Sunday, March 14, 2021

Urdu Islamic Article: Iman per Khatima, Naik Orat kay Osaf, Hikayat |Saadi (RA), Anmol Moti, Sunheri batain, Naya Fitna, Waldain,

 

Home Page  Urdu Islamic Article  HR Email Ids  Zikar Azkaar

Namaz Quran & Tableegh   School HR ID  Ulema Ikram Bayanat

Listen Quran Majeed   Read Quran Majeed  Social Media  Ramzan

Khulasa Quran Majeed




 

👈 خاتمۂ بالخیر_ایک سبق آموز واقعہ _!! 


ایک استاد اپنے شاگردوں کو عقیدہ توحید کی تعلیم دے رہے تھے۔ انہیں کلمہ "لا الہ الا اللہ"  کا مفہوم اور اس کے تقاضے سمجھا رہے تھے۔ 

ایک دن کا واقعہ ہے کہ ایک شاگرد اپنے استاد کے لیے ایک طوطا بطور تحفہ لے کر حاضر ہوا۔ استاذ کو پرندے اور بلی پالنے کا بڑا شوق تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ استاد کو اس طوطے سے بھی بڑی محبت ہوگئی۔ چنانچہ وہ اس طوطے کو اپنے درس میں بھی لے جایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ طوطا بھی "لا الہ الا اللہ"  بولنا سیکھ گیا۔ پھر کیا تھا طوطا دن رات لا الہ اللہ اللہ بولتا رہتا تھا۔ 

ایک روز شاگردوں نے دیکھا کہ ان کے استاذ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے ہیں۔ وجہ دریافت کی گئی تو استاذ فرمانے لگے: افسوس! "میرا طوطا آج مر گیا" شاگردوں نے کہا: آپ اس کے لیے کیوں رو رہے ہیں؟ اگر آپ چاہیں تو ہم دوسرا اس سے خوبصورت طوطا آپ کو لا دیتے ہیں۔ 

استاذ نے جواب دیا: میرے رونے کی وجہ یہ نہیں۔ بلکہ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ جب بلی نے طوطے پر حملہ کیا تو اس وقت طوطا زور زور سے چلائے جارہا تھا یہاں تک کہ وہ مرگیا۔ حالانکہ وہی طوطا اس سے پہلے لاالہ الا اللہ کی رٹ لگائے رہتا تھا۔ مگر جب بلی نے اس پر حملہ کیا تو سوائے چیخنے اور چلانے کے کچھ اور اس کی زبان سے نہیں نکلا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ "لا الہ الا اللہ" دل سے نہیں صرف زبان سے کہتا تھا۔ 

آگے استاد فرماتے ہیں: مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ہمارا حال بھی اس طوطے جیسا نہ ہو۔ یعنی ہم زندگی بھر صرف زبان سے لا الہ الا اللہ کہتے رہیں اور موت کے وقت اسے بھول جائیں اور ہماری زبان پر جاری نہ ہو ۔ اس لیے کہ ہمارے دل اس کلمے کی حقیقت اور اس کے تقاضے سے ناآشنا ہیں۔ یہ سننا تھا کہ سارے طلباء بھی رونے لگے۔ سوچئے!!!

کیا ہم نے بھی لا الہ الا اللہ کی حقیقت کو دل سے جانا اور سمجھا ہے؟


یاد رکھئے!!!

آسمان پر جانے والی سب سے بڑی چیز اخلاص اور زمین پر اترنے والی سب سے بڑی چیز توفیق ہے۔ جس بندے کے اندر جتنا اخلاص ہوگا اسی کے بقدر اسے توفیق حاصل ہوگی۔

اے اللہ! ہمیں اپنے قول و عمل میں اخلاص کی توفیق عطا فرما۔


عربی سے منقول :

 زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل ۔ ۔ ۔ ۔!! 

 دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔ ۔ ۔!


طالب دعا صمیم حقانی

 

 

 

  🍃🌺🍃🌺🍃🌺🍃🌱🍃🌺🍃🍃🌺🍃🌺🍃🌺🍃🌺🍃🌺🍃


 🌺نیــک عـــورتـــوں کــے اوصـــاف🌺


مولانا محمدیوسف لدھیانویؒ


    

احادیث مبارکہ میں بیان کردہ عورتوں کے اوصاف کی تین قسمیں ہیں۔ اس میں سے پہلی قسم کی عورت جن اَوصاف کی حامل ہو گی وہ یہ ہیں: وہعورت نرم خو ہو، نرم مزاج ہو، بردبار ہو۔ عفیفہ ہو، یعنی پاک دامن ہو۔ وہ عورت مسلمان ہو۔ اپنے شوہر سے بہت محبت کرنے والی ہو ۔وہ عورت زمانے کے حوادثات کے مقابلے میں اپنے شوہر کی مدد گار ہو، مگر شوہر کے مقابلے میں حوادث زمانہ کی مدد گار نہ ہو۔


