Home Page Urdu Islamic Article HR Email Ids Zikar Azkaar
Namaz Quran & Tableegh School HR ID Ulema Ikram Bayanat
Listen Quran Majeed Read Quran Majeed Social Media Ramzan
Khulasa Quran Majeed Latest jobs Karachi School Free Islamic Gift
: محترم والدین و سرپرست
بچے آپکی نصیحت سے نہیں، آپکے عمل سے سیکھتے ہیں ۔۔
✒️ آپکے بچے آپ کو گھر میں فضول موبائل میں زیادہ مشغول دیکھتے ہیں یا قرآن میں؟
✒️ فلموں سے دل بہلاتا دیکھتے ہیں یا ذکر اللّٰہ سے؟
✒️ فجر پر اٹھتا دیکھتے ہیں یا دیر تک سوتا؟
✒️ نمازوں کا پابند دیکھتے ہیں یا لاپرواہ؟
✒️ دوسروں کی غیبت کرتا دیکھتے ہیں یا تعریف؟
✒️ نوکروں سے بدتمیزی، حقارت، اور بد اخلاقی سے پیش آتا دیکھتے ہیں یا سب کو عزت دیتا ہوا؟
✒️ رشتہ داروں کا خیال رکھتے اور صلہ رحمی کرتا دیکھتے ہیں یا بات بات پر تعلق توڑتا ہوا؟
✒️ اکثر خوش مزاج اور مسکراتا ہوا دیکھتے ہیں یا لڑتا جھگڑتا اور اکھڑا مزاج؟
✒️ ہر وقت مال کی حرص میں مبتلا دیکھتے ہیں یا قناعت کرتے؟
✒️ ہر وقت لاحاصل کے غم میں دیکھتے ہیں یا حاصل شدہ کے شکر میں؟
✒️ آپ کو محنت اور جدوجھد کرتا دیکھتے ہیں یا سست، کاہل، بہانے باز اور کام چور؟
✒️ اپنی شریک حیات کے ساتھ محبت، عزت، اور بھلائی کا رویہ دیکھتے ہیں یا جھگڑے، حقارت اور بے رغبتی کا؟
✒️ آپکو اپنے ماں باپ کی خدمت، فرمانبرداری، اور تکریم کرتا دیکھتے ہیں یا ان سے بدتمیزی اور بے اکرامی کرتا؟
✒️ آپ کو سیگریٹ، پان، یا کوئی اور نشہ کرتا دیکھتے ہیں یا ورزش اور دیگر صحت مند سرگرمیوں میں؟
✒️ آپکا ہر عمل آپکی اولاد بغور دیکھ رہی ہے۔
✒️ آپکی ہر عادت انکی شخصیت کا حصہ بن رہی ہے۔
✒️ آپ زبان سے لاکھ نصیحت کرلیں، اگر خود اچھی مثال قائم نہیں کریں گے تو اولاد صحیح راہ پر نہیں آئے گی۔
✒️ اس لئے دنیا و آخرت کی خاطر، اپنی اصلاح پر توجہ دیں۔
✒️ اور اپنی اولاد کیلئے ایک بہترین مثال بنیں ۔
انتخاب،، عابد چوہدری
برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فاروڈ کیا جائے
خاموش ٹیچر گھر کا ماحول (enviornment)
ڈیئر پیرنٹس:آپ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرنا چاہتے ہیں؟انہیں اچھی اسکلز سکھارہے ہیں؟ گڈ،شاباش۔بچوں کو ٹیلنٹڈبنانے کی کوشش ضرور کریں لیکن پہلے گھر میں ایک”آبزرویشن سسٹم“ انسٹال کرلیں اور وقفے وقفے سے چیک کرتے رہیں ورنہ۔۔۔۔ بچوں کے حوالے سے آپ کی ساری کوششیں مٹی میں مل جائیں گی۔
یہ”آبزرویشن سسٹم“silent coach,خاموش ٹیچر ”گھر کا enviornment“ہے۔
بچے کی تعلیم کا معاملہ ہو یا تربیت کا،ہماری سوسائٹی میں پیرنٹس کی اکثریت سمجھتی ہے بلکہ عقیدہ رکھتی ہے کہ ہم بچوں کو بول کر سکھاتے ہیں،اپنے ساتھ بٹھا کر،متوجہ کرکے سکھاتے ہیں اور بس۔۔۔۔لیکن یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ ”گھر کا ماحول“ایک خاموش استاد ہے۔۔۔۔۔
صبح جاگنے کے بعد بیڈروم کی ترتیب کیسی رہتی ہے؟
ڈرائنگ روم کی سیٹنگ سلیقے سے ہے کہ نہیں؟
لاؤنج کی تمام چیزیں استعمال کے بعد واپسی جگہ پر رکھی ہوئی ہوتی ہیں یا ادھر ادھر بکھری رہتی ہیں؟
