Showing posts with label Musalman. Show all posts
Showing posts with label Musalman. Show all posts

Saturday, December 19, 2020

Urdu Islamic Article: Ishq Nabwi, Parathay, Corona, Durood Shareef ki barkat, Khutba, Musalman, Shaitan, Naseehat, Zikrar Allah

 

Home Page  Urdu Islamic Article  HR Email Ids  Zikar Azkaar

Namaz Quran & Tableegh   School HR ID  Ulema Ikram Bayanat

Listen Quran Majeed   Read Quran Majeed  Social Media  Ramzan

Khulasa Quran Majeed


 Namaz ki pabandi kijyay, Quran Majeed ki Tilawat her roz kijyay, Quran or Sunnat kay mutabiq zindagee guzarain, Tahajud ki Namaz perhnay ki koshish kijyay, apki jo field hay us ki zada say zada knowledge hasil karain, free time may tution perhanay ki koshish kijyay ya positive activities may busy rahay takay gunah say bachain, Zada say Zada Dua Mangiyay, English communication skills ko zada say zada improve karain.

Pleae click on the following link, inshaAllah it will be beneficial for your deen , duniya, Akhirat and career as well. Very useful and exciting stuff is waiting for you.

Email id of HR department, Islamic Wazaif, Islamic Dua, Islamic Videos, Zikar Azkaar (Allah kay zikar say dil ko sukoon milta hay), Islamic Messages and Islamic Bayans.
 
https://proudpakistaniblogging.blogspot.com/2018/05/all-time-best-post-of-sharing-is-caring.html
​​

 

 

 

 مولانا ظفر احمد عثمانی ایسے دور میں ہندوستان سے حج کرنے کے لئے حجاز مقدس گئے تھے،
جب لوگ بحری جہازوں میں سفر کر کے حج کا فریضہ ادا کرنے جاتے تھے۔
واپسی پر انہوں نے یہ واقعہ قلمبند کیا ہے ۔

فرماتے ہیں کہ میں ساری عمر کسی محفل میں (ایسا) لاجواب نہیں ہوا، سوائے ایک موقع پر جب ہم حج کرنے (کے دوران) مدینہ طیبہ گئے تو اس وقت مسجد نبویۖ سے ملحقہ اپنا خیمہ لگایا اور وہاں رہائش رکھی اور ادھر سے ہی مسجد نبویۖ میں آ جاتے، چونکہ شدید گرمیوں کا موسم تھا۔ جب ہم تمام حاجی اکٹھے ہو کر شام کا کھانا کھاتے تو اس وقت وہاں سے گرم موسم کی وجہ سے تربوز خرید لیتے اور کھانے کے بعد اسے کھاتے اور اس کے چھلکے باہر پھینک دیتے۔اس دوران ہم نے کیا دیکھا کہ ایک سات آٹھ سالہ بچہ آتا اور چھلکوں کے ڈھیر میں سے چھلکے اٹھاتا، جو ہلکی سرخی مائل گری رہ جاتی، اسے کرید کرید کر کھا لیتا۔

جب یہ معمول دو روز تک دیکھا تو میں نے پیار سے اس بچے سے پوچھ لیا کہ بیٹے تم ایسا کیوں کرتے ہو ؟ تو بچے نے کہا میں ایک یتیم بچہ ہوں، میرے والد فوت ہو چکے ہیں۔ میری والدہ نے عقدثانی کر لیا ہے۔ گھر میں غربت اور فاقے ہیں، میں مدینے کا بچہ ہوں اور میزبان ہونے کی حیثیت سے مہمانوں سے مانگتے شرم آتی ہے۔ لہذا میں اس بچی کھچی گری سے پیٹ بھر لیتا ہوں ۔ مولانا لکھتے ہیں کہ مدینے کے بچے کی اس فہم و فراست نے ہمارے رونگٹے کھڑے کر دئیے۔ آنکھیں آنسووں سے بھیگ گئیں۔ بچے سے کہا کہ بیٹا اگر آپ مناسب سمجھو تو آپ ہمارے ساتھ آ کر کھانا کھا لیا کرو ۔ بچہ انکاری تھا، مگر ہمارے پیار بھرے بھر پور اصرار پر ہاں کر دی۔ مدینے کا یہ بچہ روز آ جاتا، ہمارے ساتھ کھانا کھاتا۔ آہستہ آہستہ شناسائی بڑھتی گئی۔ بچے سے انس ومحبت پروان چڑھا تو میں نے بچے کو پیشکش کر دی کہ بیٹا آپ میرے ساتھ ہندوستان آ جاؤ ۔ میں وہاں آپ کو درس میں رکھ کر پڑھاؤں گا ۔کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک آپ کی تعلیم کا بندوبست کروں گا، تو بچے نے کہا کہ میں اپنی والدہ سے بات کر کے آپ کو آگاہ کروں گا۔ جب ہماری واپسی کا وقت آ گیا تو وہ بچہ اپنی والد ہ سے اجازت لے کر سامان سفر باندھ کر آ گیا۔ ہمیں بڑی خوشی ہوئی۔ بچے کو ساتھ لیا، بچہ قافلے کے ہمراہ چل رہا تھا تو دوران سفر میرے ساتھ محو گفتگو تھا۔

سوال کر رہا تھا کہ چاچاجی وہاں ہندوستان میں سکول اچھے ہیں؟ میں نے کہا کہ بیٹا بہت اچھے ہیں۔ وہاں مجھے اچھے کپڑے پہننے کو ملیں گے؟ میں نے کہا کہ ہاں بیٹا۔ اس نے پوچھا کہ مجھے وہاں فٹ بال کھیلنے کے گراؤنڈ میسر آئیں گے؟ جی ہاں بیٹا ہندوستان میں فٹ بال کھیلا جاتا ہے۔بچے نے کہا کہ مجھے وہاں طرح طرح کے معیاری کھانے اور اچھی رہائش ملے گی؟ میں نے کہا کہ کیوں نہیں بیٹا یہ سب سہولتیں آپ کو ملیں گی ۔اس دوران چلتے چلتے سامنے گنبد خضریٰ نظر آ گیا بچے کی نظر پڑی تو سوال کر دیا کہ چاچا جی یہ سامنے والا گنبد بھی وہاں ملے گا؟ میرے پاؤں سے زمین نکل گئی۔ بچے کے اس سوال نے مجھے لاجواب کر دیا اور میں نے تڑپ کر کہا کہ بیٹا اگر یہ گنبد وہاں مل جاتا تو مجھے یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی؟

بچے نے میرا جواب سنا تو اپنا ہاتھ چھڑایا اور کہا:
"چاچا جی مفلسی، بےبسی اور یتیمی قبول ہے۔ مگر سرکارِ مدینہ کا دامن چھوڑ نا کسی صورت گوارا نہیں۔ میں مدینے کو نہیں چھوڑ سکتا۔"
علامہ صاحب لکھتے ہیں کہ بچہ ہمیں روتے ہوئے دم بخود چھوڑ کر بھاگا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ علامہ صاحب باقی مانندہ زندگی، یہ واقعہ لوگوں کو سنا سنا کر روتے رہے۔

┈┈ 🍃🌸🍃 ┈┈•🌼🌿🌼🌸🌼🌿
اَلّٰلھُمَّ صَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی ابْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

اَلّٰلھُمَّ بَارِک عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ  اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
 •
┈┈ 🍃🌸🍃 ┈┈•🌼🌿🌼🌸🌼🌿

🍀🍀جَـــــــــــــــــــزَاک الـــلّٰـــهُ خَـــــــــيْراً کَـــــــــثِیْراً و احسن الجزاء فِــــــــي الْـــــــــدُّنْــــــــــيَا وَالاَخِــــــــــرَةْ🍀🍀
Copied

 

 

 

