Monday, June 20, 2022

Islamic Urdu Article, taleem o tarbiyat, parenting

   

Home Page  Urdu Islamic Article  HR Email Ids  Zikar Azkaar

Namaz Quran & Tableegh   School HR ID  Ulema Ikram Bayanat

Listen Quran Majeed   Read Quran Majeed  Social Media  Ramzan

Khulasa Quran Majeed Latest jobs Karachi School Free Islamic Gift 



 

 

 

 

 

 

 🌼 موبائل فون🌼

 

چھوٹے بچوں کے والدین اس تحریر کو ضرور پڑھیں

 

 

 

گھر میں داخل ہوتے ہی شاہدہ بیگم کا پارہ ہائی ہوگیا۔ زینب، زینب ادھر آؤ ۔۔ زینب بھاگتی ہوئی کچن سے آئی جی اماں کیا ہوا۔۔۔ ؟

 

میں نے ہزار دفعہ منع کیا ھے تمہیں، سعد کو موبائل مت دیا کرو۔

 

تمہاری سمجھ میں نہیں آتا؟ 

 

اماں پھر آخر میں کیا کروں، روتا ھے تنگ کرتا ھے کام نہیں کرنے دیتا،  کیا اسی کو لیکر بیٹھی رہوں۔۔۔ ؟

 

💠آپ تو صبح صبح چلی گئیں اپنی پرانی سہیلی سے ملنے۔۔۔۔  مجھے گھر کے سارے کام کرنے تھے اور سعد اتنا تنگ کررہا تھا، تو میں نے موبائل پر کارٹون لگا کر دے دیے۔۔۔۔۔ 

 

 

 

ائے بس کرو بہو، دیکھے تمہارے کام،،،،  جب تک بچہ سو رہا ہوتا ھے تو خود ٹی وی ، واٹس اپ  اور فیس بک پر لگی رہتی ہو اور جب یہ اٹھ کر رونے لگتا ھے تو تمہیں گھر کے کام یاد آجاتے ہیں ۔ میں پوچھتی ہوں، تمہاری پڑھائی لکھائی کا کچھ فائدہ بھی ھے، جب تمہیں اتنا ہی نہیں پتہ کہ بچوں کے لئے کس قدر نقصان دہ ہیں یہ سب چیزیں۔۔۔۔

 

💠اماں آپ کو بس موقع چاہیئے مجھے باتیں سنانے کا، اور کچھ نہیں بس۔۔۔۔۔

 

ساری دنیا کے بچے اب موبائل، کمپیوٹر اور ٹیبلٹ سے ہی کھیلتے ہیں ۔۔۔۔ زینب تڑخ کر بولی،،،،،

 

 

 

ہاں ہاں ساری دنیا کنوئیں میں جاگرے تو تم بھی چھلانگ لگادوگی۔۔۔؟

 

💠ارے ہم نے بھی تو سات بچے پیدا کیئے، موئے نا اس وقت موبائل تھے، نہ یہ ٹی وی کا بھونپو  چوبیس  گھنٹے بجتا تھا،،،، 

 

جب بچے سوئے ہوئے ہوتے، ضروری کام اسی وقت نمٹا لیتے تھے جلدی جلدی۔۔۔

 

ورنہ بچے ساتھ ساتھ ہی لگے رہتے تھے ہمارے تو،،،،، 

 

💠سبزی بنا رہی ہوتی تو ساتھ دو چار پتے اور ڈنٹھل وغیرہ دھو کر یمنیٰ اور حمنہ کو بھی پکڑا دیتی تھی، وہ انہیں سے کھیلتی رہتیں تھیں ۔

 

💠روٹی پکاتے میں تنگ کرتیں تو ذرا سا آٹے کا پیڑہ پلیٹ میں رکھ کر ان کو بھی دے دیتی تھی۔ وہ تمہاری دونوں بڑی نندیں یونہی کھیل کھیل میں روٹی پکانا سیکھ گئیں تھیں ۔۔۔۔

 

💠محسن جب زیادہ ہی تنگ کرتا تو ایک چمچہ اور پلیٹ اس کو دے دیا کرتی تھی وہ اسی کو بجا بجا کر کھیلتا رہتا تھا ۔

 

جھاڑو دیتے ہوئے ایک چھوٹی جھاڑو اس کو بھی پکڑا دیا کرتی تھی۔۔۔۔ اگر ایسے خوشی خوشی محسن جھاڑو لگایا کرتا تھا، میں محبت سے اس کا ماتھا چوم لیا کرتی اور وہ اور جوش و خروش سے جھاڑو لگاتا۔۔۔۔

 

💠 اور تم کیا سمجھتی ہو، یہ محسن جو میرے آگے پیچھے پھرتا ھے،

 

کیا یونہی،،،،؟؟؟ 

 

💠 تمہاری طرح مار پیٹ کر نہیں پالے ہم نے بچے۔۔۔۔ بڑی محبت اور خلوص سے پالے ہیں،،،،، 

 

💠اماں تو کیا میں محبت نہیں کرتی بچوں سے، اور کیا میں مخلص نہیں بچوں کے ساتھ؟ اب کی بار تو زینب سچ مچ تڑپ اٹھی،،،،،

 

💠تم بچوں کے ساتھ مخلص ہوتیں تو یہ کرتب دکھاتیں،،،  سولہ جماعتیں پڑھ کے بھی تمہیں بچے پالنے نہ آئے۔۔۔۔۔؟

 

💠 اماں حد کرتی ہیں آپ ،،،،،،

 

میں یونیورسٹی میں پڑھنے جاتی تھی یا بچے پالنا سیکھنے جاتی ؟ ارے یہ کیسی تعلیم جو انسان کو اپنا بھلا برا بھی نہ سکھا سکے۔ کیا تم نہیں جانتیں کہ یہ سب چیزیں کتنی نقصان دہ ہیں معصوم بچوں کے لئے؟ آج ان سب چیزوں نے ملکر بچوں کو اپاہج بنا دیا ھے، ہلتے ہی نہیں ہیں موبائل اور کمپیوٹر کے سامنے سے، نہ دو گھڑی ماں باپ کے پاس بیٹھنے کا وقت ھے نہ کچھ دین دنیا کا خیال۔۔۔۔ اور ماؤں کو ذرا پروا نہیں ۔۔۔۔ بچے کس سمت میں جارہے ہیں.....؟ 

 

 

 

ہمیں دیکهو میٹرک پاس کرتے ہی بابا نے شادی کردی،  اور ہم ڈھونڈ ڈھونڈ کے ایسی کتابیں پڑھا کرتے جس سے دین اور دنیا دونوں سنور جائیں ۔۔۔

 

میاں بھی راضی رہیں اور سسرال والے بھی خوش اور بچوں کی بھی بہتر پرورش کر سکیں ۔۔۔۔۔

 

 

 

اب جب اپنے ہی چونچلوں سے فرصت نہیں ملے گی۔ کبھی شاپنگ، کبھی درزی کی دکان کے چکر، کبھی پارلر کی حاضری، کبھی ٹیوی کے آگے بیٹھی ہیں تو کبھی موبائل میں سر دے رکھا ھے۔ ان ماؤں کے پاس فرصت کہاں ھے بچوں کی تربیت کرنے کی..

 

ابھی ساس بہوکی بحث جاری تھی کہ سعد پھر موبائل اٹھا کر امامہ کے جھولے کے پاس آکھڑا ہوا،  امامہ بھی نیند سے جاگ چکی تھی اور سعد کے ہاتھ میں چمکتے موبائل کو دیکھ دیکھ کر ہمک رہی تھی، ہاتھ پیر چلا رہی تھی کہ بس کسی طرح یہ چیز اسے مل جائے ۔۔

 

💠سعد موبائل کو کبھی اسکے قریب کرتا اور کبھی دور کر لیتا،،،،،،،

 

زینب نے ساس کی توجہ اس طرف دلائی،  یہ دیکھیں اماں، چھ سات ماہ کی بچی بھی اس کی شیدائی ھے، اب کیا کروں میں؟  کیسے بچاؤں انہیں ۔۔۔۔ ؟ زینب تھک کر اماں کے پاس ہی آبیٹھی،،،،،،،،،، 

 

شاہدہ بیگم نے ایک نظر زینب کے چہرے کی طرف دیکھا جس پہ تھکن اور فکر کے آثار تھے۔۔۔۔ نگاہیں اپنی معصوم بچی پر جمی ہوئی تھیں، جو ٹکٹکی باندھ کر موبائل کی اسکرین کو دیکھ رہی تھی،  اور خوب جوش میں ہاتھ پیر چلا رہی تھی۔۔۔۔ 

 

💠ایک لمحے کو ترس سا آیا شاہدہ بیگم کو، بہو صبح سے کاموں میں لگی ھے اور اب میں نے بھی اتنی باتیں سنا دیں،

 

بھلا ایسے میں نصیحت کیا اثر کریگی۔۔۔۔ ؟

 

تو پھر کیا کروں میں، کیسے احساس دلاؤں زینب کو اس کی غلطی کا؟ شاہدہ بیگم دل ہی دل میں سوچنے لگیں.... 

 

💠زینب کھانا لگانے کا پوچھنے لگی، انہوں نے منع کردیا پہلے میں ظہر کی نماز پڑھ لوں، پھر بعد میں کھانا ۔۔۔۔۔۔۔

 

〰〰〰🌾〰〰〰

 

کھانے سے فارغ ہوکر زینب، ساس کی دوا لیئے انکے کمرے میں ہی آگئی،،، 

 

اماں دوا کھا لیجئے۔۔۔۔

 

💠شاہدہ بیگم کو سچ مچ زینب پر پیار آگیا،،،  کچھ بھی ھے میری خدمت بہت کرتی ھے ۔ کھانا، کپڑے، دوا ہر چیز وقت پر تیار رکھتی ھے، بس نہ جانے بچوں کی طرف سے اتنی لاپروائی کیوں کرتی ھے ۔۔۔۔۔؟

 

💠انہوں نے زینب کو اپنے پاس ہی بٹھا لیا،،،  بہو، کچھ دیر میرے پاس بیٹھو تم سے بات کرنی ھے،،،، 

 

جی اماں کہیے.... 

 

بیٹا تمہیں احساس نہیں ہوتا بچوں کا ہر وقت موبائل سے لگے رہنا کتنا غلط ھے؟ 

 

💠 احساس ہوتا ھے اماں، کیوں نہیں ہوتا؟ ،زینب بڑے دکھ سے بولی۔۔۔۔۔۔

 

مگر چاروں طرف یہی سب کچھ چل رہا ہے تو بس میں بھی،،، بچے اب انہی چیزوں سے کھیلتے ہیں اماں۔

 

💠یہی تو ہمارا المیہ ھے زینب، ہم لوگ اندھادھند لوگو ں کے ساتھ بھاگتے ہیں نفع نقصان کی پرواہ کیئے بغیر ۔۔۔۔

 

ان چیزوں نے ہمارے معاشرے کو تباہ کردیا ہے، تمہارے بچے ابھی بہت چھوٹے ہیں تم انہیں اس تباہی سے بچا سکتی ہو۔۔!!

 

مگر کیسے اماں.......؟؟؟

 

دیکھو بیٹا سب سے پہلے تو تم اس بات کو محسوس کرو کہ یہ بچے تمہارے ہاتھ میں کھلونا نہیں ہیں۔ یہ اللہ کی دی ہوئی امانت ہیں، جس کی پوچھ ہوگی تم سے ۔

 

💠تم نے وہ حدیث نہیں سنی

 

 کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیته

 

تم میں سے ہر شخص نگہبان ھے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔  ( مفہوم)

 

💠 کل قیامت کے دن تم نے اللہ کو جواب دینا ھے کہ بچوں کی پرورش کا کیا حق ادا کیا،،،،؟  کیا دین اسلام کے مطابق ان کی پرورش کی یا چھوڑ دیا شتر بے مہار کی طرح ۔۔۔۔۔۔۔ ؟

 

صرف اچھا کھلانا پلانا، پہنانا، اسکول بھیج دینا اور سیرو تفریح کروادینا ہی تو بچوں کی ضرورت نہیں ھے ۔ انکو اچھے آداب سکھانا، بری باتوں سے بچانا اور صحیح اسلامی خطوط پر انکی تربیت کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ھے ۔ 

 

💠پہلے ذرا تم اپنی خبر لو نماز کبھی پڑھتی ہو کبھی نہیں پڑھتی، تلاوت کیئے ہوئے تمہیں کتنے کتنے دن گزر جاتے ہیں، ٹیوی کا ہر ڈرامہ دیکھنا تمہارے لئے ضروری ھے، جب تم خود ہی اللہ کی نافرمانی کروگی تو بچے کیسے تمہارے فرمانبردار بنیں گے بھلا،،،،،؟ کیسے بچاؤگی تم انہیں زمانے کی تلخیوں سے؟ فتنہ، فساد اور بے حیائی کی جو آگ سوشل میڈیا کے ذریعے  چاروں طرف لگی ھے، کیسے بچاؤگی تم اس سے ان معصوم پھولوں کو،،،،،  اگر تم نے انہیں اپنے دین کے ساتھ نہ جوڑا تو یہ تباہ ہوجائیں گے زینب۔۔۔۔

 

دین پر چلنے کےعلاوہ اور کوئی جائے پناہ نہیں ھے ۔

 

بچے ماں باپ کو جیسا کرتے دیکھتے ہیں، ویسا ہی خود کرتے ہیں ۔

 

💠 تم باقاعدگی سے نماز پنجگانہ پڑھا کرو، قرآن مجید کی روزانہ تلاوت کیا کرو، گناہوں سے بچا کرو اور بچوں کے لئے خوب نیکی اور ہدایت کی دعا مانگا کرو۔ تمہیں پتہ ھے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بچپن میں آنکھیں خراب ہوگئیں اور وہ اندھے ہوگئے، ہر طرف سے ڈاکٹروں نے جواب دیدیا کہ اب انکی آنکھیں ٹھیک نہیں ہوسکتیں،،،  تو انکی والدہ کو اس قدر صدمہ ہوا اور انھوں نے تہجد میں ایسے گڑگڑا کر اور یقین سے دعا مانگی کہ صبح انکا بیٹا اٹھا تو بینائی واپس آچکی تھی۔۔۔۔

 

ایک وہ مائیں تهیں جو تہجد میں اولاد کے لیے دعائیں کرتیں، اور اب،،،،،، اچھے بھلے بچوں کو ٹی وی ، موبائل اور کمپیوٹر کی اسکرین کے سامنے بٹھا بٹھا کر خود اپنے بچوں کو اندھا کرنے کا سامان کررہی ہیں.....