کچن میں کھانابنانے کے بعد برتن،شیلف کا سامان دوبارہ ترتیب سے رکھا جاتا ہے یا پھیلا ہوا نظر آتا ہے؟
گھر میں بڑے بات کرتے وقت ”ٹون“کیسی رکھتے ہیں،سافٹ یا گلا پھاڑ آواز؟
*آپس میں بات کرتے وقت ”لیگویج کا اسٹینڈرڈ“ کیا ہوتا ہے؟
گھر کے بڑوں کا سونے،جاگنے کا کوئی وقت ہے یا ہر وقت سونے جاگنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے؟
*گھرمیں ناشتے،کھانے کا خاص وقت طے ہے یا اللہ ہی اللہ۔۔۔۔
یہ ڈیلی روٹین کے کچھ رویے ہیں جو گھر کا ماحول بناتے ہیں اور یہ ” خاموش ٹیچر “بن کر خاموشی سے بچوں کو بہت کچھ سکھا تے ہیں۔
کرنے کے کام: پیرنٹس ایک ڈائری میں ڈیلی روٹین کے کاموں کے اندازکے بارے میں اپنامشاہدہ غیر جانب داری سے نوٹ کریں،باقی باتیں اگلے بلاگ میں۔۔۔۔
تحریر،، محمد اسعد الدین
انتخاب،، عابد چوہدری
برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فارورڈ کیا جائے
مجھے امّاں نہیں اچھی لگتی تھیں...
چھوٹی قمیضوں کا رواج ہو تو میری لمبی لمبی قمیصیں سلواتیں ۔ اور جب لمبی قمیصوں کا دور آیا تو انھوں نے لمبی قمیصوں کو کٹوا کر گھٹنوں تک کروا دیا...🤦🏻♀️
اچھے سے اچھے کپڑوں کا ستیاناس کر دیتی تھیں ۔ کسی فنکشن میں جانا ہو تو لاکھ منتیں کر لو کبھی لپ اسٹک تک لگانے نہیں دی ۔ کہتی تھیں جب دلہن بنو گی تو روپ نہیں آئے گا ۔ اسکول سے نکل کر کالج آئی تو کَس کر حجاب اڑھا دیاگیا۔
یونیورسٹی میں لڑکیاں بال کھولے اتنی پیاری لگتیں اور ایک میں... ابھی سے بوڑھی لگنے لگی تھی ۔ امّاں کَس کَس کر میری دو چوٹیاں بناتی تھیں ۔بارہا کہا امّاں ایک چٹیا بنانے دیں ۔ دو کا رواج نہیں اور سکارف کے اندر دو چوٹیوں سے میرا چہرہ اچھا نہیں لگتا ہے ۔ لیکن امّاں کہاں ماننے والیں❗
کالج سے بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو کر یونیورسٹی پہنچی... سوچا اب میں بڑی ہو گئی ہوں یہاں کچھ من مانی کروں گی ۔ لیکن امّاں نے یہاں بھی میری جان نہیں بخشی... حد ہی کر دیتی تھیں رات کو میرے سر میں تیل کی پوری بوتل انڈیل دیتیں, کہتیں کہ پڑھائی کی محنت سے بال نہ جھڑ جائیں ۔
مجھے ان سے سخت چڑ ہونے لگی تھی ۔ مجھے امّاں بالکل اچھی نہیں لگتی تھیں ۔
یونیورسٹی میں اتنے اچھے اچھے لڑکے نظر آتے تھے بہت سے لڑکے اور لڑکیوں کی جوڑیاں بھی بنی ہوئی تھیں... مگر میری طرف مجال ہے کہ کوئی متوجہ بھی ہوجائے . کیوں کہ میرے سر سےکڑوے تیل کی بھبھک آتی تھی.
نجانے اس ایک لڑکے میں کیا بات تھی کہ اس کے اردگرد لڑکیوں کا جمّ غفیر رہتا تھا میری بھی یہ خواہش ہونے لگی کہ میں اس کی دوست بن جاؤں مگر وہ تو میری طرف دیکھتا بھی نہیں تھا...
اس وقت میری ایک سہیلی نے یہ کہا کہ دیکھو یاد رکھنا تم جیسی ہو اسی طرح کے لوگ تمھیں ملیں گے‼میں نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا اور پوری طرح پڑھائی میں مصروف ہو گئی...
وقت گزرتا گیا اور پڑھائی مکمل ہوئی رزلٹ آگیا یونیورسٹی میں میرے علاوہ ایک اور لڑکے نے ٹاپ کیا تھا جسے آج سے پہلے میں نے کبھی دیکھا بھی نہیں تھا.