2پراٹھے

ایک فکرانگیز اور متاثرکن واقعہ،
ابو نصر الصیاد نامی ایک شخص، اپنی بیوی اور ایک بچے کے ساتھ غربت و افلاس کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ ایک دن وہ اپنی بیوی اور بچے کو بھوک سے نڈھال اور بلکتا روتا گھر میں چھوڑ کر خود غموں سے چور کہیں جا رہا تھا کہ راہ چلتے اس کا سامنا ایک عالم دین احمد بن مسکین سے ہوا، جسے دیکھتے ہی ابو نصر نے کہا؛ اے شیخ میں دکھوں کا مارا ہوں اور غموں سے تھک گیا ہوں۔
شیخ نے کہا میرے پیچھے چلے آؤ، ہم دونوں سمندر پر چلتے ہیں۔
سمندر پر پہنچ کر شیخ صاحب نے اُسے دو رکعت نفل نماز پڑھنے کو کہا، نماز پڑھ چکا تو اُسے ایک جال دیتے ہوئے کہا اسے بسم اللہ پڑھ کر سمندر میں پھینکو۔
جال میں پہلی بار ہی ایک بڑی ساری عظیم الشان مچھلی پھنس کر باہر آ گئی۔ شیخ صاحب نے ابو نصر سے کہا، اس مچھلی کو جا کر فروخت کرو اور حاصل ہونے والے پیسوں سے اپنے اہل خانہ کیلئے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید لینا۔
ابو نصر نے شہر جا کر مچھلی فروخت کی، حاصل ہونے والے پیسوں سے ایک قیمے والا اور ایک میٹھا پراٹھا خریدا اور سیدھا شیخ احمد بن مسکین کے پاس گیا اور اسے کہا کہ حضرت ان پراٹھوں میں سے کچھ لینا قبول کیجئے۔ شیخ صاحب نے کہا اگر تم نے اپنے کھانے کیلئے جال پھینکا ہوتا تو کسی مچھلی نے نہیں پھنسنا تھا، میں نے تمہارے ساتھ نیکی گویا اپنی بھلائی کیلئے کی تھی نا کہ کسی اجرت کیلئے۔ تم یہ پراٹھے لے کر جاؤ اور اپنے اہل خانہ کو کھلاؤ۔
ابو نصر پرااٹھے لئے خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا کہ اُس نے راستے میں بھوکوں ماری ایک عورت کو روتے دیکھا جس کے پاس ہی اُس کا بیحال بیٹا بھی بیٹھا تھا۔ ابو نصر نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پراٹھوں کو دیکھا اور اپنے آپ سے کہا کہ اس عورت اور اس کے بچے اور اُس کے اپنے بچے اور بیوی میں کیا فرق ہے، معاملہ تو ایک جیسا ہی ہے، وہ بھی بھوکے ہیں اور یہ بھی بھوکے ہیں۔ پراٹھے کن کو دے؟ عورت کی آنکھوں کی طرف دیکھا تو اس کے بہتے آنسو نا دیکھ سکا اور اپنا سر جھکا لیا۔ پراٹھے عوررت کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ لو؛ خود بھی کھاؤ اور اپنے بیٹے کو بھی بھی کھلاؤ۔ عورت کے چہرے پر خوشی اور اُس کے بیٹے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
ابو نصر غمگین دل لئے واپس اپنے گھر کی طرف یہ سوچتے ہوئے چل دیا کہ اپنے بھوکے بیوی بیٹے کا کیسے سامنا کرے گا؟
گھر جاتے ہوئے راستے میں اُس نے ایک منادی والا دیکھا جو کہہ رہا تھا؛ ہے کوئی جو اُسے ابو نصر سے ملا دے۔ لوگوں نے منادی والے سے کہا یہ دیکھو تو، یہی تو ہے ابو نصر۔ اُس نے ابو نصر سے کہا؛ تیرے باپ نے میرے پاس آج سے بیس سال پہلے تیس ہزار درہم امانت رکھے تھے مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ ان پیسوں کا کرنا کیا ہے۔ جب سے تیرا والد فوت ہوا ہے میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں کہ کوئی میری ملاقات تجھ سے کرا دے۔ آج میں نے تمہیں پا ہی لیا ہے تو یہ لو تیس ہزار درہم، یہ تیرے باپ کا مال ہے۔
ابو نصر کہتا ہے؛ میں بیٹھے بٹھائے امیر ہو گیا۔ میرے کئی کئی گھر بنے اور میری تجارت پھیلتی چلی گئی۔ میں نے کبھی بھی اللہ کے نام پر دینے میں کنجوسی نا کی، ایک ہی بار میں شکرانے کے طور پر ہزار ہزار درہم صدقہ دے دیا کرتا تھا۔ مجھے اپنے آپ پر رشک آتا تھا کہ کیسے فراخدلی سے صدقہ خیرات کرنے والا بن گیا ہوں۔
ایک بار میں نے خواب دیکھا کہ حساب کتاب کا دن آن پہنچا ہے اور میدان میں ترازو نصب کر دیا گیاہے۔ منادی کرنے والے نے آواز دی ابو نصر کو لایا جائے اور اُس کے گناہ و ثواب تولے جائیں۔
کہتا ہے؛ پلڑے میں ایک طرف میری نیکیاں اور دوسری طرف میرے گناہ رکھے گئے تو گناہوں کا پلڑا بھاری تھا۔
میں نے پوچھا آخر کہاں گئے ہیں میرے صدقات جو میں اللہ کی راہ میں دیتا رہا تھا؟
تولنے والوں نے میرے صدقات نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دیئے۔ ہر ہزار ہزار درہم کے صدقہ کے نیچے نفس کی شہوت، میری خود نمائی کی خواہش اور ریا کاری کا ملمع چڑھا ہوا تھا جس نے ان صدقات کو روئی سے بھی زیادہ ہلکا بنا دیا تھا۔ میرے گناہوں کا پلڑا ابھی بھی بھاری تھا۔ میں رو پڑا اور کہا، ہائے رے میری نجات کیسے ہوگی؟
منادی والے نے میری بات کو سُنا تو پھر پوچھا؛ ہے کوئی باقی اس کا عمل تو لے آؤ۔
میں نے سُنا ایک فرشہ کہہ رہا تھا ہاں اس کے دیئے ہوئے دو پُراٹھے ہیں جو ابھی تک میزان میں نہیں رکھے گئے۔ وہ دو پُراٹھے ترازو پر رکھے گئے تو نیکیوں کا پلڑا اُٹھا ضرور مگر ابھی نا تو برابر تھا اور نا ہی زیادہ۔
مُنادی کرنے والے نے پھر پوچھا؛ ہے کچھ اس کا اور کوئی عمل؟ فرشتے نے جواب دیا ہاں اس کیلئے ابھی کچھ باقی ہے۔ منادی نے پوچھا وہ کیا؟ کہا اُس عورت کے آنسو جسے اس نے اپنے دو پراٹھے دیئے تھے۔
عورت کے آنسو نیکیوں کے پلڑے میں ڈالے گئے جن کے پہاڑ جیسے وزن نے ترازو کے نیکیوں والے پلڑے کو گناہوں کے پلڑے کے برابر لا کر کھڑا کر دیا۔ ابو نصر کہتا ہے میرا دل خوش ہوا کہ اب نجات ہو جائے گی۔
منادی نے پوچھا ہے کوئی کچھ اور باقی عمل اس کا؟
فرشتے نے کہا؛ ہاں، ابھی اس بچے کی مُسکراہٹ کو پلڑے میں رکھنا باقی ہے جو پراٹھے لیتے ہوئے اس کے چہرے پر آئی تھی۔ مسکراہٹ کیا پلڑے میں رکھی گئی نیکیوں والا پلڑا بھاری سے بھاری ہوتا چلا گیا۔ منادی کرنے ولا بول اُٹھا یہ شخص نجات پا گیا ہے۔
ابو نصر کہتا ہے؛ میری نیند سے آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنے آپ سے کہا؛ اے ابو نصر آج تجھے تیرے بڑے بڑے صدقوں نہیں بلکہ
"آج تجھے تیری 2 روٹیوں نےبچا لیا

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تیز بخار، کھانسی، شدید جسم درد، منہ کا کڑوا پن اور سونگھنے، ذائقے کی حس ختم ہونے جیسی علامات تقریباً پورے پاکستان میں پھیل چکی ہیں۔

خدارا اپنی حفاظت کریں۔

1- ٹھنڈے پانی سے پرہیز کریں
2- برف کا استعمال مکمل طور پر بند کردیں
3- جوشاندہ پئیں
4- بھاپ لیں
5- انڈے کھائیں
6- انجیر کھائیں
7- بادام کھائیں
8- لونگ، الاچی، دارچینی کا قہوہ پئیں
9- مٹن سوپ پئیں، کالی مرچ ادرک، ہلدی ڈال کر
10- دیسی مرغی کا سوپ پئیں، کالی مرچ، ادرک، ہلدی ڈال کر
11- کیلشیم کسی بھی صورت میں لازمی لیں
12- پانی کا استعمال زیادہ کریں

ﷲ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو
 
اس پیغام کو نظر انداز نہ کریں.
جزاکم ﷲ خیراً کثیرا

 

 

 

 

 

 

 

رسول اللّه کا ہر امتی زندگی میں ایک بار یہ تحریر ضرور ضرور پڑھے)