🍃عفیفہ ہو پاک دامن🍃


عفیفہ او رپاک دامن ہونا یہ عورت کا وصف ہے اور سب سے اونچا وصف ہے۔ جس کا قرآن کریم نے بھی ذکر فرمایا ہے۔ترجمہ:”چناں چہ نیک عورتیں فرماں بردار ہوتی ہیں ، مر دکی غیر موجودگی میں الله کی دی ہوئی حفاظت سے (اس کے حقوق کی ) حفاظت کرتی ہیں ۔“ (النساء:34:4)


دوسرا وصف قرآن کریم نے ذکر فرمایا کہ وہ شوہر کی پس پشت، اس کی غیر حاضری میں خیانت نہیں کرتیں، بلکہ اپنی عزت وآبرو کی اور شوہر کے مال واولاد کی حفاظت کرتی ہیں۔ اس لیے الله تعالیٰ نے ان پر حفاظت کا پردہ ڈال رکھا ہے۔ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:”المرأة راعیة علی بیت زوجھا وولدہ“․

ترجمہ:” عورت کو الله نے نگہبان فرمایا ہے اپنے شوہر کے گھر کااور اس کی اولاد کا۔“


🍃وہ عورت مسلمہ ہو🍃


الله تعالیٰ کی فرماں برداری او راحکام الہٰی کو بجالانے والی ہو، مسلم کے معنی ہیں گردن ڈال دینا۔ جو شخص حکم الہٰی کے سامنے گردن جھکا دے، ان کو بجالائے، اس کے احکام سے سرکشی او رانکار نہ کرے، نہ زبان سے انکار کرے، نہ دل سے انکار کرے، تو یہ شخص فرماں بردار ہے، اس کو مسلم کہتے ہیں اور جو شخص حکم الہٰی سن لیتا ہے، لیکن ماننے کا جذبہ اس میں پیدا نہیں ہوتا اور اس کی خواہش نفس اس کو دوسری پٹی پڑھاتی ہے تو اس کی مسلمانی میں نقص ہے۔ میں تو نہیں کہوں گا کہ وہ مسلمان نہیں ہے ،مسلمان ہے ، لا الہ الا الله محمد رسول الله پڑھتا ہے، لیکن اس کی مسلمانی میں نقص پایا جاتا ہے، کیوں کہ مسلم تو وہ ہوتا ہے جو الله کے سامنے گردن رکھ دے، گردن جھکادے۔ اپنی ظاہری گردن بھی جھکا دے، جیسا کہ ہم سجدے میں جھکا دیتے ہیں اور دل کی گردن بھی جھک جائے۔ اپنے چہرے اور وجود والی گردن تو تم نے الله کے سامنے جھکا دی ،لیکن دل کی گردن نہیں جھکی۔ یہ گردن بھی تو الله کے سامنے جھکنی چاہیے، اس کی ہر منشا اور ہر حکم کے سامنے ہماری گردن جھکی ہوئی ہونی چاہیے۔


🍃وہ عورت نرم مزاج ہو🍃


اورتیسری صفت فرمائی کہ:لین، نرم مزاج ہو۔ کہتے ہیں کہ بد خوئی، سخت زبانی یوں تو ہر شخص کے بارے میں عیب ہے، لیکن عورت میں ہو تو زیادہ عیب ہے۔ آدمی کو کبھی درشت خو، بد مزاج، اکھڑ طبیعت اور سختی کے ساتھ بات کرنے والا نہیں ہونا چاہیے #

        فطرت کو ناپسند ہے سختی زبان میں

        رکھی نہ اس لیے ہڈی زبان میں

ہڈی سخت ہوتی ہے، الله تعالیٰ نے دوسرے تمام اعضاء میں رکھی ہوئی ہے، زبان میں نہیں رکھی، زبان کا نرم ہونا الله کو پسند ہے۔ فطرت نرمی کو چاہتی ہے او رخاتون خانہ کی زبان تو بطور خاص بالکل ہی نرم ہونی چاہیے، حدیث شریف میں فرمایا ہے کہ : ”إن الله رفیق یحب الرفق․“