میری سہیلی کا کہنا سچ ثابت ہوااور میری شادی میرے جیسے اسی ٹاپ کرنے والے لڑکے سے ہو گئی جس کو یونیورسٹی میں کوئی جانتا بھی نہیں تھا.
اب ہم دونوں کی ایک پیاری سی بیٹی ہے. میری جو خواہشات میرے دل میں رہ گئی تھیں میں ان کو اپنی بیٹی کو سجا سنوار کر پورا کر رہی تھی... جب لوگ اسے ستائشی نگاہوں سے دیکھتے، میں باغ باغ ہو جاتی...
اب وہ بڑی ہو رہی تھی اس کی چال ڈھال میں مجھے ادائیں نظر آنے لگیں وہ جہاں سے گزرتی لوگ اسے مڑ مڑ کر دیکھتے، پَر مجھے اب یہ سب اچھا نہیں لگتا تھا بلکہ سچ پوچھیں تو بہت برا لگتا ہے میں نہیں چاہتی کہ اسے کوئی بھی ایسی نگاہوں سے دیکھے...
آج مجھے شدّت سے امّاں یاد آرہی ہیں... اور مجھے امّاں کی وہ پابندیاں بھی یاد آرہی ہیں جن کی وجہ سے وہ مجھے بری لگا کرتی تھیں... آج مجھے ان کی اپنے اوپر لگائی ہوئی پابندیوں پر فخر محسوس ہو رہا ہے...اب امّاں مجھے بہت اچھی لگ رہی ہیں💕
میں نے اپنی بیٹی کو ابھی اپنے پاس بلایا ہے اسے زندگی کا یہی راز سمجھانے کے لیے کہ بعض معاملات میں ماؤں کی طرف سے پابندیاں بچیوں کے وقار اور عزت میں اضافہ کرتی ہیں. اور انھیں سرخرو کرتی ہیں.
انتخاب،، عابد چوہدری
وقتا فوقتاً اپنے بچوں کے سکول بیگز چیک کرتے رہا کریں، بچوں کی سٹیشنری چیک کریں ،
اگر کوئی چیز ایکسٹرا نظر آئے تو بچے سے پوچھیں کہ "بیٹا یہ آپ نے کہاں سے لی ہم نے تو نہیں لے کر دی؟"
بچے کو آئندہ کےلیے سختی سے منع کریں کہ " آپ نے کسی سے کوئی بھی چیز نہیں لینی، نہ گارڈ انکل سے، نہ آیا آنٹی سے، نہ کسی بچے سے، نہ کسی ٹیچر سے، اور نہ ہی سکول کی کوئی چیز گھر لے کر آنی ہے"
بچے کو پیار سے سمجھائیں کہ آپ کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو آپ ہمیں بتاؤ۔
اور بچوں کی ڈائری روزانہ چیک کریں، بکس چیک کریں، کاپیاں چیک کریں، سارا کام ٹیوٹر اور ٹیچرز پے ہی نہ چھوڑیں، ٹیچرز اور ٹیوٹر تو صرف اچھا پڑھا کر ہمارے بچوں کو کلاس میں پوزیشن ہولڈرز بنانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں، جبکہ ہمیں ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی تربیت بھی کرنی ہے اور اس معاشرے میں اپنے بچے کو پوزیشن ہولڈر بنانا ہے۔
اور بچوں کو دفاع کرنا سکھائیں، مقابلہ کرنا سکھائیں، اس بات کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ آپ اپنے بچے کو بدتمیزی سکھائیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب کوئی بچہ آپ کے بچے سے لڑائی جھگڑا کرے تو آپ کے بچے کو جوابا کاروائی کرنی آتی ہو۔
بچے کو یہ بات اچھی طرح سمجھائیں کہ" سکول میں کہیں بھی کسی کے ساتھ تنہائی میں نہیں بیٹھنا خواہ کوئی بھی ہو، جہاں سب بیٹھے ہوں وہیں بیٹھو" بچوں کی تنہائی شیطانی افعال کو جنم دیتی ہے (الامان و الحفیظ)، اور بچوں کو " گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ" کے بارے میں بھی بتائیں۔