 

 

 

💠اگر تم چاہو تو ابھی بھی سب کچھ ٹھیک ہوسکتا  ھے زینب......

 

مگر کیسے اماں،،،،،؟؟؟  کیا میرے نماز پڑھنے سے یہ موبائل سے کھیلنا چھوڑ دینگے؟  ہاں زینب، جب تم اپنے رب کی فرمانبرداری کروگی، گناہوں سے بچوگی تو یہ بچے بھی تمہاری بات مانیں گے ۔ تم انہیں روکو گی تو یہ ضرور رک جائیں گے ۔ اس کے علاوہ بھی تم دوسری تدابیر اختیار کرو۔۔۔۔

 

دیکھو امامہ ابھی بہت چھوٹی ھے اسکے قریب تو تم بالکل بھی موبائل لیکر نہ بیٹھا کرو۔ اس کے لئے تو بس اتنا ہی کرنا کافی ھے ۔اور سعد پر تمہیں تھوڑی محنت کرنی پڑے گی،،،، 

 

💠تم اس کی توجہ دوسری طرف دلاؤ۔ موبائل کو تم خود کم سے کم استعمال کرو۔ بچوں کی خاطر تمہیں یہ قربانی دینی ہوگی۔ فالتو ویڈیوز اور گیمز وغیرہ ڈیلیٹ کردو، جب اسے اپنی پسند کی چیزیں اس میں نہیں ملیں گی تو خود ہی دلچسپی کم ہوتی جائے گی۔ اور سعد کے لئے کچھ ایسے کھلونے لے آؤ جس سے اس میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ پیدا ہو، بلاکس خرید دو تاکہ وہ مختلف عمارتیں بناتا رہے، بیٹ بال سے کھلایا کرو، واٹر کلر لادو اور چھوٹے چھوٹے پتھر دھو کر دیدو اسے کہ ان پر کلر کیا کرے، اور پھر اس پر اس کو خوب شاباش دو۔۔۔۔

 

💠محسن سے کہو شام کو تھوڑی دیر کے لئے قریبی پارک میں لے جایا کرے سعد کو۔ بچوں کے ساتھ کھیلے گا، توجہ بٹ جائے گی۔۔۔۔ گھر کے کاموں کے دوران بھی اسے اپنے ساتھ ساتھ رکھا کرو، چھوٹا موٹا کام اس کو بھی دیدیا کرو۔۔۔

 

 💠اس کے علاوہ بچوں کو اپنے پاس لیکر بیٹھا کرو اچھی اچھی دین کی باتیں اور سبق آموز قصے سنایا کرو۔۔۔ بچے کا ذہن صاف سلیٹ کی مانند ہوتا ھے، اس پر جو بھی لکھو گے وہ اسی کو پڑھیگا، اسی کے مطابق چلے گا۔

 

زینب بہت گہری سوچ میں تھی،،،  لیکن یہ سب بہت صبر آزما ھے اماں۔۔۔۔۔

 

💠ہاں توکچھ مشکلیں بھی جھیلنا سیکھو، انہی آسانیوں کی خاطر تو مائیں بڑے آرام سے بچوں کو موبائل اور کمپیوٹر اسکرین کا عادی بنادیتی ہیں ۔۔ اور خود مزے سے اپنے کاموں میں لگی رہتی ہیں، یا اپنے دلچسپ مشاغل میں ۔ 

 

بھلا بتاؤ تو سہی کون ھے جو چھوٹے بچوں کے ہاتھ میں موبائل پکڑا پکڑا کر خوش ہوتے ہیں، یہ انکے ماں باپ ہی ہوتے ہیں ۔شروع سے ہی ان چیزوں سے بچوں کو دور رکھا جائے تو کیوں ایسی نوبت آئے بھلا، ۔۔۔۔۔

 

💠آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں اماں، واقعی میں بچوں کی تربیت ایسی نہیں کررہی جیسی کرنی چاہیئے،،،،،،  میں اب

 

ان شاء اللہ بھرپور توجہ دونگی اپنے بچوں کو، یہی تو میری دنیا کی رونق اور  آخرت کا سرمایہ ہیں، میں انہیں کسی صورت ضائع نہیں ہونے دونگی، چاہے مجھے کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ہاں زینب، جب تم اپنی نظر اللہ تعالیٰ  کی رضا اور آخرت کے لامحدود فائدے پر رکھوگی تو یہ سب کرنا آسان ہو جائے گا ۔  ان شاء اللہ

 

انتخاب،، عابد چوہدری

 

 

 

برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فاروڈ کیا جائے

 

 

 

 

 

ایک صاف کاغذ لیجئے۔۔۔اسے اچھے سے رول کیجئے ۔۔۔ مزید کیجئے

 

۔۔۔۔ تھوڑا سا اور کیجئے۔۔۔ تب تک رول کریں جب تک اس کاغذ کی پیاری سی گیند نہ بن جاۓ۔۔۔۔

 

بن گئ؟؟

 

چلیں اب اس گیند کو کھولیں اور کاغذ کو واپس سیدھا کر دیں۔۔۔

 

اوہ ہو۔۔ اس پر تو بل ہیں یہ تو سیدھا کرنے پر بھی ختم نہیں ہوئے۔۔۔

 

اب کیا کریں۔۔۔

 

چلیں اسے کچھ دیر چند موٹی کتابوں کے نیچے رکھتے ہیں شاید سیدھا ہو جاۓ۔۔۔۔

 

 

 

نہیں ہوا؟؟؟

 

 

 

اممم... چلیں اس کو خوبصورت صاف ستھرے کاغذوں کے پلندے میں رکھ دیتے ہیں۔۔۔۔

 

 

 

کیا ہوا؟؟ یہ دیگر کاغذوں کی خوبصورتی کو ماند کر رہا ہے ۔۔۔۔۔

 

 

 

چلیں ایک آخری کام کرتے ہیں اس پر خوبصورت رنگ بھر دیتے ہیں۔۔۔

 

 

 

لو جی یہ ہو گیا رنگ۔۔۔۔ لیکن یہ کیا۔۔۔۔ اس پر پڑے ہوئے بل تو اب بھی کم نہیں ہوۓ۔۔۔۔۔

 

 

 

نتیجہ: اب کچھ بھی کر لے یہ کاغذ اپنی اصل صورت میں نہیں  آۓ گا۔۔۔۔

 

 

 

کہانی ختم۔۔۔۔

 

 

 

بالکل ایسے ہی۔۔

 

 

 

  آپ کے رویے، باتوں، الفاظ سے دۓ گئے دکھ لگاۓ گئے زخم کم ضرور ہو جاتے ہیں وقت کے ساتھ۔۔۔ بھر بھی جاتے ہیں مگر رہتے ہمیشہ وہاں ہی ہیں۔۔۔۔

 

 

 

اب اس کہانےکو اپنی زندگی پر لاگو کیجئے۔۔۔۔

 

 

 

آپ کا تلخ رویہ، آپ کی کڑوی باتیں وہ چاہے آپ کسی بھی رشتے میں  بندھے کسی بھی انسان سے کریں آپ کے اور اس انسان کے درمیان فاصلے حائل کر دیتی ہیں اور جتنا گہرا اور قریبی تعلق ہوتا ہے اس کا اثر بھی اتنا گہرا ہوتا ہے۔۔۔

 

 

 

 خصوصاً آپ کے تلخ لہجے، رویے ، غصے کا اثر سب سے زیادہ شدید آپ کے بچے پر پڑتا ہے اور پھر پوری زندگی کے لئے اس پر گہرا نقش چھوڑ دیتا ہے۔۔۔

 

 

 

بچہ اپنی کم عمری کی وجہ سے آپ کے رویے کی وجہ، منطق اور مقصد سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے اس لئے وہ یہ نہیں سمجھ سکتا کے اگر والدین بچے پر سختی کر رہے ہیں تو وہ اس کی بہتری کے لئے ہے ...  کیونکہ والدین سختی کرنے، ڈانٹنے یا مارنے کے بعد یہی دعویٰ کرتے ہیں کے انہوں نے یہ بچے کی بہتری کے لئے کیا ۔۔۔

 

 

 

لیکن اس کا اثر ہمیشہ الٹا ہی ہوتا ہے بچہ وقتی طور پر ضرور اس کام یا حرکت کرنے سے رک جاتا ہے مگر دوبارہ کچھ دیر بعد وہ وہی شرارت یا ضد شروع کر دیتا ہے۔۔۔

 

 

 

جس پر اکثر والدین کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کے یہ جوتے کی زبان سمجھتا ہے، یہ بس مار سے ٹھیک ہوتا ہے، یہ بہت ڈھیٹ ہو گیا ہے، یہ بس اتنی دیر باز رہتا ہے جتنی دیر ہاتھ میں  جوتا ہو ۔۔۔

 

 

 

بالکل ٹھیک آپ کا بچہ اتنی دیر ہی اس کام سے باز رہتا ہے کیونکہ اسے خوف ہوتا ہے کے اسے مارے گے یا ڈانٹیں گے لیکن کیونکہ اسے منطق یا لوجک نہیں بتائی جاتی اسلئے وہ اس کام کو کرنے سے باز نہیں آتا اور موقع ملتے ہی دوبارہ اسی میں مشغول ہو جاتا ہے۔۔۔۔

 

 

 

اس لئے بچے کو کسی بات سے روکنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کے آپ اس کو اس سے باز رہنے کی لاجک یا منطق پیش کریں، اپنے بچے کے ساتھ ڈسکشن کریں جس میں اسے اس سپیسفک  (specific) حرکت کے نقصانات بتائیں، اور بچے کے ذہن میں اُس سے متعلق موجود شکوک وشبہات کو ختم کریں۔۔۔

 

 

 

آپ کا بچہ ڈھیٹ نہیں ہے، آپ کا بچہ جوتے کی زبان نہیں سمجھتا، آپ کا بچہ ڈانٹ کی زبان بھی نہیں سمجھتا، آپ کا بچہ بیوقوف بھی نہیں ہے۔۔۔۔

 

 

 

آپ کا بچہ عقل، لاجک اور منطق کی زبان سمجھتا ہے۔۔۔ جس دن آپ بچے کو منطقی طور پر satisfy کر دیں گے ۔۔۔ اُس کے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کے جواب دیں دیں گے۔۔۔ اپنے بچے کے متعلق جتنی شیکایتیں ہیں آپکو سب ختم ہو جائیں گی۔۔۔

 

تحریر،، مریم امین اعوان

 

انتخاب،، عابد چوہدری

 

 

 

برائے مہربانی اس پوسٹ کو شئیر یا فارورڈ کیا جائے

 

 

 

 

 

 

 

ننھے بچے جب دانت کاٹیں،ماریں تو پہلے پہل ہم ہنس پڑتے ہیں ۔ بچے کو مثبت توجہ بھی ملتی ہے اور یہ احساس بھی کہ میں نے بہت عمدہ کام کر لیا۔ پہلی دفعہ سے بالکل اچھی بری کوئی توجہ نہ دیں۔ فورا کوئی اور بات شروع کر کے دھیان بٹا دیں۔ ننھے بچوں کے لئے بہترین یہی ہے کہ آئی اوئی کئے بغیر انکا دھیان ہٹا دیا جائے۔ ڈیڑھ سال سے لیکر چار سال تک کے بچوں کو بہرحال روکنا ہو گا۔

 

 

 

بچہ جب مارے، اسکے ہاتھ تھام لیجیے۔ نرم لیکن مضبوط۔ اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نرم اور پختہ لہجے میں کہیے کہمارنے کی اجازت نہیں ہے۔  آپ اچھے بچے ہیں اور اچھے بچے مارتے نہیں ہوتے۔ کبھی نہ کہیں بد تمیز ہو، ہاتھ چلتا ہے، کوئی بھی برے الفاظ منہ سے نہ نکلنے دیں۔ بچے کی حرکت کو غلط کہیں، بچے کو لیبل نہ کریں۔

 

 

 

نہ ماروکے بجائےبیٹا، یوں آرااام سے ہاتھ لگاتے ہیںکہیں۔

 

 

 

بچے کو جس بھی بات پر غصہ ہے، اسے انکریج کریں کہ الفاظ استعمال کرے: رِیں رِیں کرنا یا مارنا نہیں، الفاظ استعمال کریں۔ اس چیز میں بچے کی مدد بھی کریں۔آپ کا دل نہیں تھا کھلونہ شیئر کرنے کا؟ آپ غصہ ہیں؟ آپ ہرٹ ہیں چھوٹی نے آپکی سٹرابیری کھا لی؟یوں اسکی فیلنگز ایکنالج بھی ہوں گی، اور ہاتھ کے بجائے زبان کے استعمال کا بھی پتہ چلے گا۔

