Home Page Urdu Islamic Article HR Email Ids Zikar Azkaar
Namaz Quran & Tableegh School HR ID Ulema Ikram Bayanat
Listen Quran Majeed Read Quran Majeed Social Media Ramzan
خاتمہ بلایمان ۔۔۔۔
سعودی عرب کے ایک بزنس مین نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص اس سے کہہ رہا ہے کہ تمہاری کمپنی کے آفس کے مین گیٹ کے سامنے فلاں شخص جو پھل بیچتا ہے اس کو عمرہ کرا دو ۔۔۔
نیند سے بیدار ہوا تو اسے خواب اچھی طرح یاد تھا
مگر اس نے وہم جانا اور خواب کو نظر انداز کردیا ۔۔۔
تین دن مسلسل ایک ہی خواب نظر آنے کے بعد وہ شخص اپنےعلاقے کی جامع مسجد کے امام کے پاس گیا اور اسے خواب سنایا ۔۔۔
امام مسجد نے کہا اس شخص سے رابطہ کرو اور اسے عمرہ کروا دو ۔۔۔
اگلے روز اس شخص نے اپنی اس کمپنی کے ایک ملازم سے اس پھل فروش کا نمبر معلوم کرنے کو کہا ۔۔۔
بزنس مین نے فون پر اس پھل فروش سے رابطہ کیا اور کہا کہ مجھے خواب میں کہا گیا ہے کہ میں تمہیں عمرہ کرواوٴں ، لہذا میں اس نیک کام کی تکمیل کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔
پھل فروش زور سے ہنسا اور کہنے لگا ! کیا بات کرتے ہو بھائی؟؟
میں نےتو مدت ہوئی کبھی فرض نماز ادا نہیں کی اور بعض اوقات شراب بھی پیتا ہوں ۔۔۔ تم کہتے ہو کہ تم مجھے عمرہ کروانا چاہتے ہو....!!
بزنس مین اصرار کرنے لگا ۔۔۔ اسے سمجھایا کہ ... میرے بھائی !
میں تمہیں عمرہ کروانا چاہتا ہوں ، سارا خرچ میرا ہوگا ۔۔۔
خاصی بحث اور تمہید کے بعد آدمی اس شرط پر رضامند ہوا کہ ٹھیک ہے میں تمہارے ساتھ عمرہ کرونگا مگر تم مجھے واپس ریاض میرے گھر لیکر آوٴ گے اور تمام تر اخرجات تمہارے ہی ذمہ ہونگے......
وقتِ مقررہ پر جب وہ ایک دوسرے کو ملے تو بزنس مین نے دیکھا کہ واقعی وہ شکل وصورت سے کوئی اچھا انسان نہیں دکھائی دیتا تھا ۔۔۔
اس کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ شرابی ہے اور نماز کم ہی پڑھتا ہے۔ اسے بڑا تعجب ہوا کہ یہ وہ ہی شخص ہے جسے عمرہ کرنے کے لئے خواب میں تین مرتبہ کہا گیا ۔۔۔
دونوں مکہ مکرمہ عمرہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ میقات پر پہنچے تو انہوں نے غسل کرکے احرام باندھا اور حرم شریف کی طرف روانہ ہوئے ،
انہوں نے بیت اللّٰہ کا طواف کیا ۔ مقامِ ابرہیم پر دو رکعت نمازادا کی، صفا و مرہ کے درمیان سعی کی ۔ اپنے سروں کو منڈوایا اور اسطرح عمرہ مکمل ہوگیا۔
اب انھوں نے واپسی کی تیاری شروع کردی ۔۔۔
حرم سے نکلنے لگے تو پھل فروش بزنس مین سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا:
'' دوست حرم چھوڑنے سے پہلے میں دو رکعت نفل ادا کرنا چاہتا ہوں ، نجانے دوبارہ عمرہ کی توفیق ہوتی بھی ہے یا نہیں ۔''
اسے کیا اعتراض ہوتا اس نے کہا: '' نفل پڑھو اور بڑے شوق سے پڑھو۔ اس نے اس کے سامنے نفل ادا کرنے شروع کر دئیے ۔۔۔
جب سجدہ میں گیا تو اس کا سجدہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا ۔۔۔
جب کافی دیر گزرگئی تو بزنس مین نے اسے ہلایا ۔۔۔
جب کوئی حرکت نہیں ہوئی تو اس پر انکشاف ہوا کہ پھل فروش کی روح حالتِ سجدہ ہی میں پرواز کرچکی تھی ۔۔۔
پھل فروش کی موت پر اسے بڑا رشک آیا اور وہ روپڑا کہ یہ تو حسنِ خاتمہ ہے، کاش !