ہر وقت بچوں کو نصیحتیں کرنا بھی غلط بات ہے، بچے نصیحتوں سے تنگ آجاتے ہیں، کبھی کبھار بچوں کو انٹرٹین کرنے کےلیے اپنے موبائل پے اپنی نگرانی میں اچھی ویڈیوز، اچھے کارٹون، اسلامی باتیں اور آرٹ اینڈ کرافٹ وغیرہ دکھائیں، موبائل کا اس لیے کہا کیونکہ انٹرنیٹ کا دور ہے تو بچے موبائل میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
ویسے ہم والدین کو چاہیے کہ ہمیشہ اپنے موبائل میں اچھی چیزیں ہی سرچ کریں، غلط چیزوں اور فحش ویڈیوز سے اپنے موبائل کو پاک رکھیں تاکہ کبھی آپ کا موبائل بچے کے ہاتھ لگ بھی جائے تو آپ کو کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔
ایک بہت اہم بات بچے کا لنچ کبھی بھی بعد میں مت بھجوائیں، بچے کو اس چیز کی عادت ہی مت ڈالیں، جو بھی دینا ہو بچے کو صبح سکول جاتے وقت ساتھ ہی دیں، ہم مائیں بچوں کے جانے کے بعد پیچھے سے لنچ بھیج رہی ہوتی ہیں، بچے کو کیا معلوم کون کیا دے کر چلا جائے۔
بچوں کے لنچ باکس میں ہمیشہ کھانے کی چیزیں تھوڑی زیادہ ڈالیں، اور بچے کو بتائیں کہ " یہ لنچ آدھا آپ کا آدھا آپ کے فرینڈز کا " فرینڈز کے ساتھ لنچ شئر کرنا سکھائیں ۔
بہت ضروری بات...! بچوں کو سمجھائیں کہ "دوستی ہمیشہ اچھے اور صاف ستھرے بچوں سے کریں، آپس میں اچھی باتیں کریں کیونکہ گندی باتیں کرنے والے شیطان کے دوست ہوتے ہیں" اور ہمیشہ خود بھی بچوں کے دوست بن کر رہیں، ہر بات بچوں سے پوچھیں، بچے کو اعتماد میں لیں تاکہ وہ ہر بات آپ سے دوستانہ انداز میں کرے، ہر وقت رعب جھاڑنا بھی غلط بات ہے، اور بچوں کو بتائیں کہ " لڑکیاں صرف اچھی لڑکیوں سے اور لڑکے صرف اچھے لڑکوں سے ہی دوستی کرتے ہیں، لڑکی اور لڑکا فرینڈز نہیں ہو سکتے اللّہ پاک ناراض ہوتے ہیں"
ویسے تو ہر سکول میں ہی یہ طریقہ ہونا چاہیے کہ کم از کم اول یا دوئم کلاس سے ہی بچیوں اور بچوں کی کلاسز علیحدہ کردینی چاہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں بچے ہیں پھر کیا ہوا...؟
بچے ہیں اسی لیے تو زیادہ احتیاط کرنی چاہیے، بچے معصوم ہوتے ہیں غلط اور صحیح میں تمیز نہیں کر سکتے۔
صبح سکول جاتے ہوئے بچوں پر تین بار آیت الکرسی پڑھ کر پھونک دیں اور بچوں کو بھی پڑھنے کی ترغیب دیں، اور بچوں کو اللّہ کی امان میں دے دیں، انشاءاللہ بچے باحفاظت رہیں گے، اور شیطان کے شر سے بھی محفوظ رہیں گے۔
اللّہ پاک ہمارے بچوں کو ہمیشہ اپنی حفظ وامان میں رکھے، آمین
دعاؤں میں یاد رکھیں..!
تحریر،، طیبہ شاہد
انتخاب،، عابد چوہدری
برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فارورڈ کیا جائے
دس سالہ بیٹی کے بہت سے سوالات دہراتی ماں سامنے بیٹھی بتارہی تھیں کہ
روزانہ میری بیٹی کوئی نہ کوئی ایسا ہی سوال ضرور کرتی ہے کہ مجھے جواب دیتے وقت سمجھ نہیں آتی کہ کیا سمجھاؤ اور کس طرح ۔ ۔۔۔بس سختی سے منع کرتی ہوں کہ یہ باتیں ٹھیک نہیں ہیں ۔بچی خاموش ہوجاتی ہے لیکن مطمئن نہیں ۔
پھر پریشان کن لہجے میں کہنے لگیں کہ ہر چیز میں گرل فرینڈز بوائے فرینڈز کا تصور ہے ۔۔۔۔۔کہاں تک بچایا جائے ۔۔۔۔