ترجمہ:” الله تعالیٰ خود بھی نرمی کرنے والے ہیں او رنرمی کو پسند فرماتے ہیں ۔“


”ویؤتي علی الرفق ما لا یؤتي علی العنف․“

ترجمہ:الله تعالیٰ نرمی پروہ چیز عطا فرماتے ہیں جو سختی پر عطا نہیں فرماتے۔“


حق تعالیٰ شانہ کی رحمت نرمی سے کام لینے والے آدمی پر جس طرح متوجہ ہوتی ہے سختی سے کام لینے والے پر متوجہ نہیں ہوتی۔ چناں چہ عورت کو نرم خو، نرم زبان اور دھیمے مزاج والی ہونا چاہیے۔


🍃مرد وعورت کی زبان کب نرم وسخت ہوتی ہے ؟🍃


ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ مر داورعورت میں یہ فرق ہے کہ شروع شروع میں مرد کی زبان سخت ہوتی ہے او رعورت کی زبان نرم ہوتی ہے۔ جوں جوں عمر بڑھتی جاتی ہے مرد کی زبان نرم ہوتی جاتی ہے اورعورت کی زبان سخت ہوتی جاتی ہے۔ یہ عجیب تجربہ بتایا ہے کہ عمر کا بڑھنا آدمی کے مزاج کو بھی او را س کی زبان کو بھی نرم کر دیتا ہے او رعورت کی عمر کا بڑھنا اس کے مزاج کو بھی او رزبان کو بھی سخت کر دیتا ہے۔ نوجوانی کے زمانے میں عورت جیسی نرم مزاج ، شیریں زبان ہوتی ہے ۔ بڑی عمر ہونے کے بعد وہ بات نہیں رہتی، خدا جانے کیاقصہ ہے ؟ بہرکیف نرم خوئی او رنرم مزاجی عورت کا زیور ہے، یہ اس کے حسن او رنزاکت کو دوبالا کر دیتی ہے۔


🍃 وہ عورت محبت کرنے والی ہو🍃


عورت کی چوتھی صفت ہے” ودودہ“ محبت کرنے والی اور یہ محبت کرنا انسان کی فطرت ہے۔ بعض داناؤں کا کہنا ہے او ر یہ کہنا صحیح…

 

 

 

 

 

: پریشاں حال اُمت کی خبر کوئی نہیں لیتا

اَجر  کی آرزو  لیکن  اَجر کوئی نہیں لیتا


قرآں کہتا ہے ہلکے ہو یا بوجھل، بس نکل جاؤ

قرآں پڑھتے تو ہیں لیکن اثر کوئی نہیں لیتا


یہی جدوجہد تو مختصر رستہ ہے جنت کا

نہ جانے کیوں یہ راہِ مختصر کوئی نہیں لیتا


جساسہ بن کےاپنوں کوپھنسانےکےسبھی شوقیں 

حذیفہ بن یماں جیسی نظر کوئی نہیں لیتا


مؤذن روز  کہتا  ہے  چلے آؤ   فلاح پاؤ 

یہی جنت کی چابی ہے مگر کوئی نہیں لیتا


نزولِ رحمت و برکت جہاں  والوں پہ کیسے ہو

خدا کا نام جب وقتِ فجر کوئی نہیں لیتا


تلاوت،  راہِ تقوی ،  بدنگاہی، بندگی، توبہ

ارے ناداں!  یہاں ایسے شعر کوئی نہیں لیتا 


جگانےکی صدائیں چھوڑئیےاِس شہرمیں سارے

شبِ ظلمت کے عادی ہیں سحر کوئی نہیں لیتا


عَلَی الاعلان لکھنے سے قبل سوچا کرو ہُدہُد 

یہاں اپنے اسیروں کی خبر کوئی نہیں لیتا


🍁ہدہد الہ آبادی

 

 

 

 

 

 ہمیشہ انصاف کا تقاضہ کریں،مساوات ہر کسی کے لیے سہولت نہیں لاتی بلکہ بسا اوقات مسائل کا سبب بنتی ہے۔ لہذا برابری کا رونا چھوڑ کر عدل و انصاف کا تقاضہ کریں۔

#استاد محترم #حضرت مولانا مفتی محمود اشرف صاحب--مد اللہ تعالیٰ ظلہ الکریم بالصحۃ و العافیۃ-- کے اسٹیٹس سے۔۔۔۔🌹🌹

 

 

 

 