اگر آپ اپنے دماغ کو روشن کرنا چاہتے ہیں اور  روحانیت کی دنیا میں پرواز کرنا چاہتے ہیں تو ایک ایک لفظ غور سے پڑھیں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نہ ہی کسی مدرسے میں پڑھے نہ درس نظامی کی تو آپ کو علامہ کیوں کہا جاتا ہے علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ واقعی میں نے کوئی عالم فاضل کا کورس نہیں کیا لیکن بات اصل میں کچھ اور ہے فرمانے لگے کہ دنیا کی مجھے یہ عزت دینا اور میرے کلام میں یہ اثر اور میرے قلب و روح کی یہ تازگی یہ سب رسول اللّه
  سے والہانہ عشق و محبت کی بدولت ہے اور یہ سب تب ممکن ہوئی جب میں نے رسول اللّه پہ درود پاک پڑھنا شروع کیا فرمایا کہ درود پاک کا یہ ورد بڑھتا گیا اور میں اس تعداد کو محفوظ کرتا گیا لاکھ دو لاکھ اور ایسے ہی جوں جوں آگے بڑھتا گیا اللہ میرے دماغ کو میرے دل کو میری روح کو روشن کرتا رہا۔ اور جب میں نے رسول اللّه کی ذات گرامی پہ  ایک کروڑ درود پاک مکمل کیا تو اللہ رب العزت نے میرا انگ انگ روشن کر دیا لوگوں کے دلوں میں میری عزت بیٹھ گئی میرے کلام میں ایسا اثر ہوا کہ اللہ اللہ جب کلام لکھنے بیٹھتا الفاظ بارش کی طرح اترتے اس کے بعد علامہ صاحب درود پاک تواتر سے پڑھتے بس یہی راز تھا جو علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے ہم پہ آشکار کر دیا میرے ایک عزیز ہیں جو ایئر فورس میں ملازمت کررے تھے وہاں ان کی ملاقات ایک عاشق رسول اللّه سے ہوئی جن سے یہ راز ان کو معلوم ہوا اور انہوں نے خود مجھے بتایا کہ میری زندگی پہلے کی بہت عجیب تھی لیکن جب میں نے مصمم ارادہ کیا اور محبت سے درود پاک کا ورد شروع کیا اور جب زندگی میں پہلی دفعہ ایک لاکھ درود پاک گن کے پورا کیا تو ایک خواب دیکھتا ہوں ک میں کہیں محو سفر ہوں اور میرے سامنے ایک نہایت غلیظ نالہ ہے اور اس نالے کے اس پار بہت سہانی سرسبز اور جنت جیسی دنیا ہے خیر میں نے جیسے تیسے کر کے بہت مشکل سے وہ نالہ پار کیا اور اس پار پہنچ گیا جب میں نے پیچھے دیکھا تو وہی نالہ جس میں غلاظت تھی وہ نہایت صاف شفاف نہر میں تبدیل ہو چکا ہے حتی کہ اس بہتے پانی کے نیچے رنگ برنگ کے پتھر تک نظر آ رہے ہیں اور  جسے دیکھ کے روح خوش ہو جائے اور میرے کپڑے نہایت صاف ستھرے اجلے اور سفید ہو چکے ہیں اور میرا ظاہری حسن بھی بڑھ چکا ہے الحمدللہ مجھے خواب ہی میں بتایا گیا کہ یہ نالہ میں بہتا پانی تمہارے اعمال ہیں جو پہلے غلیظ تھے اور اب درود پاک کی بدولت ان کی صفائی ہو چکی اب یہ سارے نیکیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں یقین جانیں وہ دن اور آج کا دن وہ بندہ کب سے سروس سے ریٹائر ہو چکا ہے آج بھی ان کا درود پاک کا ورد جاری و ساری ہے اور بہت سے جوان لڑکوں کو درود پاک کے ورد کی لذت سے روشناس کرا چکے ہیں اور  آج اس بندہ کی روحانی کیفیت ماشااللہ کمال کی ہے اور اس بندہ کے دل و دماغ اور روح اس پاک ورد یعنی  رسول اللّه پہ درود پاک کی بدولت روشن ہیں تو دوستوں اپنی زندگی میں یہ کام ضرور کریں آج ہی سے پختہ ارادہ کریں کہ ان شااللہ ان شااللہ میں نے رسول اللّه کی ذات مقدس پہ گن کے ایک کروڑ مرتبہ محبت و شوق سے درود پاک ضرور پڑھنا ہے یقین مانیں جیسے جیسے آپ  رسول اللّه پہ درود پاک پڑھتے جائیں گے آپ پہ بہت سارے انکشافات ہوتے جائیں گے اور دل و دماغ و روح کے ایسے دریچے کھلیں گے کہ آپ ششدر رہ جائیں گے روزانہ کی بنیاد پہ درود پاک کا ورد اپنا معمول بنا لیں پھر دیکھیں  سبحان اللہ اللہ ہم سب کو آقا و مولا مدنی تاجدار رسول اللّه محمد پہ درود پاک پڑھنے کی سعادت نصیب فرمائے آمین اس پہ خود بھی عمل کریں اور اپنے گھر والوں کو بھی آگاہ کریں خصوصا نوجوان بہن بھائیوں دوستوں کو ضرور ضرور اس ورد پاک کا بتائیں جو جو عمل کرے گا آپ کے ساتھ اس نورانی لڑی میں پرویا جائے گا اور آپ کا بھی بھلا ہو گا بہت بھلا ہو گا

(پلیز آگے سنڈ کرتے جائیں جتنے لوگ درودپاک پڑھیں گے آپ کو بھی ثواب ملتا رھے گا)♥️

 

 

 

 

 

 

 

 

 


خطيب مسجد الحرام مكة المكرمة کے خطبہ جمعہ سے إقتباس:
Please Read Translation

قیمتیں بہت بلند ہیں

اور عورتیں بـے پردہ ہیں

اور مسجدیں خالی ہیں

اور اللہ تعالی کے احکامات کی بغاوت ہـو رہی ہـے

چوروں کے پاس دلائل ہیں

اور مجاہدں کو ہـتھکڑیا لگا کر پابند سلاسل کر دیا گیا ہـے

اور زنا کو حلال قرار دے دیا گیا

اور  نکاح کو مشکل بنا دیا گیا

اور عورتیں مردوں پر حکمرانی کرتی ہیں

اور مسلمانوں کی زمین دشمنوں کے قبضہ میں ہـے

اور فقراء اور مساکین کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہـے ہیں

اور قیامت کی بڑی بڑی تمام نشانیاں پوری ہـوچکی ہیں سوائے چند ایک کے

پس توبہ کو لازم پکڑو  توبہ کو لازم پکڑو

سوراخ والے بیگ سے ڈرو!
نیکیوں کو برباد کرنے سے بچو’’ زندگی کم اور کام زیادہ ‘‘اور جس بیگ میں نیکیاں رکھنی ہیں اس میں سوراخ ہیں

آپ وضو بہت اچھے طریقے سے کرتے ہیں؟ لیکن پانی بہت زیادہ ضائع کرتے ہیں
(سوراخ والا بیگ )

آپ فقراء اور مساکین پر صدقہ وخیرات کرتے ہیں پھر ان کی تذلیل کرکے ان پر ہـنستے ہیں
(سوراخ والا بیگ )

آپ راتوں کو قیام کرتے ہیں دن کا روزہ رکھتے ہیں اور اپنے رب کی اطاعت کرتے ہیں لیکن قطع رحمی بھی کرتے ہیں
(سوراخ والا بیگ )

آپ روزہ بھی رکھتے ہیں اور بھوک اور پیاس پر صبر بھی کرتے ہیں لیکن پھر گالی گلوچ لعن طعن بھی کرتے ہیں
(سوراخ والا بیگ )

خواتین اپنے کپڑوں کے اوپر عبایا پہننے کے باوجود خوشبو لگا کر بازار آتی ہیں تو کیا فائد ایسے پردے کا؟
(سوراخ والا بیگ )

آپ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور اس سے حسن سلوک بھی کرتے ہیں لیکن اسکے جانے کے بعد اسکی غیبت اور برائی بھی کرتے ہیں
(سوراخ والا بیگ )

اپنی نیکیوں کو ضائع ہـونے سے بچائیں جنہیں بڑی مشکل سے جمع کرتے ہـو اور پھر انہیں کس طرح آسانی کے ساتھ ضائع کر دیتے ہـو خدارا اس سے باز آجاؤ۔۔۔۔
(سوراخ والا بیگ )
.
اے اللہ میں تجھ سے اپنے لیـے اور اپنے دوست واحباب کے لیـے ہـدایت اور مغفرت کا سوال کرتا ہـوں ۔

عربوں کے عجوبـے یعنی ان کے شوق نرالے ہیں

وہ حج کے سفر کو اس لیـے اختیار نہیں کرتے کیونکہ اس میں بہت بڑی تکلیف اور مشقت ہـے،،، لیکن سیرو سیاحت میں دلچسپی اور رغبت میں تمہیں ذرا بھی تکلیف اور مشقت نہیں ہـوتی؟ کتنی عجیب بات ہـے

(آگاہ رہـو اللہ کا سودا بڑا قیمتی ہـے)
.
قربانی کا جانور آپ اس لیـے نہیں خریدتے کہ وہ بہت مہنگا ہـے لیکن معاشرتی سٹیٹس کو برقرار رکھنے لیـے قیمتی قیمتی آئی فون خریدتے ہـو

(آگاہ رہـو اللہ کا سودا بڑا قیمتی ہـے)
..
(آپ فضول گفتگو میں وقت برباد کردیتے ہیں چاہـے وہ دن میں 100 مرتبہ ہی کیوں نہ کرنی پڑے )

اور آپ قرآن کریم کی دس آیات بھی تلاوت نہیں کرتے حجت کے طور پر کیا آپ کے پاس تلاوت قرآن کریم کرنے کی فرصت نہیں؟

(آگاہ رہـو اللہ کا سودا بڑا قیمتی ہـے)

 

 

 

 

 

 

بارہ سال کا ایک بچہ ہاتھ میں تلوار پکڑے تیز تیز قدموں کے ساتھ ایک طرف لپکا جارہا تھا۔ دھوپ بھی خاصی تیز تھی، بستی میں سناٹا طاری تھا، یوں لگتا تھا جیسے اس بچے کو کسی کی پروا نہیں۔ لپکتے قدموں کا رخ بستی سے باہر کی طرف تھا، چہرہ غصے سے سرخ تھا,
آنکھیں کسی کی تلاش میں دائیں بائیں گھوم رہی ہیں، اچانک ایک چٹان کے پیچھے سے ایک سایہ لپکا۔ بچے نے تلوار کو مضبوطی سے تھام لیا۔ آنے والا سامنے آیا تو بچے کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا۔ ہاتھ میں تلوار اور چہرے پر حیرت اور مسرت کی جھلملاہٹ دیکھ کر آنے والے نے شفقت سے پوچھا:

" میرے پیارے بیٹے! ایسے وقت میں تم یہاں کیسے؟"

بچے نے جواب دیا : " آپ کی تلاش میں۔"

اس بچے کا نام زبیر  رضی اللہ عنہ تھا۔ باپ کا نام عوام اور ماں کا نام صفیہ رضی اللہ عنھا تھی-
 یہ بچہ رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم کا پھوپی زاد بھائی تھا۔

قصہ یہ پیش آیا تھا کہ مکہ مکرمہ میں افواہ پھیلی کہ پیغمبر صلّی اللہ علیہ وسلّم کو کفار نے پہاڑوں میں پکڑلیا ہے۔ مکہ میں دشمن تو بہت زیادہ تھے، اس لیے ایسا ہو بھی سکتا تھا۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے جن کی عمر بارہ سال تھی فوراً تلوار اٹھائی اور اکیلے ہی آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ آخر آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم مل گئے۔ پیارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اس حالت میں دیکھ کر حیرت سے پوچھا:

" اگر واقعی مجھے پکڑ لیا گیا ہوتا تو پھر تم کیا کرتے۔"

اس بارہ سالہ بچے نے جواب دیا:

" میں مکّہ میں اتنے قتل کرتا کہ ان کے خون کی ندیاں بہادیتا اور کسی کو زندہ نہ چھوڑتا۔"

پیارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم یہ بات سن کر مسکرا پڑے اور اس جرأت مندانہ انداز پر اپنی چادر مبارک انعام کے طور پر عطافرمائی۔
 اللہ تعالٰی کو یہ ادا پسند آئی۔
 جبرئیل( علیہ السلام) آسمان سے نازل ہوئے اور عرض کیا زبیر کو خوش خبری دے دیں کہ اب قیامت تک جتنے لوگ اللہ کے راستے میں تلوار اٹھائیں گے، ان کا ثواب زبیر رضی اللہ عنہ کو بھی ملے گا__

(حیاۃ صحابہ سے ماخوذ )
Copy post

 

 

 

 

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
شیطان آدمی کے سر کے پیچھے رات میں سوتے وقت
تین گرہیں لگا دیتا ہے
اور ہر گرہ پر یہ افسوں پھونک دیتا ہے کہ سو جا ابھی رات بہت باقی ہے پھر اگر
کوئی بیدار ہو کر اللہ کی یاد کرنے لگا تو ایک گرہ کھل جاتی ہے پھر جب وضو کرتا ہے تو
دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔
پھر اگر نماز (فرض یا نفل) پڑھے تو تیسری گرہ بھی کھل
جاتی ہے۔ اس طرح صبح کے وقت آدمی چاق و چوبند خوش مزاج رہتا ہے۔ ورنہ سست اور بدباطن رہتا ہے۔
(صحیح البخاری:1142)

 

 

 

 

 

لاحول ولاقوة الا بالله کا مطلب

حضرت عبدالله بن مسعود رضى الله عنه فرماتے ہيں كہ!! ""لاحول ولاقوة الا بالله""
كو ميں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم كے سامنے پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا کہ اس کا مطلب جانتے ہو کیا ہے؟؟؟
.
میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوب جانتے ہیں ـ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمایا!
اس کا مطلب یہ ہے گناہ سے پھرنے کی طاقت نہیں مگر اللہ کی حفاظت سے اور
اللہ کی عبادت کرنے کی قوت نہیں مگر اللہ کی مدد سے اور فرمایا جو بندہ ہر وقت
استغفار کرتا رہتا ہے اللہ اس کی ہر مشکل آسان کر دیتا ہے اور ہر غم دور کر دیتا ہے،
اور ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے کہ جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا
.
لاحول ولا قوة الا بالله كے فوائد
.
■ ١ يہ كلمہ عرش کے نیچے جنت کا خزانہ ہے، اور جنت کی چھت عرش الھی ہے،
اس کے پڑھنے سے اعمال صالحہ کے اختیار کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق
ہونے لگتی ہے، اس معنی میں یہ جنت کا خزانہ
.
■ ٢ نبى كريم صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كہ!
""لاحول ولا قوة الا بالله "" ننانوے دنياوى واخروى بيماريوں كى دوا ہے، جن ميں سب سے
ادنى بيمارى غم ہے، چاهے دنيا كا ہو يا آخرت كا، یعنی اس سے دل سے غم دور ہوتا ہے،
دل میں سکون و اطمینان آجاتا ہے..
.
جب بهی دل میں پریشانی و غم محسوس کرو تب ایک جگہ بیٹھ کر سو دفعہ یا اس سے زیاده
دل ہی دل میں دهیان توجہ سے پڑهے،ان شاء الله دل میں سکون و اطمینان آجائے گا.
.
■ ٣ جب بنده اس كلمه كو پڑھتا ہے تو اللہ تعالی عرش پر فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ میرا
بندہ فرماں بردار ہو گیا اور سرکشی چھوڑ دی، یہ نعمت کیا کم ہے کہ بندہ زمین پر یہ کلمہ
پڑھتا ہے اور حق تعالی عرش پر فرشتوں کے مجمع میں اس کا ذکر فرماتے ھیں ـ ـ ـ؟
سبحان اللہ!
ایڈمن نورسحر💥

 

 

 

 

 

صرکی ایک معلمہ کاواقعہ وہ معلمہ ہمیشہ اپنے شاگردوں کو نصیحت کرتی تھی کہ قرآن پاک کی اس آیت کے مطابق زندگی گزاریں
"وَعَجِلتُ اِلَیکَ رَبِّ لِتَرضٰی"(سورۃ طٰهٰ۔84)
ترجمہ
(اے پروردگار میں نے تیری طرف آنے میں جلدی کی تا کہ تو خوش ہو)
 وہ کہا کرتی تھیں کہ میں اس آیت سے بہت متاثر ہوں جب بھی میں اذان کی آواز سنتی ہوں اور اگر میں کسی بھی کام میں مصروف ہوں، میں اپنے آپ کو یہ آیت یاد دلاتی ہوں اور سب کچھ چھوڑ کر نماز ادا کرنے کھڑی ہو جاتی ہوں رات کو 2:00بجے جب تہجد کا الارم بجتا ہے اور میں گہری نیند میں مزید سونا چاہتی ہوں تو یہ آیت مجھے یاد آتی ہے اور مجھے جگاتی ہے.
اس خاتون کے شوہر کی عادت تھی کہ کام سے واپس گھر آتے وقت وہ اسے فون پر کھانے کے متعلق ہدایات دیتا تا کہ اس کے گھر پہنچنے پر گرما گرم کھانا تیار ملے اور وہ کھانا کھا کر سو جائے. ایک دن اس نے فون پر مہشی کھانے کی فرمائش کی (انگور کے پتوں میں چاول بھرے جاتے ہیں اور پھر ان کو ہلکی آنچ پر پکنے رکھا جاتا ہے بہت وقت طلب ڈش ہے) اتنی دیر میں اذان کی آواز سنائی دی تو اس کے صرف تین رولز رہ گئے تھے (جن کے بھرنے میں زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ لگتے) لیکن اس نے حسب عادت سب کام چھوڑے اور نماز ادا کرنے کھڑی ہو گئی، اس خاتون کا شوہر اسے بار بار فون کرتا رہا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا جب وہ گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی سجدے میں ہے اور کھانا ابھی تک تیار نہیں ہے اس نے دیکھا کہ صرف تین رولز بھرنے رہ گئے ہیں تو اسے شدید غصہ آیا اور اسی غصے کے عالم میں اس نے اپنی بیوی کو ڈانٹنا شروع کر دیا "تم اپنا کام ختم کر کے دیگچی چولہے پر رکھ کر بھی نماز ادا کر سکتی تھی، تین رولز بنانے میں کتنی دیر لگتی ہے"،لیکن اس کی بیوی کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا جب وہ اس کے پاس آیا تو دیکھا کہ سجدے کی حالت میں اس کا انتقال ہو چکا ہے.
سبحان الله اگر اس نے ہماری طرح یہ سوچا ہوتا کہ چلو کوئی بات نہیں پہلے اپنا کام ختم کر لیتے ہیں پھر نماز پڑھ لیں گے تو اس کا انتقال کچن میں ہوتا. لیکن ایک شخص کا انتقال اسی حالت میں ہوتا ہے جس پر وہ ساری زندگی گزارتا ہے اور اسی حالت میں وہ دوبارہ اٹھایا جائے گا. ہمارے آقا حضرت محمد
نے ارشاد فرمایا کہ ہر شخص اسی حالت میں اٹھایا جائے گا جس میں وہ فوت ہوا
آئیے آج ایک عہد کریں...
••#بہنوں_کےلئے : جیسے ہی اذان کی آواز سنائی دے سب کام ایک طرف رکھیں اور نماز کے لئے اٹھ کھڑی ہوں (زیادہ سے زیادہ 20 منٹ تک جو کہ اقامہ ٹائم بھی ہے) ہمارے آقا
سے کسی نے پوچھا کہ الله تعالٰی کے نزدیک سب سے محبوب عمل کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا نماز کو اس کے اولین وقت میں ادا کرنا.
بھائیوں_کےلئے : جیسے ہی آپ اذان کی آواز سنیں فوراً وضو کریں اور مسجد چلے جائیں. اپنے آپ کو یہ آیت بار بار یاد دلاتے رہیں

