Home Page Urdu Islamic Article HR Email Ids Zikar Azkaar
Namaz Quran & Tableegh School HR ID Ulema Ikram Bayanat
Listen Quran Majeed Read Quran Majeed Social Media
JazakAllah for visiting this blog, InshaAllah you will get authentic information related to Islam on this blog. please click on the following link to get the link of Islamic Album, Islamic Videos, Quran Majeed, Dua, Islamic Bayan, Wazaif, Zikar Azkaar, Jobs, Jobs Website, Companies and Organization, Job Consultancy Firm, Articles, Medical and Health, and other informative stuff
https://proudpakistaniblogging.blogspot.com/2018/05/all-time-best-post-of-sharing-is-caring.html
*ایک بہت دلچسب داستان*
میں اور میری بیوی سنار کی دوکان پر گئے سونے کی انگوٹھی خریدنے کے لئے ۔کچھ انگوٹھیاں دیکھنے کے بعد میری بیوی کو ایک انگوٹھی پسند آگئی ۔قیمت ادا کر کے جیسے ھی میں باہر نکلنے کیلئے مڑا تو ایک بارعب شخص سے ملاقات ھوئی جو کہ مجھے جانتے تھے لیکن میں ان کو بھول……چکا تھا بس اتنا یاد تھا کہ ماضی میں کبھی ان سے ملاقات ھوئی تھی ۔۔
یہ صاحب بڑی گرم جوشی سے میرے گلے ملے اور سوالیہ نظروں سے پوچھنے لگے "بیٹا لگتا ھے پہچاننے کی کوشش کر رھے ھیں آپ "
میں نے کہا معزرت کیساتھ آپ کا چہرہ جانا پہچانا لگ رہا ھے لیکن یاد نہیں آرہا کہ آپ سے کب ملاقات……ھوئی تھی ۔۔
وہ تھوڑا سا مسکرائے اور کہنے لگے میرا نام اقبال ھے ویسے لوگ مجھے بڑا بھائی کہتے ھیں ۔آج سے چند سال قبل آپ اپنی فیملی کے ساتھ ھمارے گھر آے تھے گلبرگ میں ھمارا گھر ھے شاید آپ کو یاد آگیا ھو ۔۔
انکی بات سن کر میرا تو سر ھی چکرا گیا ۔اور میرا رویہ بالکل مودبانہ ہوگیا اور میں بے اختیار بول پڑا سب یاد آگیا بڑے بھائی سب یاد آگیا ۔۔۔
میں نے سوال کیا آپ اکیلے ھیں یا آنٹی بھی آئی ھیں ۔
بڑے بھائی نے جواب دیا جی آنٹی بھی آئی ھیں اور دوسرے بھائی بھی آئے ھیں وہ بیٹھے ھیں آپ ان سے مل سکتے ھیں ۔۔۔
ایک سائید پر دیکھا تو آنٹی برقعہ پہنے……بیٹھی تھی اور ساتھ میں ھی دوسرے بھائی بھی کھڑے چہرے پر مسکراہٹ سجائے میری طرف دیکھ رھے تھے ۔۔
میں نے اپنی بیگم کو کہا کہ انٹی کو سلام کرو اور بعد میں انکا تعارف کرواتا ھوں ۔۔
میری بیگم گئی، آنٹی کو سلام کیا آنٹی نے بہت ھی اچھے طریقے سے میری بیوی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر……بہت ھی پیارے انداز میں میری بیوی کو دعائیں دیں ۔
میں نے آنٹی کو بتلایا کہ یہ میری بیوی ھے اور یہ میرا 3 سال کا بیٹا ھے ۔آنٹی بہت خوش ھوئیں اور اپنے بیٹے کی طرف آنکھوں ھی آنکھوں میں اشارہ کیا جس نے میری بیٹے کی جیب میں 1000 کا نوٹ ڈال دیا ۔میں نے بہت اصرار کیا کہ یہ غلط ھے……لیکن آنٹی نہ مانیں ۔
کچھ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں آنٹی سے آنے کا مقصد پوچھا تو آنٹی کہنے لگیں کہ اللہ نے میری بیٹی کو بیٹے کی نعمت سے نوازا ھے اس لئے بیٹی کے لئے اور انکے اہل خانہ کیلئے کچھ تحائف خریدنے آئیں ھیں ۔۔
میں نے پوچھا آنٹی کونسی بیٹی آپکی تو تمام بیٹیاں شادی……شدہ تھیں صرف ایک کنواری تھی جسکے رشتہ کیلئے ھم لوگ آئے تھے اور آپ لوگوں نے کہا تھا کہ ابھی 5 یا 10 سال تک شادی کا کوئی پروگرام نہیں ھے ۔۔حالانکہ مجھے حیرانگی ھوئی تھی کہ گھر پر رشتے کےلئے بلوا کر پھر کہہ دینا کہ 5 یا 10 سال تک شادی کا کوئی پروگرام نہیں کتنی غلط بات ھے ۔۔
……۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔آنٹی کو جیسے ایک جھٹکا لگا ۔۔لیکن وہ ایک سمجھدار خاتون تھیں فورا ھی سمجھ گئیں کہ بات کچھ اور ھے پوچھنے لگی کہ یہ بات آپ کو کس نے کہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا والد صاحب نے کہا تھا ۔۔تو وہ کہنے لگی نہیں ۔۔بات دراصل کچھ اور تھی لیکن آپ کے والد صاحب نے……آپ کا پردہ رکھا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔میرے اندر ایک تجسس پیدا ھو گیا کہ میرے والد صاحب ھم سے کیسے غلط بیانی کر سکتے ھیں اور میرے والد صاحب نے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا تھا ۔۔
آنٹی نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ مجھے میرے بیٹے کےساتھ اکیلا چھوڑ دیں اور میں نے بھی اپنی بیگم کو کہا کہ تم تھوڑا……سا وقت مجھے دو بچے کو کچھ کھلاو پلاو۔۔
آنٹی کہنے لگی بیٹا جس دن تم اور تمہارے اہل خانہ ھمارے گھر ھماری بیٹی کا رشتہ لینے آئے تھے میں نے اسی دن تمھارے رشتہ سے انکار کر دیا تھا جو کہ شاید تمھارے والدین نے تمہیں نہیں بتلایا ۔۔۔
تم ایک پڑھے لکھے اور معاشرے میں ایک کامیاب شخص……ثابت ھو سکتے ھو مجھے پہلے ھی علم تھا ۔۔
اور مجھے مکمل یقین تھا کہ میری بیٹی کو بھی تم خوش رکھو گے ۔۔
لیکن نئے لوگوں سے رشتہ جوڑنے کیلئے صرف لڑکے کو ھی نہیں دیکھا جاتا بلکہ۔اس کے مکمل خاندان کو دیکھا جاتا ھے ۔کیونکہ ھم نے مستقبل میں آپس میں میل جول رکھنا ھوتا ھے اسلئے لڑکے……یا لڑکی کے گھرانے والوں کو دیکھ کر مستبقل کا تعین کیا جاتا ھے کہ یہ گھرانہ مستقبل میں کتنا کامیاب رشتہ نبھا سکتا ھے کیونکہ۔زندگی میں اتار چڑھاو آتے رھتے ھیں اور ان حالات میں ھمکو کسی اپنے کی ضرورت ھوتی ھے اسلئے ھم کسی ایسے سے رشتہ نہیں جوڑتے جو خوشیوں میں ھمارے ساتھ ہو لیکن……حالات کے خراب ھوتے ھی وہ ھم سے جدا ھو جائے ۔۔
اس لئے میں نے اس دن آپکے والد صاحب اور والدہ صاحبہ کو صاف صاف انکار کر دیا تھا ۔۔ہوسکتا ھے کہ انہوں نے آپ کو درست بات نہ بتلائی ھو۔۔
۔۔۔۔۔آنٹی کی باتیں سن کر میں مزید پریشان ھو گیا اور میں نے کہا کہ آنٹی ھم بہن بھائی آپس میں……ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ھیں خوشی اور غم میں برابر کے شریک ھوتے ھیں کبھی ایسا نہی ھوا کہ ھم میں سے کسی کو ایک۔دوسرے سے کوئی۔شکایت ھو ۔۔۔اگر آپ برا محسوس نہ کریں تو میں 100فیصد درست ہوں کہ آپ کو ھمارے خاندان کو پرکھنے میں غلطی ھوئی ھے ۔۔
آنٹی نے ایک سرد آہ لی اور کہا بیٹے……ابھی تم بہت چھوٹے ہو جو چیزیں میں دیکھ سکتی ھوں تم انکی طرف کبھی سوچ بھی نہیں سکتے ۔۔۔
میرے استفسار پر آنٹی نے کہا کہ میرا اندازہ کبھی غلط نہیں ھوتا ۔۔
چلو میں تمکو بتلاتی ھوں ۔۔۔
میں نے اپنی بیٹی کےلئے جتنے بھی رشتے دیکھے ھیں ان سے کچھ شرائط رکھی ھیں جو بھی میری بیٹی کو……دیکھنے آئے ۔
وہ اپنے تمام بیٹوں اور انکی بیگمات کو ساتھ لائیں ۔۔
جو سب سے اچھے کپڑے ہوں وہ زیب تن کر کے آئیں ۔
گھر کی عورتیں اپنے مکمل زیورات سے سج کر آئیں ۔
اگر گھر میں ھر فرد کی اپنی اپنی گاڑی ھے تو وہ اپنی اپنی گاڑی میں آئیں ۔۔۔
یہ شرائط بہت عجیب تھیں ۔۔لیکن بعض……لوگوں نے اسکا یہ۔مطلب لیا کہ شاید ھم لڑکے والوں کی مالی حالت دیکھنا چاہتے ھیں ۔۔لیکن ایسی بات نہیں ہے ۔۔۔
اب جب آپ کے اہل خانہ ھمارے گھر تشریف لاے تھے تو میں نے سب سے پہلے تمھارے دونوں بھائیوں کی گاڑیاں دیکھیں جو کہ قدر مہنگی تھی جبکہ تمھارے والد صاحب کی گاڑی کی مالیت اتنی……نہیں تھی جتنی تمھارے دونوں بھائیوں کی گاڑیوں کی قیمت تھی ۔۔
اسیطرح پھر میں نے تمھارے والد صاحب کے کپڑوں کا جائزہ لیا تو مجھے محسوس ھوا کہ تمھارے بھائیوں کے جسموں پر سجے ھوے کپڑے زیادہ مہنگے ھیں اور یہی حال تمھارے والد صاحب کے جوتوں کا تھا ۔۔
جب میں نے تمھاری ماں کے زیورات……دیکھے تو ان کی مقدار بہت ھی کم۔تھی جبکہ تمھاری دونوں بھابھیوں کے ہاتھ بازو اور گلے زیورات سے سجے ھوئے تھے ۔۔۔