محلے کے بچے تک ایک دوسرے کو گرل فرینڈز اور بوائے فرینڈز کہتے ہیں۔اج بچوں تک میں یہ الفاظ قابل قبول ہوگیے ہیں کل اس کے معنی بھی ہوجاییں گے ۔
پھر روہانسی سی ہوگئی کہ
ناول ، افسانے ڈرامے کے عشق ۔۔" ۔اسلامی" عشق ۔۔۔۔ حتی کہ کارٹون تک بغیر نکاح کے رومانس کے لازمی تصور سے خالی نہیں ۔۔۔کیا بتائیں ہم اپنے بڑے ہوتے بچوں کو اس طرح کے سوالات کے جواب میں ۔
ہمارے پاس اس موضوع پر کہنے اور بتانے کو بہت کچھ ہے ۔ایک عرصہ اسی ایج گروپ سے بحثیت استاد واسطہ رہا ۔۔۔۔۔جس سے اندازہ رہا ہے کہ کس طرح ماں باپ اور بچے کا کمزور تعلق ، والدین کی طرف سے ملنے والی محبت و توجہ کی کمی ۔بے جا شرم و حیا اور جھجھک، درست معلومات کا فقدان ، دینی طرز تربیت کی کمی، مغربی معاشرت کے اثرات ، بچوں پر اثر انداز ہو کر ۔۔۔۔۔۔۔۔اخلاق و کردار میں ایسی ایسی تبدیلیاں لا رہے ہیں کہ آپ اس کو روکنے سے قاصر ہیں ۔
اس لئے صرف ان والدین کے لئے جو کچھ سوچتے ہیں ، اسلامی ذہن رکھتے ہیں اور بچوں کو ان مراحل سے پاکیزگی سے گزارنا چاہتے ہیں ان سے سوال ہے کہ کیا آپ نے اپنے نو ، دس ، گیارہ سال کے بچوں سے محبت اور مخالف جنس میں دلچسپی لینے اور پسند کرنے پر کبھی بات کی ہے ؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ اس موضوع پر کیوں بات نہیں ہوسکتی ؟
جب ہم مسلمان بچوں کو حرام حلال چیزوں کا تعارف دیتے ہیں تو بچوں کو حرام تعلق / محبت اور حلال محبت کا کیوں نہیں بتاتے ؟
کیا ہم بتاتے ہیں کہ محبت کیا چیز ہے ؟ ہوس کسے کہتے ہیں ؟ چوری چھپے کی آشنائیاں کیا ہیں اور کتنی تباہ کن ہیں ؟
تنہائی کے گناہ کیا ہیں ؟ محرم نامحرم کی حدود کیا ہیں ؟
مسلمان معاشرے میں مرد و زن کی بات چیت اور رابطے کی حدود کیا ہیں ؟
اور یہ کیوں ضروری ہیں ؟
ہم ایسے موضوعات پر بچے کا ذہن بناتے ہی نہیں صرف روک ٹوک مار دھاڑ سے کام لیتے ہیں وہ بھی پانی سر سے گزر جانے کے بعد ۔۔۔۔۔ ورنہ بچے اپنے ماحول اور ہم جھولیوں اور آج کل اسکرین پر پیش کردہ گند سے سے ہی ان باتوں کی کچی پکی سمجھ لے کر اپنی راہ متعین کر لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔خود بڑوں کا بیشتر گھروں میں یہ حال ہے کہ یہی عشق ہمیں ہر میڈیا پر بہت ضروری ادب کا حصہ اور تفریح کی چیز لگتا ہے لطف لیتے ہیں ہیرو ہیروئن کی اداؤں اور مختلف عشقیہ گفتگو ناچ گانوں پر دل کھول کر تبصرے کرتے ہیں۔
لامحالہ اس داد و تحسین سے بچے ابتدا سے اپنا ذہن یہ بنا لیتے ہے کہ میرے بڑوں کو یہ سب پسند ہے ۔۔۔ یہ ساری چیزیں اتنی معیوب نہیں ، قابل تعریف ہیں ، پھر جب وہ خود تجربہ کرنا چاہتا ہے یا کر چکے ہوتے ہیں تو کہیں ہماری ناک کٹ جاتی ہیں کہیں عزت داو پر لگ جاتی ہے ۔
شریف گھرانوں اور ان حدود کا خیال رکھنے والوں کو اپنی اولادوں کے حوالے سے اس دور کے تباہ کن اثرات سے بچانے کے لئے خالی رونے پیٹنے اور کڑھنے سے بڑھ کر کام کرنا ہوگا ۔ اس لئے اپنے نو دس گیارہ سال ، ٹین ایج بچوں سے ابھی سے ان موضوعات پر بات کیجیے ۔۔۔۔تا کہ انہیں اس معاملے میں اپنے معاشرے ، دین اور اخلاقیات کا علم ہوسکے وہ معاشرے میں پاکیزگی قائم رکھنے کے لئے اپنی حدود جان سکیں ۔