"وَعَجِلتُ اِلَیکَ رَبِّ لِتَرضٰی" (سورۃ طٰهٰ84)
ترجمہ_(اے پروردگار میں نے تیری طرف آنے میں جلدی کی تا کہ تو خوش ہو)

 

 

 

 

 

 

 

 

Sunday, March 1, 2020

Urdu Article : Aik Bohat Dilchasp dastan, Rishta kiun nahee kiya , Duniya ki Mohabbat, Allah daikh raha hay, Musalman Hukumran

Home Page  Urdu Islamic Article  HR Email Ids  Zikar Azkaar

Namaz Quran & Tableegh   School HR ID  Ulema Ikram Bayanat

Listen Quran Majeed   Read Quran Majeed   Social Media



JazakAllah for visiting this blog, InshaAllah you will get authentic information related to Islam on this blog. please click on the following link to get the link of Islamic Album, Islamic Videos, Quran Majeed, Dua, Islamic Bayan, Wazaif, Zikar Azkaar, Jobs, Jobs Website, Companies and Organization, Job Consultancy Firm, Articles, Medical and Health,  and other informative stuff


https://proudpakistaniblogging.blogspot.com/2018/05/all-time-best-post-of-sharing-is-caring.html







🌹*ایک بہت دلچسب داستان*🌹

میں اور میری بیوی سنار کی دوکان پر گئے سونے کی انگوٹھی خریدنے کے لئے ۔کچھ انگوٹھیاں دیکھنے کے بعد میری بیوی کو ایک انگوٹھی پسند آگئی ۔قیمت ادا کر کے جیسے ھی میں باہر نکلنے کیلئے مڑا تو ایک بارعب شخص سے ملاقات ھوئی جو کہ مجھے جانتے تھے لیکن میں ان کو بھول……چکا تھا بس اتنا یاد تھا کہ ماضی میں کبھی ان سے ملاقات ھوئی تھی ۔۔
یہ صاحب بڑی گرم جوشی سے میرے گلے ملے اور سوالیہ نظروں سے پوچھنے لگے "بیٹا لگتا ھے پہچاننے کی کوشش کر رھے ھیں آپ "
میں نے کہا معزرت کیساتھ آپ کا چہرہ جانا پہچانا لگ رہا ھے لیکن یاد نہیں آرہا کہ آپ سے کب ملاقات……ھوئی تھی ۔۔
وہ تھوڑا سا مسکرائے اور کہنے لگے میرا نام اقبال ھے ویسے لوگ مجھے بڑا بھائی کہتے ھیں ۔آج سے چند سال قبل آپ اپنی فیملی کے ساتھ ھمارے گھر آے تھے گلبرگ میں ھمارا گھر ھے شاید آپ کو یاد آگیا ھو ۔۔
انکی بات سن کر میرا تو سر ھی چکرا گیا ۔اور میرا رویہ بالکل مودبانہ ہوگیا اور میں بے اختیار بول پڑا سب یاد آگیا بڑے بھائی سب یاد آگیا ۔۔۔
میں نے سوال کیا آپ اکیلے ھیں یا آنٹی بھی آئی ھیں ۔
بڑے بھائی نے جواب دیا جی آنٹی بھی آئی ھیں اور دوسرے بھائی بھی آئے ھیں وہ بیٹھے ھیں آپ ان سے مل سکتے ھیں ۔۔۔
ایک سائید پر دیکھا تو آنٹی برقعہ پہنے……بیٹھی تھی اور ساتھ میں ھی دوسرے بھائی بھی کھڑے چہرے پر مسکراہٹ سجائے میری طرف دیکھ رھے تھے ۔۔
میں نے اپنی بیگم کو کہا کہ انٹی کو سلام کرو اور بعد میں انکا تعارف کرواتا ھوں ۔۔
میری بیگم گئی، آنٹی کو سلام کیا آنٹی نے بہت ھی اچھے طریقے سے میری بیوی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر……بہت ھی پیارے انداز میں میری بیوی کو دعائیں دیں ۔
میں نے آنٹی کو بتلایا کہ یہ میری بیوی ھے اور یہ میرا 3 سال کا بیٹا ھے ۔آنٹی بہت خوش ھوئیں اور اپنے بیٹے کی طرف آنکھوں ھی آنکھوں میں اشارہ کیا جس نے میری بیٹے کی جیب میں 1000 کا نوٹ ڈال دیا ۔میں نے بہت اصرار کیا کہ یہ غلط ھے……لیکن آنٹی نہ مانیں ۔
کچھ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں آنٹی سے آنے کا مقصد پوچھا تو آنٹی کہنے لگیں کہ اللہ نے میری بیٹی کو بیٹے کی نعمت سے نوازا ھے اس لئے بیٹی کے لئے اور انکے اہل خانہ کیلئے کچھ تحائف خریدنے آئیں ھیں ۔۔
میں نے پوچھا آنٹی کونسی بیٹی آپکی تو تمام بیٹیاں شادی……شدہ تھیں صرف ایک کنواری تھی جسکے رشتہ کیلئے ھم لوگ آئے تھے اور آپ لوگوں نے کہا تھا کہ ابھی 5 یا 10 سال تک شادی کا کوئی پروگرام نہیں ھے ۔۔حالانکہ مجھے حیرانگی ھوئی تھی کہ گھر پر رشتے کےلئے بلوا کر پھر کہہ دینا کہ 5 یا 10 سال تک شادی کا کوئی پروگرام نہیں کتنی غلط بات ھے ۔۔
……۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔آنٹی کو جیسے ایک جھٹکا لگا ۔۔لیکن وہ ایک سمجھدار خاتون تھیں فورا ھی سمجھ گئیں کہ بات کچھ اور ھے پوچھنے لگی کہ یہ بات آپ کو کس نے کہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا والد صاحب نے کہا تھا ۔۔تو وہ کہنے لگی نہیں ۔۔بات دراصل کچھ اور تھی لیکن آپ کے والد صاحب نے……آپ کا پردہ رکھا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔میرے اندر ایک تجسس پیدا ھو گیا کہ میرے والد صاحب ھم سے کیسے غلط بیانی کر سکتے ھیں اور میرے والد صاحب نے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا تھا ۔۔
آنٹی نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ مجھے میرے بیٹے کےساتھ اکیلا چھوڑ دیں اور میں نے بھی اپنی بیگم کو کہا کہ تم تھوڑا……سا وقت مجھے دو بچے کو کچھ کھلاو پلاو۔۔

آنٹی کہنے لگی بیٹا جس دن تم اور تمہارے اہل خانہ ھمارے گھر ھماری بیٹی کا رشتہ لینے آئے تھے میں نے اسی دن تمھارے رشتہ سے انکار کر دیا تھا جو کہ شاید تمھارے والدین نے تمہیں نہیں بتلایا ۔۔۔
تم ایک پڑھے لکھے اور معاشرے میں ایک کامیاب شخص……ثابت ھو سکتے ھو مجھے پہلے ھی علم تھا ۔۔
اور مجھے مکمل یقین تھا کہ میری بیٹی کو بھی تم خوش رکھو گے ۔۔
لیکن نئے لوگوں سے رشتہ جوڑنے کیلئے صرف لڑکے کو ھی نہیں دیکھا جاتا بلکہ۔اس کے مکمل خاندان کو دیکھا جاتا ھے ۔کیونکہ ھم نے مستقبل میں آپس میں میل جول رکھنا ھوتا ھے اسلئے لڑکے……یا لڑکی کے گھرانے والوں کو دیکھ کر مستبقل کا تعین کیا جاتا ھے کہ یہ گھرانہ مستقبل میں کتنا کامیاب رشتہ نبھا سکتا ھے کیونکہ۔زندگی میں اتار چڑھاو آتے رھتے ھیں اور ان حالات میں ھمکو کسی اپنے کی ضرورت ھوتی ھے اسلئے ھم کسی ایسے سے رشتہ نہیں جوڑتے جو خوشیوں میں ھمارے ساتھ ہو لیکن……حالات کے خراب ھوتے ھی وہ ھم سے جدا ھو جائے ۔۔
اس لئے میں نے اس دن آپکے والد صاحب اور والدہ صاحبہ کو صاف صاف انکار کر دیا تھا ۔۔ہوسکتا ھے کہ انہوں نے آپ کو درست بات نہ بتلائی ھو۔۔

۔۔۔۔۔آنٹی کی باتیں سن کر میں مزید پریشان ھو گیا اور میں نے کہا کہ آنٹی ھم بہن بھائی آپس میں……ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ھیں خوشی اور غم میں برابر کے شریک ھوتے ھیں کبھی ایسا نہی ھوا کہ ھم میں سے کسی کو ایک۔دوسرے سے کوئی۔شکایت ھو ۔۔۔اگر آپ برا محسوس نہ کریں تو میں 100فیصد درست ہوں کہ آپ کو ھمارے خاندان کو پرکھنے میں غلطی ھوئی ھے ۔۔

