Home Page Urdu Islamic Article HR Email Ids Zikar Azkaar
Namaz Quran & Tableegh School HR ID Ulema Ikram Bayanat
Listen Quran Majeed Read Quran Majeed Social Media Ramzan
رجب کی مخصوص عبادات اور 27 رجب کا روزہ کا حکم اورشب معراج کی تاریخ
سوال
رجب المرجب کی 27 اور 28 تاریخ روزے کی حقیقت کیا ہے؟ اور معراج کے بارے میں وضاحت درکار ہے۔ اور رجب کے مہینے میں کچھ خاص تسبیحات جو آپ ﷺ سے ثابت ہوں؟
جواب
رجب کا مہینہ حرمت والے مہینوں میں سے ہے، ان مہینوں میں عبادت کا ثواب زیادہ ہے، البتہ رجب کے مہینہ میں تخصیص کے ساتھ کسی دن روزہ رکھنا یا کوئی مخصوص قسم کی تسبیحات صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے، لہذا 27 رجب کو تخصیص کے ساتھ روزہ رکھنے اور اس رات شب بیدار رہ کر مخصوص عبادت کرنے (مثلاً: صلاۃ الرغائب یا دیگر مخصوص تسبیحات وغیرہ ) کا التزام درست نہیں ہے، اور اس کی جو فضیلت عوام میں مشہور ہے کہ اس روزہ کا ثواب ہزار روزے کے برابر ہے یہ ثابت نہیں ہے؛ اس لیے اس دن کے روزہ کو زیادہ ثواب کاباعث یا اس دن کے روزہ کے متعلق سنت ہونے کا اعتقاد صحیح نہیں ہے ، علماءِ کرام نے اپنی تصانیف میں اس کی بہت تردید کی ہے،حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ”تبیین العجب بما ورد في فضل رجب“کے نام سے اس موضوع پر مستقل کتاب لکھی ہے،جس میں انہوں نے رجب سے متعلق پائی جانے والی تمام ضعیف اور موضوع روایات پر محدثانہ کلام کرتے ہوئے سب کو باطل کردیا ہے۔
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ رجب کے مہینے میں ” تبارک“ اور27 رجب کو روزہ رکھنے کے متعلق فرماتے ہیں:
”اس امر کا التزام نا درست اور بدعت ہے“۔(فتاویٰ رشید یہ مع تا لیفات رشید یہ،ص: 148)
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ستائیسویں رجب کے روزے کو جوعوام ہزارہ روزہ کہتے ہیں اور ہزارروزوں کے برابر اس کا ثواب سمجھتے ہیں، اس کی کچھ اصل نہیں ہے‘‘۔(فتاوٰی دار العلوم مد لل و مکمل: 6/491۔ 492)
حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ماہ رجب میں تاریخِ مذکورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت پر بعض روایات وار دہوئی ہیں، لیکن وہ روایات محدثین کے نزدیک درجہ صحت کو نہیں پہنچیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”ماثبت بالسنتہ“ میں ذکر کیا ہے۔ بعض بہت ضیعف ہیں اور بعض موضوع (من گھڑت) ہیں“۔(فتاوٰی محمودیہ، 3/281،ادارہ الفاروق کراچی)
حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
”27 رجب کے روزہ کا کوئی ثبوت نہیں۔“(سات مسا ئل صفحہ:5)
حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
”اس شب کے لیے خصوصی نوافل کا اہتمام کہیں ثابت نہیں ،نہ کبھی حضور صلی الله علیہ وسلم نے کیا ، نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے، نہ تابعین عظام رحہم اللہ نے کیا۔ علامہ حلبی تلمیذ شیخ ابن ہمام رحمہ اللہ نے غنیتہ المستملی، ص:411 میں، علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے الجر الر ائق شرح کنز الد قائق ،ج:2، ص: 56، میں، علا مہ طحطا وی نے مراقی الفلاح ،ص:22 میں، اس رواج پر نکیر فرمائی ہے اور اس کے متعلق جو فضائل نقل کرتے ہیں ان کو ردکیا ہے‘‘۔(فتاویٰ محمودیہ:3/284،ادارہ الفاروق کراچی)
لہذا اس مہینے میں تخصیص کے ساتھ کسی عبادت کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے، ہاں تخصیص اور التزام کے بغیر جس قدر ہوسکے اس پورے مہینے میں عبادت کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔
2۔ رجب کی ستائیسویں رات کے بارے میں اگرچہ مشہور ہے کہ یہ شبِ معراج ہے، لیکن یقینی طور پر نہیں کہاجاسکتا کہ یہ وہی رات ہے جس میں نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے، کیوں کہ اس بارے میں روایات مختلف ہیں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے ، بعض روایتوں میں رجب، بعض میں ربیع الثانی، بعض میں رمضان اور بعض میں شوال کا مہینہ بیان کیا گیا ہے، اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا کہ کون سی رات صحیح معنی میں معراج کی رات تھی، اگر یہ کوئی مخصوص رات ہوتی اور اس کے بارے میں خاص احکام ہوتے تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا، جب کہ شبِ معراج کی تاریخ قطعی طور پرمحفوظ نہیں۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144007200326