ایسی موت میرے نصیب میں ہوتی، ایسی موت تو ہر کسی کونصیب ہو،وہ اپنے آپ سے ہی یہ باتیں کر رہا تھا ۔۔۔
اس خوش قسمت انسان کو غسل دیا گیا، اور احرام پہنا کر حرم میں ہی اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی ۔۔۔ ہزاروں فرزندان اسلام نے اس کا جنازہ پڑھا اور اس کی مغفرت کے لئے دعا کی گئی ۔۔۔
اس دوران اس کی وفات کی اطلاع ریاض اسکے گھروالوں کو دی جاچکی تھی، بزنس مین نے اپنے وعدے کے مطابق اس کی میت کو ریاض پہنچا دیا،جہاں اسے دفن کر دیا گیا ۔۔۔
بزنس مین نے پھل فروش کی بیوہ سے تعزیت کرنے کے بعد کہا : ''
میں جاننا چاہتا ہوں کہ تمہارے شوہر کی ایسی کونسی عادت یا نیکی تھی کہ اس کا انجام اس قدر عمدہ ہوا اور اسےحرمِ میں سجدہ کی حالت میں موت آئی ۔۔۔
بیوہ نے کہا: بھائی ۔۔۔ میرا خاوند کوئی نیک و کار آدمی تو نہیں تھا اور اس نے ایک لمبی مدت سے نماز روزہ بھی چھوڑ رکھا تھا ۔۔۔ میں اسکی کوئی خاص خوبی بیان تو نہیں کرسکتی ۔۔۔
ہاں ۔۔۔ ! مگر اس کی ایک عادت یہ ضرور تھی کہ
''وہ ہمارے ہمسایہ میں ایک غریب بیوہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کیساتھ رہتی ہے، ''میرا شوہر روزانہ بازار جاتا تو جو چیز اپنے بچوں کے لئے کھانے پینے کی لاتا وہ اس بیوہ اور اس کے یتیم بچوں کیلئے بھی لے آتا ۔۔۔
اور اس کے دروازے پر رکھ کر اسے آواز دیتا کہ اے بہن ۔۔۔ !
میں نے کھاناباہر رکھ دیا ہے، اسے اٹھا لو۔ ''یہ بیوہ عورت کھانا اٹھاتی اور آسمان کی جانب سر اٹھا کر دیکھتی اور کہتی
اے اللہ رب العزت ۔۔۔
آج پھر اس شخص نے میرے بھوکے بچوں کو کھانا کھلایا
اے اللہ رب العزت ۔۔۔ '' اس کا خاتمہ ایمان پر فرما ''قارئین زندگی تو بحرحال گزر ہی جانی ہے ۔۔۔ اپنی استطاعت کے مطابق لوگوں کی مدد کرتے رہا کیجیئے ۔۔۔ ایک حدیث کا مفہوم بھی ہے کہ کسی سے کی گئی بھلائی بری موت سے بچاتی
سعودی عرب کے ایک بزنس مین نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص اس سے کہہ رہا ہے کہ تمہاری کمپنی کے آفس کے مین گیٹ کے سامنے فلاں شخص جو پھل بیچتا ہے اس کو عمرہ کرا دو ۔۔۔
نیند سے بیدار ہوا تو اسے خواب اچھی طرح یاد تھا
مگر اس نے وہم جانا اور خواب کو نظر انداز کردیا ۔۔۔
تین دن مسلسل ایک ہی خواب نظر آنے کے بعد وہ شخص اپنےعلاقے کی جامع مسجد کے امام کے پاس گیا اور اسے خواب سنایا ۔۔۔
امام مسجد نے کہا اس شخص سے رابطہ کرو اور اسے عمرہ کروا دو ۔۔۔
اگلے روز اس شخص نے اپنی اس کمپنی کے ایک ملازم سے اس پھل فروش کا نمبر معلوم کرنے کو کہا ۔۔۔
بزنس مین نے فون پر اس پھل فروش سے رابطہ کیا اور کہا کہ مجھے خواب میں کہا گیا ہے کہ میں تمہیں عمرہ کرواوٴں ، لہذا میں اس نیک کام کی تکمیل کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔
پھل فروش زور سے ہنسا اور کہنے لگا ! کیا بات کرتے ہو بھائی؟؟
میں نےتو مدت ہوئی کبھی فرض نماز ادا نہیں کی اور بعض اوقات شراب بھی پیتا ہوں ۔۔۔ تم کہتے ہو کہ تم مجھے عمرہ کروانا چاہتے ہو....!!
بزنس مین اصرار کرنے لگا ۔۔۔ اسے سمجھایا کہ ... میرے بھائی !
میں تمہیں عمرہ کروانا چاہتا ہوں ، سارا خرچ میرا ہوگا ۔۔۔
خاصی بحث اور تمہید کے بعد آدمی اس شرط پر رضامند ہوا کہ ٹھیک ہے میں تمہارے ساتھ عمرہ کرونگا مگر تم مجھے واپس ریاض میرے گھر لیکر آوٴ گے اور تمام تر اخرجات تمہارے ہی ذمہ ہونگے......