ضروری نہیں یہ کوئی محفل سجا کر اور اس موضوع کا اعلان کر کے ہی کی جائے بلکہ جب بھی بچوں کے ذہنوں میں ایسے سوالات ابھریں ان کے ہلکے پھلکے جوابات سنجیدگی اور توجہ کے ساتھ فوری طور پر لیکن واضح طور پر دئیے جائیں تا کہ بچے کو حقیقی زندگی ، اپنے گھر کا ماحول اور معاشرے میں مسلمان ہونے کے تقاضے سمجھ آئیں۔
اپنے بچوں کو بتائیں کہ محبت کس شے کا نام ہے ! اور محبت کے نام پر جو ہوس بھری درندگی معاشرے میں ہر طرف نظر آرہی ہے وہ کیا چیز ہے ؟
والدین اپنے بچوں کو کس طرح ان کھلے گناہوں سے بچنے کے تصورات سے روشناس کروانا چاہیے ، کیا رول ماڈلز سامنے رکھنے چاہیے،
ان پر سوچئیے ، بات کئجیے ، لڑکے لڑکیوں کی اسلام کی طے کردہ حدود متعین کیجیے ، پاکیزہ زندگی کے تصورات کو اجاگر کیجیے ، اور ادب اور آرٹ کے نام پر اس غلاظت کو قبول کرنے ، مستحسن سمجھنے سے انکار کردیجیے ۔ورنہ معاشرہ جس تیزی سے تباہی کا شکار ہے اس پر رونا پیٹنا ہی ڈالے رکھیے ۔۔۔۔۔ٔ
تحریر،، نگہت حسین
انتخاب،، عابد چوہدری
برائے مہربانی پوسٹ کو شئیر یا فارورڈ کیا جائے
دسترخوان کا بچوں کی تربیت میں اہم کردار
کھانا دم پر ہو اور بھوک سے دم نکل رہا ہو تو اکثر گھروں میں کیا سننے کو ملتا ہے؟؟
ارے بھئی، جلدی کھانا نکالو ۔۔۔۔ آج کیا بنایا ہے ؟.... خوشبو تو بڑی اچھی آ رہی ہے ۔۔۔۔ارے یہ کیا بنادیا بولا بھی تھا کہ۔۔۔۔
لیکن اب ایسی ساری باتوں کو خدا حافظ کہہ دیں ۔۔
پھر یہ کریں۔۔۔
✓ کھانے تیار ہونے کے بالکل نزدیک ہو تو بچے/بچوں سے کہیں کہ؛ دسترخوان لائیں اور ایک کنارے سے دسترخوان خود پکڑیں باقی کنارے بچوں سے پکڑنے کا کہہ کر سیدھے انداز میں دسترخوان بچھائیں، سلوٹیں کیسے دور کی جاتی ہیں خود کرکے بچوں کو دکھائیں۔۔
✓ دسترخوان پر کھانے کے لیئے استعمال ہونے والے برتن دسترخوان پر لا کر رکھنے کے لئے بچوں کو اپنے ساتھ کچن میں لے جائیں،انہیں دکھائیں کہ برتن کس طرح پکڑنا یے، کس ترتیب سے لا کر رکھنے ہیں،
✓ ڈائنگ ٹیبل ہو یا فرشی دسترخوان، کیسے بیٹھنا ہے انہیں اسی طرح بیٹھ کر بتائیں۔
✓ کھانے کی دعا ایک دو بار خود بلند آواز میں پڑھیں پھر کسی بچے کو نامزد کردیں کہ آئیندہ سے وہ دعا پڑھوائے، اسی طرح برتن دسترخوان پر لا کر رکھنے کی باری طے کی جاسکتی ہے ۔۔۔۔
✓ کھانے سامنے آجایے تو بچوں کو" ایثار، پہلے،"دوسرے" اور ساتھ ہی "آداب میزبانی" سکھانے کے لئے جھٹ سے کھانا اپنی پلیٹ میں نکالنے کے بجائے اپنے ہاتھ سے بچے کی پلیٹ میں ڈالیں، آخر میں اپنی پلیٹ میں نکالیں۔۔
✓ بچے کو" ایثار" سکھانا چاہتے ہیں تو بوٹی یا کوئی پسندیدہ چیز اپنی پلیٹ میں سے نکال کر بچے کی پلیٹ میں رکھ دیں۔۔
✓ کھانا کم ہو اور لوگ زیادہ ایسے میں کبھی اپنے حصے کے نوالے کم کرکے، کبھی زبانی ضرورت اور خواہش کی" قربانی" کے بارے میں ہلکے پھلکے انداز میں بتائیں۔
✓ نوالہ کتنا بڑا ہو، کیسے چبانا ہے؟ اس کا باقاعدہ ڈیمو دکھائیں۔۔۔