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
شبِ معراج کی حقیقت
سب سے پہلی بات تویہ ہے کہ ۲۷؍رجب کے بارے میں یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ یہ وہی رات ہے جس میں نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے کیونکہ اس باب میں مختلف روایتیں ہیں ۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ربیع الاول میں تشریف لے گئے تھے، بعض روایتوں میں رجب کا ذکر ہے اور بعض روایتوں میں کوئی اور مہینہ بیان کیا گیا ہے۔ اس لئے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ کونسی رات صحیح معنی میں معراج کی رات تھی جس میں آنحضرت ﷺ معراج پر تشریف لے گئے۔
واقعہ معراج کی تاریخ محفوظ کیوں نہیں ؟
اس سے آپ خود اندازہ کرلیں کہ اگر شبِ معراج بھی شبِ قدر کی طرح کوئی مخصوص رات ہوتی، اور اس کے بارے میں کوئی خاص احکام ہوتے جس طرح شبِ قدر کے بارے میں ہیں تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا لیکن چونکہ اس تاریخ کو محفوظ رکھنے کا اہتمام نہیں کیا گیا تو اب یقینی طور سے ۲۷؍رجب کو شبِ معراج قرار دینا درست نہیں ۔
وہ رات عظیم الشان تھی
اوراگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ آپ ﷺ ۲۷؍رجب ہی کو معراج کے لئے تشریف لے گئے تھے جس میں یہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا تھا اور جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو یہ مقام قرب عطا فرمایا، اور اپنی بارگاہ میں حاضری کا شرف بخشا اور امت کے لئے نمازوں کا تحفہ بھیجا۔ بیشک وہ رات بڑی عظیم الشان تھی کسی مسلمان کو اس کی عظمت میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟
آپ ﷺ کی زندگی میں ۱۸؍مرتبہ شبِ معراج کی تاریخ آئی،
یہ واقعہ معراج ۵ نبوی میں پیش آیا۔ یعنی حضور اقدس ﷺ کے نبی بننے کے پانچویں سال یہ شبِ معراج پیش آئی جس کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد ۱۸؍سال تک آپ دنیا میں تشریف فرما رہے لیکن ان اٹھارہ سال کے دوران یہ کہیں ثابت نہیں کہ آپ ﷺ نے شبِ معراج کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو، یا اس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو۔ یا اس کے بارے میں یہ فرمایا ہو کہ اس رات میں شبِ قدر کی طرح جاگنا زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔ نہ تو آپ کا ایسا کوئی ارشاد ثابت ہے اور نہ آپ کے زمانہ میں اس رات میں جاگنے کا اہتمام ثابت ہے، نہ خود حضور اقدس ﷺ جاگے، اور نہ صحابہ کرام کو اس کی تاکید کی اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طور پر اس کا اہتمام فرمایا۔
پھرسرکارِ دوعالم ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے سوسال تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا میں موجود رہے، اس پوری صدی میں کوئی ایک واقعہ ایسا ثابت نہیں ہے جس میں صحابہ کرام نے ۲۷؍رجب کو خاص اہتمام کرکے منایا ہو۔ جو چیز حضور اقدس ﷺ نے نہیں کی، اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام نے نہیں کی، اس کو دین کا حصہ قرار دینا یا اس کو سنت قرار دینا یا اس کے ساتھ سنت جیسا معاملہ کرنا بدعت ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں (معاذ اللہ) حضور ﷺ سے
زیادہ جانتا ہوں کہ کونسی رات زیادہ فضیلت والی ہے، یا کوئی شخص یہ کہے کہ صحابہ کرام سے زیادہ مجھے عبادت کا ذوق ہے، اگر صحابہ کرام نے یہ عمل نہیں کیا تو میں اس کو کروں گا، اسکے برابر کوئی احمق نہیں ۔
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ
اصلاحی خطبات
[22:09, 3/12/2021] shahzad: Copy paste
No comments:
Post a Comment