 

 

 

مندرجہ ذیل لیکچر مار کے سین کے وقت نہیں۔ لیکن ویسے جب موڈ اچھا ہو، رات کو کہانی سناتے وقت، گاڑی میں کہیں ڈرائیو کے دوران بچے سے اس بارے میں بات کیا کیجیے۔کہانی سنا کر پیغام بچے کے گوش گزار کرنا بہترین طریقہ ہے۔

 

 

 

بچے کو سمجھائیں: ہاتھ اللہ نے ہمیں اس لئے دیے ہیں کہ ہم اپنا کام کریں یا دوسروں کی ہیلپ کریں۔ یہ جملہ بچے کو ہر ہر بار یاددہانی کروائیں کہ ہاتھ کے بس دو ہی مقاصد ہیں:  اپنے کاموں کے لئے، دوسروں کی ہیلپ کے لئے۔

 

 

 

بچے کو بہت شروع سے چار ایموشنز سکھائیے: کبھی اپنے چہرے کے ایکسپریشنز، کبھی ڈرائنگ سے، کبھی کارٹون کی مدد سے۔

 

خوش

 

اداس

 

غصہ

 

حیران

 

یہ چار ایموشنز از بر ہو جائیں۔ جب مارے تو آپ بتائیں کہ اس طرح دوسرا بندہ/بچہ اداس ہو جاتا ہے۔ ساتھ اداس چہرہ بنائیے۔ کیا آپکو کوئی مارے تو اچھا لگتا ہے؟ نہیں! اداس ہونا اچھا لگتا ہے؟  نہیں! ہمیں کسی کو ہرٹ نہیں کرنا ہوتا کیونکہ ہاتھوں کے دو ہی مقاصد ہوتے ہیں۔ ۔۔ الخ

 

 

 

جو اصول بنائیں اس پر مستقل مزاجی انتہائی اہم ہے۔ جو کام غلط ہے وہ پہلی بار بھی غلط ہے، آٹھویں بار بھی، بائیسویں بار بھی۔ ہر بار سمجھانا ہے۔   ہر بار کہنا ہےمارنے کی اجازت نہیں ہے۔لمبا چوڑا لیکچر نہیں، پچھلی باتوں کے حوالے نہیں۔ بہن بھائیوں سے موازنہ نہیں۔ بس سیدھی کھری مختصر بات۔ سکرین ٹائم اور میٹھے کا حساب کتاب رکھیں۔ اس سے بھی بچے ہائپر ہوتے ہیں۔

 

 

 

جو بچے چار پانچ سال کے ہو کے بھی دوسروں کے بچوں کو ماریں، انکے لئے ذرا سختی کیجیے۔ اگر آپکا بچہ زبان سے گالی گلوچ یا shut up, stupid, یا you're a baby کہہ کر دوسرے بچوں کو تنگ کرے، یا انہیں مارے تو سوری کے ساتھ 'اگر مگر' کے جواز پیش نہ کیے جائیں. 'دراصل یہ تھکا ہوا ہے، نیند میں ہے، بھوک لگی ہے۔۔۔' جو بھی وجہ ہے، اسے یہ حق نہیں کہ کسی بچے پر ہاتھ اٹھائے۔ اور جب آپ اسکے سامنے یہ جواز رکھ دیتے ہیں، آئیندہ کے لیے بھی اسے پتہ چل جاتا ہے کہ میں تو بڑے آرام سے جان چھڑوا سکتا ہوں۔

 

اسکو cause and effect بتائیں۔ 'آپ بچے کو ماریں گے، ہم پارٹی چھوڑ کر آ جائیں گے۔' اور ایسا ہی کریں اور مستقل مزاجی سے کریں۔ وہ سمجھ جائے گا کہ میں غلطی کرتا ہوں تو انجام بھگتتا ہوں. باقی بچے پارٹی میں مزہ کرتے ہیں، مجھے واپس آنا پڑتا ہے۔

 

اسکے علاوہ bullying کے بارے میں انکو بکس پڑھیں. انہیں بتائیں کہ دونوں ہی صورتیں غلط ہیں. انہیں سمجھائیں کہ bullying مین repetitive behavior ہوتا ہے. تو اگر آپ بار بار لڑائی کرتے ہیں، مارتے ہیں، بدزبانی کرتے ہیں، یہ bullying ہے.  اگر ہر پارٹی میں آپکی وجہ سے کوئی نہ کوئی بچہ روتا ہوا ماں کے پاس آتا ہے، یہ bullying ہے۔انہیں بتائیں کہ وہ سمارٹ ہیں، اچھے بچے ہیں اور اچھے بچے اچھے فیصلے کیا کرتے ہیں

 

انہیں یہ بھی بتائیں کہ فرشتے ہر عمل لکھ رہے ہیں. سب کچھ ہماری بک (یا سی ڈی/USB) میں فیڈ ہو رہا ہے اور اللہ کے سامنے ایک کلک پر سامنے ہو گا. ہمیں اچھے اعمال بڑھانے ہیں.

 

انہیں anger management کے لیے تین سنہری اصول بتائیں:

 

1- تعوذ پڑھیں.

 

2- کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیں

 

3- وضو کر لیں، منہ دھو لیں، پانی پی لیں. شیطان آگ سے بنا ہے، غصہ شیطان کا کام ہے. اس آگ کو پانی سے بجھائیں۔

 

انکے لیے خود بھی دعا کریں۔

 

 

 

سب سے اہم بات: خود مار دھاڑ اور چیخنا چلانا کم  سے کم کریں۔ بچے کو مار کر کہنا کہ مارتے نہیں، اس سے اثر کم ہی ہو گا۔ چیخ کر کہنا کہ آہستہ بولو، اسکا بھی۔    نرمی سے ہاتھ لگائیے، ہاتھ کے بجائے زبان استعمال کیجیے تا کہ بچے یہی دیکھیں، یہی سیکھیں ان شا اللہ۔

 

 

 

تحریر،، نیّر تاباں

 

انتخاب،، عابد چوہدری

 

 

 

برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فاروڈ کیا جائے  

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

بچوں کے بگڑنے کے ذمہ دار ہم خود

 

 

 

ایک بڑی تعداد ہے ایسے لوگوں کی جو کہتے ہیں ہمارا بچہ دوستوں میں رہ کر بگڑ گیا ہے ، باہر کے ماحول نے اسے بگاڑ دیا یے ، بچہ جھوٹ بولے تو دوستوں نے سکھایا ، بدتمیزی کرے تو دوستوں نے سکھایا ، بچہ گالی دے تو دوستوں نے سکھایا ہے ، یقین جانیں یہ سوچ ہی غلط یے ۔۔۔ !!!

 

 

 

درحقیقت بچے کے بگڑنے کی وجہ والدین کے اپنے فرائض کی عدم ادائگی ہے ، شروع سے ہی بچے کی تربیت کو اہم فریضہ سمجھا جاتا ، بچے کی پرورش کو اولین ترجیح دی جاتی تو یہ بچہ دوستوں میں جا کر کبھی خراب نہیں ہوتا بلکہ دوستوں کی اصلاح کا سبب بنتا ۔۔۔!!!

 

 

 

بچہ پیدا ہوتے ہی دوستوں میں نہیں جا بیٹھتا ، پیدا ہوتے ہی اسکے دوست اسے لینے نہیں آجاتے ، پیدا ہوتے ہی آوارہ گردی شروع نہین کرتا ، پیدا ہوتے ہی سگریٹ نہیں پکڑتا ، کم و بیش شروع کے دس سال تک بچہ مکمل والدین کے ساتھ اٹیچ ہوتا ہے اور یہی وہ دورانیہ ہے جہاں اکثر و بیشتر والدین عدم توجہ کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔۔۔!!!

 

 

 

بچہ جب پیدا ہوتا یے اسکا دل و دماغ بلکل کورا کاغذ ہوتا ہے کہ جو دیکھے گا سنے گا وہ اس پر چھپتا چلا جائے گا، اب ہم نے اس کاغذ پر کچھ نہیں لکھا زمانہ لکھتا چلا گیا ، اگر ہم بچپن میں ہی اپنی تربیت اس کاغذ پر اتار دیتے تو زمانے کو براییاں اتارنے کے واسطے جگہ ہی نہ ملتی ۔۔۔!!!

 

 

 

جب ماں اور باپ نے اپنی تربیت شروع میں ہی بچے کے اندر اتار دی تو یہ بچہ خراب لوگوں سے مل کر خود کبھی خراب نہیں ہوگا بلکہ خراب لوگوں کے لیے اصلاح کا سبب بنے گا ۔۔۔!!!

 

 

 

ہمارے معاشرے میں تربیت کے نام پر رسمی جملے دہرائے جاتے ہیں ، بیٹا جھوٹ نہیں بولنا بری عادت ہے ، بدتمیزی کرنا بری عادت ہے اور یہ رسمی جملے کبھی بچے کے اندر نہیں اترتے بلکہ نہایت ذمہ داری کے ساتھ ، غور و فکر کے ساتھ اور دلچسپی سے کی جانے والی تربیت کو بچہ اپنے اندر اتارتا ہے ، ہم معاشرہ دیکھ لیں ہر والدین بچے کو رٹے رٹائے جملے سکھاتے ہیں لیکن فائدہ کوئی نہیں ، اور اسکی وجہ یہی کہ تربیت واسطے فکرمند نہیں ، دلچسپی نہیں ، ہاں سیکھ جائے گا ، سمجھ جائے گا ، ابھی چھوٹا ہے ، اور اسی سوچ نے بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے ۔۔۔!!!

 

 

 

ڈرامے اور فلمیں دیکھتے ہوۓ مائیں بچوں کو دودھ پلا رہی ہیں ، ایک ہاتھ میں بچے کا فیڈر ہے تو دوسرے ہاتھ میں موبائل ہے ، ذرا سا بچہ رونے لگ جائے تو ٹی وی کھول کر دے دیں گے ، موبائل ہاتھ میں دے دیں گے ، اسے کارٹون لگا دیں گے ، کوئی موسیقی سن کر بچہ ہاتھ پیر ہلانے لگ جائے تو سارے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے ، اب وہ ماں اپنے بچے کی اعلی پرورش کیسے کرسکتی ہے کہ اسکی خود کی زندگی ڈرامے ، فلمیں ، موسیقی ، شاپنگ ، گھومنا گھمانا ، موبائل فیس بک تک محدود ہو ۔۔۔!!!

 

 

 

ایک نظر باپ کی ذمہ داریوں پر ڈالیں تو بس وہی رسمی معاملات کہ بچے کے خرچے پورے ہو رہے ہیں ، ضرورتیات و خواہشات پوری ہو رہی ہیں ، پورا دن کام میں مصروف ، گھر آئے کھانا کھایا ، بچے کو ایک راؤنڈ لگوا کر پھر دوستوں میں مصروف اور پھر گھر آکر موبائل میں مصروف ، اسی طرح دن پھر ہفتے اور پھر سال گذر جاتے ہیں لہذا اس بچے کی تربیت کا جو سب سے اہم دورانیہ تھا وہ والدین نے اپنی ہی مصروفیات ، اپنی ہی مستیوں میں ضایع کر دیا بعد میں سر پکڑ بیٹھے کے اولاد نا فرمان ہے ، اولاد بدتمیز ہے ، دوستوں نے بگاڑ دیا ، ماحول نے خراب کردیا ، ارے بھئی ماحول کے ساتھ تو وہ بعد میں جڑا یے ، دوست تو اسکے بعد میں بنے ہیں ، اتنے سالوں سے تو وہ آپ ہی کے پاس تھا ۔۔۔!!!

 

 

 

ماں اور باپ دونوں کو مل کر ذمہ داری کے ساتھ بچے کی تربیت کرنی ہوگی ، اپنے آپ کو لگانا ہے ، اپنے آپ کو کھپانا ہے ، اولاد کی تربیت کے واسطے ماں کی گود سب سے پہلی اور اہم درسگاہ ہے کہ ماں اسے سینے سے لگائے اپنی تربیت بچے میں منتقل کرے ، اسے اللہ کی پہچان کروائے ، اسے رسول اللہ کی پہچان کروائے ، اسے دنیا میں آنے کا مقصد سمجھائے ، اسے روز مرہ معاملات کی دعائیں سکھائے ، سچ سے محبت ، سچ میں عزت ، سچ پر فضیلت ، اسکے دل میں اتارے ، جھوٹ سے نفرت ، جھوٹ میں شرمندگی ، جھوٹ پر گناہ کا یقین اسکے دل میں اتارے ، گالی ، غیبت ، چغلی اور بری باتوں سے نفرت اسکے دل میں اتارے ، رشتہ داروں سے محبت اور حسن سلوک اسکے دل میں اتارے ، جب ماں کے اندر دین ہوگا ، ماں کے اخلاق اچھے ہونگے تو یہاں نسلوں کی نسلیں پروان چڑھیں گی۔۔۔!!!