 💞♣️💞♣️💞♣️💞♣️💞♣️💞💞♣️💞♣️💞♣️💞♣️💞♣️💞


.          ♠️حـــــــکایــــــــت سعـــــدــیؒ♠️```


کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کی عدالت میں کسی ملزم کو پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے مقدمہ سننے کے بعد اشارہ کیا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ بادشاہ کے حکم پر پیادے اسے قتل گاہ کی طرف لے چلے تو اس نے بادشاہ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا کسی شخص کے لیے بڑی سے بڑی سزا یہی ہوسکتی ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے اور چونکہ اس شخص کو یہ سزا سنائی جا چکی تھی اس لیے اس کے دل سے یہ خوف دور ہو گیا تھا کہ بادشاہ ناراض ہو کر درپے آزار ہو گا۔بادشاہ نے یہ دیکھا کہ قیدی کچھ کہہ رہا ہے تو اس نے اپنے وزیر سے پوچھا ’’یہ کیا کہہ رہا ہے؟‘‘ بادشاہ کا یہ وزیر بہت نیک دل تھا اس نے سوچا، اگر ٹھیک بات بتا دی جائے تو بادشاہ غصیّ سے دیوانہ ہو جائے گا اور ہوسکتا ہے قتل کرانے سے پہلے قیدی کو اور عذاب میں مبتلا کرے۔ اس نے جواب دیا جناب یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ پاک ان لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ جو غصے کو ضبط کر لیتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں‘‘۔وزیر کی بات سن کر بادشاہ مسکرایا اور اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو آزاد کر دیا جائے۔بادشاہ کا ایک اور وزیر پہلے وزیر کا مخالف اور تنگ دل تھا۔ وہ خیر خواہی جتانے کے انداز میں بولا ’’یہ بات ہرگز مناسب نہیں ہے کہ کسی بادشاہ کے وزیر اسے دھوکے میں رکھیں اور سچ کے سوا کچھ اور زبان پر لائیں اور سچ یہ ہے کہ قیدی حضور کی شان میں گستاخی کر رہا تھا۔ غصہ ضبط کرنے اور بھلائی سے پیش آنے کی بات نہ کر رہا تھا‘‘۔وزیر کی یہ بات سن کر نیک دل بادشاہ نے کہا ’’اے وزیر! تیرے اس سچ سے، جس کی بنیاد بغض اور کینے پر ہے، تیرے بھائی کی غلط بیانی بہتر ہے کہ اس سے ایک شخص کی جان بچ گئی۔ یاد رکھ! اس سچ سے جس سے کوئی فساد پھیلتا ہو، ایسا جھوٹ بہتر ہے جس سے کوئی برائی دور ہونے کی امید ہو۔وہ سچ جو فساد کا سبب ہو بہتر ہے نہ وہ زباں پہ آئےاچھا ہے وہ کذب ایسے سچ سے جو آگ فساد کی بجھائےحاسد وزیر بادشاہ کی یہ بات سن کر بہت شرمندہ ہوا۔ بادشاہ نے قیدی کو آزاد کر دینے کا فیصلہ بحال رکھا اور اپنے وزیروں کو نصیحت کی کہ بادشاہ ہمیشہ اپنے وزیروں کے مشورے پر عمل کرتے ہیں۔ وزیروں کا فرض ہے کہ وہ ایسی کوئی بات زبان سے نہ نکالیں جس میں کوئی بھلائی نہ ہو۔ اس نے مزید کہا ’’یہ دنیاوی زندگی بہرحال ختم ہونے والی ہے۔ کوئی بادشاہ ہو یا فقیر، سب کا انجام موت ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی شخص کی روح تخت پر قبض کی جاتی ہے یا فرش خاک پر‘‘۔ حضرت سعدیؒ کی یہ حکایت پڑھ کر سطحی سوچ رکھنے والے لوگ یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ مصلحت کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے۔ لیکن یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں۔ حکایت کی اصل روح یہ ہے کہ خلق خدا کی بھلائی کا جذبہ انسان کے تمام جذبوں پر غالب رہنا چاہیے اور جب یہ اعلیٰ و ارفع مقصد سامنے ہو تو مصلحت کے مطابق روّیہ اختیار کرنے میں مضائقہ نہیں۔ جیسے جراح کو یہ اجازت ہے کہ فاسد مواد خارج کرنے کے لیے اپنا نشتر استعمال کرے۔ کسی انسان کے جسم کو نشتر سے کاٹنا بذات خود کوئی اچھی بات ہر گز نہیں ہے لیکن جب جرّاح یہ عمل کرتا ہے تو اسے اس کی قابلیت سمجھا جاتا ہے۔٭…٭…٭


💞♣️💞♣️💞♣️💞♣️💞♣️💞💞♣️💞♣️💞♣️💞♣️💞♣️💞

__________________________

 

 

 

 

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

__________________________


زندگی کے لمحــــے کی قدر آپ کو اس وقت آئے گی ... جب آپ یہ سمجھ جائیــــں گے ... کہ یہ لمحــــہ دوبارہ زندگی میــــں نہیـــــــــں آنے والا ......!!!


