Home Page Urdu Islamic Article HR Email Ids Zikar Azkaar
Namaz Quran & Tableegh School HR ID Ulema Ikram Bayanat
Listen Quran Majeed Read Quran Majeed Social Media Ramzan
حیاء ایمان کا حصہ ہے
✍🏻✍🏻✍🏻کلمۂ حق
مولانا محمد منصور احمد
آج دنیا بھر کا میڈیا ایک خاص محنت میں مصروف ہے ۔ وہ اخبارات ہوں یا ٹی وی چینلز ‘ وہ رسائل و جرائد ہوں یا ریڈیو چینلز ‘ سب مسلمانوں سے وہ دولتِ بے بہا اور متاع بیش بہا چھین لینا چاہتے ہیں ‘ جسے ہم ’’شرم و حیاء ‘‘ کہتے ہیں ۔ اسلام کا مزاج شرم و حیاء کا ہے اور مغربی ثقافت کی ساری بنیاد ہی بے حیائی اور بے شرمی پر کھڑی ہے، حیاء ہی وہ جوہر ہے ‘ جس سے محروم ہونے کے بعد انسان کا ہر قدم برائی کی طرف ہی اٹھتا ہے اور ہر گناہ کرنا آسان سے آسان تر ہو جاتا ہے ۔ شرم و حیاء آپ کیلئے ایسی قدرتی اور فطری ڈھال ہے‘ جس کی پناہ میں آپ معاشرے کی تمام گندگیوں سے محفوظ رہتے ہیں ۔
شرم و حیاء کی اسی اہمیت کی وجہ سے قرآن و حدیث میں ہمیں بار بار اس کی طرف متوجہ کیا گیا ہے ۔ اور شریعتِ اسلامی میں اس صفت کو نمایاں مقام حاصل ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اس کی نہایت تاکید فرمائی ہے ۔ اس سلسلہ کی چند احادیث درج ذیل ہیں:
(۱)… حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺنے ارشاد فرمایا :
الحیاء لا یاتی الا بخیر و فی روایۃ الحیاء خیر کلہ ( بخاری شریف)
( حیا کا نتیجہ صرف خیر ہے اور ایک روایت میں ہے کہ حیا ساری کی ساری خیر ہی ہے)۔
(۲)… حضرت زید بن طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺنے ارشاد فرمایا :
ان لکل دین خلقا و خلق الاسلام الحیاء ( مشکوٰۃ شریف )
https://chat.whatsapp.com/F15zSRqtYHZ2bxWGWYVSpY
(ہر دین کی (خاص) عادت ہوتی ہے اور اسلام کی عادت حیا ہے)
(۳)…حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان الحیاء والایمان قرنا ء جمیعاً فاذا رفع احد ھما رفع الاخر (مشکوٰۃ شریف)
( حیا اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا بھی خود بخود اٹھ جاتا ہے)۔
(۴)… حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :
ان مما ادرک الناس من کلام النبوۃ الاولیٰ اذا لم تستحی فاصنع ماشئت (بخاری شریف)
( پہلے انبیاء کے کلام سے لوگوں نے یہ جملہ بھی پایا ہے کہ اگر تو حیا نہ کرے تو جو چاہے کر۔(یعنی کوئی چیز تجھ کو برائی سے روکنے والی نہ ہو گی)۔
(۵)…حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺنے ارشاد فرمایا :الحیاء شعبۃ من الایمان(بخاری شریف)
(حیاایمان کا (اہم ترین) شعبہ ہے) ۔
(۶)… حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
الحیاء من الایمان والایمان فی الجنۃ والبذ اء من الجفاء والجفاء فی النار
( حیا ایمان میں سے ہے اور ایمان (یعنی اہل ایمان) جنت میں ہیں ۔ اور بے حیائی بدی میں سے ہے اور بدی (والے) جہنمی ہیں)۔(ترمذی)
(۷)… حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ماکان الفحش فی شیٔ الا شانہ وما کان الحیاء فی شیٔ الا زانہ (ترمذی شریف)
( بے حیائی جب بھی کسی چیز میں ہو گی تو اُسے عیب دار ہی بنائے گی ۔ اور حیاء جب بھی کسی چیز میں ہو گی تو اُسے مزین اور خوبصورت ہی کرے گی )۔
(۸)… حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ان اللہ عزوجل اذا اراد ان یھلک عبدا نزع منہ الحیاء فاذا نزع منہ الحیاء لم تلقہ الا مقیتا ممقتا فاذا لم تلقہ الا مقیتا ممقتا نزعت منہ الا ما نۃ فاذا نزعت منہ الا مانۃ لم تلقہ الا خائنا مخوانا فاذا لم تلقہ الا خائنا مخونا نزعت منہ الرحمۃ فاذا نزعت منہ الرحمۃ لم تلقہ الا رجیما ملا عنا فاذا لم تلقہ الا رجیما ملا عنا نزعت منہ ربقۃ الاسلام (ابن ماجہ شریف)