پھر میں نے جب تمھاری بھابھیوں سے پوچھا کہ گھر کا کھانا کون پکاتا ھے تو تمھاری بھابھئوں نے کہا کہ ھم سب علیحدہ علیحدہ پکاتے ھیں اور تمھارے والدین کا کھانا تمھاری بہن……پکاتی ھے ۔۔
اسی طرح میں نے جب پوچھا کہ بچوں کو سکول کون چھوڑتا ھے تو مجھے پتہ چلا کہ تمھارے دونوں بھائی اپنے بچوں کو خود چھوڑتے ھیں جبکہ تمھاری بہن کو تمھارے والد صاحب کالج لے کر جاتے ھیں۔
جب میں نے یہ حالات دیکھے اور سنے تو مجھے افسوس ھوا ان بیٹوں پر جنکو پڑھانےکے لئے ……باپ نے اپنی ساری زندگی گنوا دی اور اس اولاد کو معاشرے کا کامیاب فرد بنایا لیکن جب اولاد کی باری آئی تو اولاد والد کا سہارا ببنے کی بجاے اپنی زندگی گزارنے پر رضامند ھو گئی ۔۔
تمھارے باپ نے تمھارے لئے بھوک افلاس بھی دیکھا ھوگا ۔
پیدل سفر بھی کیا ھوگا ۔
تمھارے منہ میں……نوالہ ڈالنے کیلئے بھوک بھی برداشت کی ہوگی۔
تمہیں اچھا پہنانے کیلئے خود دو تین سال ایک ہی جوڑے میں بھی گزارے ھو نگیں ۔۔
لیکن جب اولاد کی باری آئی تو اولاد باپ کو بھول گئی اور اپنی دنیا کی رنگ رلیوں میں مگن ہوگئی ۔۔
تمھارے بھائیوں نے خود تو نئی گاڑی لے لی لیکن انکو خیال……نہ آیا کہ ھمارا باپ آج بھی اسی پرانی گاڑی میں سفر کیوں کرتا ھے کیونکہ اس پر ابھی بھی تمھاری بہن کی اور تمھاری زمہ داری ھے ۔۔
اسکا بھی دل کرتا ھوگا نئے جوتے اور نئے کپڑے پہننے کو لیکن ہو سکتا ھے اسکی جیب اس چیز کی اجازت نہ دیتی ہو ۔۔لیکن تمھارے بھائیوں کی جیب تو اجازت دیتی……تھی کہ اپنے باپ کیلئے اچھا لباس اچھا جوتا پہلے خریدتے اور اپنے لئے بعد میں کیونکہ یہ رویہ تمھارے باپ کا تھا جب بھی اس نے کوئی چیز خریدنا چاھی پہلے اپنی اولاد کا خیال کیا بعد میں اپنا سوچا ۔۔
اسی لئے میں نے یہ ساری باتیں اسی دن تمھارے والد سے کر دیں تھیں ۔ھمیں دنیا کی مال و……دولت نہی چاہئے ھمیں تو ایسے رشتہ دار چاھئیں جو اپنے سے بڑھ کر اپنے رشتہ داروں کو ترجیح دیں تاکہ کل کو جب ھم نیچے گریں تو ھمکو مزید نیچے دبانے کی بجاے اوپر کو اٹھائیں تاکہ کل کو جب وہ نیچے گریں تو ھم انکو بھی سہارا دیں سکیں ۔۔۔
مال و دولت اعلی عہدہ یا مرتبہ تو ھمیشہ نہیں……رھتا ۔۔
ھمیشہ جو ساتھ چلتے ھیں وہ سچے رشتے چلتے ھیں اور اگر رشتے بنانے میں ھم سے تھوڑی سی بھی غلطی ھو جاے تو ساری زندگی بھی تباہ ھو سکتی ھے اور نسلیں بھی تباہ ھو جایا کرتی ھیں ۔۔۔
مجھے فخر ہے آپ کے والد صاحب پر کہ انھوں نے آپ کو حقیقت سے آگاہ نہیں کیا اور پھر بھی آپ……لوگوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالتے رھے لیکن دیکھنا یہ ھے کہ اولاد اپنے والدین کا کتنا خیال رکھتی ھے والدین تو ھمیشہ سے ھی اولاد کے لئے قربانیاں دیتے آئے ھیں ۔۔
ابھی اولاد کی باری ھے اور مجھے فخر ھے اپنی اولاد پر کہ آج کچھ بھی ھو جائے میری اولاد مجھے ھمیشہ ترجیح دیتی ھے میرے لئے……پہلے خریدتی ھے بعد میں اپنے بیوی بچوں کیلئے کچھ خریدا جاتا ھے اور مجھے فخر ھے اپنی اولاد کی اولاد پر کہ وہ بھی اپنے والدین کو اپنی زندگیوں سے زیادہ ترجیح دیتی ھے اور ھمارا پورا خاندان ایک جان کی مانند ھے اگر کسی کو کسی بھی چیز کی ضرورت پڑ جائے تو پیٹھ دکھا کر نہی بھاگتے بلکہ……ضرورت سے زیادہ لے کر آتا ھے ۔۔۔۔
اس لئے میرے بیٹے رشتے بنانا بہت آسان ھے لیکن کامیاب رشتے چننا اور انکو نبھانا بہت مشکل ھے ۔۔کہیں ایک نا اہل رشتہ آپ کو اتنا بڑا نقصان دے سکتا ھے کہ ساری عمر کی۔خوشیاں غموں میں تبدیل ھو سکتی ھیں اور کامیاب رشتہ آپ کو ایسا سہارا دے سکتا ھے کہ……تمام زندگی کے غم خوشیوں میں تبدیل ھو سکتے ھیں۔۔۔