 

❣🤲🏻 🌙۔


فاصلہ زندگی میں بہت سی چیزوں کا مفہوم بدل دیتا ہے، بہت سی چیزوں پر اثرانداز ہوتا ہے رشتوں پر، اُن کی گہرائی پر، اُن کی ضرورت پر، ہرچیز پر.....!!!!


❣دَبِــــــــستَانِ اَدَب 🌙

 

 

 

 

🤲🏻 🌙۔


‏دُنیا میں کِسی بھی رِشتے سے مُحبت کی جائے یا مُحبت ھو جائے ، یہ بات اھم نہیـں بلکہ اھم بات یہ ھے کہ خود سے مُنسلک رِشتوں سے مُحبت پورے خلوص سے نبھائی جائے  .......!!!


❣دَبِــــــــستَانِ اَدَب 🌙

 

 

 

 

: باپ کے ہاتھ تھک گئے کما کر بیٹی کو کپڑے پہنانے میں 

بیٹی کے کپڑے اتر گئے غیرکو دکھانے میں) معذرت 🙏

تلخ حقیقت

*بائیکاٹ کئجئیے۔ 

تنگ وباریک لباس کا

بے حیائ وفحاشی کو

ختم کرنیکا عزم کئجئیے🔥

 

 

 

 ماضی میں جینا چھوڑ دیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ توبہ کریں اور آگے بڑھیں۔ جو گزر گیا سو گزر گیا۔ اب واپس نہیں آئے گا۔ مگر جو وقت ابھی ہاتھ میں ہے، اسے ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ ماضی سے سبق حاصل کر کے اپنے حال کو بہتر بنائیں۔ تاکہ مستقبل بہترین ہو۔

 

 


 

 

 

❣️🤲🌙۔


★کتنی دلکش بات ہے نہ سمندروں کے رب کو اپنے بندے کا ایک آنسو پسند ہے★


❣️اصــــــــلاحی باتیں🌙

 

 

 

 

❣️🤲🌙۔


★شکل کی خوبصورتی تو محض آنکھوں کو بھاتی ہے جبکہ کردار کی خوب صورتی دلوں کو فتح کرتی ہے★


❣️اصــــــــلاحی باتیں🌙

 

 

 

 🌹‏﷽🌹


ہر منفی خیال سے دوستی رکھنے سے معذرت کر لیجئے اور ہر مثبت خیال کو ہر قیمت پر اپنا دوست بنا لیجئیے یقین جانیے جتنے مثبت خیال آپ کے دوست ہوتے جائیں گے اتنا ہی آپ کا شمار عظیم انسانوں میں ہوتا جائے گا...!!!


❣دَبِــــــــستَانِ اَدَب 🌙

 

 

 

 

🌹‏﷽🌹


رشتوں کی رسی کمزور تب ہوتی ہے جب انسان  غلط فہمیوں میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب بھی خود ہی بنا لیتا ہے۔ لہٰذا غلط فہمی دُور کیا کریں رشتہِ نہ توڑا کریں..!!!!!


❣دَبِــــــــستَانِ اَدَب 🌙

 

 

 

 

 کیپٹن چارلی پلمپ امریکی پائلٹ تھا‘ یہ 1960 کی دہائی میں ویتنام میں پوسٹ تھا‘ اس نے 74 کام یاب فضائی آپریشن کیے اور امریکی فضائیہ کا ’’آئی کان‘‘ بن گیا‘ چارلی نے 74ویں آپریشن کے بعد چھٹی اپلائی کر دی‘ چھٹی منظور ہو گئی لیکن روانگی سے پانچ دن قبل اس کے سینئر نے اسے آخری مشن پر روانہ کر دیا۔


اس کا سامان پیک تھا‘ الوداعی ملاقاتیں بھی ہو گئی تھیں‘ خاندان امریکا میں اس کا انتظار کر رہا تھااور وہ عملاً ڈیوٹی سے آف ہو چکا تھا مگر سینئرز کے دبائو پر اس نے 75ویں آپریشن کی حامی بھر لی‘ وہ اپنے ایف۔4 فینٹم میں بیٹھ گیا‘ انجن اسٹارٹ تھااور وہ جب رن وے کی طرف نکلنے لگا تھا کہ اس نے دور سے ایک شخص کو اپنی طرف دوڑتے ہوا دیکھا‘ وہ شخص دونوں ہاتھ ہلا کر اسے روک رہا تھا۔


