھی
آپکا چکر لگے ان کا حال احوال پوچھ لیا کریں۔ اہل محلہ ان کے احوال سے باخبر رہا
کریں۔ اللہ تعالی کے یہ ننھے منے مہمان فرشتے ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔۔ ہمارا فرض
ہے کہ انکا خیال رکھیں۔۔یہ ہماری عاقبت کیلئے مفید ہوگا۔۔باقی وقت تو انکا بھی گزر
ہی جائے گا۔۔آپ خود سوچیں کہ محلے کے مدرسہ اور مسجد میں جب بچے مضطرب ہوں گے تو
ہمارے گھر کسطرح پرسکون رہ پایئں گے۔۔۔اللہ کے مہمان ننھے فرشتے بے قرار ہوں گے تو
ہمارے بچے بھلا قرار میں رہ پایئں گے۔۔۔
غلام شبیر
منھاس
شہر کے
مشہور چوراہے پر بیٹھے سینکڑوں مزدور صبح فجر کے وقت تھڑے پر اوزار سامنے سجا کر
بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔
پھٹے پرانے
خستہ حال کپڑوں میں ملبوس ان مزدوروں میں انتہائی ضعیف العمر بزرگ بھی ہوتے ہیں جو
دیہاڑی لگانے کے لئے یہاں بیٹھے ہوتے ہیں۔۔۔
ہر اجلے
لباس والا شخص جب ان کی طرف آتا ہے تو ہر ایک مزدور کا چہرہ روشن ہوجاتا ہے۔۔۔ دل
میں امید کا دیا جلنے لگتا ہے کہ آج اس بندے کی وساطت سے روزی روٹی کا بندوبست
ہوجائے گا۔۔۔
کوئی بندہ
جس کو مزدور کی تلاش ہوتی ہے وہ اس اڈے پر آجائے تو تمام مزدور بھاگ کر جمگھٹا بنا
لیتے ہیں ہر ایک مزدور منت سماجت کرتا ہے کہ مجھے لے جاؤ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے
کہ مجھے ساتھ لے جائے تاکہ دیہاڑی لگ جائے۔۔۔
ہر گزرتا
لمحہ دل کی دھڑکنیں تیز کرتا ہے دھوپ کی تمازت جیسے جیسے تیز ہوتی ہے آس و
امید آہستہ آہستہ دم توڑنے لگتی ہے کہ کیا خبر آج بھی دیہاڑی نہ لگی تو کیا
بنے گا۔۔۔
دوپہر تک
اس اڈے پر بیسیوں مزدور سر گھنٹوں میں دئے، اوزار کے ساتھ پیشانی کا ٹیک لگائے
بیٹھے ہوتے ہیں پریشانی سے دل کی کیفیت عجیب ہوتی ہے کہ آج دیہاڑی نہیں لگی تو کیا
بنے گا۔۔۔
کبھی پانچ
منٹ کے لئے ان مزدوروں کے پاس بیٹھ کر ان کی باہمی گفتگو سنیں تو بہت دل کڑھتا ہے
ہر ایک کی دکھی اور درد بھری داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔۔۔
بچوں کے
شادی کا ٹائم قریب آرہا ہےجہیز تیار کرنا ہے۔۔۔ گھر میں بچے بیمار ہیں دوائی کا
بندوبست کرنا ہے۔۔۔ دکان کا ادھار بہت زیادہ ہوچکا ہے دکاندار نے مزید سودا دینے
سے انکار کر دیا ہے۔۔۔
اللہ رب
العزت تمام ضرورت مندوں کی ضرورتوں کوپورا فرمائے۔۔۔ ہر ایک کے لئے آسانیوں والا
اور عافیت والا معاملہ فرمائے آمین۔۔۔
حقیقی
ضرورت مند مگر خودار اور سفید پوش یہی لوگ ہوتے ہیں جو مانگنے کے بجائے
حالات کا رونا رونے کے بجائے قوتِ بازو سے محنت مزدوری کرتے ہیں۔۔۔ یہی لوگ ہیں جو
حالات اور غریبی کا مقابلہ کرتے ہیں۔۔۔
ان لوگوں
کی روزانہ دیہاڑی کے بدلے کیا حاصل ہوتا ہے پاؤ گھی، پاؤ چینی، دو کلو آٹا، ایک
پیکٹ پتی، پاؤ دال، کلو آلو، کلو پیاز، بیس کا مصالحہ بس۔۔۔
روزانہ
کماتے ہیں اور شام کو بچوں کو کھلا کر سلا دیتے ہیں اور صبح سویرے اٹھ کر دوبارہ
میدان عمل میں آجاتے ہیں۔۔۔
بھیگ
مانگنے والوں کوقم دینے کے بجائے کبھی کسی ضعیف العمر بزرگ مزدور کو اڈے سے
گھر لائیں اچھا ناشتہ کروائیں۔۔۔ گھر کا کچھ ہلکا پھلکا کام کروائیں تاکہ ان کی
عزت نفس مجروح نہ ہو۔۔۔ دوپہر کو اچھا کھانا کھلا کر پوری مزدوری دے کر رخصت کر
دیں۔۔۔ یقین مانیں یہ عمل سینکڑوں بھکاریوں کو بھیک دینے سے کئی گنا زیادہ بہتر
اور افضل عمل ہوگا۔۔۔
No comments:
Post a Comment