اتنی بات کرنے کے بعد آنٹی اٹھ کر چلی گئیں ۔۔اور میری آنکھوں کے سامنے میرے والدین کا چہرہ گھومنے لگا ۔میری گاڑی میرے والد کی گاڑی سے بہتر تھی ۔میرا لباس میرے والد کے لباس سے بہتر تھا ۔میرے گھر کی زیب و زینت کا سامان میرے……والد کے گھر سے بہتر تھا ۔میری بیوی ہاتھ میں سونے کی چوڑیاں اور کنگن تھے جو میں نے خرید کر دئے تھے لیکن میری ماں کا سارا زیور بک چکا تھا میں آج بھی گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر لیکن میرا باپ آج بھی اولاد کی زمہ داریاں نبھا رہا تھا۔
میں نے آج بھی اپنی بیوی کیلئے سونے کی……انگھوٹھی خریدی لیکن میرے ذھن میں میری ماں کا خیال کیوں نہ آیا جس نے میری شادی کے لئے اپنا زیور بیچ دیا ۔۔
مجھے افسوس ھوا اپنے آپ پر کہ میں نے اپنے والدین سے زیادہ اپنی ذات کو ترجیح دی ھے میرے والدین جنہوں نے مجھے سب کچھ دیا اور میں نے ان سے سب کچھ لے کر ان کو خالی کر دیا……لیکن کبھی انہوں نے مجھ سے کوئی گلہ یا شکوہ نہی کیا ۔۔۔
میرے والدین کل بھی عظیم تھے اور آج بھی عظیم ھیں اور میں کل بھی ناکام تھا اور آج بھی ناکام ھوں ۔
Please read till End
جنازے
میں صرف پچاس ساٹھ لوگ تھے، سلام پھیرا گیا، مولوی صاحب نے دعا کرائی اور
لوگوں نے تعزیت کے لیے لواحقین کی تلاش میں دائیں بائیں دیکھنا شروع کر
دیا،
مرحوم
کا ایک ہی بیٹا تھا، وہ لندن میں تھا، وہ وقت پر پاکستان نہ پہنچ سکا
چنانچہ وہاں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جس سے پرسا کیا جا سکتا، لوگوں نے چند
لمحے انتظار کیا اور پھر گرمی کی وجہ سے ایک ایک کر کے چھٹنے لگے،
تدفین
کا وقت آیا تو قبرستان میں صرف چھ لوگ تھے، مستنصر حسین تارڑ، یہ مرحوم کے
عزیز ترین دوست تھے۔ یہ وہاں موجود تھے، دوسرا شخص مرحوم کا پبلشر تھا، یہ
پچھلی دو دہائیوں سے ان کی کتابیں چھاپ رہا تھا لہٰذا یہ بھی وہاں رک گیا
اور باقی چار لوگ گھریلو ملازم تھے، یہ آخری وقت تک صاحب کا ساتھ دینا
چاہتے تھے،
میت اٹھائی گئی، قبر میں رکھی گئی، مٹی ڈالی گئی، تازہ مٹی میں درخت کی سبز شاخ بھی ٹھونک دی گئی،
گورکن
نے قبر پر چھڑکاؤ کیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے، تدفین میں مصروف
لوگوں نے بھی ہاتھ جھاڑے اور دعا میں شامل ہو گئے اور یوں ملک کے سب سے بڑے
ادیب، بڑے ناول نگار کا سفر حیات اختتام پذیر ہو گیا، ایک کہانی تھی جو4
جولائی 2015ء کو ڈی ایچ اے لاہور کے قبرستان میں دفن ہو گئی۔
یہ کون تھا؟ یہ " عبداللہ حسین " تھے،
وہ
عبداللہ حسین جن کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں، پاکستان نے 68 سالوں میں
بین الاقوامی سطح کا صرف ایک ناول نگار پیدا کیا اور وہ ناول نگار عبداللہ
حسین تھے،
عبداللہ
حسین 14 اگست 1931ء میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے، اصل نام محمد خان تھا،
سولہ سال کی عمر میں ہندوستان کی تقسیم دیکھی، قیام پاکستان کے دوران انسان
کا ایسا بھیانک چہرہ سامنے آیا کہ مذہب، انسانیت اور اخلاقیات تینوں سے
اعتبار اٹھ گیا اور وہ مذہب اور انسانیت دونوں کے باغی ہو گئے۔
تقسیم
کے واقعات نے عبداللہ حسین کے ذہن پر خوفناک اثرات چھوڑے، وہ 1952ء میں
داؤدخیل کی سیمنٹ فیکٹری میں بطور انجینئر کام کرتے تھے، انھوں نے وہاں قلم
اٹھایا اور ’’اداس نسلوں‘‘ کے نام سے اردو زبان کا ماسٹر پیس تخلیق کر
دیا،
یہ
ناول محض ایک ناول نہیں تھا، یہ ان نسلوں کا نوحہ تھا جنھوں نے تقسیم ہند
کے دوران پرورش پائی اور یہ کندھوں پر اداسی کی صلیب اٹھا کر زندگی گزارنے
پر مجبور ہوئیں، یہ ناول ایک تہلکہ تھا، یہ تہلکہ پاکستان میں بھی چھپا اور
سرحد پار ہندوستان میں بھی۔
’’اداس
نسلیں‘‘ آج تک اردو کا شاندار ترین ناول ہے، یہ ناول عبداللہ حسین نے 32
سال کی عمر میں لکھا، صدر پاکستان ایوب خان نے انھیں 34 سا کی عمر میں ادب