چارلی کے پاس وقت کم تھا‘ ٹیک آف کا سگنل مل چکا تھا‘ اس نے اس شخص کے اشارے کو اگنور کرنے کا فیصلہ کیا لیکن پھر کسی نے اس کا ہاتھ روک لیا‘ وہ شخص دوڑتا ہوا اس کے قریب آیا اور انجن کی آواز کے درمیان زور زور سے بولا ’’سر جہاز میں پیرا شوٹ نہیں ہے‘ میں آپ کے لیے پیرا شوٹ لایا ہوں‘‘ چارلی پلمپ اس وقت تک ہزار فلائیٹ کر چکا تھا اور اسے کبھی پیرا شوٹ کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔

اس کا خیال تھا وہ جائے گا اور ماضی کی طرح دس منٹ میں واپس آ جائے گا لہٰذا اس نے ہاتھ سے ’’چل اوئے پرے ہٹ‘‘ کا اشارہ کیا مگر وہ افسر اصرار کرتا رہا‘ چارلی نے تنگ آ کر پیراشوٹ لوڈ کر لیا اور جہاز کو رن وے پر چڑھا دیا‘ وہ معمول کے مطابق اڑا‘ کمیونسٹ باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی اور واپس مڑگیا لیکن نہ جانے کسی طرف سے ایک میزائل آیا اور اس کے طیارے کے پرخچے اُڑ گئے تاہم وہ وقت پر پیرا شوٹ کھولنے میں کام یاب ہو گیا اور جنگل میں اتر گیا‘ وہ باغیوں کا علاقہ تھا‘ چارلی جنگل میں دشمن سے بچنے کی کوشش کرتا رہا لیکن بدقسمتی سے پکڑا گیا۔


اس پر شدید ٹارچر ہوا اور اسے آٹھ بائی آٹھ کے سیل میں پھینک دیا گیا‘ وہ چھ سال کمیونسٹوں کی حراست میں رہا‘ ٹارچر‘ بھوک‘ بیماری‘ اذیت‘ بے عزتی اور آٹھ بائی آٹھ کا چھوٹا سا سیل‘یہ اس کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا‘ امریکن فوج اور اس کے خاندان نے اسے مردہ سمجھ کر دل پر پتھر رکھ لیا‘ اس کے اعزاز میں دعائیہ تقریبات تک ہو گئیں لیکن وہ چھ برس بعد زندہ سلامت واپس آ گیا۔


کیپٹن چارلی پلمپ نے واپسی کے بعد پانچ ہزار امریکن بزنس مینوں‘ صحافیوں اور دانشوروں سے خطاب کیا‘ اس نے اپنی ساری کہانی سنائی اور آخر میں انھیں بتایا‘ میں قید میں جب مایوس ہوتا تھا تو دو چیزیں ہر بار حوصلہ دیتی تھیں‘ پیراشوٹ اور تھینک یو کا ایک ادھار‘ وہ بولا‘ میں سوچتا تھا میں اس دن پیراشوٹ کے بغیر فلائی کر رہا تھا مگر ایک اجنبی شخص آیا اور اس نے مجھے زبردستی پیراشوٹ دے دیا‘ وہ اگر نہ آتا اور پیراشوٹ کے لیے اصرار نہ کرتا تو میں جہاز کے ساتھ جل کر مر جاتا‘ اللہ کو میری زندگی عزیز تھی چناں چہ اس نے عین وقت پر ایک فرشتہ میری مدد کے لیے بھیج دیا۔


مجھے یہ بات قوت دیتی تھی‘ دوسرا میں سمجھتا تھا مجھے زندگی میں کم از کم ایک بار پیرا شوٹ دینے والے سے ضرور ملنا چاہیے اور اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے‘ میں اگر اس شخص کا شکریہ ادا کیے بغیر فوت ہو گیا تو یہ ڈیفالٹ ہو گا چناں چہ مجھے شکریے کے اس ادھار نے بھی زندہ رکھا‘ چارلی پلمپ کا کہنا تھا‘ میں نے قید کے دوران خود کو چارلی پلمپ سے چارلی چپلن بنالیااور میں اپنی حرکتوں سے دوسرے قیدیوں کو خوش رکھنے لگا‘ چارلی پلمپ نے اس کے بعد پیراشوٹ دینے والے ٹیکنیکل افسر کو تلاش کرنا شروع کر دیا مگر وہ اسے نہ ملا‘ پندرہ سال گزر گئے‘ وہ اسے تلاش کرتا رہا۔