 

 

 

اسی طرح باپ ہے کہ روزانہ بچے کے ساتھ بیٹھ کر کچھ وقت گزارے ، روز مرہ کے معاملات کا پوچھے ، صحیح غلط کی پہچان کروائے ، بڑوں کا ادب ، بڑوں کی عزت سمجھائے ، غریبوں سے محبت ، ضرورت مند کی مدد کا جذبہ اور شوق اسکے اندر پیدا کریں ، اسکے سامنے یہ ٹیلیوژن موبائل ڈرامے فلمیں وغیرہ کا استعمال بلکل نہ ہو ، اسکے سامنے لڑائی جھگڑے گالم گلوچ شور شرابہ بلکل نہ ہو ، بچے کے سامنے سب سے آپ جناب سے بات کریں ، بچہ ذرا بڑا ہوجائے تو اسے نماز پر اپنے ساتھ لیکر جائیں ، اسے لوگوں سے ملنا جلنا سکھائیں ، اچھے کام پر اسکی حوصلہ افزائی ہو ، فارغ اوقات میں پاس بٹھا کر رسول اللہ اور صحابہ کرام کے واقعات سنائیں ۔۔۔!!!

 

 

 

ایسے ماحول سے نکل کر آپ کا شہزادہ جب باہر کی دنیا میں اتا ہے تو کبھی باہر کے لوگوں سے خراب ہوکر نہیں آئے گا بلکہ انکے  لئے اصلاح کا سبب بنے گا ، انکے لئے خیر کا سبب بنے گا ، جہاں جائے گا اپنی اچھائی چھوڑ آئے گا ، جہاں جائے گا والدین کا نام چھوڑ کر آئے گا ۔۔۔!!!

 

 

 

اور یہ شہزادہ دنیا میں تو والدین کے لئے سربلندی کا باعث بنتا ہی ہے لیکن اپنے اچھے اعمال و کردار کی بدولت والدین کے انتقال کے بعد قبر میں بھی انکے لئے راحت و سکون کا ذریعہ بنے گا ۔۔۔!!!

 

 

 

 انتخاب،، عابد چوہدری

 

 

 

برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فارورڈ کیا جائے

 

 

 

🌹🌺🌻 🏻 🌸💚

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

🌼 دستار🌼

 

 

 

دعا زہرہ کیس میں دعا کے انٹرویو کے بعد والد کے آنکھوں کا اضمحلال اور تھکن کئی گنا بڑھ چکا ہے ۔

 

کندھے ذلت اور رسوائی سے جھک چکے ہیں ۔ ہنسی میں کرب صاف سنائی دیتا ہے ۔

 

دعا نے جو کرنا تھا وہ کر چکی ہے ۔ لیکن میری پیاری بیٹیو !

 

ہم بھی کسی کی دعائیں ہیں ۔ تم بھی کسی کی دعا ہو ۔ باپ کا سر کبھی جھکنے مت دینا ۔ والدین کے لیے کبھی بد دعا مت بننا ۔

 

والدین کے فرماں بردار کو مستجاب الدعوہ کہا گیا ہے ۔

 

اگر کوئی پسند آئے تو انھیں مناؤ نہیں مانتے تو پھر مناؤ پوری زندگی نہیں مانتے پوری زندگی مناؤ لیکن گھر کی دہلیز کو کسی اجنبی کے لیے کبھی پار مت کرنا ۔

 

والدین کی یاد ہر موقع پہ آتی ہے ۔ یہ کبھی نہیں بھولتے ۔ تمھاری زندگی ایک عذاب بن جائے گی ۔

 

کس کس موقع پہ انکی یاد نہیں آتی ۔ کسی سفید بالوں والے بابا جی کو دیکھ کر ٹھٹھک کر رک جانا ۔ کسی جھریوں والے ہاتھ کو دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آجانا ۔

 

وہ شفقت کہیں نہیں ملتی ۔ کبھی نہیں ملتی ۔

 

وہ اخلاص کسی رشتے میں نہیں ہوتا ۔ وہ جو آپکو پن چبھ جائے تو انکی جان جاتی ہے وہ پھر کسی کی نہیں جاتی ۔

 

 

 

 ماں اور باپ وہ بے لوث رشتے ہیں جن کے لیے دنیا کی ہزار محبتیں قربان کرنی پڑیں تو کر لینا ۔ خود پہ جبر کر لینا خود تکلہف سہہ لینا لیکن خدارا ان بوڑھے کندھوں کو مشقت میں مت ڈالنا ۔

 

 

 

کاش دعا اپنی محبت کی داستان سنانے کی بجائے رو رو کر اپنے والد سے معافی مانگ لیتی ۔ کاش وہ ان سے درخواست کرتی کہ وہ مان جائیں ۔ وہ انکے پاؤں پڑنے کو تیار ہے ۔

 

 

 

لیکن دعا روز انکے سینے میں تیر پیوست کر دیتی ہے ۔ انکا سینہ چھلنی ہے اور تیر مارنے والی اپنی اولاد ہے ۔

 

جب اولاد نا فرمان ہوجائے تو کڑی آزمائش بن جاتی ہے ۔ جب اولاد سرکش ہوجائے تو ماں باپ کو جیتے جی مار ڈالتی ہے ۔

 

واقعی انسان جب اولاد سے آزمایا جاتا ہے تو یہ آزمائش بہت کڑی ہے ۔

 

اللہ پاک دعا کو ہدایت دے کہ وہ اپنے والدین سے معافی مانگ لے اور والدین کے دل میں نرمی پیدا کرے کہ وہ بچی کو معاف کر دیں ۔

 

 

 

 لیکن پیاری دعاؤں یاد رکھنا خفیہ دوستی تباہی کے سوا کچھ نہیں ۔ یہ شیطان کا راستہ ہے اور شیطان کھلا دشمن ہے ۔

 

 

 

 اللہ سب بیٹیوں کی حفاظت فرمائے آمین

 

 

 

تحریر،، سمیرا امام

 

انتخاب،، عابد چوہدری

 

 

 

برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فارورڈ کیا جائے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

🌼 تربیت اولاد 🌼

 

 

 

اولاد ھمارے پاس ھمارے رب کا بہت پیارا تحفہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اہم ذمہ داری بھی ھے .

 

کھانا پینا, پہننا اوڑھنا ,تعلیم یہ تو سب بنیادی ضرورتیں ہیں اصل چیز جو ھے وہ ہے اولاد کی اچی تربیت جو ساری عمر اولاد کے کام آتی ھے .

 

آج ھم جو بو رہے ہیں کل ھم نے یہی کاٹنا ھے اگر ھم آم کا بیج لگائیں اور توقع کریں کہ ناشپاتی نکلے گی تو ھماری توقع سراسر غلط ھے آم کے بیج سے آم ھی نکلے گا یہ یوں سمجھ لیں کہ ایک خالی گلاس ھے اسے آپ نے بھرنا ھے تو اولاد بھی ایک خالی گلاس ہے جو آپ کو ملا اب أپ نے اس گلاس کو بھرنا ھے .

 

 بچہ ماں باپ کو کاپی کرتا ھے بجاۓ اسے ڈانٹ ڈپٹ کر سکھائیں اس کے سامنے خود مثال بنیں میں بتاتی  ہوں کیسے

 

سب سے پہلے خود میں دیکھیں کہ میرےاندر کونسی اچھائ ھے جو میرے بچے کو اچھائ کی طرف لاۓ گی

 

اور  مجھ میں کون کون سی برائیاں ہیں جو میرے بچے کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اپنا محاسبہ بہت ضروری ہے

 

 اگر أپ اپنے سے بڑوں سے عزت اور ادب سے پیش آتے ہیں تو یقین کیجۓ آپ کا بچہ بھی آپ کی اور بڑوں کی دل و جاں سے عزت کرے گا اور آپ کا سر فخر بلند کرے گا

 

ان شاءاللہ

 

 اگر آپ میں بانٹنے کی عادت ھے اور آپ اپنے بچے کو سکول کے لۓ لنچ دے رہی ہیں تو اضافی ڈال دیں اور بچوں سے کہیں کہ ساتھیوں کے ساتھ مل بانٹ کر کھانا تو آپ کا بچہ بانٹنا سیکھے گا یہی نہی بلکہ أپ اگر کسی فیملی ممبر کے دکھ سکھ غمی خوشی میں آگے بڑھ کر مدد کریں تو آپ کا بچہ بھی یہی  سیکھے گا اور اپنے دوستوں اور گلی محلے والوں کی مدد کر کے آپ کا سر فخر سے بلند کرے گا

 

ان شاء اللہ

 

اگر آپ کےگھرکا ماحول مذہبی ھے آپ پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں تلاوت کا باقاعدگی سے اہتمام کرتے ہیں چھوٹی چھوٹی دعاؤں کو اپنا معمول بناتے ہیں اور بچوں کو بھی سکھاتے ہیں مثلا واش روم جانے کی دعا .باھر نکلے کی دعا ,آئینہ دیکھنے کی دعا .نیا لباس پہننے کی دعا ,گھر سے باہر جانے کی دعا تو یقین کریں آپ اچھے والدین ہیں اور آپ کی اولاد آپ کے لۓ صدقہ جاریہ بن جاۓ گی .

 

ان شاء اللہ

 

اپنے بچے کی عزت کریں اس کی حوصلہ افزائ کریں اسے کوالٹی ٹائم لازمی دیں اس کی بات غور سے سنیں اور جو بات پسند نہ آۓ اسے آرام سے سمجھائیں جب بچہ غصے میں ہو کوئ بات نہی سمجھے گا کچھ سمجھانا ھو تو رات سوتے وقت ,کھانا کھاتے وقت اور سمجھائیں دن میں ایک ٹائم لازمی کھانا اکھٹے کھائیں میری تحریر صرف ماؤں کے لۓ نہی بلکہ ماں اور باپ دونوں کا فرض ھے مل کر اپنے بچے کو ایک اچھا انسان اچھا شہری بنائیں تو آپ کی اور آپ کی بچے کی ذندگی پرسکون ھوگی

 

ان شاء اللہ

 

تحریر،، رخسانہ سرور

 

انتخاب،، عابد چوہدری

 

 

 

برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فاروڈ کیا جائے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

🌼 بچیوں میں خود اعتمادی 🌼

 

 

 

میں بہت دنوں سے یہ لکھنا چاہ رہی تھی۔ مگر ہمّت نہیں ہوتی تھی کبھی اور کبھی الفاظ نہیں۔

 

مگر میں نہیں چاہتی جس کانفیڈنس کو حاصل کرنے کے لئے میں نے  30 سال لگا دیے اسکے لئے ہماری آنے والی نسل کی بیٹیاں لگائیں۔

 

یہ پوسٹ میں خصوصی بیٹیوں کے والدین کے لئے لکھ رہی ہوں۔ 

 

بہت ہممت یکجا کی ہے میں نے اس پے قلم اٹھانے کے لئے۔ امید ہے میری آواز سنی جاۓ گی۔

 

 

 

"آج کے بعد بریک ٹائم میں کلاس روم سے باہر نہیں جانا اور نہ ہی کسی دوست کے پاس جانا ہے۔ میں دوبارہ کوئی ایسی بات نہ سنوں"

 

 

 

یہ الفاظ یہ ایسے الفاظ میری نسل کی اکثر بیٹیوں نے سنے ہوے ہیں۔ 

 

 

 

میں ایک کو-ایجوکیشن اسکول میں پڑھی ہوں۔  میں نہم جماعت میں تھی جب ایک لڑکا شرارت سے 2-3 دن بریک ٹائم میں ایسے ٹکٹکی بندھے دیکھتا رہتا۔ 

 

 

 

ایک دن میں نے اگنور کیا، دوسرے دن بھی اگنورے کیا،  تیسرے دن میں نے اپنی کلاس ٹیچر کو بتا دیا۔

 

 

 

انہو نے اس لڑکے کی بہت پٹائی کی اور معاملہ ختم ہو گیا۔

 

 

 

امی کو جب میں نے گھر آ کر بتایا تو امی نے سنتے ہی پابندیاں لگا دی۔

 

 

 

مجھے پابندیوں پہ اعتراض نہیں ہے۔

 

مجھے تو اعتراض ہے کہ  مجھے سکھایا کیوں نہیں۔

 

 

 

 مجھے بتاتے کے بیٹی جب اپکو کچھ بھی نامناسب محسوس ہو جا کر اس شخص سے پورے کانفیڈنس سی پوچھنا

 

 

 

" آپ میری طرف دیکھ رہے ہیں۔کیا مسلہ ہے اپکا،  میں کیا مدد کر سکتی ہوں اپکی"

 

 

 

اور اتنے زور سے یہ پوچھنا کے ساتھ سب متوجہ ہو جائیں۔

 

 

 

"بیٹی اس میں اپکا قصور نہیں ہے۔ آپ نے اپنا حلق خشک نہیں کرنا . اور نہ ہی ذرا سا بھی گھبرانا ہے۔"

 

 

 

غلط انسان کو گھبرانا چاہیے اپکو نہیں۔

 

والدین اپکی سیف سپیس ہیں۔ آپ کچھ بھی شئیر کر سکتی ہیں بلا ججھک۔

 

میں آپ سے یہ چاہتی ہوں کے تھی کانفیڈنس اپکی 5 سال کی بچی میں ہونا چاہیے۔

 

اسے کچھ بھی نامناسب لگ رہا ہے تو اسی وقت وہ بول سکے۔

 

مہمان اٹھانا چاہ رہا اور بچی نہیں چاہتی تو اس کی نا کی عزت کریں۔ مہمان سے معذرت کر لیں مگر بچی کو فورس نہ کریں۔

 

 اسے کسی کی نظر عجیب لگ لگ رہی ہے تو اسے اتنا ہے کانفیڈنس دیں کہ وو جا کے پوچھ سکے کہ

 

" ہاں جی کیا مسئلہ ہے۔ کیوں دیکھ رہے ہیں اپ۔"

 

اور ایسی باتوں میں کبھی شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

 

یقین جانیں اپکا یا بچی کا 1 فیصد بھی قصور نہیں ہے۔

 

 

 

کون میری آواز بنے گا!