کا سب سے بڑا اعزاز ’’آدم جی ایوارڈ‘‘ دیا
یہ
برطانیہ شفٹ ہو گئے، یہ 40 سال برطانیہ رہے، برطانیہ میں قیام کے دوران
مزید دو ناول لکھے، دو ناولٹ بھی تخلیق کیے اوردرجنوں افسانے بھی لکھے،
عبداللہ حسین نے ایک ناول انگریزی زبان میں بھی لکھا، یہ سارے افسانے، یہ
سارے ناولٹ اور یہ سارے ناول ماسٹر پیس ہیں۔
یہ خون کے سرطان میں مبتلا تھے، بیماری سے لڑتے رہے یہاں تک کہ 4 جولائی 2015ء کو 84 سال کی عمر میں لاہور میں انتقال فرما گئے،
بیگم کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے، وہ برطانیہ میں ہی رہ گئیں،
بیٹا
لندن میں رہتا تھا، وہ جنازے پر نہ پہنچ سکا، عطاء الحق قاسمی نے احباب کو
اطلاع دی، یوں پچاس ساٹھ لوگ ملک کے سب سے بڑے ادیب کی آخری رسومات میں
شریک ہو گئے، یہ المیہ عبداللہ حسین کی موت کے المیے سے بھی بڑا المیہ تھا۔
ہم
لوگ اس المیے سے دو سبق سیکھ سکتے ہیں، ایک سبق ہم عام لوگوں کے لیے ہے
اور دوسرا ریاست کے لیے۔ ہم لوگ بہت بدقسمت ہیں، ہم کام، شہرت اور دولت کی
دھن میں خاندان کو ہمیشہ پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، ہم کیریئر بناتے رہتے ہیں،
شہرت سمیٹتے رہتے ہیں اور اس دوڑ کی دھوپ ہمارے خاندان کی موم کو پگھلاتی
رہتی ہے یہاں تک کہ جب زندگی کی شام ہوتی ہے تو ہمارے طاقوں میں پگھلی ہوئی
موم کی چند یادوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا،
میں
بے شمار ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنے بچوں کے بچپن کو اس لیے انجوائے
نہ کر سکے کہ یہ بچوں کے اعلیٰ مستقبل کے لیے سرمایہ جمع کر رہے تھے۔
بچے
بڑے ہوئے تو انھوں نے اپنی پوری جمع پونجی لگا کر بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے
لیے باہر بھجوا دیا، بچے جہاں گئے وہ وہاں سے واپس نہ آئے اور یوں ان کے
جنازے ملازمین ہی نے پڑھے اور ملازمین ہی نے انھیں دفن کیا،
میں
ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو پوری زندگی شہرت جمع کرتے کرتے مر گئے اور
ان کے جنازے میں ان کا کوئی عزیز، رشتے دار اور دوست تھا اور نہ ہی وہ لوگ
جو زندگی میں ان کے ہاتھ چومتے تھے اور اپنی ہتھیلیوں پر ان کے آٹو گراف
لیتے تھے۔
میں
نے ایسے لوگ بھی دیکھے جو امن، انصاف، خوش حالی اور مطمئن زندگی کے لیے
خاندان کو ملک سے باہر لے گئے، آخر میں خود واپس آ گئے، خاندان وہیں رہ گیا
اور جب انتقال ہوا تو بچوں کو چھٹی ملی اور نہ ہی فلائیٹ
اور
میں ایسے لوگوں سے بھی واقف ہوں جو زندگی میں غرور کا غ ہوتے تھے، جنھوں
نے زندگی اقتدار کا الف اور شہرت کی ش بن کر گزاری لیکن جب یہ مرے تو دس دس
سال تک کوئی ان کی قبر پر فاتحہ کے لیے نہ آیا، کسی نے ان کے سرہانے دیا
تک نہ جلایا
چنانچہ
پہلا سبق یہ ہے، آپ اپنی اولاد، اپنے خاندن کو کبھی تعلیم، روزگار، کام،
شہرت، اقتدار اور سیکیورٹی کے نام پر اپنے آپ سے اتنا دور نہ کریں کہ یہ آپ
کے جنازے میں شریک نہ ہو سکیں اور آپ کی قبریں دس دس سال تک ان کے قدموں
کو ترستی رہیں۔،آپ کو اپنے فکری زوال اور مغربی دنیا کے ذہنی عروج کی
وجوہات معلوم ہو جائیں گی
انسان اگر گناہ کرنے سے پہلے سے ایک بار یہ
سوچ لے کہ ایک زات ہے جو ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اگر انسان سوچ
لے کہ اللّٰہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں تو وہ گناہ سے بچ جاتا، انسان اگر اکیلا
ہے تو وہ اکیلا انہیں وہاں اللّٰہ تعالیٰ بھی ہے اگر 2 ہے تو وہ 2 نہیں
وہاں اللّٰہ بھی اللّٰہ تعالیٰ ہر جگہ ہماری سوچ سے بھی زیادہ قریب ہے ہم
سوچنے والے ہوتے ہیں اس رب کو پتا چل جاتا وہ بڑا حکمت والا سب کچھ جاننے
والا ہے!