وہ ایک دن کسی ریستوران میں کھانا کھا رہا تھا‘ ویٹر نے اس کا نام پوچھا اور پھر بتایا‘ میں ویتنام میں آپ کا کولیگ تھا‘ میں نے ہی آپ کی آخری فلائیٹ کے وقت آپ کو پیراشوٹ دیا تھا‘ چارلی پلمپ کے ہاتھ سے فورک گر گیا‘ وہ اٹھا‘ ویٹر کو گلے سے لگایا اور ہچکیوں سے روتے ہوئے کہا’’میں تمہیں پندرہ سال سے تلاش کر رہا ہوں‘ تم نے دو مرتبہ میری جان بچائی تھی‘ جہاز اُڑانے سے پہلے اور دوسری مرتبہ قید کے دوران‘ میں روز یہ سوچ کر سوتا تھا میں ایک دن قید سے نکلوں گا اور تمہارا شکریہ ادا کروں گا‘ تم نہ ہوتے تو میں جہاز کے ساتھ مرجاتا یا پھر قید میں خودکشی کر لیتا‘‘۔


ہم سب لوگ زندگی کی چھوٹی چھوٹی مشکلوں کے دوران وہ پیرا شوٹ بھول جاتے ہیں جن کی وجہ سے ہم بڑی مصیبتوں سے بچ گئے تھے‘ ہم پیراشوٹ دینے والوں کو بھی فراموش کر بیٹھتے ہیں‘ ہم کبھی رک کر ان کا شکریہ ادا نہیں کرتے‘ بقراط نے کہا تھا ہم انسانوں کو اگر شکر اور شکریہ کی قیمت کا اندا…

 

 

 

 

 مچھروں کو بھگانے کا آسان گھریلو آزمودہ مجرب نسخہ:

ہم ہر سال یہ پوسٹ اسی موسم میں شئر کرتے ہیں کئی لوگوں نے آزمایا، اچھا رزلٹ آیا۔


نوٹ:

مچھروں سے بچاؤ کے لیے بازار میں جتنے بھی پروڈکٹس ہیں سب کے سب انسانی پھیپھڑے متاثر کرتے ہیں ۔جلیبی، میٹ اور اسپرے وغیرہ سب خراب کرتے ہیں ۔ان سے متبادل چیز مچھر دانی ہے 

خاص کر بچوں کو کیمیکل نہ سونگھائیں ۔


اگر آپ بھی مچھروں سے تنگ ہیں اور اسکا کوئی مناسب حل نکالنا چاہتے ہیں جس سے آپکا خرچہ بھی زیادہ نہ ہو اور انسانی صحت کیلئے بھی نقصان دہ نہ ہو تو میں آپ سے ایک ٹوٹکہ شئیر کرتا ہوں جو آزمودہ ہے، گزشتہ 4سال سے اس ٹوٹکہ کے زریعے خود بھی مچھروں سے بچ رہے اور دیگر رشتہ دار بھی فائیدہ لے رہے ہیں۔۔۔۔ 


طریقہ استعمال!

ایک لیموں کو درمیان سے کاٹ کر اس میں 3سے چار لونگ لگا دیں اور کمرے کے کسی کونے میں رکھ دیں۔ ان شاءاللہ مچھر اس کمرے سے دور رہیں گے۔۔۔۔ جب لیموں سوکھ جائے تو بدل دیں۔تصویر میں دیکھ لیں ۔لیموں بدلنے ھیں ۔لونگ وھی رھنے دیں ۔۔۔Copy

 

 

 

 

 

 نیا فتنہ 


آج کل کچھ لبرلز اور دانشور بڑے زور و شور سے واویلا کر رہے ہیں کہ ..... 

کعبہ کے گرد گھومنے سے پہلے کسی غریب کے گھر گھوم آؤ۔۔۔


مسجد کو قالین نہیں کسی بھوکے کو روٹی دے دو۔۔۔


حج اور عمرہ پر جانے سے پہلے... کسی نادار کی بیٹی کی رخصتی کا خرچہ اٹھالو ۔۔۔


  دین کا کوئی کرنے سے بہتر ہے کہ... کسی لاچار مریض کو دوا فراہم کر دو۔۔۔


مسجد میں سیمنٹ کی بوری دینے سے افضل ہے کہ... کسی بیوہ کے گھر آٹے کی بوری دے آؤ۔۔۔


یاد رکھیں۔۔۔👇


دو نیک اعمال کو اس طرح تقابل میں پیش کرنا کوئی دینی خدمت یا انسانی ہمدردی نہیں... بلکہ عین جہالت ہے۔


اگر تقابل ہی کرنا ہے... تو دین اور دنیا کا کرو اور یوں کہو !