✓ دسترخوان پر یوں ہی الل ٹپ کسی بھی موضوع پر بات کے بجائے کوئ بات سمجھانے بتانے کے لیے پہلے سے ٹاپک سوچ کر ذہن بنالیں اور صرف اپنی کہے جانے کے بجائے بچوں کی رائے سننے اور سمجھنے کی کوشش ہو تو اچھا ہے۔۔۔۔
بچے کو" برداشت" سکھانا چاہ رہے ہیں تو کھانا پسند کا نہ ہو یا ذائقہ مطلب کا نہ ہو منہ بنائے بغیر کھانے کا ڈیمو دیں ساتھ ہی زبانی بھی بتائیں کہ کھانے پسند نہ آئے تو تنقید اور تبصرے کے بجائے خاموشی اچھی یے ۔۔
✓ کھانا مکمل ہوگیا۔۔۔۔اب برتن سمیٹنے، ہر چیز واپس اپنی جگہ پہ رکھنے کا کام خود شروع کریں ساتھ ساتھ بچوں سے بھی کروائیں۔۔۔۔
اب چلتے چلتے یہ بات گرہ سے باندھ لیں دسترخوان لرننگ پراسس میں صرف چند دن کی ایکسرسائز سے یا بے دلی سے محض رسم پوری کرنے والے رویہ کچھ نہیں کچھ بھی نہیں ہوگا اس کے لیے مناسب عرصہ لگ کر، جم کر دلچسپی سے کام کرنا ہوگا ۔۔۔۔
پھر موڈ یے یہ ایکسرسائز شروع کرنے کا ؟؟؟
تحریر،، محمد اسعد الدین
انتخاب،، عابد چوہدری
برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فارورڈ کیا جائے
بچوں کو جگانا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بچوں کو جگانے کے لیے یہ طریقہ غلط ہے:
1۔ اُن کے اوپر سے کمبل، رضائی، لحاف کھینچ لینا۔
2- اُن پر پانی چھڑکنا۔
2۔ درشت لب و لہجہ میں غرّاتے ہوئے بار بار کہنا "اُٹھو، اُٹھو"۔
3۔ اُنہیں کوسنے دینا۔ طنز وتشنیع بھرے جملے یوں ادا کرنا جیسے پتھر مار رہے ہوں۔
4- دھمکیاں دینا ۔۔۔ "دو منٹ میں باہر نہ آئے تو یہ کر دوں گی، وہ کر دوں گی۔"
یہ سب بدتمیزی کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔
ایسا کرنے میں نقصان کیا ہے؟
بچے قطرہ قطرہ یہ کلچر جذب کر رہے ہیں۔
اِس صورتحال کے لیے اُنہیں بس یہ تربیت ملی کہ کسی خلافِ توقع اور خلافِ مزاج وقوعے پر "اِس" مزاج اور طرزِ عمل کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔
وہ اپنے بچوں کو اسی طور جگائیں گے، اور یوں یہ "تہذیبی ورثہ" نسل در نسل منتقل ہو گا۔
درست طریقہ کیا ہے؟
اوّل، بچوں کو اِس طور ڈسپلن کرنے کی خواہش و عادت ترک کرتے ہوئے خود اپنے آپ پر نظم و ضبط لاگو کریں۔ دیکھیں کہ فالٹ کہاں ہے؟
کہیں خود آپ سے کوئی غلطی تو نہیں ہو رہی؟
کیا آپ اور بچے رات درست وقت پر سو جایا کرتے ہیں؟ یا گھر کا نظام قطعی ڈھیلا ڈھالا، بےاصول قسم کا ہے جس میں کسی بھی معاملہ میں کوئی ترتیب، کوئی نظم و ضبط نہیں پایا جاتا؟
ضروری نہیں آپ گھر کو کیڈٹ کالج بنا ڈالیں مگر چند ایک اصول و ضوابط ۔۔۔ ؟
کیا آپ نے 'بتدریج' والے اصول پر عمل کرتے ہوئے بچوں کو آواز دینے پر 'اٹھ جانے' کی ترتیب و تہذیب سکھائی/بتائی ہے۔ کسی ڈسپلن کے لیے ذہناً تیار کیا ہے؟ کیا آپ خود اس معاملے میں درست طرزِ عمل اپنائے ہوئے ہیں؟
دوم، بچوں میں یہ پرابلم ہے تو اس معاملے میں 'پہلے سے' کہہ رکھنے والی نفسیاتی ترکیب پر عمل کریں۔ ایک ترتیب بتائیں۔ مکالمہ کریں۔ بچوں کے ساتھ مل کر ایک 'رائزنگ کوڈ' طے کریں کہ صبح کیسے اٹھنا ہے۔ جوش و خروش والے انداز میں!