(اللہ تعالیٰ جب کسی بندہ کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اُس سے حیا کی صفت چھین لیتا ہے ۔ پس جب اُس سے حیا نکل جاتی ہے تو وہ (خود ) بغض رکھنے والا اور (دوسروں کی نظر میں) مبغوض ہو جاتا ہے ۔ پھر جب وہ بغیض و مبغوض ہو جاتا ہے تو اس سے امانت نکل جاتی ہے ۔ جب اُس سے امانت نکل جاتی ہے تو وہ خائن اور (لوگوں کی نظر میں) بَد دیانت ہو جاتا ہے ۔ جب وہ خائن اور بددیانت ہو جاتا ہے تو اس میں سے رحم کا مادہ نکل جاتا ہے ۔ جب اُس سے رحمت نکلتی ہے تو وہ لاعن و ملعون ہو جاتا ہے پس جب لاعن اور ملعون ہو جاتا ہے تو اُس سے اسلام کا پھندا (عہد ) نکل جاتا ہے )۔
اسلامی شریعت میں حیا سے مراد محض انسانوں سے حیا نہیں بلکہ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس اللہ علیم و خبیر سے بھی شرم کرنے کی تلقین کرتاہے جو ظاہر و پوشیدہ ، حاضر و غائب ہر چیز کو اچھی طرح جاننے والا ہے ۔ اس سے شرم کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ جو فعل بھی اس کی نظر میں برا ہو اُسے کسی بھی حال میں ہرگز ہرگز نہ کیا جائے اور اپنے تمام اعضاء و جوارح کو اس کا پابند بنایا جائے کہ ان سے کسی بھی ایسے کام کا صُد ور نہ ہو جو اللہ تعالیٰ سے شرمانے کے تقاضے کے خلاف ہو ۔ اس سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو واضح ہدایت فرمائی ہے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
استحیوا من اللّٰہ حق الحیاء قالواانا نستحیی من اللّٰہ یا نبی اللّٰہ والحمد للّٰہ قال لیس ذلک ولکن من استحی من اللّٰہ حق الحیاء فلیحفظ الراس و ما وعیٰ ولیحفظ البطن وما حوٰی ولیذ کر الموت والبلٰی و من اراد الا خرۃ ترک زینۃ الدنیا فمن فعل ذلک فقد استحیٰ من اللّٰہ حق الحیاء(مشکوٰۃ شریف)
(اللہ تعالیٰ سے اتنی شرم کرو جتنی اُس سے شرم کرنے کا حق ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا تمام تعریف اللہ کے لئے ہیں‘ اے اللہ کے نبی ! ہم اللہ سے شرم تو کرتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ مراد نہیں بلکہ جو شخص اللہ سے شرمانے کے حق کو ادا کرے گا تو (اسے تین کام کرنے ہوں گے) اول یہ کہ اپنے سر کی حفاظت کرے اور اس چیز کی جس کو سرنے جمع کیا اور (دوسرے یہ کہ) پیٹ کی حفاظت کرے اور اس چیز کی جو پیٹ سے لگی ہوئی ہے اور (تیسرے یہ کہ ) موت کو اور موت کے بعد کے حالات کو یاد کرے اور (خلاصہ یہ ہے کہ ) جو شخص آخرت کا ارادہ کرے وہ دنیا کی زیب و زینت چھوڑ دے پس جو ایسا کرے گا تو وہ اللہ سے حیا کرنے کا حق ادا کرے گا)
قرآن مجید حیا کے متعلق ایک خوبصورت واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس سے مسلمان عورت کو یہ سبق بھی ملتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے گھر سے نکلے۔
https://chat.whatsapp.com/F15zSRqtYHZ2bxWGWYVSpY
حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک عظیم پیغمبر تھے، جو اﷲ تعالیٰ سے براہ راست ہم کلام ہوئے۔ ایک مرتبہ سفر میں تھے گرمی کا موسم تھا پاؤں ننگے تھے۔ سفر کی تھکاوٹ اور پیدل چل چل کر پاؤں میں چھالے پڑچکے ہیں، ذرا آرام کرنے کے لئے ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ فاصلے پر ایک کنواں ہے وہاں سے کچھ نوجوان اپنی بکریوں کو پانی پلارہے ہیں اور ان سے کچھ فاصلے پر باحیا دو لڑکیاں کھڑی ہیں۔ جب آپ ں نے ان کو دیکھا تو حیرانگی کی انتہا نہ رہی کہ یہ دونوں لڑکیاں اس جنگل میں کیوں کھڑی ہیں اور کس کا انتظار کررہی ہیں؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب وجہ دریافت کی تو پتہ چلا کہ ان کا کوئی بھائی نہیں، باپ بوڑھا ہے وہ اس قابل نہیں کہ چل پھرسکے اور وہ دونوں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لئے آئی ہیں کہ جب تمام لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلاکر چلے جائیں گے تو آخر میں یہ اپنی بکریوں کو پانی پلائیں گی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کی بات سننے کے بعد آگے بڑھے اور خود پانی کنوئیں سے نکالا اور ان کی بکریوں کو پلادیا۔ لڑکیاں جب خلاف معمول جلدی گھر پہنچیں تو باپ نے جلدی آنے کی وجہ پوچھی تو دونوں نے باپ کو پوری حقیقت سے آگاہ کردیا۔ باپ خود بھی پیغمبر تھے فرمایا کہ جاؤ اس نوجوان کو بلاکر لاؤ تاکہ ہم اس کو پورا پورا بدلہ دیں۔ اب ایک لڑکی جب موسیٰ علیہ السلام کو بلانے آئی تو وہ کس طرح آئی ، اس کا انداز کیا تھا۔ قرآن نے اس کے چلنے کا انداز جوکہ شرم و حیا سے لبریز تھا اس طرح بیان کیا ہے:
ترجمہ: ’’پھر آئی ان دونوں میں سے ایک، شرم و حیا سے چلتی ہوئی۔ وہ کہنے لگی کہ میرا باپ آپ کو بلاتا ہے تاکہ وہ بدلہ دے جوآپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے۔‘‘(القصص ؍ ۲۵)
حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے آئی۔ شرم و حیا کا دامن نہیں چھوڑا نگاہ نیچے تھی۔بات بھی شرما کر زیادہ کھل کر نہیں کی۔اﷲ تعالیٰ کو اس کی حیا اس قدر پسند آئی کہ اس حیا کو قرآن بناکرحضرت محمد رسول اﷲﷺ پر نازل کردیا تاکہ پوری امت کی عورتوں کو پتہ چل جائے کہ جب وہ گھروں سے نکلیں تو شرم و حیا سے عاری لوگوں کی طرح گردن اٹھاکر نہ چلیں بلکہ دھیمی چال سے کہ شرافت اور حیا ان سے واضح نظر آئے۔ جس طرح شعیب علیہ السلام کی بیٹی شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی۔
عملی اعتبار سے حیا کے تین شعبے ہیں:
(۱) اﷲ تعالیٰ سے حیا
(۲) لوگوں سے حیا
(۳) اپنے نفس سے حیا
اﷲ تعالیٰ سے حیا کا مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی کو نہ توڑے۔ لوگوں سے حیا یہ کہ حقوق العباد کو ادا کرے،لوگوں کے سامنے جن باتوں کے اظہار کو محبوب اور برا سمجھا جاتا ہے،اُن کے اظہار سے بچے اور اپنے نفس سے حیا یہ ہے کہ نفس کو ہر برے اور قابل مذمت کام سے بچائے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ چند آیات اور احادیث کے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے شرم و حیا پر کتنا زیادہ زور دیا ہے اور اس کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اسے ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
شرم و حیاء ایمانی زیور ہے لیکن آج کل کے دور میں شرم وحیا، عفت و عصمت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ آج حیا ایک عیب بن کر رہ گیا ہے۔ مغربی تہذیب نے دنیاکو بے شرم اور بے حیا بنادیا ہے۔آج اگر ہم اپنے معاشرے میں نظر دوڑائیں تو ہر طرف بیہودہ تصویریں نظر آتی ہیں ۔ مغربی میڈیا ہر جگہ عورت کی تصویر کو نمائش بناکر پیش کررہا ہے، آپ کو مختلف چوکوں اور چوراہوں پر ایسے سائن بورڈ نظر آئیں گے جہاں عورت کی تصویر ذریعہ اشتہار برائے کمائی نظر آئے گی، عورت کی اس حالت کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے :پھر افسوس ہے کہ بے وقوف لوگ اسی کو آزادیٔ نسواں اور حقوق ِ نسواں کا نام دیتے ہیں۔
اپنی زندگی میں ہر قدم ایسے پھونک پھونک کر رکھیں کہ ایمان کے لٹیرے اور عزتوں کے ڈاکو کہیں شرم و حیاء کی یہ قیمتی دولت آپ سے چھین نہ لیں ۔
اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔ آمین ثم آمین
وصلی اللّٰہ علی النبی الکریم و علی آلہ و صحبہ اجمعین
🍃✨🍃✨🍃
قلب سلیم ہی حقیقتاً مومن کا دل ہے جو کفر نفاق اور گندگی سے پاک ہوتا ہے اپنے دل کو قلب سلیم بنانا ہی تزکیہ نفس ہے جس کو پروردگار عالم نے اپنے کلام میں یوں بیان فرمایا
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (9)
بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے اپنی روح کو پاک کر لیا۔
https://chat.whatsapp.com/F15zSRqtYHZ2bxWGWYVSpY
✍🏻✍🏻✍🏻کلمۂ حق
مولانا محمد منصور احمد