وقتِ مقررہ پر جب وہ ایک دوسرے کو ملے تو بزنس مین نے دیکھا کہ واقعی وہ شکل وصورت سے کوئی اچھا انسان نہیں دکھائی دیتا تھا ۔۔۔
اس کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ شرابی ہے اور نماز کم ہی پڑھتا ہے۔ اسے بڑا تعجب ہوا کہ یہ وہ ہی شخص ہے جسے عمرہ کرنے کے لئے خواب میں تین مرتبہ کہا گیا ۔۔۔
دونوں مکہ مکرمہ عمرہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ میقات پر پہنچے تو انہوں نے غسل کرکے احرام باندھا اور حرم شریف کی طرف روانہ ہوئے ،
انہوں نے بیت اللّٰہ کا طواف کیا ۔ مقامِ ابرہیم پر دو رکعت نمازادا کی، صفا و مرہ کے درمیان سعی کی ۔ اپنے سروں کو منڈوایا اور اسطرح عمرہ مکمل ہوگیا۔
اب انھوں نے واپسی کی تیاری شروع کردی ۔۔۔
حرم سے نکلنے لگے تو پھل فروش بزنس مین سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا:
'' دوست حرم چھوڑنے سے پہلے میں دو رکعت نفل ادا کرنا چاہتا ہوں ، نجانے دوبارہ عمرہ کی توفیق ہوتی بھی ہے یا نہیں ۔''
اسے کیا اعتراض ہوتا اس نے کہا: '' نفل پڑھو اور بڑے شوق سے پڑھو۔ اس نے اس کے سامنے نفل ادا کرنے شروع کر دئیے ۔۔۔
جب سجدہ میں گیا تو اس کا سجدہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا ۔۔۔
جب کافی دیر گزرگئی تو بزنس مین نے اسے ہلایا ۔۔۔
جب کوئی حرکت نہیں ہوئی تو اس پر انکشاف ہوا کہ پھل فروش کی روح حالتِ سجدہ ہی میں پرواز کرچکی تھی ۔۔۔
پھل فروش کی موت پر اسے بڑا رشک آیا اور وہ روپڑا کہ یہ تو حسنِ خاتمہ ہے، کاش !
ایسی موت میرے نصیب میں ہوتی، ایسی موت تو ہر کسی کونصیب ہو،وہ اپنے آپ سے ہی یہ باتیں کر رہا تھا ۔۔۔
اس خوش قسمت انسان کو غسل دیا گیا، اور احرام پہنا کر حرم میں ہی اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی ۔۔۔ ہزاروں فرزندان اسلام نے اس کا جنازہ پڑھا اور اس کی مغفرت کے لئے دعا کی گئی ۔۔۔
اس دوران اس کی وفات کی اطلاع ریاض اسکے گھروالوں کو دی جاچکی تھی، بزنس مین نے اپنے وعدے کے مطابق اس کی میت کو ریاض پہنچا دیا،جہاں اسے دفن کر دیا گیا ۔۔۔
بزنس مین نے پھل فروش کی بیوہ سے تعزیت کرنے کے بعد کہا : ''
میں جاننا چاہتا ہوں کہ تمہارے شوہر کی ایسی کونسی عادت یا نیکی تھی کہ اس کا انجام اس قدر عمدہ ہوا اور اسےحرمِ میں سجدہ کی حالت میں موت آئی ۔۔۔
بیوہ نے کہا: بھائی ۔۔۔ میرا خاوند کوئی نیک و کار آدمی تو نہیں تھا اور اس نے ایک لمبی مدت سے نماز روزہ بھی چھوڑ رکھا تھا ۔۔۔ میں اسکی کوئی خاص خوبی بیان تو نہیں کرسکتی ۔۔۔
ہاں ۔۔۔ ! مگر اس کی ایک عادت یہ ضرور تھی کہ
''وہ ہمارے ہمسایہ میں ایک غریب بیوہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کیساتھ رہتی ہے، ''میرا شوہر روزانہ بازار جاتا تو جو چیز اپنے بچوں کے لئے کھانے پینے کی لاتا وہ اس بیوہ اور اس کے یتیم بچوں کیلئے بھی لے آتا ۔۔۔
اور اس کے دروازے پر رکھ کر اسے آواز دیتا کہ اے بہن ۔۔۔ !