 

 

 

تحریر،، ڈاکٹر زرین زہرا

 

انتخاب،، عابد چوہدری

 

 

 

برائے مہربانی اس پوسٹ کو شئیر یا فارورڈ کیا جائے 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اپنی بیٹیوں کو یہ سکھائیے

 

🔹اپنے چچا زاد خالہ ذاد یا کسی بھی لڑکے سے چاہے وہ کم عمر ہاتھ ملا کر مصافحہ مت کرو

 

🔹کسی بھی شخص سے بات کرنی ہو تو درمیان میں کافی فاصلہ رکھ کر بات کرو

 

🔹کسی بھی مرد سے معاملہ کرتے ہوئے حدود کا خیال رکھو اور اپنا وقار برقرار رکھو

 

🔹پست آواز میں آرام سے ہنسو بلند آواز میں قہقہے مت لگاؤ

 

🔹عام سڑک پر اپنی سہیلیوں سے بھی مذاق مت کرو راستے کے ادب کا خیال رکھو

 

🔹لفٹ میں اجنبی مرد کے ساتھ نہ چڑھو، پہلے اسے جانے دو اسکے بعد تم چلی جاؤ

 

🔹چھوٹی بیٹی کو دکان بھیجنا ہو تو چھوٹے باریک چست لباس میں مت بھیجو اور اسے زیادہ دیر ٹھہرنے یا دکان دار کے قریب ہونے سے منع کرو

 

 

 

🔹سڑکوں پر کسی بھی مرد سے بات کرنے سے احتراز کرو بعض نفسیاتی مریض ہوتے ہیں اور عورت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں

 

🔹جب زمین سے کوئی چیز اٹھانے لگو یا دکان بازار یا عام جگہ پر ہوتو رکوع کے طریقے پر مت جھکو بلکہ کمر سیدھی رکھ کر جھکو اور اسی طرح کھڑی ہو جاؤ تاکہ کوئی نازیبا ہیت پیدا نہ ہو اور جسم نمایاں نہ ہو

 

🔹دوران سفر اپنی ذاتی زندگی کی چیزیں بیان نہ کرو دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں نہ وہاں بلند آواز سے بات کرو اطمینان سے تسبیح میں لگی رہو

 

🔹بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سب قدیم اور فرسودہ باتیں ہیں __لیکن دراصل یہ ہماری ذمہ داری ہےکہ اسے زندہ رکھیں کیونکہ یہ ہمارے دین کے تقاضے ہیں

 

 اپنی اولاد کو اپنا دوست بناکر اچھا انسان بنا دو ورنہ

 

 برے لوگ انہیں اپنا دوست بنا کر برا انسان بنا دیں گے

 

انتخاب،، عابد چوہدری

 

 

 

برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فارورڈ کیا جائے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

بچے کی شکایت

 

 

 

بچہ روز قیامت  والدین سے یہ شکایت نہیں کریگا کہ آپ نے مجھے سیر و سیاحت نہیں کروائی

 

یا آپ نے ہمیں کھلونےاور مہنگے موبائل نہیں دلوائے

 

نا یہ شکایت کرے گا کہ اپ نے مجھے ڈاکٹر انجینئر نہیں بنوایا .

 

نا یہ شکایت کرے گا کہ آپ نے اسے اے لیول او لیول مہنگے اسکول میں نہیں پڑھایا

 

نا یہ شکایت کرے گا کہ آپ نے  اسے عالی شان گھر میں نہیں پالا

 

 

 

مگر قیامت کےدن وہ آپکی گردن ضرور پکڑے گا کہ آپ نے اسے نماز کے لئے جاگنا نہیں سکھایا

 

آپ نے اسے برائی سے بچنا نہیں سکھایا

 

آپ نے اسے قرآن و دین اسلام کی تعلیم نہیں دی

 

آپ نے اسے برے لوگوں کی صحبت سے نہیں بچایا

 

آپ نے اسکی شادی میں دیر کر کے اسے فتنے میں مبتلا کروایا

 

آپ نے اسے گانے سننے کی عادت ڈلوائی

 

آپ نے اسے)خاص کر کے بچیوں کو(ستر و حیاء کی تعلیم نہیں دی

 

آپ نے اسے گندے لباس کی عادت دلوائی

 

آپ نے اِس کے حصے کو کسی اور کو سونپ دیا

 

آپ نے اسے اپنا گھر سے بے دخل کردیا

 

دوسروں کی باتوں میں آ کر آپ نے اس کو برا سمجھا

 

آپ نے اسے بڑوں اور رشتوں کا ادب کرنا نہ سکھایا

 

 

 

جی! وہ اس دن اپکی اولاد ہونے پرُ افسوس کرے گا  اور کہے گا کہ انھوں نے مجھے اس آگ سے نہیں بچایا آج انکی وجہ سے میں جہنم کا مستحق بنا

 

 

 

🌷 رسول نے فرمایا:

 

" آگاہ ہو جاؤ! کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا. (صحیح البخاری، کتاب الاحکام، 7138)"

 

 

 

🌷 اللہ کا فرمان ہے:

 

"اے ایمان والو ! اپنے اپکو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں. (سورہ التحریم 6)"

 

 

 

🌷بیشک اولاد کا ہونا اک بڑی آزمائش ہے اس آزمائش میں پورا اتریں اولاد کی اچھی تربیت کریں دنیاوی تعلیمات کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمات پہ زور دیں نماز کا پابند اور بڑوں کا ادب کرنے والا بنائیں ایسا نہ ہو دنیا کے دیکھاوے اور دوڈ میں آپ اپنی اور اپنی اولاد کی آخرت خراب کر بیٹھیں اور بروز محشر آپکی اولاد آپکا گریبان پکڑے.🌷

 

 

 

انتخاب،،عابد چوہدری

 

 

 

برائے مہربانی اس پوسٹ کو شئیر یا فاروڈ کیا جائے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

سوال :گرمیوں کی چھٹیوں کو بچوں کے لئے کیسے مؤثر بنایا جاۓ؟

 

 

 

جواب:

 

 

 

اس قیمتی وقت کو زیادہ تر کوئی بات نہیں چھٹیاں ہے سوچ کر ضائع ہی کیا جاتا ہے۔۔۔ بچوں کی روٹین خراب کر دی جاتی ہے رات دیر تک جاگنا صبح دیر سے اٹھنا معمول بنا لیا جاتا ہے، پڑھائی کے نام پر وہی سکول کا ہومورک اور لاڈ کے نام پر سارا دن سکرین (موبائل،لیپ ٹاپ، ٹیوی)

 

اس قیمتی وقت کو کیسے بہترین طریقے سے استعمال کیا جاۓ کے بہت سے فوائد حاصل ہو سکیں؟ اس کا جواب پیش خدمت ہے:

 

 

 

سب سے پہلے بچوں کو گھر کے کام اور سلیقہ سیکھائیں یہ سوچے بغیر کے یہ لڑکا ہے یہ کیوں کرے۔

 

ڈیسپلین سکھائیں۔۔ کہتے ہیں

 

 charity begins t home

 

اکثر والدین کو یہ شکایت ہوتی ہے کے بچے اپنی چیزیں جگہ ہر نہیں رکھتے، گھر میں اٹھ کر پانی بھی نہیں پیتے، کسی کام میں دلچسپی نہیں لیتے۔

 

 یہ سکل بہت اہم ہے کے چاہے لڑکا ہے یا  لڑکی اس میں یہ ڈسپلین اور سلیقہ ہونا بہت ضروری ہے۔۔

 

 مشکل وقت میں اپنے لئے کھانے کے نام پر  کم از کم ایک انڈا اور چاۓ کا ایک کپ بنانا تو لڑکوں کو بھی آنا ہی چاہئے۔

 

 اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرنے کی عادت دونوں میں ہونی چاہئے تاکہ وہ کسی پر بوجھ نہ بنے۔

 

سکول جانے والے دنوں میں بچوں کے پاس اتنا ٹائم نہیں ہوتا اس لئے چھٹیوں میں سکھائیں تاکہ وہ ان سکلز میں مہارت حاصل کر لیں  اور پھر سکول گوائنگ ڈیز میں بھی ان سکلز کو ٹائم منیجمنٹ کے ساتھ استعمال کر سکے۔۔۔

 

 

 

بچوں کو ٹائم منیجمنٹ سکھائیں ہر کام کے لئے ٹائم بتائیں کے یہ اتنی دیر میں ہو سکتا ہے مشین نہیں بنانا لیکن ایک گول دینا ہے۔کسی بھی ٹاسک کے لئے وقت بتائیں کے اس کو کرنے کے لئے آپ کے پاس اتنا وقت ہے۔ وقت پہلے تھوڑا زیادہ بتائیں اور آہستہ آہستہ کم کرتے جائیں۔۔۔

 

یاد رہیں یہ صرف سکھانے کے لئے ہے مشین بنانے کے لئے نہیں اس لئے ڈانٹ ڈپٹ نہ کریں بلکہ حوصلہ افزائی سے سکھائیں۔

 

 

 

ممکن ہے تو بچوں کو قرآن کی تعلیم و تفسیر کے کسی کورس میں داخل کروا دیں ۔۔ بچوں کی عمر کی مناسبت سے بہت سے ایسے آنلائن کورسز اب تشکیل ہو چکے ہیں ۔۔

 

 

 

بچوں کو لینگویج کورسز کروائیں میرے خیال میں عربی زبان لازمی سکھائیں ، انگریزی،  چائینیز، جرمن وغیرہ یا جو بھی زبان آپ کے بچے کو سیکھنے میں دلچسپی ہو۔

 

مختلف زبانیں بولنے اور سیکھنے والے بچے دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔۔

 

 

 

بچوں کو ان کی پسند کی کوئی  سکل سکھائیں جیسے

 

Painting, writing, calligraphy, swimming,karate, gymnastics, swimming etc

 

اوپن اینڈ جو بھی آپ کا بچہ سیکھنا  چاہے ضرور سکھائیں۔

 

 

 

رات دیر تک جاگنے اور صبح دیر تک سونے کی عادت نہ بنائیں بلکہ ان کی روٹین سیٹ کریں جو ڈسپلین کا ہی حصہ ہے۔

 

 

 

نماز کی پابندی سکھانے کے لیے بھی  چھٹیاں انتہائی موثر ثابت ہو سکتی ہیں.

 

 

 

بچوں میں healthy habits ڈیویلپ کریں جیسے کے

 

Reading, physical activities, walk, exercise etc

 

 

 

بچوں کو کمپیوٹر لٹریسی کا کوئی کورس کروائے۔

 

 

 

ایسے کورسز کروائیں جس سے بچے کی creative abilities کو پالش کیا جا سکے اور کسی سکل کو سیکھا جا سکے۔

 

 

 

اس کے علاوہ آپ بچوں کی عمر کے مطابق انہیں فری لانسنگ کا کوئی کورس بھی سکھا سکتے ہیں۔

 

 

 

اب آپ میں سے اکثر لوگ یہ سوچ رہیں ہو گے کے ایسے کورسز آپ کے علاقے میں کروائے نہیں جاتے تو کیسے کروائی  تو جناب آنلائن ایسے بہت سے ادارے ہیں جہاں آپ بچوں کو انرول کروا سکتے ہیں اور فائدہ اٹھا سکتے ہیں

 

اکثر لوگ ان کورسڑکی فیس کا سوچ رہیں ہو گے تو ایسے بہت سے ادارے ہیں جو یہ کورسز فری آف کاسٹ کروا رہے ہیں اور اگر آپ کو ایسا کوئی ادارہ نہیں ملتا تو جناب

 

یوٹیوب کب کام آئے گی۔۔ مجھے لگتا ہے اگر ہم یوٹیوب کا مثبت استعمال کریں تو اس سے بڑی یونیورسٹی کوئی نہیں ہے۔۔۔

 

اب آپ سوچیں گے کے یوٹیوب سے کریں تو سرٹیفکیٹ نہیں ملے گ تو جناب سرٹیفکیٹ سے زیادہ آپ کا پورٹ فولیو اہم ہوتا ہے جو آپ خود بناتے ہیں۔۔۔ اور سرٹیفکیٹ نہ ہونے کی صورت میں وہ ہی آپ کا سرٹیفیکیٹ۔۔۔!!!

 

یاد رہے یہ بات میں نے صرف سکل لرننگ کے حوالے سے کی ہے ڈگری کے حوالے سے نہیں۔۔

 

 

 

بچوں کو نانی، ماموں،خالہ ،چاچو پھپھو وغیرہ کے گھر کے علاوہ کہیں سیر وتفریح پر بھی ضرور لے کر جائیں لڑکی اس میں یہ ڈسپلین اور سلیقہ ہونا ضروری ہے۔۔

 

 

 

تحریر،، مریم امین اعوان

 

انتخاب،، عابد چوہدری

 

 

 

 

 

 

 

 

 

گرمی کی چھٹیوں میں ٹین ایج کو کیسے ایکٹو رکھنا ھے کہ موبائل سے دور رہیں اپنا اسکول کا کام بھی ڈیلی روٹین میں رکھیں اور اچھا وقت گزاریں ....