آنٹی نے ایک سرد آہ لی اور کہا بیٹے……ابھی تم بہت چھوٹے ہو جو چیزیں میں دیکھ سکتی ھوں تم انکی طرف کبھی سوچ بھی نہیں سکتے ۔۔۔
میرے استفسار پر آنٹی نے کہا کہ میرا اندازہ کبھی غلط نہیں ھوتا ۔۔
چلو میں تمکو بتلاتی ھوں ۔۔۔
میں نے اپنی بیٹی کےلئے جتنے بھی رشتے دیکھے ھیں ان سے کچھ شرائط رکھی ھیں جو بھی میری بیٹی کو……دیکھنے آئے ۔
وہ اپنے تمام بیٹوں اور انکی بیگمات کو ساتھ لائیں ۔۔
جو سب سے اچھے کپڑے ہوں وہ زیب تن کر کے آئیں ۔
گھر کی عورتیں اپنے مکمل زیورات سے سج کر آئیں ۔
اگر گھر میں ھر فرد کی اپنی اپنی گاڑی ھے تو وہ اپنی اپنی گاڑی میں آئیں ۔۔۔

یہ شرائط بہت عجیب تھیں ۔۔لیکن بعض……لوگوں نے اسکا یہ۔مطلب لیا کہ شاید ھم لڑکے والوں کی مالی حالت دیکھنا چاہتے ھیں ۔۔لیکن ایسی بات نہیں ہے ۔۔۔
اب جب آپ کے اہل خانہ ھمارے گھر تشریف لاے تھے تو میں نے سب سے پہلے تمھارے دونوں بھائیوں کی گاڑیاں دیکھیں جو کہ قدر مہنگی تھی جبکہ تمھارے والد صاحب کی گاڑی کی مالیت اتنی……نہیں تھی جتنی تمھارے دونوں بھائیوں کی گاڑیوں کی قیمت تھی ۔۔
اسیطرح پھر میں نے تمھارے والد صاحب کے کپڑوں کا جائزہ لیا تو مجھے محسوس ھوا کہ تمھارے بھائیوں کے جسموں پر سجے ھوے کپڑے زیادہ مہنگے ھیں اور یہی حال تمھارے والد صاحب کے جوتوں کا تھا ۔۔
جب میں نے تمھاری ماں کے زیورات……دیکھے تو ان کی مقدار بہت ھی کم۔تھی جبکہ تمھاری دونوں بھابھیوں کے ہاتھ بازو اور گلے زیورات سے سجے ھوئے تھے ۔۔۔
پھر میں نے جب تمھاری بھابھیوں سے پوچھا کہ گھر کا کھانا کون پکاتا ھے تو تمھاری بھابھئوں نے کہا کہ ھم سب علیحدہ علیحدہ پکاتے ھیں اور تمھارے والدین کا کھانا تمھاری بہن……پکاتی ھے ۔۔
اسی طرح میں نے جب پوچھا کہ بچوں کو سکول کون چھوڑتا ھے تو مجھے پتہ چلا کہ تمھارے دونوں بھائی اپنے بچوں کو خود چھوڑتے ھیں جبکہ تمھاری بہن کو تمھارے والد صاحب کالج لے کر جاتے ھیں۔
جب میں نے یہ حالات دیکھے اور سنے تو مجھے افسوس ھوا ان بیٹوں پر جنکو پڑھانےکے لئے ……باپ نے اپنی ساری زندگی گنوا دی اور اس اولاد کو معاشرے کا کامیاب فرد بنایا لیکن جب اولاد کی باری آئی تو اولاد والد کا سہارا ببنے کی بجاے اپنی زندگی گزارنے پر رضامند ھو گئی ۔۔
تمھارے باپ نے تمھارے لئے بھوک افلاس بھی دیکھا ھوگا ۔
پیدل سفر بھی کیا ھوگا ۔
تمھارے منہ میں……نوالہ ڈالنے کیلئے بھوک بھی برداشت کی ہوگی۔
تمہیں اچھا پہنانے کیلئے خود دو تین سال ایک ہی جوڑے میں بھی گزارے ھو نگیں ۔۔
لیکن جب اولاد کی باری آئی تو اولاد باپ کو بھول گئی اور اپنی دنیا کی رنگ رلیوں میں مگن ہوگئی ۔۔
تمھارے بھائیوں نے خود تو نئی گاڑی لے لی لیکن انکو خیال……نہ آیا کہ ھمارا باپ آج بھی اسی پرانی گاڑی میں سفر کیوں کرتا ھے کیونکہ اس پر ابھی بھی تمھاری بہن کی اور تمھاری زمہ داری ھے ۔۔
اسکا بھی دل کرتا ھوگا نئے جوتے اور نئے کپڑے پہننے کو لیکن ہو سکتا ھے اسکی جیب اس چیز کی اجازت نہ دیتی ہو ۔۔لیکن تمھارے بھائیوں کی جیب تو اجازت دیتی……تھی کہ اپنے باپ کیلئے اچھا لباس اچھا جوتا پہلے خریدتے اور اپنے لئے بعد میں کیونکہ یہ رویہ تمھارے باپ کا تھا جب بھی اس نے کوئی چیز خریدنا چاھی پہلے اپنی اولاد کا خیال کیا بعد میں اپنا سوچا ۔۔
اسی لئے میں نے یہ ساری باتیں اسی دن تمھارے والد سے کر دیں تھیں ۔ھمیں دنیا کی مال و……دولت نہی چاہئے ھمیں تو ایسے رشتہ دار چاھئیں جو اپنے سے بڑھ کر اپنے رشتہ داروں کو ترجیح دیں تاکہ کل کو جب ھم نیچے گریں تو ھمکو مزید نیچے دبانے کی بجاے اوپر کو اٹھائیں تاکہ کل کو جب وہ نیچے گریں تو ھم انکو بھی سہارا دیں سکیں ۔۔۔
مال و دولت اعلی عہدہ یا مرتبہ تو ھمیشہ نہیں……رھتا ۔۔
ھمیشہ جو ساتھ چلتے ھیں وہ سچے رشتے چلتے ھیں اور اگر رشتے بنانے میں ھم سے تھوڑی سی بھی غلطی ھو جاے تو ساری زندگی بھی تباہ ھو سکتی ھے اور نسلیں بھی تباہ ھو جایا کرتی ھیں ۔۔۔

مجھے فخر ہے آپ کے والد صاحب پر کہ انھوں نے آپ کو حقیقت سے آگاہ نہیں کیا اور پھر بھی آپ……لوگوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالتے رھے لیکن دیکھنا یہ ھے کہ اولاد اپنے والدین کا کتنا خیال رکھتی ھے والدین تو ھمیشہ سے ھی اولاد کے لئے قربانیاں دیتے آئے ھیں ۔۔
ابھی اولاد کی باری ھے اور مجھے فخر ھے اپنی اولاد پر کہ آج کچھ بھی ھو جائے میری اولاد مجھے ھمیشہ ترجیح دیتی ھے میرے لئے……پہلے خریدتی ھے بعد میں اپنے بیوی بچوں کیلئے کچھ خریدا جاتا ھے اور مجھے فخر ھے اپنی اولاد کی اولاد پر کہ وہ بھی اپنے والدین کو اپنی زندگیوں سے زیادہ ترجیح دیتی ھے اور ھمارا پورا خاندان ایک جان کی مانند ھے اگر کسی کو کسی بھی چیز کی ضرورت پڑ جائے تو پیٹھ دکھا کر نہی بھاگتے بلکہ……ضرورت سے زیادہ لے کر آتا ھے ۔۔۔۔

اس لئے میرے بیٹے رشتے بنانا بہت آسان ھے لیکن کامیاب رشتے چننا اور انکو نبھانا بہت مشکل ھے ۔۔کہیں ایک نا اہل رشتہ آپ کو اتنا بڑا نقصان دے سکتا ھے کہ ساری عمر کی۔خوشیاں غموں میں تبدیل ھو سکتی ھیں اور کامیاب رشتہ آپ کو ایسا سہارا دے سکتا ھے کہ……تمام زندگی کے غم خوشیوں میں تبدیل ھو سکتے ھیں۔۔۔

اتنی بات کرنے کے بعد آنٹی اٹھ کر چلی گئیں ۔۔اور میری آنکھوں کے سامنے میرے والدین کا چہرہ گھومنے لگا ۔میری گاڑی میرے والد کی گاڑی سے بہتر تھی ۔میرا لباس میرے والد کے لباس سے بہتر تھا ۔میرے گھر کی زیب و زینت کا سامان میرے……والد کے گھر سے بہتر تھا ۔میری بیوی ہاتھ میں سونے کی چوڑیاں اور کنگن تھے جو میں نے خرید کر دئے تھے لیکن میری ماں کا سارا زیور بک چکا تھا میں آج بھی گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر لیکن میرا باپ آج بھی اولاد کی زمہ داریاں نبھا رہا تھا۔
میں نے آج بھی اپنی بیوی کیلئے سونے کی……انگھوٹھی خریدی لیکن میرے ذھن میں میری ماں کا خیال کیوں نہ آیا جس نے میری شادی کے لئے اپنا زیور بیچ دیا ۔۔

مجھے افسوس ھوا اپنے آپ پر کہ میں نے اپنے والدین سے زیادہ اپنی ذات کو ترجیح دی ھے میرے والدین جنہوں نے مجھے سب کچھ دیا اور میں نے ان سے سب کچھ لے کر ان کو خالی کر دیا……لیکن کبھی انہوں نے مجھ سے کوئی گلہ یا شکوہ نہی کیا ۔۔۔
میرے والدین کل بھی عظیم تھے اور آج بھی عظیم ھیں اور میں کل بھی ناکام تھا اور آج بھی ناکام ھوں ۔


Please read till End

جنازے میں صرف پچاس ساٹھ لوگ تھے، سلام پھیرا گیا، مولوی صاحب نے دعا کرائی اور لوگوں نے تعزیت کے لیے لواحقین کی تلاش میں دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا،