میں نے کھاناباہر رکھ دیا ہے، اسے اٹھا لو۔ ''یہ بیوہ عورت کھانا اٹھاتی اور آسمان کی جانب سر اٹھا کر دیکھتی اور کہتی
اے اللہ رب العزت ۔۔۔
آج پھر اس شخص نے میرے بھوکے بچوں کو کھانا کھلایا
اے اللہ رب العزت ۔۔۔ '' اس کا خاتمہ ایمان پر فرما ''قارئین زندگی تو بحرحال گزر ہی جانی ہے ۔۔۔ اپنی استطاعت کے مطابق لوگوں کی مدد کرتے رہا کیجیئے ۔۔۔ ایک حدیث کا مفہوم بھی ہے کہ کسی سے کی گئی بھلائی بری موت سے بچاتی
”جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا او ر جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔“(سورہ : ا لنحل ۔ آیت نمبر:۹۶)
🍂🍂🍂
دنیاوی مال و متاع ، شرافت و افتخار،قابلیت و لیاقت کی کوئی قیمت نہیں اگر دل ایمان و یقین سے خالی ہو۔ اور اگر اس دنیا کی محبت رب تعا لیٰ کے یہاں ایک مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو اللہ جل شانہ‘ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہیں دیتے۔اس دنیا کی زندگی کو ”متاعِ قلیل “ کہا گیا ہے۔مگر افسوس کا مقام ہے کہ اہلِ ایمان کا بھی منتہائے نظر اب دنیا کی کامیابی ہو کر رہ گیا ہے۔عیش و عشرت کے لیے دنیا کی طلب پر تنبیہ کی گئی ہے۔ اہل ایمان اللہ کے آخری پیغام کے اصل حاملین ہیں لہٰذا ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اہل دنیا کی ”کامیاب دنیا“ پر ہرگز ہرگز رال نہ ٹپکائیں؛ بلکہ آخری نبی… کے امتی ہونے کے ناطے ان کی” برباد آخرت“ پر آنسو بہائیں کہ یہ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جہنم کی طرف تیزی سے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔مگر افسوس کا مقام ہے کہ اہل ایمان کو اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کی کوئی فکر لا حق نہیں۔اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ اب ان کی بھی فکر و سوچ پر دنیا کی زندگی ایسی حاوی ہو گئی ہے کہ وہ دنیا کی لذّ ات و پر تعیش زندگی میں غیروں سے ذرا بھی پیچھے رہنا نہیں چاہتے۔ حالانکہ وہ جس نبی امُی… کے نام لیوا ہیں اور ان کی اتباع ہر حال میں ضروری ہے، انھوں نے پہاڑوں کو سونابنانے کی پیش کش پر انکار کر دیا تھا۔ حتیٰ کہ سخت ترین حالات میں بھی وسعتِ دنیا کی دعا کرنے پر حضرت عمر فاروق جیسے جلیل ا لقدر صحابی کو تنبیہ فرمائی تھی، جسے خود حضرت عمر اس طرح بیان کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ میں دربارِ رسالت میں حاضرِ خدمت ہوا تو دیکھا کہ حضور … ایک بوریے پر لیٹے ہوئے ہیں، جسمِ اطہر پر بوریے کے نشانات بھی ابھر آئے ہیں اور سرہانے ایک چمڑے کا تکیہ ہے جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی ہے۔ میں نے دیکھا کہ گھر کا کل سامان یہ تھا۔ تین چمڑے بغیر دباغت دیے ہوئے اور ایک مٹھی جوَ۔ اس کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ یہ دیکھ کر میں رو دیا، حضور …نے فرمایا کہ کیوں رو رہے ہو۔ پھر میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ … کیوں نہ روؤں کہ یہ بوریے کے نشانات آپ کے بدنِ مبارک پر پڑے ہیں اور گھر کی کل کائنات یہ ہے جو میرے سامنے ہے۔ پھر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ… دعا کیجیے کہ آپ کی امت پر بھی وسعت ہو۔ یہ روم و فارس بے دین ہونے کے باوجود کہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ ان پر یہ وسعت، یہ قیصر و کسری تو باغوں اور نہروں کے درمیان ہوں اور آپ اللہ کے رسول اور اس پر یہ حالت، نبی اکرم … تکیہ لگائے ہوئے لیٹے تھے۔میری بات سن کر بیٹھ گئے۔ اور فرمایا ” عمر! کیا اب تک اس بات کے اندر شک میں پڑے ہوئے ہو۔ سنو! آخرت کی وسعت دنیا کی وسعت سے بہتر ہے۔ ان کفار کو اچھی چیزیں دنیا میں مل گئیں اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں۔حضرت عمر نے عرض کیا: یا رسول اللہ … میرے لیے استغفار فرمائیں کہ واقعی میں نے غلطی کی۔
البتہ دین اسلام پر عمل کرنے پر بطور انعام اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لیے حیات طیبہ موعود ہے۔
” چاہے کوئی مرد ہو یا عورت نیک عمل کر کے آ وے اور صاحب ایمان ہو تو ہم ایسے لوگوں کو حیاتِ طیبہ عطا کریں گے ۔“(سورہ : ا لنحل ۔ آیت نمبر:۹۷)