آج دنیا بھر کا میڈیا ایک خاص محنت میں مصروف ہے ۔ وہ اخبارات ہوں یا ٹی وی چینلز ‘ وہ رسائل و جرائد ہوں یا ریڈیو چینلز ‘ سب مسلمانوں سے وہ دولتِ بے بہا اور متاع بیش بہا چھین لینا چاہتے ہیں ‘ جسے ہم ’’شرم و حیاء ‘‘ کہتے ہیں ۔ اسلام کا مزاج شرم و حیاء کا ہے اور مغربی ثقافت کی ساری بنیاد ہی بے حیائی اور بے شرمی پر کھڑی ہے، حیاء ہی وہ جوہر ہے ‘ جس سے محروم ہونے کے بعد انسان کا ہر قدم برائی کی طرف ہی اٹھتا ہے اور ہر گناہ کرنا آسان سے آسان تر ہو جاتا ہے ۔ شرم و حیاء آپ کیلئے ایسی قدرتی اور فطری ڈھال ہے‘ جس کی پناہ میں آپ معاشرے کی تمام گندگیوں سے محفوظ رہتے ہیں ۔
شرم و حیاء کی اسی اہمیت کی وجہ سے قرآن و حدیث میں ہمیں بار بار اس کی طرف متوجہ کیا گیا ہے ۔ اور شریعتِ اسلامی میں اس صفت کو نمایاں مقام حاصل ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اس کی نہایت تاکید فرمائی ہے ۔ اس سلسلہ کی چند احادیث درج ذیل ہیں:
(۱)… حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺنے ارشاد فرمایا :
الحیاء لا یاتی الا بخیر و فی روایۃ الحیاء خیر کلہ ( بخاری شریف)
( حیا کا نتیجہ صرف خیر ہے اور ایک روایت میں ہے کہ حیا ساری کی ساری خیر ہی ہے)۔
(۲)… حضرت زید بن طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺنے ارشاد فرمایا :
ان لکل دین خلقا و خلق الاسلام الحیاء ( مشکوٰۃ شریف )
https://chat.whatsapp.com/F15zSRqtYHZ2bxWGWYVSpY
(ہر دین کی (خاص) عادت ہوتی ہے اور اسلام کی عادت حیا ہے)
(۳)…حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان الحیاء والایمان قرنا ء جمیعاً فاذا رفع احد ھما رفع الاخر (مشکوٰۃ شریف)
( حیا اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا بھی خود بخود اٹھ جاتا ہے)۔
(۴)… حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :
ان مما ادرک الناس من کلام النبوۃ الاولیٰ اذا لم تستحی فاصنع ماشئت (بخاری شریف)
( پہلے انبیاء کے کلام سے لوگوں نے یہ جملہ بھی پایا ہے کہ اگر تو حیا نہ کرے تو جو چاہے کر۔(یعنی کوئی چیز تجھ کو برائی سے روکنے والی نہ ہو گی)۔
(۵)…حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺنے ارشاد فرمایا :الحیاء شعبۃ من الایمان(بخاری شریف)
(حیاایمان کا (اہم ترین) شعبہ ہے) ۔
(۶)… حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
الحیاء من الایمان والایمان فی الجنۃ والبذ اء من الجفاء والجفاء فی النار
( حیا ایمان میں سے ہے اور ایمان (یعنی اہل ایمان) جنت میں ہیں ۔ اور بے حیائی بدی میں سے ہے اور بدی (والے) جہنمی ہیں)۔(ترمذی)
(۷)… حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ماکان الفحش فی شیٔ الا شانہ وما کان الحیاء فی شیٔ الا زانہ (ترمذی شریف)
( بے حیائی جب بھی کسی چیز میں ہو گی تو اُسے عیب دار ہی بنائے گی ۔ اور حیاء جب بھی کسی چیز میں ہو گی تو اُسے مزین اور خوبصورت ہی کرے گی )۔
(۸)… حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ان اللہ عزوجل اذا اراد ان یھلک عبدا نزع منہ الحیاء فاذا نزع منہ الحیاء لم تلقہ الا مقیتا ممقتا فاذا لم تلقہ الا مقیتا ممقتا نزعت منہ الا ما نۃ فاذا نزعت منہ الا مانۃ لم تلقہ الا خائنا مخوانا فاذا لم تلقہ الا خائنا مخونا نزعت منہ الرحمۃ فاذا نزعت منہ الرحمۃ لم تلقہ الا رجیما ملا عنا فاذا لم تلقہ الا رجیما ملا عنا نزعت منہ ربقۃ الاسلام (ابن ماجہ شریف)
(اللہ تعالیٰ جب کسی بندہ کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اُس سے حیا کی صفت چھین لیتا ہے ۔ پس جب اُس سے حیا نکل جاتی ہے تو وہ (خود ) بغض رکھنے والا اور (دوسروں کی نظر میں) مبغوض ہو جاتا ہے ۔ پھر جب وہ بغیض و مبغوض ہو جاتا ہے تو اس سے امانت نکل جاتی ہے ۔ جب اُس سے امانت نکل جاتی ہے تو وہ خائن اور (لوگوں کی نظر میں) بَد دیانت ہو جاتا ہے ۔ جب وہ خائن اور بددیانت ہو جاتا ہے تو اس میں سے رحم کا مادہ نکل جاتا ہے ۔ جب اُس سے رحمت نکلتی ہے تو وہ لاعن و ملعون ہو جاتا ہے پس جب لاعن اور ملعون ہو جاتا ہے تو اُس سے اسلام کا پھندا (عہد ) نکل جاتا ہے )۔