مرحوم کا ایک ہی بیٹا تھا، وہ لندن میں تھا، وہ وقت پر پاکستان نہ پہنچ سکا چنانچہ وہاں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جس سے پرسا کیا جا سکتا، لوگوں نے چند لمحے انتظار کیا اور پھر گرمی کی وجہ سے ایک ایک کر کے چھٹنے لگے،

تدفین کا وقت آیا تو قبرستان میں صرف چھ لوگ تھے، مستنصر حسین تارڑ، یہ مرحوم کے عزیز ترین دوست تھے۔ یہ وہاں موجود تھے، دوسرا شخص مرحوم کا پبلشر تھا، یہ پچھلی دو دہائیوں سے ان کی کتابیں چھاپ رہا تھا لہٰذا یہ بھی وہاں رک گیا اور باقی چار لوگ گھریلو ملازم تھے، یہ آخری وقت تک صاحب کا ساتھ دینا چاہتے تھے،

میت اٹھائی گئی، قبر میں رکھی گئی، مٹی ڈالی گئی، تازہ مٹی میں درخت کی سبز شاخ بھی ٹھونک دی گئی،

گورکن نے قبر پر چھڑکاؤ کیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے، تدفین میں مصروف لوگوں نے بھی ہاتھ جھاڑے اور دعا میں شامل ہو گئے اور یوں ملک کے سب سے بڑے ادیب، بڑے ناول نگار کا سفر حیات اختتام پذیر ہو گیا، ایک کہانی تھی جو4 جولائی 2015ء کو ڈی ایچ اے لاہور کے قبرستان میں دفن ہو گئی۔

یہ کون تھا؟ یہ " عبداللہ حسین " تھے،

وہ عبداللہ حسین جن کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں، پاکستان نے 68 سالوں میں بین الاقوامی سطح کا صرف ایک ناول نگار پیدا کیا اور وہ ناول نگار عبداللہ حسین تھے،

عبداللہ حسین 14 اگست 1931ء میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے، اصل نام محمد خان تھا، سولہ سال کی عمر میں ہندوستان کی تقسیم دیکھی، قیام پاکستان کے دوران انسان کا ایسا بھیانک چہرہ سامنے آیا کہ مذہب، انسانیت اور اخلاقیات تینوں سے اعتبار اٹھ گیا اور وہ مذہب اور انسانیت دونوں کے باغی ہو گئے۔

تقسیم کے واقعات نے عبداللہ حسین کے ذہن پر خوفناک اثرات چھوڑے، وہ 1952ء میں داؤدخیل کی سیمنٹ فیکٹری میں بطور انجینئر کام کرتے تھے، انھوں نے وہاں قلم اٹھایا اور ’’اداس نسلوں‘‘ کے نام سے اردو زبان کا ماسٹر پیس تخلیق کر دیا،

یہ ناول محض ایک ناول نہیں تھا، یہ ان نسلوں کا نوحہ تھا جنھوں نے تقسیم ہند کے دوران پرورش پائی اور یہ کندھوں پر اداسی کی صلیب اٹھا کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوئیں، یہ ناول ایک تہلکہ تھا، یہ تہلکہ پاکستان میں بھی چھپا اور سرحد پار ہندوستان میں بھی۔

’’اداس نسلیں‘‘ آج تک اردو کا شاندار ترین ناول ہے، یہ ناول عبداللہ حسین نے 32 سال کی عمر میں لکھا، صدر پاکستان ایوب خان نے انھیں 34 سا کی عمر میں ادب کا سب سے بڑا اعزاز ’’آدم جی ایوارڈ‘‘ دیا

یہ برطانیہ شفٹ ہو گئے، یہ 40 سال برطانیہ رہے، برطانیہ میں قیام کے دوران مزید دو ناول لکھے، دو ناولٹ بھی تخلیق کیے اوردرجنوں افسانے بھی لکھے، عبداللہ حسین نے ایک ناول انگریزی زبان میں بھی لکھا، یہ سارے افسانے، یہ سارے ناولٹ اور یہ سارے ناول ماسٹر پیس ہیں۔
یہ خون کے سرطان میں مبتلا تھے، بیماری سے لڑتے رہے یہاں تک کہ 4 جولائی 2015ء کو 84 سال کی عمر میں لاہور میں انتقال فرما گئے،

بیگم کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے، وہ برطانیہ میں ہی رہ گئیں،

بیٹا لندن میں رہتا تھا، وہ جنازے پر نہ پہنچ سکا، عطاء الحق قاسمی نے احباب کو اطلاع دی، یوں پچاس ساٹھ لوگ ملک کے سب سے بڑے ادیب کی آخری رسومات میں شریک ہو گئے، یہ المیہ عبداللہ حسین کی موت کے المیے سے بھی بڑا المیہ تھا۔

ہم لوگ اس المیے سے دو سبق سیکھ سکتے ہیں، ایک سبق ہم عام لوگوں کے لیے ہے اور دوسرا ریاست کے لیے۔ ہم لوگ بہت بدقسمت ہیں، ہم کام، شہرت اور دولت کی دھن میں خاندان کو ہمیشہ پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، ہم کیریئر بناتے رہتے ہیں، شہرت سمیٹتے رہتے ہیں اور اس دوڑ کی دھوپ ہمارے خاندان کی موم کو پگھلاتی رہتی ہے یہاں تک کہ جب زندگی کی شام ہوتی ہے تو ہمارے طاقوں میں پگھلی ہوئی موم کی چند یادوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا،

میں بے شمار ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنے بچوں کے بچپن کو اس لیے انجوائے نہ کر سکے کہ یہ بچوں کے اعلیٰ مستقبل کے لیے سرمایہ جمع کر رہے تھے۔

بچے بڑے ہوئے تو انھوں نے اپنی پوری جمع پونجی لگا کر بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر بھجوا دیا، بچے جہاں گئے وہ وہاں سے واپس نہ آئے اور یوں ان کے جنازے ملازمین ہی نے پڑھے اور ملازمین ہی نے انھیں دفن کیا،

میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو پوری زندگی شہرت جمع کرتے کرتے مر گئے اور ان کے جنازے میں ان کا کوئی عزیز، رشتے دار اور دوست تھا اور نہ ہی وہ لوگ جو زندگی میں ان کے ہاتھ چومتے تھے اور اپنی ہتھیلیوں پر ان کے آٹو گراف لیتے تھے۔

میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے جو امن، انصاف، خوش حالی اور مطمئن زندگی کے لیے خاندان کو ملک سے باہر لے گئے، آخر میں خود واپس آ گئے، خاندان وہیں رہ گیا اور جب انتقال ہوا تو بچوں کو چھٹی ملی اور نہ ہی فلائیٹ

اور میں ایسے لوگوں سے بھی واقف ہوں جو زندگی میں غرور کا غ ہوتے تھے، جنھوں نے زندگی اقتدار کا الف اور شہرت کی ش بن کر گزاری لیکن جب یہ مرے تو دس دس سال تک کوئی ان کی قبر پر فاتحہ کے لیے نہ آیا، کسی نے ان کے سرہانے دیا تک نہ جلایا

چنانچہ پہلا سبق یہ ہے، آپ اپنی اولاد، اپنے خاندن کو کبھی تعلیم، روزگار، کام، شہرت، اقتدار اور سیکیورٹی کے نام پر اپنے آپ سے اتنا دور نہ کریں کہ یہ آپ کے جنازے میں شریک نہ ہو سکیں اور آپ کی قبریں دس دس سال تک ان کے قدموں کو ترستی رہیں۔،آپ کو اپنے فکری زوال اور مغربی دنیا کے ذہنی عروج کی وجوہات معلوم ہو جائیں گی


انسان اگر گناہ کرنے سے پہلے سے ایک بار یہ سوچ لے کہ ایک زات ہے جو ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اگر انسان سوچ لے کہ اللّٰہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں تو وہ گناہ سے بچ جاتا، انسان اگر اکیلا ہے تو وہ اکیلا انہیں وہاں اللّٰہ تعالیٰ بھی ہے اگر 2 ہے تو وہ 2 نہیں وہاں اللّٰہ بھی اللّٰہ تعالیٰ ہر جگہ ہماری سوچ سے بھی زیادہ قریب ہے ہم سوچنے والے ہوتے ہیں اس رب کو پتا چل جاتا وہ بڑا حکمت والا سب کچھ جاننے والا ہے!
جب انسان بذات خود اپنے آپ میں خامیاں غلطیاں گناہ جب ڈھونڈنے لگ جاۓ گا اور اپنے نفس کو کنٹرول کر کے ان غلطیوں کو ٹھیک کر کے اسلام کے مطابق چلے گا اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تو سارا معاشرہ خودبخود ٹھیک ہو جاۓ گا....!! دوسروں کی غلطی نکالنے کی بجائے اگر ہم خود کے گریبان میں جھانک کر ان غلطیوں کو ٹھیک کرنا شروع کر دیں اپنی "میں" ختم کر لے تو انسان کامیاب ہو جاتا اگر اس "میں" کو ختم کر کے ہم اللّٰہ تعالیٰ کے حکم نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کی پیروی شروع کر دیں تو دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی ہی کامیابی ہے انشاءاللہ...…!!
=======================================================================================