اور یہ حیات طیبہ کیا ہے؟ حیات طیبہ در اصل حیات خبیثہ کی ضد ہے۔ حیات طیبہ عین وہی چیزہے جس میں ہر طرح کا سکون ، عافیت ،آسانی وغیرہ شامل ہیں۔ حیات طیبہ میں نیک بیوی، فرماں بردار اولاد، خاتمہ بالخیر،حلال و آسان روزی، سکون و طمانیت، غنائے قلبی، خلقت میں محبت و رعب اور دبدبہ وغیرہ کے علاوہ ہر وہ چیز شامل ہے جن کے حصول کے لیے دنیا کے عام انسان سخت تگ و دو میں رہتے ہیں؛ مگر دین پر عمل کرنے پر بطور انعام مومن کوحق جل شانہ‘ حیات طیبہ سے نوازدیتے ہیں۔
اہل ایمان اللہ کے آخری محفوظ و موجود کلام کے حامل ہونے کے ناطے دنیائے انسانیت کے رہبر و ہادی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ و ہ اپنے اعمال اور اپنی زندگی سے اس کاعملی ثبوت پیش کریں کہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔اصل کامیابی رب کی رضامیں پوشیدہ ہے ۔ کامیابی اس کے لیے ہے جو جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا۔اصل کامیابی وہ ہے جہاں جنت کی نعمتیں کبھی بھی ختم نہ ہوں گی؛ بلکہ بڑھتی ہی جائیں گی۔اور جہاں رب تعالیٰ کا دیدار سب سے بڑی نعمت ہوگی۔جہاں اللہ تعالیٰ خود بندوں کو قرآن شریف پڑھ کر سنائیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ اعلان فرما دیں گے کہ اے میرے بندو! اب میں تم سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوؤ ں گا۔
🍂🍂🍂
دنیاوی مال و متاع ، شرافت و افتخار،قابلیت و لیاقت کی کوئی قیمت نہیں اگر دل ایمان و یقین سے خالی ہو۔ اور اگر اس دنیا کی محبت رب تعا لیٰ کے یہاں ایک مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو اللہ جل شانہ‘ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہیں دیتے۔اس دنیا کی زندگی کو ”متاعِ قلیل “ کہا گیا ہے۔مگر افسوس کا مقام ہے کہ اہلِ ایمان کا بھی منتہائے نظر اب دنیا کی کامیابی ہو کر رہ گیا ہے۔عیش و عشرت کے لیے دنیا کی طلب پر تنبیہ کی گئی ہے۔ اہل ایمان اللہ کے آخری پیغام کے اصل حاملین ہیں لہٰذا ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اہل دنیا کی ”کامیاب دنیا“ پر ہرگز ہرگز رال نہ ٹپکائیں؛ بلکہ آخری نبی… کے امتی ہونے کے ناطے ان کی” برباد آخرت“ پر آنسو بہائیں کہ یہ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جہنم کی طرف تیزی سے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔مگر افسوس کا مقام ہے کہ اہل ایمان کو اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کی کوئی فکر لا حق نہیں۔اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ اب ان کی بھی فکر و سوچ پر دنیا کی زندگی ایسی حاوی ہو گئی ہے کہ وہ دنیا کی لذّ ات و پر تعیش زندگی میں غیروں سے ذرا بھی پیچھے رہنا نہیں چاہتے۔ حالانکہ وہ جس نبی امُی… کے نام لیوا ہیں اور ان کی اتباع ہر حال میں ضروری ہے، انھوں نے پہاڑوں کو سونابنانے کی پیش کش پر انکار کر دیا تھا۔ حتیٰ کہ سخت ترین حالات میں بھی وسعتِ دنیا کی دعا کرنے پر حضرت عمر فاروق جیسے جلیل ا لقدر صحابی کو تنبیہ فرمائی تھی، جسے خود حضرت عمر اس طرح بیان کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ میں دربارِ رسالت میں حاضرِ خدمت ہوا تو دیکھا کہ حضور … ایک بوریے پر لیٹے ہوئے ہیں، جسمِ اطہر پر بوریے کے نشانات بھی ابھر آئے ہیں اور سرہانے ایک چمڑے کا تکیہ ہے جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی ہے۔ میں نے دیکھا کہ گھر کا کل سامان یہ تھا۔ تین چمڑے بغیر دباغت دیے ہوئے اور ایک مٹھی جوَ۔ اس کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ یہ دیکھ کر میں رو دیا، حضور …نے فرمایا کہ کیوں رو رہے ہو۔ پھر میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ … کیوں نہ روؤں کہ یہ بوریے کے نشانات آپ کے بدنِ مبارک پر پڑے ہیں اور گھر کی کل کائنات یہ ہے جو میرے سامنے ہے۔ پھر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ… دعا کیجیے کہ آپ کی امت پر بھی وسعت ہو۔ یہ روم و فارس بے دین ہونے کے باوجود کہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ ان پر یہ وسعت، یہ قیصر و کسری تو باغوں اور نہروں کے درمیان ہوں اور آپ اللہ کے رسول اور اس پر یہ حالت، نبی اکرم … تکیہ لگائے ہوئے لیٹے تھے۔میری بات سن کر بیٹھ گئے۔ اور فرمایا ” عمر! کیا اب تک اس بات کے اندر شک میں پڑے ہوئے ہو۔ سنو! آخرت کی وسعت دنیا کی وسعت سے بہتر ہے۔ ان کفار کو اچھی چیزیں دنیا میں مل گئیں اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں۔حضرت عمر نے عرض کیا: یا رسول اللہ … میرے لیے استغفار فرمائیں کہ واقعی میں نے غلطی کی۔