اب عملی طور پر کیسے؟
رات سونے سے پہلے:
خوب سنجیدہ لب و لہجے میں:
"9 بج کر پچاس منٹ ہو گئے۔ صرف دس منٹ باقی ہیں۔ لیٹ جائیں، اور دعا پڑھنے سے پہلے بتائیں کہ ماما جب صبح آواز دیں گی تو کیا کرنا ہے؟ رِپیٹ کریں شابش۔"
بچے (ہنستے مسکراتے ہوئے): پہلی آواز پر نہیں اٹھنا۔ صرف نیند سے واپس آنا ہے real world میں۔
آپ: اور دوسری آواز پر؟
بچے: دوسری آواز پر بھی نہیں اٹھنا۔ بلکہ کروٹ بدلنی ہے، اپنا مائنڈ ریڈی کرنا ہے، اور تیسری آواز کا انتظار کرنا ہے۔
آپ: گڈ۔ پھر؟
بچے: تیسری آواز پر اپنا ہاتھ کمبل میں سے نکال کر ماما یا بابا کی طرف بلند کرنا ہے، یعنی جو بھی جگانے آئے گا۔ اور پھر اُٹھ کر بیٹھ جانا ہے۔
آپ: پھر؟
بچے: سب سے پہلے دُعا پڑھنی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْ رُ۔
پھر پورا ایک منٹ بیٹھے رہنا ہے، ایک دم سے کھڑے نہیں ہو جانا، یہ میڈیکلی نقصان دہ ہے۔ اس دوران جو بھی سامنے ہو اُسے سلام کہنا ہے۔
آپ: پھر؟
بچے: تب اٹھ کر کھڑے ہو جانا ہے۔
صبح آپ خود اسی ترتیب کا مظاہرہ کریں:
1- پاس آ کر نرم آواز میں پکاریں۔
2- آپ کی آواز زیادہ پچکارنے اور لاڈ کرنے والی نہ ہو، اور نہ زیادہ سنجیدہ و سپاٹ یا غصیلی۔
3- بچے کے سر پر اور گالوں پر ہلکا سا تھپتھپا دیں تا کہ وہ نیند سے واپس آ جائے۔
4- منہ سے بول کر کہیں "اٹھ جائیں بیٹا ۔۔۔" ساتھ میں وقت بتا دیں۔ پھر ہٹ جائیں۔
5- دوسری آواز تین سے پانچ، سات منٹ کے بعد، دور سے: "فرحان، اٹھ جائیں بیٹا ۔۔۔ دِس از سیکنڈ ٹائم۔" لب و لہجہ خوشگوار یا نارمل۔
6- تیسری دفعہ پاس آ کر، وقت بتاتے ہوئے:
"فرحان، آ جائیں بیٹا۔ آپ نے عائشہ سے پہلے واش رُوم جانا ہے۔ یہ تیسری دفعہ ہے۔ لائیں جی، اپنا ہاتھ باہر نکالیں۔۔۔"
بچے ابتدا میں چوں چرا کریں گے۔ رفتہ رفتہ ترتیب بن جائے گی۔
7- بچے جب سکول سے واپس آ جائیں، یا شام کے کھانے پر، یا رات سونے سے پہلے آپ مثبت لب و لہجہ میں سوال کریں، "آج کس کس نے کوڈ آف رائزنگ کو فالو کیا تھا؟" ۔۔۔
یہ سوال بذات خود تنقید ہے۔ اس طرح نرمی اور سنجیدگی سے مکالمہ کریں۔ بتدریج بچے ٹیون ہو جائیں گے۔ ہر روز تھوڑی سے اِمپروومنٹ آنی چاہیے ۔۔۔ اور بالآخر یہ سب اِس گھر کا کلچر بن جائے گا۔ نسلوں تک جائے گا۔
خلاصہ کیا ہے؟
عین موقع پر نہیں! ۔۔۔ پہلے سے، پیچھے سے۔
ذہنی تیاری، ترتیب، تدریج، خود عمل، صبر و استقامت ۔۔۔ دعائیں ☘️❤️
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر،، ہمایوں تارڑ
انتخاب،، عابد چوہدری
برائے مہربانی اس تحریر کو شئیر یا فارورڈ کیا جائے
#parents #parenting #family #kids #love #children #baby #education #momlife #parenthood #mom #motherhood #dad #teachers #school #parentingtips #learning #students #familytime #mother #maman #child #dadlife #babies #babyboy #life #happy #covid #parent #babygirl
#instagood #newborn #fun #instagram #famille #bebe #dads #toddler #fatherhood #b #moms #father #mum #mumlife #teacher #enfants #photography #toddlers #pregnancy #momsofinstagram #preschool #pregnant #childcare #smile #daddy #mentalhealth #parentlife #papa #like #cute
No comments:
Post a Comment