جب انسان بذات خود
اپنے آپ میں خامیاں غلطیاں گناہ جب ڈھونڈنے لگ جاۓ گا اور اپنے نفس کو
کنٹرول کر کے ان غلطیوں کو ٹھیک کر کے اسلام کے مطابق چلے گا اللّٰہ تعالیٰ
کے حکم کے مطابق تو سارا معاشرہ خودبخود ٹھیک ہو جاۓ گا....!! دوسروں کی
غلطی نکالنے کی بجائے اگر ہم خود کے گریبان میں جھانک کر ان غلطیوں کو ٹھیک
کرنا شروع کر دیں اپنی "میں" ختم کر لے تو انسان کامیاب ہو جاتا اگر اس
"میں" کو ختم کر کے ہم اللّٰہ تعالیٰ کے حکم نبی کریم صل اللہ علیہ والہ
وسلم کی پیروی شروع کر دیں تو دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی ہی کامیابی ہے
انشاءاللہ...…!!
============================== ============================== ===========================
مسلمان_اور_عدالتی_نظام
.
ثمرقند سے طویل سفر طے کر کے آنے والا قاصد ، سلطنت اسلامیہ کےحکمران سے ملنا چاہتا تھا۔
اس کے پاس ایک خط تھا جس میں غیر مسلم پادری نے مسلمان سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کی شکایت کی تھی۔
پادری نے لکھا !
"ہم نے سنا تھا کہ مسلمان جنگ اور حملے سے پہلے قبول اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر دعوت قبول نہ کی جائے تو جزیہ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر کوئی ان دونوں شرائط کو قبول کرنے سے انکار کرے تو جنگ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔
مگر ہمارے ساتھ ایسا نہیں کیا گیااور اچانک حملہ کر کے ہمیں مغلوب کر لیا گیا ہے۔
یہ خط ثمر قند کے سب سے بڑے پادری نے اسلامی سلطنت کے فرماں روا عمر بن عبد العزیز کے نام لکھا تھا۔
دمشق کے لوگوں سے شہنشاہ وقت کی قیام گاہ کا معلوم کرتے کرتے وہ قاصد ایک ایسے گھر جا پہنچا کہ جو انتہائی معمولی اور خستہ حالت میں تھا۔ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا تھا اور نیچے کھڑی ایک عورت گارا اُٹھا کر اُسے دے رہی تھی۔
جس راستے سے آیا تھا واپس اُسی راستے سے اُن لوگوں کے پاس جا پہنچا جنہوں نے اُسے راستہ بتایا تھا۔
اُس نے لوگوں سے کہا میں نے تم سے اسلامی سلطنت کے بادشاہ کا پتہ پوچھا تھا نہ کہ اِس مفلوک الحال شخص کا جس کے گھر کی چھت بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔
لوگوں نے کہا،ہم نے تجھے پتہ ٹھیک ہی بتایا تھا، وہی حاکم وقت عمر بن عبد العزیز کا گھر ہے ۔
قاصد پر مایوسی چھا گئی اور بے دلی سے دوبارہ اُسی گھرپر جا کر دستک دی،جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کر رہا تھا وہی اند ر سے نمودار ہوا۔
قاصدنے اپنا تعارف کرایا اور خط عمر بن عبدالعزیز کو دے دیا۔
عمر بن عبدالعزیز نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر لکھا :
عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام؛ ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے۔ مہر لگا کر خط واپس قاصدکو دیدیا۔
سمرقند لوٹ کر قاصدنے خط کا جواب اور ملاقات کا احوال جب پادری کو سنایا ، توپادری بھی مایوس اور افسردہ ہو گیا ۔
اس نے سوچا کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا ؟اُنہیں یقین تھا کاغذ کا یہ ٹکڑا اُنہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔
مگر کوئی اور راستہ بھی نہ تھا چنانچہ خط لیکر ڈرتے ڈرتے امیر لشکر اور حاکم ثمرقند کے پاس پہنچے ۔
حاکم نے خط پڑھتے ہی فورا ایک قاضی کا تعین کردیا جو اس کے اپنے خلاف سمرقندیوں کی شکایت سن سکے۔
قاضی نے پادری سے پوچھا، کیا دعویٰ ہے تمہارا ؟
پادری نے کہا : قتیبہ کے لشکر نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اِس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔
قاضی نے حاکم کو دیکھ کر پوچھا، کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں ؟
حاکم نے کہا : قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے۔
سمرقند ایک عظیم ملک تھا، اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے، بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔
سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کر لیا۔
قاضی نے حاکم کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا : میری بات کا جواب دو، تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی ؟
حاکم نے کہا : نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔
قاضی نے کہا : میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔
اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو عدل و انصاف کی وجہ سے ہی بخشی ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے۔
میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور انکے عہدہ داران بمع اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک اور مال غنیمت چھوڑ کر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔
اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیئے بغیر نہ آیا جائے۔
پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا وہ ناقابل یقین تھا۔چند گھنٹوں کے اندر ہی مسلمانوں کا عظیم لشکر قافلہ در قافلہ شہر کو چھوڑ کے جا چکا تھا۔
ثمر قندیوں نے اپنی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا کہ جب طاقتور فاتح قوم کمزور اور مغلوب قوم کو یوں دوبارہ آزادی بخش دے۔
ڈھلتے سورج کی روشنی میں لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے کہ یہ کیسا مذہب اور کیسے پیروکار ہیں ۔ عدل کا یہ معیار کہ اپنوں کے خلاف ہی فیصلہ دے دیں۔ اور طاقتور سپہ سالار اس فیصلہ پہ سر جھکا کر عمل بھی کر دے۔
تاریخ گواہ ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں پادری کی قیادت میں تمام شہر کے لوگ گھروں سے نکل کر لشکر کے پیچھے سرحدوں کی طرف دوڑے اور لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے ہوئے اُن کو واپس لے آئے کہ یہ آپ کی سلطنت ہے اور ہم آپ کی رعایا بن کر رہنا اپنے لئے ٖفخر سمجھیں گے۔
دینِ رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصہ تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔
کبھی رہبر دو عالم حضرت محمد ﷺ کی امت ایسی ہوا کرتی تھی۔ آج غیر مسلم تو دور کی بات ،مسلمان سے مسلمان کو کوئی امان نہیں۔
*بقول اقبال*
اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ ایک گردوں تھا جس کا تو ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا آغوش محبت میں
*کچل ڈالا تو نے پاوں میں تاج سردار+
.