البتہ دین اسلام پر عمل کرنے پر بطور انعام اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لیے حیات طیبہ موعود ہے۔
” چاہے کوئی مرد ہو یا عورت نیک عمل کر کے آ وے اور صاحب ایمان ہو تو ہم ایسے لوگوں کو حیاتِ طیبہ عطا کریں گے ۔“(سورہ : ا لنحل ۔ آیت نمبر:۹۷)
اور یہ حیات طیبہ کیا ہے؟ حیات طیبہ در اصل حیات خبیثہ کی ضد ہے۔ حیات طیبہ عین وہی چیزہے جس میں ہر طرح کا سکون ، عافیت ،آسانی وغیرہ شامل ہیں۔ حیات طیبہ میں نیک بیوی، فرماں بردار اولاد، خاتمہ بالخیر،حلال و آسان روزی، سکون و طمانیت، غنائے قلبی، خلقت میں محبت و رعب اور دبدبہ وغیرہ کے علاوہ ہر وہ چیز شامل ہے جن کے حصول کے لیے دنیا کے عام انسان سخت تگ و دو میں رہتے ہیں؛ مگر دین پر عمل کرنے پر بطور انعام مومن کوحق جل شانہ‘ حیات طیبہ سے نوازدیتے ہیں۔
اہل ایمان اللہ کے آخری محفوظ و موجود کلام کے حامل ہونے کے ناطے دنیائے انسانیت کے رہبر و ہادی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ و ہ اپنے اعمال اور اپنی زندگی سے اس کاعملی ثبوت پیش کریں کہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔اصل کامیابی رب کی رضامیں پوشیدہ ہے ۔ کامیابی اس کے لیے ہے جو جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا۔اصل کامیابی وہ ہے جہاں جنت کی نعمتیں کبھی بھی ختم نہ ہوں گی؛ بلکہ بڑھتی ہی جائیں گی۔اور جہاں رب تعالیٰ کا دیدار سب سے بڑی نعمت ہوگی۔جہاں اللہ تعالیٰ خود بندوں کو قرآن شریف پڑھ کر سنائیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ اعلان فرما دیں گے کہ اے میرے بندو! اب میں تم سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوؤ ں گا۔
💫اسلام
میں عورت کو شوہر کی کس حد تک فرمانبرداری کا حکم ہے؟ اگر بیوی کو شوہر
کسی بات سے منع کردے تو کیا عورت پر لازم ہے کہ وہ اس کی بات مانے ، چاہے
اس کو نامعقول اور بے وجہ ہی کیوں نہ لگے؟ اوریہ بھی کہ کیا شوہر بیوی کو
اس کے ماں باپ سے ملنے سے بھی روک سکتے ہیں؟❓
براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ
✅اسلام میں عورت کو شوہر کی مکمل فرمانبرداری کا حکم دیا گیا ہے، اگر شوہر بیوی کو کسی بات سے منع کردے تو بیوی پر اس کی بات کا ماننا لازم ہے، حدیث میں تو یہاں تک ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ روا ہوتا، تو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، ہاں خلافِ شرع امور میں شوہر کی اطاعت ضروری نہیں ہے؛ بلکہ شوہر اگر بیوی کو کسی معصیت کا حکم کرے، تو بیوی کے لیے اس کی بات ماننا جائز نہیں ہے اور شوہر کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بیوی کو اس کے والدین سے ملنے سے روک دے اور قطع تعلق کرادے، شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کو حسب ضرورت جب موقع ہو اس کے والدین کے پاس بھیج دیا کرے، اگر شوہر بیوی کو اس کے والدین سے ملنے سے بالکلیہ منع کرے اور بیوی اس کی اجازت کے بغیر اپنے والدین سے مل لے تو ایسی صورت میں شرعاً بیوی شوہر کی نافرمان نہیں کہلائے گی۔ عن أبی ہریرة، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: لو کنت آمرا أحدا أن یسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجہا (جامع الترمذي: ۱/۲۱۹، أبواب الرضاع والطلاق، باب ما جاء في حق الزوج علی المرأة) وعن النواس بن سمعان رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق․ (مشکاة المصابیح، ص: ۳۲۱، کتاب الإمارة والقضا، الفصل الثانی) قال الحصکفي: فلا تخرج إلا لحق لہا أو علہا أو لزیارة أبویہا کل جمعة مرة، قال ابن عابدین ینبغي أن یأذن لہا في زیارتہا في الحین بعد الحین علی قدر متعارف․ ألخ (الدر المختار مع رد المحتار: ۴/ ۲۱۸، کتاب النکاح، ط: دار الکتاب، دیوبند) فتاوی دار العلوم: ۱۶/ ۴۸۵- ۴۸۶․
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند✒
براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ
✅اسلام میں عورت کو شوہر کی مکمل فرمانبرداری کا حکم دیا گیا ہے، اگر شوہر بیوی کو کسی بات سے منع کردے تو بیوی پر اس کی بات کا ماننا لازم ہے، حدیث میں تو یہاں تک ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ روا ہوتا، تو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، ہاں خلافِ شرع امور میں شوہر کی اطاعت ضروری نہیں ہے؛ بلکہ شوہر اگر بیوی کو کسی معصیت کا حکم کرے، تو بیوی کے لیے اس کی بات ماننا جائز نہیں ہے اور شوہر کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بیوی کو اس کے والدین سے ملنے سے روک دے اور قطع تعلق کرادے، شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کو حسب ضرورت جب موقع ہو اس کے والدین کے پاس بھیج دیا کرے، اگر شوہر بیوی کو اس کے والدین سے ملنے سے بالکلیہ منع کرے اور بیوی اس کی اجازت کے بغیر اپنے والدین سے مل لے تو ایسی صورت میں شرعاً بیوی شوہر کی نافرمان نہیں کہلائے گی۔ عن أبی ہریرة، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: لو کنت آمرا أحدا أن یسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجہا (جامع الترمذي: ۱/۲۱۹، أبواب الرضاع والطلاق، باب ما جاء في حق الزوج علی المرأة) وعن النواس بن سمعان رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق․ (مشکاة المصابیح، ص: ۳۲۱، کتاب الإمارة والقضا، الفصل الثانی) قال الحصکفي: فلا تخرج إلا لحق لہا أو علہا أو لزیارة أبویہا کل جمعة مرة، قال ابن عابدین ینبغي أن یأذن لہا في زیارتہا في الحین بعد الحین علی قدر متعارف․ ألخ (الدر المختار مع رد المحتار: ۴/ ۲۱۸، کتاب النکاح، ط: دار الکتاب، دیوبند) فتاوی دار العلوم: ۱۶/ ۴۸۵- ۴۸۶․
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند✒
عقلمند اور بیوقوف میاں بیوی
عربی زبان کی ایک مفید تحریر سے اقتباس
🍁
1. عقلمند میاں بیوی اپنے رشتے کی بنیاد اللہ کی اطاعت اور اسکے متعین کردہ حقوق وفرائض پر رکھتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی اپنے رشتے کی بنیاد رسومات، گناہوں، اور، خواہشاتِ نفس پر رکھتے ہیں
2. عقلمند میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھی اور خیر خواہ ہوتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی ایک دوسرے کے حریف اور مقابل ہوتے ہیں
3. عقلمند میاں بیوی ایک دوسرے کی عزت اور احترام ہمیشہ قائم رکھتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے اور تذلیل کرتے ہیں
4. عقلمند میاں بیوی اپنے الفاظ، اعمال، اور جذبات کے ذریعے اکثر ایک دوسرے کی تعریف اور قدردانی کرتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی اظہارِ محبت اور تعریف کو بیکار سمجھتے ہیں
5. عقلمند میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے بننے سنورنے اور خوبصورت دکھنے کا اہتمام کرتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی ساری دنیا کیلئے سنورتے ہیں ایک دوسرے کیلئے نہیں
5. عقلمند میاں بیوی ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرتے ہیں، ایک دوسرے کو معاف کرتے ہیں، ایک دوسرے کی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی اپنے اختلافات دنیا کے سامنے ظاہر کرتے ہیں
6. عقلمند میاں بیوی ایک دوسرے کی نرم گرم باتوں کو اگنور کرتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی چھوٹی چھوٹی باتوں پر رائی کا پہاڑ بنادیتے ہیں
7. عقلمند میاں بیوی اپنی انا کو چھوڑ کر معافی مانگنے میں پہل کرتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی انا پرستی میں گھر تباہ کرلیتے ہیں
8. عقلمند میاں بیوی ایک دوسرے پر ہر وقت اپنی مرضی مسلط نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کی پسند ناپسند کا احترام کرتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی ایک دوسرے کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں رشتہ تباہ کرلیتے ہیں
9. عقلمند میاں بیوی اتحاد میں ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی بات بات پر جھگڑ کر تنہا رہ جاتے ہیں
10. عقلمند میاں بیوی ہر وقت اس فکر میں رہتے ہیں کہ کس طرح ایک دوسرے کو راحت پہنچائیں
بیوقوف میاں بیوی ہر وقت اس فکر میں رہتے ہیں کہ کس طرح دوسرے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرلیں
11. عقلمند میاں بیوی ایک دوسرے کے ماں باپ کو اپنے ماں باپ اور انکی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی ایک دوسرے کے ماں باپ کو بوجھ سمجھتے ہیں
12. عقلمند میاں بیوی تمام دنیا کے مقابلے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی دوسروں کو ایک دوسرے پر ترجیح دیتے ہیں
13. عقلمند میاں بیوی ایسی زندگی گزارتے ہیں جو انکی اولاد کیلئے مثال ہو
بیوقوف میاں بیوی آپس کے جھگڑوں اور بدسلوکی سے اولاد کو بھی تباہی کے راستے پر ڈال دیتے ہیں