 

 

 

جواب 👇

 

 

 

ٹائم ٹیبل بنائیں

 

 

 

ایکسرسائز ، واک، جم، سوئمنگ وغیرہ کو باقاعدگی سے کریں

 

 

 

بچے پر ذمہ داری ڈالیں جیسے شام کی چائے، پودوں کو پانی، گھر کی صفائی، کپڑے استری کرنا ، چیزیں سمیٹ کر رکھنا کوئی بھی کام جو آپ دینا چاہے وہ ان کی responsiblity میں شامل کر دیں کے انہوں نے کرنے ہی کرنے ہیں۔

 

 

 

کتب بینی کی عادت ڈالیں بلکہ کتاب خود بھی پڑھیں اور پھر بچوں کے ساتھ اس کو ڈسکس کریں کے کیا پڑھا، کیا سیکھا ، کیا سبق ملا.

 

 

 

کریٹو رائٹنگ  creative writing سکھائیں اس کی مدد سے بچے  معاملہ فہمی بھی سیکھ سکیں  گے۔ کوئی بھی ٹاپک دیجیے اور اس پر لکھنا کا کہیں.

 

 

 

پرابلم سولونگ problem solving سکھائیں۔ کوئی بھی مسئلہassume کیجئے انہیں وہ سچویشن دیجئے اور پوچھیں کے اس صورتحال کو کیسے ہینڈل کیا جاسکتا ہے یا اگر انہیں کبھی اس سچویشن کا سامنا کرنا پڑے تو وہ کیسے ہینڈل کریں گے  اور پھر بہتر طریقہ بتائیں۔

 

 

 

زیادہ فوکس سکل ڈویلپمنٹ پر کریں کمیونیکیشن سکلز لازمی سکھائیں اور ان کو سکھانے کے لئے بچے کو مختلف ٹاپکس ، مختلف پرابلمز ، مختلف سچویشنز پر بولنے کا کہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔۔۔

 

 

 

اس کے علاوہ جو بھی سکل آپکے بچے میں یے اسکو پالش کرنے میں اس کی مدد کریں

 

پینٹنگ ،  رائیٹنگ ، سکیچنگ ، کوکنگ، ڈیزائینگ ، گارڈننگ وغیرہ

 

 

 

آنلائن فریلانسنگ کورسز سکھائیں۔

 

 

 

ٹین ایج بچے کو مذہب کی طرف راغب کرنے،اس کی تعلیم دینے کی بہترین عمر ہے اس لیے قرآن پاک کے ترجمہ تفسیر وغیرہ بھی پڑھائیں  اور ان پر healthy discussion بھی کریں۔۔

 

 

 

اس عمر میں  بچوں میں بہت سی جسمانی اور جذباتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوتی ہیں ان کے پیش نظر اپنے بچے کو اپنے سے بہت قریب رکھیں  تاکہ وہ ہمیشہ مشکل اور پریشانی میں  آپ کے پاس ہی ائے۔ بچے کو اعتماد دیجئے کے وہ اپنی ہر بات ہر مسئلہ کھل کر آپ سے ڈسکس اور شئیر کر سکتا ہے اور یہ اعتماد دینے کے لیے ضروری ہے کے آپ خود بچے کے ساتھ اپنی چھوٹی چھوٹی پرابلمز ڈسکس کیجئے اور ان سے مشورہ لیجئے۔۔

 

 

 

بچوں کو appreciate کیجئے طنز و تنقید کم سے کم کریں اور healthy discussions کو معمول کا حصہ بنائیں۔

 

 

 

تحریر،، مریم امین اعوان

 

انتخاب،، عابد چوہدری

 

 

 

برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فارورڈ کیا جائے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

سمر کیمپ ۔۔۔

 

( پانچ سے پندرہ سال کے بچوں کے لئے )

 

 

 

ماہ جون ملک کے سیاسی گرما گرم  ماحول میں موسم کا گرم دروازہ کھول کے ماہ جون چپکے سے وارد ہو چکا ہے بیشتر تعلیمی ادارے  بند ہوچکے ہیں ماؤں کی پریشانی قابل دید ہے تین یا چار بلاؤں کو  ساٹھ گرم ترین دنوں کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ کیسے قابو میں کریں گی ۔

 

 

 

گھبرائیے نہیں اس بار اپنے گھر میں سمر کیمپ لگائیے بھلے ٹائم ٹیبل مت بنائیے ورنہ بچوں کو سکول والی روٹین کی فیلنگز آتی رہیں گی شیڈول بنا لیجیے کہ ان چھٹیوں میں بچوں کو  سمر ٹاسک کے ساتھ  عملی طور پہ کچھ کارآمد سا بھی سکھانا ہے سمر کیمپ اور نئی پرانی ٹیوشن اور زوم والی باجیوں سے بھی جان چھڑائیے یعنی آؤٹ گوئنگ اور سکرین کو ٹوٹل بھول جائیے ۔

 

 

 

یو ٹیوب پہ بچوں کو مصروف رکھنے کی کئی طرح کی علمی ویڈیوز مل جاتی ہیں سرچ کر کے رہنمائی لیجیے اور اپنی سراؤنڈنگ کے حساب سے ڈاؤنلوڈ کر لیجیے زوم والی باجیاں بھی آپ سے فیس لے کے یہی کرتی ہیں آپکے پاس انٹرنیٹ کی سہولت ہے تو یہ کام اپنے بچوں کے لئے آپ خود کیوں نہیں کر سکتیں ۔

 

 

 

دو سے تین گھنٹے سلیبس کی پڑھائی کے لئے بہت ہیں اسی کے بیچ میں مذہبی تعلیمات کو بھی ایڈ کر لیجیے لیکن روٹین میں رکھیے تاکہ عادت پختہ ہو جائے نو سے گیارہ بارہ کا دورانیہ مختص کر لیجیے ۔

 

 

 

لـڑکیاں ہیں تو انہیں گڑیوں سے اور گھر گھروندے بنا کے کھیلنے دیجیے یہ کھیل صرف کھیل نہیں ہیں مکمل سیکھ ہے سمر وکیشن میں انہیں روز کی روٹین میں شامل رکھئے گھر میں دو بہنیں ہیں تو صد شکر ورنہ پڑوس کی بچیان کبھی مہمان تو کبھی میزبان ہوں چار پانچ سال کی  بچیاں شربت بنا سکتی ہیں بسکٹ اور نمکو نکال سکتی ہیں  ذرا بڑی ہوں تو چائے , نوڈلز بنانے دیجیے  کباب اور چپس بھی فرائی کر سکتی ہیں یہ لرننگ ایج ہے بچیاں بہت کچھ سیکھیں گی  گھر داری بھی اسی عمر میں ساتھ ساتھ سکھانی ہوگی ورنہ آگے آگے پڑھائی مشکل ہوتی جاتی ہے اور اس طرح کی سکھائیوں کے لئے وقت نہیں بچتا ۔

 

 

 

رسی کودنے اور سائیکل چلانے دیجیے لٹکنے کے لئے ایک کنڈا لگوا دیجیے بھاگتے دوڑتے اور لٹکتے ہوئے قد بھی بڑھ جاتے ہیں بیڈ منٹن کھیلنے دیجیے کٹنگ پیسٹنگ بھی ایک سیکھنے والا عمل ہے قد بڑھنے سے یاد آیا ایک پرانی تحقیق کے مطابق بچوں کے قد سوتے میں بڑھتے ہیں تو بچوں کو بھرپور نیند بھی لینے دیجیے ۔

 

 

 

لڑکے ہیں فٹ بال , کرکٹ کے ساتھ ساتھ ایک  ٹولز باکس لازمی لا کے دیجیے پیچ کسنے کھولنے اور انکی  یونیورسل سمت بتائیے جیسے ہر تالہ یا کوئی نٹ پیچ کھولنے کے لئے ہمیشہ دائیں طرف گھمائیں اور بند کرنے کے لئے بائیں طرف بار بار کی پریکٹس بہت فائدہ مند رہے گی ۔۔ ایک تختے پہ کیل ٹھونکنے دیجیے  ذرا بڑے بچوں کو بلب چینج کرنا سکھائیے ویک اینڈ پہ بچوں کی سائیکلیں ان کے ساتھ مل کے دھوئیے نٹ پیچ بھی کس لیجیے اپنے استعمال کی چیزوں کی حفاظت  بچوں کی عادت بن جائے گی ۔

 

وقت کی پابندی آڑے نہیں آرہی اس لئے رنگ برنگے کھانوں پہ تجربات کیجیے اور بچوں کو کھلائیے پس و پیش کریں تو وقفہ دیجیے کون سا بچوں نے کہیں ٹیوشن پہ یا سکول کو نکلنا ہے جو فوراً من چاہا نعم البدل تھما دیا جائے بھوک لگے گی تو کھا لے گا ۔

 

 

 

ویک اینڈز پہ بچوں کی انکے ہمجولیوں یا کزنز کے ساتھ میٹنگز کا اہتمام کیجیے کوئی بھی علمی سرگرمی رکھ لیجیے  ملی نغموں کا مقابلہ یا کوئی بھی کوئز  کبھی کوئی آرٹ ورک اس میں بچوں کی دلچسپی  بھی رہے گی اور آپکی انوالمنٹ بھی ۔ 

 

 

 

بچوں کو انڈور گیمز میں مصروف کیجیے  ۔ وہ والےگیمز جو خود کبھی اپنے بچپن میں کھیلے تھے ۔ لڈو , سکریبل وغیرہ ۔ بچوں میں آپس میں ڈرائنگ  کمپیٹیشن رکھئے کام کی اور جیت کی لگن بڑھتی ہے پڑھائی اور لکھائی کا برڈن بھی اتنا ہی ڈالئے کہ بس سلیبس سے ٹانکا لگا رہے ۔

 

 

 

 آپ سمجھ رہی ہوں گی  نصاب کے علاوہ  یہ چھوٹے چھوٹے کام کاج وقت کا زیاں ہے ایسا بالکل بھی نہیں زندگی میں یہ چیزیں بہت کام آنے والی ہیں بلکہ صرف ایک رخ کی تعلیم پہ برگر بچے تیار ہوتے ہیں جنہیں کسی بھی مشکل میں اماں ابا کی ہیلپ چاہئے کندن بچے آگے زندگی میں معاشرے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں جب آپ خود بچوں کے ساتھ اتنا کنکٹ رہیں گی تو بچوں کے رجحان سے آگاہی بھی ملے گی ۔

 

 

 

اگر ممکن ہو تو بچوں کو سوئمنگ پہ لے جایا کریں سوئمنگ  سب سے بہترن ورزش ہے جو جسم  کے رگ رگ اور ریشے ریشے  کو بے حد مضبوط اور خوبصورت بنا دیتی ہے سوئمنگ کی وجہ سے قد بھی بڑھتا ہے ۔

 

 

 

گرمی کی چھٹیوں کو آفت نہیں رحمت سمجھیے بچوں کے ساتھ اپنا کنکشن مضبوط بنائیے پیغمبران کے واقعات اور اپنے خاندان کی تمام اچھی روایات و واقعات بچوں کو کہانی بنا کے سنائیں تاکہ انہیں اپنے  مذہب اور  خاندان سے آگاہی ملے ۔

 

 

 

اور اس سال کوشش کیجیے کہ کہیں مہمان نہ بنیں یہ تین چار بچے اٹھا کے میکے مت چل پڑئیے مہنگائی کا جو ایٹم بم گرا ہے اس سے میکے میں آپکے بھائی بھابھیاں بھی نبرد آزما ہیں ان کا بھی خیال کیجیےاور خود کے ساتھ بھی بھلا کیجیے ۔

 

 

 

کبھی کبھار بچوں کو خریداری پہ بھی لے جایا کریں اور کچھ خریدنے دیں زندگی میں سروائیو کرنے کے لئے زندگی کے اسکلز کی شدھ بدھ ہونا نہایت ضروری ہے  کام کروانے کے لئے بھی کام کا آنا ضروری ہے یقین کیجیے چھٹیوں کے بعد آپکے بچے اتنے سمجھدار اور ایکٹو لگ رہے ہوں گے کہ آپ کو یقین نہیں آئے گا ۔۔

 

 

 

 ہم پڑھنے والے گھنٹوں میں بچوں کو لے کے ایک کمرے میں اے سی چلا کے بند ہو جاتے تھے گرمی سے بھی جان بچی رہتی تھی اور بل بھی قابو میں رہتا تھا  بچوں کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہمارے بھی متعدد کام نمٹ جاتے بچے نظر کے نیچے رکھ کے بہت کچھ نمٹا لیتے تھے کوئی سلائی کڑھائی یا بنائی وغیرہ ۔

 

 

 

ہمارے بچے اب بڑے ہوچکے ہیں لیکن ہم نے گرمی کی چھٹیوں میں اپنے جن اسی طریقے سے قابو میں کئے ٹیوشنز کے لئے کبھی نہیں بھیجا قرآن پاک تجوید سے پڑھوایا تھا ہماری کم نصیبی کہ ہم تجوید نہیں جانتے تھے اپنے بچوں کے ساتھ ہم نے بھی درست کر لیا بچے صبح پانچ بجے وہاں جاتے اور سات بجے واپسی ہوتی تھی ۔

 

 

 

 اکیڈمی کے علاوہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اپنے ہاتھ میں رکھنی چاہئے کیا فائدہ آپکی ڈگریز کا جو آپکے اپنے بچوں کے کام بھی نہ آسکیں ۔ اس  روٹین میں اپنے حالات و معمولات  کے حساب  سے ردو بدل کی جا سکتی ہے ۔

 

تحریر،، زارا مظہر

 

انتخاب،، عابد چوہدری

 

 

 

برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فارورڈ کیا جائے         

 

       

 

 

 

 

 

 

 

 ایگزیکٹو بیٹوں کی ماں

 

 

 

میری ایک قریبی رشتے دار کے گھر کے بالکل سامنے ایک بہت ہی شاندار شخصیت کی مالک خاتون رہتی ہیں۔۔۔