مسلمان_اور_عدالتی_نظام
.
ثمرقند سے طویل سفر طے کر کے آنے والا قاصد ، سلطنت اسلامیہ کےحکمران سے ملنا چاہتا تھا۔

اس کے پاس ایک خط تھا جس میں غیر مسلم پادری نے مسلمان سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کی شکایت کی تھی۔

پادری نے لکھا !
"ہم نے سنا تھا کہ مسلمان جنگ اور حملے سے پہلے قبول اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر دعوت قبول نہ کی جائے تو جزیہ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر کوئی ان دونوں شرائط کو قبول کرنے سے انکار کرے تو جنگ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔

مگر ہمارے ساتھ ایسا نہیں کیا گیااور اچانک حملہ کر کے ہمیں مغلوب کر لیا گیا ہے۔

یہ خط ثمر قند کے سب سے بڑے پادری نے اسلامی سلطنت کے فرماں روا عمر بن عبد العزیز کے نام لکھا تھا۔

دمشق کے لوگوں سے شہنشاہ وقت کی قیام گاہ کا معلوم کرتے کرتے وہ قاصد ایک ایسے گھر جا پہنچا کہ جو انتہائی معمولی اور خستہ حالت میں تھا۔ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا تھا اور نیچے کھڑی ایک عورت گارا اُٹھا کر اُسے دے رہی تھی۔

جس راستے سے آیا تھا واپس اُسی راستے سے اُن لوگوں کے پاس جا پہنچا جنہوں نے اُسے راستہ بتایا تھا۔
اُس نے لوگوں سے کہا میں نے تم سے اسلامی سلطنت کے بادشاہ کا پتہ پوچھا تھا نہ کہ اِس مفلوک الحال شخص کا جس کے گھر کی چھت بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔

لوگوں نے کہا،ہم نے تجھے پتہ ٹھیک ہی بتایا تھا، وہی حاکم وقت عمر بن عبد العزیز کا گھر ہے ۔

قاصد پر مایوسی چھا گئی اور بے دلی سے دوبارہ اُسی گھرپر جا کر دستک دی،جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کر رہا تھا وہی اند ر سے نمودار ہوا۔

قاصدنے اپنا تعارف کرایا اور خط عمر بن عبدالعزیز کو دے دیا۔

عمر بن عبدالعزیز نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر لکھا :
عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام؛ ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے۔ مہر لگا کر خط واپس قاصدکو دیدیا۔

سمرقند لوٹ کر قاصدنے خط کا جواب اور ملاقات کا احوال جب پادری کو سنایا ، توپادری بھی مایوس اور افسردہ ہو گیا ۔
اس نے سوچا کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا ؟اُنہیں یقین تھا کاغذ کا یہ ٹکڑا اُنہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔

مگر کوئی اور راستہ بھی نہ تھا چنانچہ خط لیکر ڈرتے ڈرتے امیر لشکر اور حاکم ثمرقند کے پاس پہنچے ۔
حاکم نے خط پڑھتے ہی فورا ایک قاضی کا تعین کردیا جو اس کے اپنے خلاف سمرقندیوں کی شکایت سن سکے۔

قاضی نے پادری سے پوچھا، کیا دعویٰ ہے تمہارا ؟

پادری نے کہا : قتیبہ کے لشکر نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اِس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔

قاضی نے حاکم کو دیکھ کر پوچھا، کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں ؟

حاکم نے کہا : قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے۔
سمرقند ایک عظیم ملک تھا، اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے، بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔

سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کر لیا۔

قاضی نے حاکم کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا : میری بات کا جواب دو، تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی ؟

حاکم نے کہا : نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔

قاضی نے کہا : میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔
اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو عدل و انصاف کی وجہ سے ہی بخشی ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے۔

میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور انکے عہدہ داران بمع اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک اور مال غنیمت چھوڑ کر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔
اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیئے بغیر نہ آیا جائے۔

پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا وہ ناقابل یقین تھا۔چند گھنٹوں کے اندر ہی مسلمانوں کا عظیم لشکر قافلہ در قافلہ شہر کو چھوڑ کے جا چکا تھا۔

ثمر قندیوں نے اپنی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا کہ جب طاقتور فاتح قوم کمزور اور مغلوب قوم کو یوں دوبارہ آزادی بخش دے۔

ڈھلتے سورج کی روشنی میں لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے کہ یہ کیسا مذہب اور کیسے پیروکار ہیں ۔ عدل کا یہ معیار کہ اپنوں کے خلاف ہی فیصلہ دے دیں۔ اور طاقتور سپہ سالار اس فیصلہ پہ سر جھکا کر عمل بھی کر دے۔

تاریخ گواہ ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں پادری کی قیادت میں تمام شہر کے لوگ گھروں سے نکل کر لشکر کے پیچھے سرحدوں کی طرف دوڑے اور لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے ہوئے اُن کو واپس لے آئے کہ یہ آپ کی سلطنت ہے اور ہم آپ کی رعایا بن کر رہنا اپنے لئے ٖفخر سمجھیں گے۔

دینِ رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصہ تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔

کبھی رہبر دو عالم حضرت محمد ﷺ کی امت ایسی ہوا کرتی تھی۔ آج غیر مسلم تو دور کی بات ،مسلمان سے مسلمان کو کوئی امان نہیں۔

*بقول اقبال*👇👇👇👇
اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ ایک گردوں تھا جس کا تو ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا آغوش محبت میں
*کچل ڈالا تو نے پاوں میں تاج سردار+




ایک نو سال کا بچہ مسجد کے کونے میں بیٹھےمہنگے موبائل فون خریدنے والو اس پیغام کو ضرور پڑھیں 😢😢
چھوٹی بہن کے ساتھ بیٹھا
ہاتھ اٹھا کر اللہ پاک سے نہ
جانے کیا مانگ رہا تھا؟

کپڑوں میں پیوند لگا تھا
مگر
نہایت صاف تھے
اس کے ننھےننھے سے گال آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے

بہت سے لوگ اس کی طرف متوجہ تھے
اور
وہ بالکل بےخبر اللہ پاک سے باتوں میں لگا ھوا تھا
جیسے ہی وہ اٹھا
ایک اجنبی نے بڑھ کر اسکا ننھا سا ہاتھ پکڑا
اور پوچھا
اللہ پاک سے کیا مانگ رھے ھو؟
اس نے کہا کہ 
میرے ابو مر گۓ ھیں
ان کےلئے جنت

میری امی ہر وقت
روتی رہتی ھے
اس کے لئے صبر

میری بہن ماں سے کپڑے مانگتی ھے
اس کے لئے رقم

اجنبی نے سوال کیا

کیا آب سکول جاتے ھو؟
بچے نے کہا
ہاں جاتا ھوں
اجنبی نے پوچھا
کس کلاس میں پڑھتے ھو؟
نہیں انکل پڑھنے نہیں جاتا
ماں چنے بنا دیتی ھے
وہ سکول کے بچوں کو فروخت کرتا ھوں
بہت سارے بچے مجھ سے چنے خریدتے ھیں
ہمارا یہی کام دھندا ھے
بچے کا ایک ایک لفظ میری روح میں اتر رھا تھا

تمہارا کوئ رشتہ دار
اجنبی نہ چاہتے ھوۓ بھی بچے سے پوچھ بیٹھا؟
امی کہتی ھے غریب کا کوئ رشتہ دار نہیں ھوتا
امی کبھی جھوٹ نہیں بولتی
لیکن انکل جب ھم 
کھانا کھا رہے ھوتےہیں
اور میں کہتا ھوں
امی آپ بھی کھانا کھاؤ تو
وہ کہتی ھیں میں نے
کھالیا ھے
اس وقت لگتا ھے
وہ جھوٹ بول رھی ھیں.

بیٹا اگر گھر کا خرچ مل جاۓ تو تم پڑھوگے؟
بچہ:بالکل نہیں
کیونکہ تعلیم حاصل کرنے والے غریبوں سے نفرت کرتے ھیں
ہمیں کسی پڑھے ھوۓ نے کبھی نہیں پوچھا
پاس سے گزر جاتے ھیں
اجنبی حیران بھی تھا
اور
پریشان بھی
پھر اس نے کہا کہ
ہر روز اسی مسجد میں آتا ھوں
کبھی کسی نے نہیں پوچھا
یہاں تمام آنے والے میرے والد کو جانتے تھے
مگر
ہمیں کوئی نہیں جانتا
بچہ زور زور سے رونے لگا
انکل جب باپ مر جاتا ھے تو سب اجنبی بن جاتے ھیں
میرے پاس بچے کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا

ایسے کتنے معصوم ھوں گے
جو حسرتوں سے زخمی ھیں

بس ایک کوشش کیجۓ
اور
اپنے اردگرد ایسے ضروت مند
یتیموں اور بےسہارا کو
ڈھونڈئے
اور
ان کی مدد کیجئے

موبائل اور لوڈ کے دینے سے پہلے اپنے آس پاس کسی غریب کو دیکھ لیں

شاید اسکو آٹے کی بوری زیادہ ضرورت ھو

تصویر یا ویڈیو بھیجنے کی جگہ یہ میسج کم ازکم ایک یا دو گروپ میں ضرور شئیر کریں

خود میں اور معاشرے میں تبدیلی لانے کی کوشش جاری رکھیں جزاک










.