💫🌱💫🥀🥀💫🌱💫
عربی زبان کی ایک مفید تحریر سے اقتباس
🍁
1. عقلمند میاں بیوی اپنے رشتے کی بنیاد اللہ کی اطاعت اور اسکے متعین کردہ حقوق وفرائض پر رکھتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی اپنے رشتے کی بنیاد رسومات، گناہوں، اور، خواہشاتِ نفس پر رکھتے ہیں
2. عقلمند میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھی اور خیر خواہ ہوتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی ایک دوسرے کے حریف اور مقابل ہوتے ہیں
3. عقلمند میاں بیوی ایک دوسرے کی عزت اور احترام ہمیشہ قائم رکھتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے اور تذلیل کرتے ہیں
4. عقلمند میاں بیوی اپنے الفاظ، اعمال، اور جذبات کے ذریعے اکثر ایک دوسرے کی تعریف اور قدردانی کرتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی اظہارِ محبت اور تعریف کو بیکار سمجھتے ہیں
5. عقلمند میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے بننے سنورنے اور خوبصورت دکھنے کا اہتمام کرتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی ساری دنیا کیلئے سنورتے ہیں ایک دوسرے کیلئے نہیں
5. عقلمند میاں بیوی ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرتے ہیں، ایک دوسرے کو معاف کرتے ہیں، ایک دوسرے کی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی اپنے اختلافات دنیا کے سامنے ظاہر کرتے ہیں
6. عقلمند میاں بیوی ایک دوسرے کی نرم گرم باتوں کو اگنور کرتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی چھوٹی چھوٹی باتوں پر رائی کا پہاڑ بنادیتے ہیں
7. عقلمند میاں بیوی اپنی انا کو چھوڑ کر معافی مانگنے میں پہل کرتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی انا پرستی میں گھر تباہ کرلیتے ہیں
8. عقلمند میاں بیوی ایک دوسرے پر ہر وقت اپنی مرضی مسلط نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کی پسند ناپسند کا احترام کرتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی ایک دوسرے کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں رشتہ تباہ کرلیتے ہیں
9. عقلمند میاں بیوی اتحاد میں ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی بات بات پر جھگڑ کر تنہا رہ جاتے ہیں
10. عقلمند میاں بیوی ہر وقت اس فکر میں رہتے ہیں کہ کس طرح ایک دوسرے کو راحت پہنچائیں
بیوقوف میاں بیوی ہر وقت اس فکر میں رہتے ہیں کہ کس طرح دوسرے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرلیں
11. عقلمند میاں بیوی ایک دوسرے کے ماں باپ کو اپنے ماں باپ اور انکی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی ایک دوسرے کے ماں باپ کو بوجھ سمجھتے ہیں
12. عقلمند میاں بیوی تمام دنیا کے مقابلے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں
بیوقوف میاں بیوی دوسروں کو ایک دوسرے پر ترجیح دیتے ہیں
13. عقلمند میاں بیوی ایسی زندگی گزارتے ہیں جو انکی اولاد کیلئے مثال ہو
بیوقوف میاں بیوی آپس کے جھگڑوں اور بدسلوکی سے اولاد کو بھی تباہی کے راستے پر ڈال دیتے ہیں
💫🌱💫🥀🥀💫🌱💫
عورت کی غیر محرم علما سے بات چیت کا حکم
سوال❓❓
کیا عورت ، علماء سے جو کہ نامحرم ہوں، بات چیت کر سکتی ہے ؟ کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟
جواب✅✅✅
خواتین کے غیر محرم علماء سے براہِ راست رابطے میں کئی مفاسد کا اندیشہ ہے، اس بنا پر بلا ضرورت گفتگو تو جائز نہیں، نیز پیش آمدہ مسائل بھی براہِ راست رابطے کے بجائے گھر کے محرم مردوں (شوہر ، بھائی وغیرہ) کے ذریعے معلوم کرلیے جائیں، البتہ اشد ضرورت کی صورت میں پردے میں رہتے ہوئے بقدرِ ضرورت گفتگو کی جاسکتی ہے۔ عورتوں کے مخصوص مسائل کے حوالے سے اور زیادہ پردہ داری مطلوب ہے۔ فقط واللہ اعلم
سوال❓❓
کیا عورت ، علماء سے جو کہ نامحرم ہوں، بات چیت کر سکتی ہے ؟ کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟
جواب✅✅✅
خواتین کے غیر محرم علماء سے براہِ راست رابطے میں کئی مفاسد کا اندیشہ ہے، اس بنا پر بلا ضرورت گفتگو تو جائز نہیں، نیز پیش آمدہ مسائل بھی براہِ راست رابطے کے بجائے گھر کے محرم مردوں (شوہر ، بھائی وغیرہ) کے ذریعے معلوم کرلیے جائیں، البتہ اشد ضرورت کی صورت میں پردے میں رہتے ہوئے بقدرِ ضرورت گفتگو کی جاسکتی ہے۔ عورتوں کے مخصوص مسائل کے حوالے سے اور زیادہ پردہ داری مطلوب ہے۔ فقط واللہ اعلم
No comments:
Post a Comment