 

 

 

اچھی پوسٹ پر رہیں۔۔۔۔شاندار لائف اسٹائل اور ساتھ میں بات چیت و معاملات کا بہترین برتاو۔۔۔۔2 بیٹے اور بیٹیاں، تمام کی تمام انتہائی سیٹلڈ اور "تعلیم یافتہ"

 

 

 

بزرگ ہیں تو نیند بہت گہری آتی ہے۔۔۔اتنی گہری کہ کچھ مہینے پہلے اپنے بیڈ سے گر گئی اور سر میں ایک گہرا زخم آگیا۔۔۔۔اتنا گہرا کہ پورا لباس و کمرا خون میں لت پت۔۔۔۔

 

 

 

تھوڑی ہمت کر کے میری رشتے دار خاتوں کو کال کرکے بلایا۔۔۔

 

 

 

(تو اس دوران میں ان کے انتہائی تعلیم یافتہ اور سیٹلڈ بیٹے اور بیٹیاں کہاں ہیں؟؟؟ کیا یہ سوال آپ کے ذہن میں آیا؟)

 

 

 

جب وہ ان کے گھر گئیں تو ان کی حالت دیکھ کر ۔۔۔خود ان کی حالت خراب ہوگئی۔۔۔

 

 

 

خیر وہ بزرگ خاتون بہت ہمت کر کےخود ہی ڈرائیو کر کے میری رشتے دار خاتون کے ساتھ ایک اچھے اور مہنگے ہسپتال جیسے تیسے پہنچ گئیں۔

 

 

 

وہاں ایمرجنسی روٹین کے تحت فورا ان کا علاج شروع کیا گیا اور ڈاکٹر و طبّی عملے نے بتایا کہ زخم تھوڑا اور گہرا ہوتا تو دماغ کو کافی نقصان ہو سکتا تھا۔

 

 

 

اس دوران میں میری رشتے دار خاتون ان کے ساتھ رہیں اور پٹی و دوائی وغیرہ لے کر واپس گھر آئیں تو وہ جذباتی طور پر انتہائی تنہائی کا شکار تھیں۔۔۔۔رو پڑیں کہ بیٹے دونوں دبئی میں انتہائی سیٹلڈ ملازمت کر رہے ہیں۔۔۔۔کہتے ہیں کہ پورے دن کے لیے میڈ رکھ لو پیسے ہم دے دینگے۔۔۔

 

 

 

ایک بیٹی جاب کرتی ہے وہ فوری آ نہیں سکتی ۔۔۔۔ایک شہر سے باہر ایک مہنگی کمیونٹی میں رہتی ہے اور اس کے لیے بھی فوری آنا ممکن نہیں۔۔۔۔

 

 

 

خیر تھوڑی دیر میں ان کے بھائی آگئے اور میری رشتے دار خاتوں کا شکریہ ادا کیا کہ وہ پورا وقت ان کی بہن کے ساتھ رہیں اور اتنی مددگار رہیں۔

 

 

 

تربیت اور پالنا پوسنا

 

مجھے یہ واقعہ پتا چلا تو مجھے ان کے سر کے زخم سے زیادہ ان کے دل کا زخم زیادہ گہرا لگا۔۔۔۔

 

 

 

ایک ماں کی بے بسی کی انتہا ہے کہ چار بچوں کی موجودگی میں ہمسائے کی خاتون اس ایمرجسنی میں ساتھ رہیں۔۔۔۔ کیا ان کی تکلیف و دکھ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے؟

 

 

 

چار چار بچے۔۔۔۔بظاہر تعلیم یافتہ، مگر خود میں مگن، بزرگ ماں کو تنہا ایک لگژری گھرمیں چھوڑ کر مطمئن ہو جانے والے۔۔۔۔

 

 

 

دونوں ایگزیکٹو بیٹے کہتے ہیں کہ میڈ رکھ لو، جو چاہے بتا دو بھجوا دینگے۔۔۔۔ اگر کچھ نہیں دے سکتے تو وقت، ماں کو محبت، توجہ و دھیان، جذباتی سپورٹ۔۔۔۔

 

 

 

کبھی کبھی اپنے پاس بلا کر اپنے تئیں اپنا فرض پورا کر دینے والے۔۔۔۔تاکہ انہیں اپنے بیگم بچوں سمیت ماں کے پاس رکنے نہ آنا پڑے۔ اور بیگم بچوں کی لائف و موڈ خراب نہ ہوں۔

 

 

 

اب اس پورے قصے میں بظاہر خاتون کے ساتھ برا ہو رہا ہے۔۔۔۔مگر ایک اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ انہوں نے بچوں کو "تعلیم یافتہ" پال پوس تو لیا۔۔۔۔مہنگے اسکول، لباس، لائف اسٹائل، الغرض مادی ترقی کی دوڑ میں بہت آگے دھکے لگا لگا کر بڑھا دیا ۔۔۔۔۔ اتنا کہ اب وہ خود بھی چاہیں تو انہیں واپس نہیں بلا سکتی۔۔۔۔

 

 

 

 اگر پالنے پوسنے کے ساتھ ساتھ وہ کچھ "تربیت" پر بھی زور دیتیں تو شائد۔۔۔ شائد انہیں آنسو بہا کر یہ اور اس طرح کے واقعات نہ بتانے پڑتے۔۔۔۔۔

 

 

 

عموما انسان اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے دکھوں کے کھیت بو رہا ہوتا ہے۔۔۔۔ اور جب فصل کاٹنے کا وقت آتا ہے تو اس کی ذمہ داری ڈالنے کے لیے دوسرے کے کندھے تلاش کرتا ہے۔

 

 

 

 اپنے بچوں کی تربیت پر فوکس کریں۔۔۔۔۔اخلاق، کردار، عادات پر فوکس، فطری و دینی نظریات و خیالات کے مطابق تعلیم۔۔۔۔۔دین و دنیا میں توازن، آگے سے آگے بڑھنے کی ریس میں لگنے سے ہر ممکن بچاو

 

 

 

اچھے یعنی مروجہ مہنگے پالنے پوسنے میں رسک ہی ہے کہ بچہ فطری طور پر یا کسی بیرونی تحرک کے تحت "اچھا" نکل آیا تو ٹھیک ورنہ سیٹلڈ ہوتے ہی اسے آپ کا بوڑھا بوجھ اٹھانا پسند ہوگا کہ نہیں، اس کی کوئی گارنٹی نہیں۔

 

تحریر،، فرحان ظفر

 

انتخاب،، عابد چوہدری

 

 

 

برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فارورڈ کیا جائے

 

 

 

 

 

❂▬▬▬۩۞۩▬▬▬

 

          🌼Join🌼

 

 

 

  

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 ایگزیکٹو بیٹوں کی ماں

 

 

 

میری ایک قریبی رشتے دار کے گھر کے بالکل سامنے ایک بہت ہی شاندار شخصیت کی مالک خاتون رہتی ہیں۔۔۔

 

 

 

اچھی پوسٹ پر رہیں۔۔۔۔شاندار لائف اسٹائل اور ساتھ میں بات چیت و معاملات کا بہترین برتاو۔۔۔۔2 بیٹے اور بیٹیاں، تمام کی تمام انتہائی سیٹلڈ اور "تعلیم یافتہ"

 

 

 

بزرگ ہیں تو نیند بہت گہری آتی ہے۔۔۔اتنی گہری کہ کچھ مہینے پہلے اپنے بیڈ سے گر گئی اور سر میں ایک گہرا زخم آگیا۔۔۔۔اتنا گہرا کہ پورا لباس و کمرا خون میں لت پت۔۔۔۔

 

 

 

تھوڑی ہمت کر کے میری رشتے دار خاتوں کو کال کرکے بلایا۔۔۔

 

 

 

(تو اس دوران میں ان کے انتہائی تعلیم یافتہ اور سیٹلڈ بیٹے اور بیٹیاں کہاں ہیں؟؟؟ کیا یہ سوال آپ کے ذہن میں آیا؟)

 

 

 

جب وہ ان کے گھر گئیں تو ان کی حالت دیکھ کر ۔۔۔خود ان کی حالت خراب ہوگئی۔۔۔

 

 

 

خیر وہ بزرگ خاتون بہت ہمت کر کےخود ہی ڈرائیو کر کے میری رشتے دار خاتون کے ساتھ ایک اچھے اور مہنگے ہسپتال جیسے تیسے پہنچ گئیں۔

 

 

 

وہاں ایمرجنسی روٹین کے تحت فورا ان کا علاج شروع کیا گیا اور ڈاکٹر و طبّی عملے نے بتایا کہ زخم تھوڑا اور گہرا ہوتا تو دماغ کو کافی نقصان ہو سکتا تھا۔

 

 

 

اس دوران میں میری رشتے دار خاتون ان کے ساتھ رہیں اور پٹی و دوائی وغیرہ لے کر واپس گھر آئیں تو وہ جذباتی طور پر انتہائی تنہائی کا شکار تھیں۔۔۔۔رو پڑیں کہ بیٹے دونوں دبئی میں انتہائی سیٹلڈ ملازمت کر رہے ہیں۔۔۔۔کہتے ہیں کہ پورے دن کے لیے میڈ رکھ لو پیسے ہم دے دینگے۔۔۔

 

 

 

ایک بیٹی جاب کرتی ہے وہ فوری آ نہیں سکتی ۔۔۔۔ایک شہر سے باہر ایک مہنگی کمیونٹی میں رہتی ہے اور اس کے لیے بھی فوری آنا ممکن نہیں۔۔۔۔

 

 

 

خیر تھوڑی دیر میں ان کے بھائی آگئے اور میری رشتے دار خاتوں کا شکریہ ادا کیا کہ وہ پورا وقت ان کی بہن کے ساتھ رہیں اور اتنی مددگار رہیں۔

 

 

 

تربیت اور پالنا پوسنا

 

مجھے یہ واقعہ پتا چلا تو مجھے ان کے سر کے زخم سے زیادہ ان کے دل کا زخم زیادہ گہرا لگا۔۔۔۔

 

 

 

ایک ماں کی بے بسی کی انتہا ہے کہ چار بچوں کی موجودگی میں ہمسائے کی خاتون اس ایمرجسنی میں ساتھ رہیں۔۔۔۔ کیا ان کی تکلیف و دکھ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے؟

 

 

 

چار چار بچے۔۔۔۔بظاہر تعلیم یافتہ، مگر خود میں مگن، بزرگ ماں کو تنہا ایک لگژری گھرمیں چھوڑ کر مطمئن ہو جانے والے۔۔۔۔

 

 

 

دونوں ایگزیکٹو بیٹے کہتے ہیں کہ میڈ رکھ لو، جو چاہے بتا دو بھجوا دینگے۔۔۔۔ اگر کچھ نہیں دے سکتے تو وقت، ماں کو محبت، توجہ و دھیان، جذباتی سپورٹ۔۔۔۔

 

 

 

کبھی کبھی اپنے پاس بلا کر اپنے تئیں اپنا فرض پورا کر دینے والے۔۔۔۔تاکہ انہیں اپنے بیگم بچوں سمیت ماں کے پاس رکنے نہ آنا پڑے۔ اور بیگم بچوں کی لائف و موڈ خراب نہ ہوں۔

 

 

 

اب اس پورے قصے میں بظاہر خاتون کے ساتھ برا ہو رہا ہے۔۔۔۔مگر ایک اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ انہوں نے بچوں کو "تعلیم یافتہ" پال پوس تو لیا۔۔۔۔مہنگے اسکول، لباس، لائف اسٹائل، الغرض مادی ترقی کی دوڑ میں بہت آگے دھکے لگا لگا کر بڑھا دیا ۔۔۔۔۔ اتنا کہ اب وہ خود بھی چاہیں تو انہیں واپس نہیں بلا سکتی۔۔۔۔

 

 

 

 اگر پالنے پوسنے کے ساتھ ساتھ وہ کچھ "تربیت" پر بھی زور دیتیں تو شائد۔۔۔ شائد انہیں آنسو بہا کر یہ اور اس طرح کے واقعات نہ بتانے پڑتے۔۔۔۔۔

 

 

 

عموما انسان اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے دکھوں کے کھیت بو رہا ہوتا ہے۔۔۔۔ اور جب فصل کاٹنے کا وقت آتا ہے تو اس کی ذمہ داری ڈالنے کے لیے دوسرے کے کندھے تلاش کرتا ہے۔

 

 

 

 اپنے بچوں کی تربیت پر فوکس کریں۔۔۔۔۔اخلاق، کردار، عادات پر فوکس، فطری و دینی نظریات و خیالات کے مطابق تعلیم۔۔۔۔۔دین و دنیا میں توازن، آگے سے آگے بڑھنے کی ریس میں لگنے سے ہر ممکن بچاو

 

 

 

اچھے یعنی مروجہ مہنگے پالنے پوسنے میں رسک ہی ہے کہ بچہ فطری طور پر یا کسی بیرونی تحرک کے تحت "اچھا" نکل آیا تو ٹھیک ورنہ سیٹلڈ ہوتے ہی اسے آپ کا بوڑھا بوجھ اٹھانا پسند ہوگا کہ نہیں، اس کی کوئی گارنٹی نہیں۔

 

تحریر،، فرحان ظفر

 

انتخاب،، عابد چوہدری

 

 

 

برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فارورڈ کیا جائے

 

 

 

 

 

❂▬▬▬۩۞۩▬▬▬

 

          🌼Join🌼

 

 

 

  

 

 

 

 

 

 

 