ثمرقند سے طویل سفر طے کر کے آنے والا قاصد ، سلطنت اسلامیہ کےحکمران سے ملنا چاہتا تھا۔
اس کے پاس ایک خط تھا جس میں غیر مسلم پادری نے مسلمان سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کی شکایت کی تھی۔
پادری نے لکھا !
"ہم نے سنا تھا کہ مسلمان جنگ اور حملے سے پہلے قبول اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر دعوت قبول نہ کی جائے تو جزیہ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر کوئی ان دونوں شرائط کو قبول کرنے سے انکار کرے تو جنگ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔
مگر ہمارے ساتھ ایسا نہیں کیا گیااور اچانک حملہ کر کے ہمیں مغلوب کر لیا گیا ہے۔
یہ خط ثمر قند کے سب سے بڑے پادری نے اسلامی سلطنت کے فرماں روا عمر بن عبد العزیز کے نام لکھا تھا۔
دمشق کے لوگوں سے شہنشاہ وقت کی قیام گاہ کا معلوم کرتے کرتے وہ قاصد ایک ایسے گھر جا پہنچا کہ جو انتہائی معمولی اور خستہ حالت میں تھا۔ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا تھا اور نیچے کھڑی ایک عورت گارا اُٹھا کر اُسے دے رہی تھی۔
جس راستے سے آیا تھا واپس اُسی راستے سے اُن لوگوں کے پاس جا پہنچا جنہوں نے اُسے راستہ بتایا تھا۔
اُس نے لوگوں سے کہا میں نے تم سے اسلامی سلطنت کے بادشاہ کا پتہ پوچھا تھا نہ کہ اِس مفلوک الحال شخص کا جس کے گھر کی چھت بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔
لوگوں نے کہا،ہم نے تجھے پتہ ٹھیک ہی بتایا تھا، وہی حاکم وقت عمر بن عبد العزیز کا گھر ہے ۔
قاصد پر مایوسی چھا گئی اور بے دلی سے دوبارہ اُسی گھرپر جا کر دستک دی،جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کر رہا تھا وہی اند ر سے نمودار ہوا۔
قاصدنے اپنا تعارف کرایا اور خط عمر بن عبدالعزیز کو دے دیا۔
عمر بن عبدالعزیز نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر لکھا :
عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام؛ ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے۔ مہر لگا کر خط واپس قاصدکو دیدیا۔
سمرقند لوٹ کر قاصدنے خط کا جواب اور ملاقات کا احوال جب پادری کو سنایا ، توپادری بھی مایوس اور افسردہ ہو گیا ۔
اس نے سوچا کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا ؟اُنہیں یقین تھا کاغذ کا یہ ٹکڑا اُنہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔
مگر کوئی اور راستہ بھی نہ تھا چنانچہ خط لیکر ڈرتے ڈرتے امیر لشکر اور حاکم ثمرقند کے پاس پہنچے ۔
حاکم نے خط پڑھتے ہی فورا ایک قاضی کا تعین کردیا جو اس کے اپنے خلاف سمرقندیوں کی شکایت سن سکے۔
قاضی نے پادری سے پوچھا، کیا دعویٰ ہے تمہارا ؟
پادری نے کہا : قتیبہ کے لشکر نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اِس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔
قاضی نے حاکم کو دیکھ کر پوچھا، کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں ؟
حاکم نے کہا : قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے۔
سمرقند ایک عظیم ملک تھا، اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے، بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔
سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کر لیا۔
قاضی نے حاکم کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا : میری بات کا جواب دو، تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی ؟
حاکم نے کہا : نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔
قاضی نے کہا : میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔
اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو عدل و انصاف کی وجہ سے ہی بخشی ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے۔
میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور انکے عہدہ داران بمع اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک اور مال غنیمت چھوڑ کر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔
اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیئے بغیر نہ آیا جائے۔
پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا وہ ناقابل یقین تھا۔چند گھنٹوں کے اندر ہی مسلمانوں کا عظیم لشکر قافلہ در قافلہ شہر کو چھوڑ کے جا چکا تھا۔
ثمر قندیوں نے اپنی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا کہ جب طاقتور فاتح قوم کمزور اور مغلوب قوم کو یوں دوبارہ آزادی بخش دے۔
ڈھلتے سورج کی روشنی میں لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے کہ یہ کیسا مذہب اور کیسے پیروکار ہیں ۔ عدل کا یہ معیار کہ اپنوں کے خلاف ہی فیصلہ دے دیں۔ اور طاقتور سپہ سالار اس فیصلہ پہ سر جھکا کر عمل بھی کر دے۔
تاریخ گواہ ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں پادری کی قیادت میں تمام شہر کے لوگ گھروں سے نکل کر لشکر کے پیچھے سرحدوں کی طرف دوڑے اور لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے ہوئے اُن کو واپس لے آئے کہ یہ آپ کی سلطنت ہے اور ہم آپ کی رعایا بن کر رہنا اپنے لئے ٖفخر سمجھیں گے۔
دینِ رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصہ تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔
کبھی رہبر دو عالم حضرت محمد ﷺ کی امت ایسی ہوا کرتی تھی۔ آج غیر مسلم تو دور کی بات ،مسلمان سے مسلمان کو کوئی امان نہیں۔
*بقول اقبال*
اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ ایک گردوں تھا جس کا تو ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا آغوش محبت میں
*کچل ڈالا تو نے پاوں میں تاج سردار+
ایک نو سال کا بچہ مسجد کے کونے میں بیٹھےمہنگے موبائل فون خریدنے والو اس پیغام کو ضرور پڑھیں
چھوٹی بہن کے ساتھ بیٹھا
ہاتھ اٹھا کر اللہ پاک سے نہ
جانے کیا مانگ رہا تھا؟
کپڑوں میں پیوند لگا تھا
مگر
نہایت صاف تھے
اس کے ننھےننھے سے گال آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے
بہت سے لوگ اس کی طرف متوجہ تھے
اور
وہ بالکل بےخبر اللہ پاک سے باتوں میں لگا ھوا تھا
جیسے ہی وہ اٹھا
ایک اجنبی نے بڑھ کر اسکا ننھا سا ہاتھ پکڑا
اور پوچھا
اللہ پاک سے کیا مانگ رھے ھو؟
اس نے کہا کہ
میرے ابو مر گۓ ھیں
ان کےلئے جنت
میری امی ہر وقت
روتی رہتی ھے
اس کے لئے صبر
میری بہن ماں سے کپڑے مانگتی ھے
اس کے لئے رقم
اجنبی نے سوال کیا
کیا آب سکول جاتے ھو؟
بچے نے کہا
ہاں جاتا ھوں
اجنبی نے پوچھا
کس کلاس میں پڑھتے ھو؟
نہیں انکل پڑھنے نہیں جاتا
ماں چنے بنا دیتی ھے
وہ سکول کے بچوں کو فروخت کرتا ھوں
بہت سارے بچے مجھ سے چنے خریدتے ھیں
ہمارا یہی کام دھندا ھے
بچے کا ایک ایک لفظ میری روح میں اتر رھا تھا
تمہارا کوئ رشتہ دار
اجنبی نہ چاہتے ھوۓ بھی بچے سے پوچھ بیٹھا؟
امی کہتی ھے غریب کا کوئ رشتہ دار نہیں ھوتا
امی کبھی جھوٹ نہیں بولتی
لیکن انکل جب ھم
کھانا کھا رہے ھوتےہیں
اور میں کہتا ھوں
امی آپ بھی کھانا کھاؤ تو
وہ کہتی ھیں میں نے
کھالیا ھے
اس وقت لگتا ھے
وہ جھوٹ بول رھی ھیں.
بیٹا اگر گھر کا خرچ مل جاۓ تو تم پڑھوگے؟
بچہ:بالکل نہیں
کیونکہ تعلیم حاصل کرنے والے غریبوں سے نفرت کرتے ھیں
ہمیں کسی پڑھے ھوۓ نے کبھی نہیں پوچھا
پاس سے گزر جاتے ھیں
اجنبی حیران بھی تھا
اور
پریشان بھی
پھر اس نے کہا کہ
ہر روز اسی مسجد میں آتا ھوں
کبھی کسی نے نہیں پوچھا
یہاں تمام آنے والے میرے والد کو جانتے تھے
مگر
ہمیں کوئی نہیں جانتا
بچہ زور زور سے رونے لگا
انکل جب باپ مر جاتا ھے تو سب اجنبی بن جاتے ھیں
میرے پاس بچے کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا
ایسے کتنے معصوم ھوں گے
جو حسرتوں سے زخمی ھیں
بس ایک کوشش کیجۓ
اور
اپنے اردگرد ایسے ضروت مند
یتیموں اور بےسہارا کو
ڈھونڈئے
اور
ان کی مدد کیجئے
موبائل اور لوڈ کے دینے سے پہلے اپنے آس پاس کسی غریب کو دیکھ لیں
شاید اسکو آٹے کی بوری زیادہ ضرورت ھو
تصویر یا ویڈیو بھیجنے کی جگہ یہ میسج کم ازکم ایک یا دو گروپ میں ضرور شئیر کریں
خود میں اور معاشرے میں تبدیلی لانے کی کوشش جاری رکھیں جزاک
.
No comments:
Post a Comment