اسلامی شریعت میں حیا سے مراد محض انسانوں سے حیا نہیں بلکہ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس اللہ علیم و خبیر سے بھی شرم کرنے کی تلقین کرتاہے جو ظاہر و پوشیدہ ، حاضر و غائب ہر چیز کو اچھی طرح جاننے والا ہے ۔ اس سے شرم کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ جو فعل بھی اس کی نظر میں برا ہو اُسے کسی بھی حال میں ہرگز ہرگز نہ کیا جائے اور اپنے تمام اعضاء و جوارح کو اس کا پابند بنایا جائے کہ ان سے کسی بھی ایسے کام کا صُد ور نہ ہو جو اللہ تعالیٰ سے شرمانے کے تقاضے کے خلاف ہو ۔ اس سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو واضح ہدایت فرمائی ہے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
استحیوا من اللّٰہ حق الحیاء قالواانا نستحیی من اللّٰہ یا نبی اللّٰہ والحمد للّٰہ قال لیس ذلک ولکن من استحی من اللّٰہ حق الحیاء فلیحفظ الراس و ما وعیٰ ولیحفظ البطن وما حوٰی ولیذ کر الموت والبلٰی و من اراد الا خرۃ ترک زینۃ الدنیا فمن فعل ذلک فقد استحیٰ من اللّٰہ حق الحیاء(مشکوٰۃ شریف)
(اللہ تعالیٰ سے اتنی شرم کرو جتنی اُس سے شرم کرنے کا حق ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا تمام تعریف اللہ کے لئے ہیں‘ اے اللہ کے نبی ! ہم اللہ سے شرم تو کرتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ مراد نہیں بلکہ جو شخص اللہ سے شرمانے کے حق کو ادا کرے گا تو (اسے تین کام کرنے ہوں گے) اول یہ کہ اپنے سر کی حفاظت کرے اور اس چیز کی جس کو سرنے جمع کیا اور (دوسرے یہ کہ) پیٹ کی حفاظت کرے اور اس چیز کی جو پیٹ سے لگی ہوئی ہے اور (تیسرے یہ کہ ) موت کو اور موت کے بعد کے حالات کو یاد کرے اور (خلاصہ یہ ہے کہ ) جو شخص آخرت کا ارادہ کرے وہ دنیا کی زیب و زینت چھوڑ دے پس جو ایسا کرے گا تو وہ اللہ سے حیا کرنے کا حق ادا کرے گا)
قرآن مجید حیا کے متعلق ایک خوبصورت واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس سے مسلمان عورت کو یہ سبق بھی ملتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے گھر سے نکلے۔
https://chat.whatsapp.com/F15zSRqtYHZ2bxWGWYVSpY
حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک عظیم پیغمبر تھے، جو اﷲ تعالیٰ سے براہ راست ہم کلام ہوئے۔ ایک مرتبہ سفر میں تھے گرمی کا موسم تھا پاؤں ننگے تھے۔ سفر کی تھکاوٹ اور پیدل چل چل کر پاؤں میں چھالے پڑچکے ہیں، ذرا آرام کرنے کے لئے ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ فاصلے پر ایک کنواں ہے وہاں سے کچھ نوجوان اپنی بکریوں کو پانی پلارہے ہیں اور ان سے کچھ فاصلے پر باحیا دو لڑکیاں کھڑی ہیں۔ جب آپ ں نے ان کو دیکھا تو حیرانگی کی انتہا نہ رہی کہ یہ دونوں لڑکیاں اس جنگل میں کیوں کھڑی ہیں اور کس کا انتظار کررہی ہیں؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب وجہ دریافت کی تو پتہ چلا کہ ان کا کوئی بھائی نہیں، باپ بوڑھا ہے وہ اس قابل نہیں کہ چل پھرسکے اور وہ دونوں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لئے آئی ہیں کہ جب تمام لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلاکر چلے جائیں گے تو آخر میں یہ اپنی بکریوں کو پانی پلائیں گی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کی بات سننے کے بعد آگے بڑھے اور خود پانی کنوئیں سے نکالا اور ان کی بکریوں کو پلادیا۔ لڑکیاں جب خلاف معمول جلدی گھر پہنچیں تو باپ نے جلدی آنے کی وجہ پوچھی تو دونوں نے باپ کو پوری حقیقت سے آگاہ کردیا۔ باپ خود بھی پیغمبر تھے فرمایا کہ جاؤ اس نوجوان کو بلاکر لاؤ تاکہ ہم اس کو پورا پورا بدلہ دیں۔ اب ایک لڑکی جب موسیٰ علیہ السلام کو بلانے آئی تو وہ کس طرح آئی ، اس کا انداز کیا تھا۔ قرآن نے اس کے چلنے کا انداز جوکہ شرم و حیا سے لبریز تھا اس طرح بیان کیا ہے:
ترجمہ: ’’پھر آئی ان دونوں میں سے ایک، شرم و حیا سے چلتی ہوئی۔ وہ کہنے لگی کہ میرا باپ آپ کو بلاتا ہے تاکہ وہ بدلہ دے جوآپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے۔‘‘(القصص ؍ ۲۵)
حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے آئی۔ شرم و حیا کا دامن نہیں چھوڑا نگاہ نیچے تھی۔بات بھی شرما کر زیادہ کھل کر نہیں کی۔اﷲ تعالیٰ کو اس کی حیا اس قدر پسند آئی کہ اس حیا کو قرآن بناکرحضرت محمد رسول اﷲﷺ پر نازل کردیا تاکہ پوری امت کی عورتوں کو پتہ چل جائے کہ جب وہ گھروں سے نکلیں تو شرم و حیا سے عاری لوگوں کی طرح گردن اٹھاکر نہ چلیں بلکہ دھیمی چال سے کہ شرافت اور حیا ان سے واضح نظر آئے۔ جس طرح شعیب علیہ السلام کی بیٹی شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی۔
عملی اعتبار سے حیا کے تین شعبے ہیں:
(۱) اﷲ تعالیٰ سے حیا
(۲) لوگوں سے حیا
(۳) اپنے نفس سے حیا
اﷲ تعالیٰ سے حیا کا مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی کو نہ توڑے۔ لوگوں سے حیا یہ کہ حقوق العباد کو ادا کرے،لوگوں کے سامنے جن باتوں کے اظہار کو محبوب اور برا سمجھا جاتا ہے،اُن کے اظہار سے بچے اور اپنے نفس سے حیا یہ ہے کہ نفس کو ہر برے اور قابل مذمت کام سے بچائے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ چند آیات اور احادیث کے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے شرم و حیا پر کتنا زیادہ زور دیا ہے اور اس کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اسے ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
شرم و حیاء ایمانی زیور ہے لیکن آج کل کے دور میں شرم وحیا، عفت و عصمت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ آج حیا ایک عیب بن کر رہ گیا ہے۔ مغربی تہذیب نے دنیاکو بے شرم اور بے حیا بنادیا ہے۔آج اگر ہم اپنے معاشرے میں نظر دوڑائیں تو ہر طرف بیہودہ تصویریں نظر آتی ہیں ۔ مغربی میڈیا ہر جگہ عورت کی تصویر کو نمائش بناکر پیش کررہا ہے، آپ کو مختلف چوکوں اور چوراہوں پر ایسے سائن بورڈ نظر آئیں گے جہاں عورت کی تصویر ذریعہ اشتہار برائے کمائی نظر آئے گی، عورت کی اس حالت کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے :پھر افسوس ہے کہ بے وقوف لوگ اسی کو آزادیٔ نسواں اور حقوق ِ نسواں کا نام دیتے ہیں۔
اپنی زندگی میں ہر قدم ایسے پھونک پھونک کر رکھیں کہ ایمان کے لٹیرے اور عزتوں کے ڈاکو کہیں شرم و حیاء کی یہ قیمتی دولت آپ سے چھین نہ لیں ۔
اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔ آمین ثم آمین
وصلی اللّٰہ علی النبی الکریم و علی آلہ و صحبہ اجمعین
🍃✨🍃✨🍃
قلب سلیم ہی حقیقتاً مومن کا دل ہے جو کفر نفاق اور گندگی سے پاک ہوتا ہے اپنے دل کو قلب سلیم بنانا ہی تزکیہ نفس ہے جس کو پروردگار عالم نے اپنے کلام میں یوں بیان فرمایا
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (9)
بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے اپنی روح کو پاک کر لیا۔
https://chat.whatsapp.com/F15zSRqtYHZ2bxWGWYVSpY
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ..
ﺩﮨﻠﯽ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻧﻮﺭ ﺣﯿﺎﺕ ﻧﺎﻣﯽ ﺷﺨﺺ ﺁﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﻼﺗﺎ تھا
ﺍﯾﮏ مرتبہ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻭﻟﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﮔﺰﺭ ﮨﻮﺍ،
ﻧﻮﺭ ﺣﯿﺎﺕ ﻧﮯﺍﻧﮭﯿﮟ ﺑﮍﯼ عزت و ﺗﮑﺮﯾﻢ ﺳﮯﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﭘﯿﺎﻟﮧ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ،
ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﮐﺮ ﺟﺐ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺩﻝ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﻣﺎﻧﮓ ﮐﯿﺎ ﻣﺎﻧﮕﺘﺎﮨﮯ؟
ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﻼﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﻮ ﭼﺎﮨﯿﮟ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﺩﯾﮟ ! ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻧﻮﺭ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﯽ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﺎ ﮨﻨﺪﺳﮧ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﻧﻮﺭ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﭘﯿﮧ ﻣﻨﺎﻓﻊ ﮨﻮنے لگ گیا
ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ اللہ کےﻭﻟﯽ ﮔﺰﺭﮮ، ﻧﻮﺭﺣﯿﺎﺕ ﻧﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺑﮭﯽ محبت سے ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ، ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯﺑﮭﯽ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﮐﺮﮐﮩﺎ ﻣﺎﻧﮓ ﮐﯿﺎ ﻣﺎﻧﮕﺘﺎ ﮨﮯ؟ ﻧﻮﺭﺣﯿﺎﺕ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﻼﯾﺎ ،
ﺗﻮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮﺩ ﺧﺪﺍ ﺍﯾﮏ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﮈﺍﻝ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ، ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺻﻔﺮ ﻟﮕﺎﺩﻭﮞ ؛
ﺗﻮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺻﻔﺮ ﻟﮕﺎﺩﯼ ﺍﺏ ﻧﻮﺭﺣﯿﺎﺕ ﮐﻮﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺩﺱ ﺭﻭﭘﮯ ﻣﻨﺎﻓﻊ ﻣﻠﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻭﻟﯽ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ، ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﮐﺮﻧﻮﺭ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﯽ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﮧ ﺍﯾﮏ ﺻﻔﺮ ﮈﺍﻝ ﺩﯼ ، ﺍﻭﺭ ﻧﻮﺭ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﻮ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺳﻮﺭﻭﭘﯿﮧ ﻧﻔﻊ ﻣﻠﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﻋﺮﺻﮯﺑﻌﺪﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻗﻄﺐ ﮐﺎ ﮔﺰﺭ ﮨﻮﺍ ، ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﮐﺮ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﺎﻧﮕﻮ ﮐﯿﺎ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﻮ ؟ ﻧﻮﺭ ﺣﯿﺎﺕ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﻼﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺻﻔﺮ ﮐﺎ ﻣﺰﯾﺪ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﺏ ﺍﺳﮯ ﺭﻭﺯﻧﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﯿﮧ ﻣﻨﺎﻓﻊ ﮨﻮﺗﺎ ،
ﺩﻥ ﺑﮧ ﺩﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﮔﺌﮯ ، ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﻣﺎﻟﺪﺍﺭ ﮨﻮﮔﯿﺎ ،
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﻨﻮﯾﮟ ﮐﻮ ﺧﯿﺮ ﺑﺎﺩ ﮐﮧ ﺩﯾﺎ ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﻣﺎﮦ ﮔﺰﺭﮮ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﻮﭨﮯ،
انہوں نے پوچھا ﺟﻮ ﻣﺴﺎﻓﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﻼﺗﺎ ﺗﮭﺎ ؟ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯﮐﮩﺎ ﺣﻀﺮﺕ ! ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﺎﺭﺧﯿﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ ھﮯ
ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﭼﻠﻮ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﻣﺎﻝ ﻭﻣﻨﺎﻝ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺎ ھﮯ ،
ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮐﮭﺎﺅ !
ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺁﮔﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﭩﺎ ﺩﯾﺎ ؛ ﺍﯾﮏ ﻣﭩﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺻﻔﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﻗﻌﺖ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ، ﺍﺳﮯ ﺟﻮ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﯿﮧ ﻣﻠﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﮔﯿﺎ ؛
ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺻﻞ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺻﻔﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﻭﺟﻮﺩ ﻋﻄﺎ ﮐﯿﺎ !!
ﺑﻼﺗﻤﺜﯿﻞ ﻭﺗﺸﺒﯿﮧ ،
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ همارا ﺍﯾﮏ هے۔۔۔۔!!!
اور ﻧﻤﺎﺯ ﺭﻭﺯﮦ ، ﺣﺞ ، ﺯﮐﻮﺓ ، ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﺻﻔﺮﯾﮟ ؛ ﯾﮧ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﺳﻮ ، ﮨﺰﺍﺭ ، ﻻﮐﮫ ، ﮐﺮﻭﮌ ﮨﮯ ؛ ﺍﮔﺮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮨﭩﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ
یہ سب ﺑﮯ ﻗﯿﻤﺖ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ،
ﭼﺎﮨﯿﮟ ﺟﺘﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ
💓 اللَّهَ ﮨﻤﺎﺭﺍ "ﺍﯾﮏ " ﺳﻼﻣﺖ ﺭﮐﮭﮯ !!
👏ﺁﻣﯿــﻦ ﺛﻢ ﺁﻣﯿــﻦ
🤲ﻳﺎ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤـﯾﻦ🤲
رسول اللہ ﷺ کی محبت ایمان کی روح ھے۔
ایمان کی جان و اصل ھے۔
نہیں بالکل نہیں.. یہی حال کیلے، مالٹے کا ہے..
ھم خوشی سے چھلکا اتار کر کھاتے ھیں.. حالانکہ ھم نے چھلکے سمیت خریدا ھوتا ہے.. مگر چھلکا پھینکتے وقت تکلیف نہیں ھوتی..
ھم مرغی خریدتے ھیں.. زندہ، ثابت.. مگر جب کھانے لگتے ھیں تو اس کے بال، کھال اور پیٹ کی آلائش نکال کر پھینک دیتے ھیں.. کیا اس پر دکھ ہوتا ہے؟.. نہیں..
تو پھر چالیس ہزار میں سے ایک ہزار دینے پر.. ایک لاکھ میں سے ڈھائی ہزار دینے پر کیوں بہت سے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی ہے؟.. حالانکے یہ صرف ڈھائی فیصد بنتا ہے.. یعنی سو روپے میں سے صرف ڈھائی روپے..
یہ تربوز، کیلے، آم اور مالٹے کے چھلکے اور گٹھلی سے کتنا کم ہے.. اسے ”زکوۃ“ فرمایا گیا ہے.. یہ پاکی ہے.. مال بھی پاک.. ایمان بھی پاک.. دل اور جسم بھی پاک.. اتنی معمولی رقم یعنی چالیس روپے میں سے صرف ایک روپیہ.. اور فائدے کتنے زیادہ.. اجر کتنا زیادہ.. برکت کتنی زیادہ.. مگر یہ ایک روپیہ نکالنا بھی.. اتنا تکلیف دہ کہ.. اکثر مسلمان زکوۃ میں ڈنڈی مارتے ھیں..
آخر تربوز اور روپے میں اتنا فرق کیوں ہے؟
No comments:
Post a Comment