بچے سے یہ مت کہیں کہ دیوار پر نقش و نگار بنا کر اسے گندا مت کرو

 

 ۔بلکہ کہیں پیپر پر یہ نقش و نگار بناو جب بنا لو گے تو ہم اسے دیوار فریج یا تختہ پر سجائیں گے

 

 بچے سے ایسے نہ کہیں کہ نماز پڑھو ورنہ سیدھے جہنم میں جاو گے بلکہ کہیں کہ آو اکٹھے ایک ساتھ نماز پڑھیں تاکہ ہم جنت میں بھی اکٹھے ہو جائیں

 

بچے سے یہ نہ کہیں کہ اٹھو اور اپنا کمرہ صاف کرو کیا جنگل بنا رکھا ہے بلکہ یہ کہیں کہ بیٹا کیا کمرے کی صفائی میں کوئی مدد چاہییے کیوں کہ تم تو ہمیشہ صفائی اورسلیقہ کو پسند رکھتے ہو ۔

 

بچے سے یہ مت کہیں کہ کھیل کود چھوڑو پڑھائی کرو پڑھائی بہت اہم ہے بلکہ کہیں کہ اگر آپ نے آج پڑھائی جلدی مکمل کرلی تو میں آپ کے ساتھ کھیلوں گی یا ایسی کسی بھی سرگرمی کا حوالہ دیں جو اسے پسند ہو

 

بچے سے یہ نہ کہیں اٹھو اور دانت برش کرو میں تمہیں حکم دے رہی ہوں بلکہ کہیں کہ میں تم سے بہت خوش ہوں اس لیے کہ تم ہمیشہ میرے کہے بغیر دانت صاف کرلیاکرتے ہو۔

 

 بچے سے یہ نہ کہیں کہ بائیں کروٹ مت سویا کرو بلکہ کہیں کہ ہمیں رسول اللہ نے سکھایا ہے کہ ہم دائیں کروٹ سویا کریں

 

بچے سے مت کہیں کہ چاکلیٹ نہ کھایا کرو تاکہ دانتوں میں کیڑا نہ لگے بلکہ کہیں کہ میں نے دن میں ایک بار چاکلیٹ کھانے کی اجازت اس لیے دی ہے کہ میں جانتی ہوں تم بہت سمجھہدار ہو اپنے دانتوں کی صفائی کا خوب خیال رکھتے ہو

 

یاد رکھیے کہ ہر ہر لفظ اور ہر کام جو آپ کرتے ہیں وہ بچے کو بے حد متاثر کرتا ھے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ کا بچہ آپ کی سیرت و اخلاق بلکہ آپ کا اپنا ہی عکس ھے

 

انتخاب،، عابد چوہدری

 

 

 

برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فارورڈ کیا جائے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

سوال :❓❓❓❓🙄

 

 بچوں میں سخاوت یا شئر کرنے کی عادت کیسے پیدا کریں۔۔۔

 

🙂🙂👇

 

عادت بنانے یا ڈیویلپ کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کے بچے شئیر کیوں نہیں کرتے؟

 

کوئی بھی مسئلہ حل کرنے کے لئے اسکی وجوہات کا معلوم ہونا بہت ضروری یے۔۔

 

اگر آپکا بچہ شیئر کرنے سے گھبراتا یا کتراتا ہے تو اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کے آپ خود شئیر نہیں کرتے ۔۔

 

آپ نے اپنے بچے کے سامنے کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جس میں آپ نے شیئر کرنے یا دینے کا مظاہرہ کیا ہو۔۔۔

 

اکثر لوگوں کو لگے گا کے وہ تو ہر وقت دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں یا دوسروں کو اپنی چیزیں دیتے ہیں مگر ان کے بچوں میں یہ عادت نہیں ۔۔

 

وجہ : آپ نے کبھی اپنے بچے کے سامنے نہیں دیا۔۔۔ یا اگر دیا بھی ہے تو آپ کے بچے کو اسکی اہمیت کا اندازہ نہیں  یا آپ کے بچے میں یہ کونسیپٹ ہی نہیں کے شئیر کرنا کیا ہے ۔۔۔

 

اب بڑھتے ہیں حل کی جانب:

 

اپنے بچوں میں شئیر کرنے کا کونسیپٹ ڈیویلپ کریں۔۔

 

مختلف کہانیاں سنائیں جس سے آپ کے بچے کو یہ پتہ چلے کے شئیرنگ ہوتی کیا یے، کیسے کی جاتی ہے اور اسکی اہمیت کیا ہے۔۔۔

 

 

 

گھر میں موجود افراد بچے کے لئے رول ماڈل بنے اور بچے کے سامنے اپنی چیزیں شیئر کریں تاکہ بچے کو موٹیویشن ملے

 

 

 

اپنی چیزیں بچوں کو دے اور انہیں بولے کے وہ اسکو دوسروں کے ساتھ شئیر کریں تاکہ آپ کے بچے میں اپنے ہاتھ سے چیز دینے کی عادت بنے

 

 

 

جب بھی ہم بچے کے رویئے میں کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو ہم چاہتے ہیں کے چٹکیوں میں نتائج سامنے آئیں ایسا ممکن نہیں  اس لئے ثابت قدم رہیں اور بار بار بچے کے سامنے اس پریکٹس کو دہرائیں اور اس سے یہ پریکٹس کروائیں تاکہ اس میں یہ عادت پختہ ہو

 

 

 

جہاں بھی جس جگہ بھی آپ کو اس بات کا اندازہ ہو کے آپ کا بچہ شیئر نہیں کررہا اس کو فورس نہ کریں نا ہی ایسے جملوں کا استعمال کریں جس میں بچے کو اپنی انسلٹ محسوس ہو جیسا کے "یہ تو کبھی شئیر نہیں کرتا" " اس کو تو عادت ہی نہیں کسی کو اپنی چیز دینے کی" ، "کر ہی نا لے یہ شئیر" وغیرہ وغیرہ بلکہ آپ خاموشی اختیار کریں اور سائیڈ پر ہو جائیں تاکہ آپ کا کسی بھی قسم کا نیگٹیو یا پازیٹیو ری ایکشن سامنے نہ آۓ

 

نیگٹیو کی مثال اوپر دی ہے پازیٹیو ری ایکشن جیسا کے

 

"یہ ہر چیز شئیر کرتا ہے بس یہ ٹواے اس کا فیورٹ ہے"

 

"میرا بچہ تو اپنی ہر چیز دوسروں کو دیتا ہے"

 

"اچھا نہیں  دینی تو آپ ادھر جا کے کھیلو یہ ٹواے  بھی ساتھ لے جاؤ" وغیرہ

 

ایسی سچویشن بچے کو سمجھانے یا کانفیڈنس دینے کے لئے مناسب نہیں بلکہ یہ کام گھر میں اور گھر والوں کے ساتھ مل کر کیا جاسکتا ہے

 

 

 

بچہ جب شئیر کریں اسکو اپریشیٹ کریں

 

 

 

اکثر والدین کو یہ لگتا ہے کے ان کے بچے ضرورت سے زیادہ دوسروں کے ساتھ شئیر کرتے ہیں اگر آپ کو ایسا لگتا ہے تو ڈانٹ ڈپٹ کرکے بچوں کا دل مت توڑیں بلکہ ان کو پیار سے سمجھا دے

 

 

 

گھر میں ایسی گیمز کھیلیں جن میں شئیرنگ گا کونسیپٹ ہو اور جس منی شئیرنگ کرنی ہو تاکہ آپ کے بچے کھیل سے سیکھیں اور اصل زندگی میں لاگو (implement) کرے.

 

 

 

مریم امین اعوان

 

انتخاب،، عابد چوہدری

 

 

 

برائے مہربانی اس پوسٹ کو شئیر یا فارورڈ کیا جائے

 

 

 

❂▬▬▬۩۞۩▬▬▬

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

الفاظ کا چناؤ

 

اپنا من پسند کپڑا لیجئے اسے کانٹے دار جھاڑیوں میں پھینک دیجئے اس طرح کے وہ بری طرح الجھ جاۓ۔۔ اور جب وہ بری طرح ان جھاڑیوں میں الجھ جاتے تب اس کو کھینچ لیجئے۔۔۔۔

 

 

 

کیا ہوا؟؟ کپڑا پھٹ گیا؟؟؟ پھٹا نہیں تو اس میں بہت سے چھید (سوراخ) ہو گئے، کپڑا پرانا اور بوسیدہ لگنے لگ گیا۔۔۔

 

 

 

نتیجہ وہ کپڑا آپ کے استعمال کا نہیں رہا۔۔۔۔🥺

 

 

 

بس بالکل ایسے ہی روح چھلنی ہو جاتی ہے جب آپ کسی کے اعتبار ، پھروسے، مان، محبت اور عزت کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں پھر چاہے وہ آپکی اولاد ہو، آپکے والدین ہو، آپکے بہن بھائی ہو، دوست احباب ہو یا آپکے پاس کام کرنے والا کوئی انسان ہو آپکا employee ہو۔۔۔

 

 

 

چند situations کا تجزیہ کر لیں اور نتیجہ خود نکال لیں:

 

 

 

پہلی سچویشن:

 

 

 

گھر مہمانوں سے بھرا ہوا ہے آپ اپنے بچے پر چیخ پڑے اسکو سب کے سامنے بےعزت کر دیا یہ سوچ کر کے یہ تو ابھی بچہ ہے۔۔۔

 

وہ بچہ تو یہ سیکھ رہا تھا کے والدین اس کا سہارا ہے، اسکا سپورٹ سسٹم ہیں لیکن یہ کیا والدین نے تو اسکو سپورٹ کرنے کے بجاۓ پریشان کر دیا۔۔۔۔

 

 

 

دوسری سچویشن

 

 

 

بچہ پریشان ہے آپ کے پاس آکر اپنی پریشانی بتاتا ہے بچے کو اعتبار ہے آپ ہر آپ اس کا مسئلہ حل کریں گے لیکن یہ کیا آپ تو چیخ پڑے

 

کبھی تمھارے مسئلے ختم نہیں ہوتے۔۔ کبھی اپنا کوئی مسئلہ تم خود سے حل نہیں کر سکتے اتنے بڑے ہو گئے ہو، سکون نہیں دیا کبھی، پریشان کر کے رکھا ہوا ہے۔۔۔

 

خود سے کب سوچو گے ، تم کب سدھرو گے، تمھاری طرف سے کوئی اچھی بات کبھی پتہ بھی چلے گی یا نہیں۔۔۔🥺

 

 

 

یہ کیا آپ پر تو مان تھا، بھروسہ تھا، اعتبار تھا اور اعتقاد بھی یہ کیا کر دیا آپ نے 🥺

 

 

 

ایک اور سچویشن:

 

 

 

بچہ خوشی خوشی گھر آیا آج اس کے ٹیسٹ میں پورے نمبر اۓ ہیں یا پھر وہ سپورٹس ڈے پر جیت کر آیا ہے۔۔۔

 

وہ سب سے پہلے اپنی خوشی آپ کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہے۔۔۔

 

آج تو سب بہت خوش ہو جائیں گے، مجھے گفٹس بھی ملیں گے۔۔۔۔

 

 

 

آپ کا ردعمل چلو شکر ہے تم بھی کبھی جیتے، تم نے کبھی پورے نمبر لئے، شکر ہے تم نی بھی کوئی اچھا کام کیا۔۔۔ اچھا اب کیا کروں؟ بہت بڑا کارنامہ کیا ہے ایک ٹیسٹ ہی تو تھا ۔۔ اچھا تمھارا دل تو صرف کھیل میں لگتا ہے پڑھائی پر توجہ دو۔۔۔

 

حوصلہ افزائی کا ایک لفظ بھی نہیں ۔۔

 

 

 

بچہ تو سوچ کر آیا تھا کے آپ اس کی خوشی اس کی کامیابی میں خوش ہو گے مگر یہ کیا آپ نے کیا کیا۔۔۔🥺

 

 

 

ایک اور سچویشن:

 

 

 

چلیں میاں بیوی کی ایک سچویشن لے لیتے ہیں:

 

 

 

پورا دن کی تھکی ہاری بیوی کھانا ٹھیک سے گرم نہیں تھا اور آپ برس پڑے۔۔۔

 

تم سارا دن کرتی ہی کیا ہو۔۔۔

 

نہ حال پوچھا نہ احوال ۔۔۔

 

کیا ہوا؟ آپ تو اس کا مان تھے لیکن یہ کیا کیا آپ نے؟؟🥺

 

 

 

لیجئے ایک اور سچویشن:

 

(آج کی پوسٹ کی آخری سچویشن)

 

 

 

سارا دن کا تھکا ہارا شوہر گھر آیا اور آپ لگی شکایتیں کرنے کبھی ساس کی، کبھی سسر کی کبھی نند یا دیور کی یا پھر بچوں کی۔۔۔

 

 

 

ارے وہ تو سکون کی تلاش میں  گھر آیا تھا ذرا حوصلہ تو کیا ہوتا۔۔۔ 🥺

 

 

 

اپنے الفاظ کے چناؤ میں اپنے برتاؤ میں بہت محتاط رہیں۔۔۔ کانٹے دار الفاظ دل ، دماغ اور روح کو بری طرح چھلنی کرتے ہیں۔۔۔

 

 

 

احساس سب سے زیادہ ضروری ہے۔۔۔ اپنے اندر احساس پیدا کیجئے 🤗

 

 

 

 تحریر،، مریم_امین

 

انتخاب،، عابد چوہدری

 

 

 

برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فاروڈ کیا جائے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


No comments:

Post a Comment