15 ، 20 ﻻکھ ﮐﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ لو..... ﺟﺐ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﺳﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔۔۔


50 ، 60 ﮨﺰﺍﺭ ﮐﺎ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ لو... ﺟﺐ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﮏ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔۔۔


ﮨﺮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﮮ ﺳﯽ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻟﮕﻮﺍؤ... ﺟﺐ گرمی میں بغیر بجلی کے سونے والا کوئی نہ ہو ۔۔۔


ﺑﺮﺍﻧﮉﮈ ﮐﭙﮍﮮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺧﺮﯾﺪو...  ﺟﺐ ﺳﮍﮎ ﭘﺮ ﭘﮭﭩﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔۔


یہ کروڑوں کی گاڑیاں ، لاکھوں کے موبائل فونز، اورہزاروں کے کھلونے خریدتے وقت... ان دانشوروں کو... غرباء،  فقراء،  بےآسرا،  بےسہارا لوگوں کو... یاد رکھنے کی زحمت گوارا کیوں نہیں ہوتی۔۔۔؟


آخر یہ چڑ کعبہ، مسجد، حج وعمرہ، اور تبلیغ، ہی سے کیوں ہے۔۔۔؟


ان ضروریات کا فرائض سے موازنہ کر کے.. فرائض سے غفلت کا درس دینے والے... جب اپنی شادیوں پر عورتیں نچاتے ہیں... تب ان کو کیوں یاد نہیں ہوتا کہ.... وہ بھی کسی کی بیٹیاں اور بہنیں ہیں...


ہزاروں آرام دہ اشیاء خریدتے وقت... ان کو غریب کی بن بیاہی بیٹیاں نظر کیوں نہیں آتیں.... ؟؟؟


اک بار ضرور سوچیں.. 

   

کیا.. 

*انسانیت کی خاطر غیر ضروری امور ترک کرنا بہتر ہے.... یا کہ فرائض کا ترک؟*Copy

 

 

 

 

 

 نیا فتنہ 


آج کل کچھ لبرلز اور دانشور بڑے زور و شور سے واویلا کر رہے ہیں کہ ..... 

کعبہ کے گرد گھومنے سے پہلے کسی غریب کے گھر گھوم آؤ۔۔۔


مسجد کو قالین نہیں کسی بھوکے کو روٹی دے دو۔۔۔


حج اور عمرہ پر جانے سے پہلے... کسی نادار کی بیٹی کی رخصتی کا خرچہ اٹھالو ۔۔۔


  دین کا کوئی کرنے سے بہتر ہے کہ... کسی لاچار مریض کو دوا فراہم کر دو۔۔۔


مسجد میں سیمنٹ کی بوری دینے سے افضل ہے کہ... کسی بیوہ کے گھر آٹے کی بوری دے آؤ۔۔۔


یاد رکھیں۔۔۔👇


دو نیک اعمال کو اس طرح تقابل میں پیش کرنا کوئی دینی خدمت یا انسانی ہمدردی نہیں... بلکہ عین جہالت ہے۔


اگر تقابل ہی کرنا ہے... تو دین اور دنیا کا کرو اور یوں کہو !


15 ، 20 ﻻکھ ﮐﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ لو..... ﺟﺐ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﺳﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔۔۔


50 ، 60 ﮨﺰﺍﺭ ﮐﺎ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ لو... ﺟﺐ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﮏ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔۔۔


ﮨﺮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﮮ ﺳﯽ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻟﮕﻮﺍؤ... ﺟﺐ گرمی میں بغیر بجلی کے سونے والا کوئی نہ ہو ۔۔۔


ﺑﺮﺍﻧﮉﮈ ﮐﭙﮍﮮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺧﺮﯾﺪو...  ﺟﺐ ﺳﮍﮎ ﭘﺮ ﭘﮭﭩﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔۔


یہ کروڑوں کی گاڑیاں ، لاکھوں کے موبائل فونز، اورہزاروں کے کھلونے خریدتے وقت... ان دانشوروں کو... غرباء،  فقراء،  بےآسرا،  بےسہارا لوگوں کو... یاد رکھنے کی زحمت گوارا کیوں نہیں ہوتی۔۔۔؟


آخر یہ چڑ کعبہ، مسجد، حج وعمرہ، اور تبلیغ، ہی سے کیوں ہے۔۔۔؟


ان ضروریات کا فرائض سے موازنہ کر کے.. فرائض سے غفلت کا درس دینے والے... جب اپنی شادیوں پر عورتیں نچاتے ہیں... تب ان کو کیوں یاد نہیں ہوتا کہ.... وہ بھی کسی کی بیٹیاں اور بہنیں ہیں...


ہزاروں آرام دہ اشیاء خریدتے وقت... ان کو غریب کی بن بیاہی بیٹیاں نظر کیوں نہیں آتیں.... ؟؟؟


اک بار ضرور سوچیں.. 

   

کیا.. 

*انسانیت کی خاطر غیر ضروری امور ترک کرنا بہتر ہے.... یا کہ فرائض کا ترک؟*Copy

 

 

 

 

 

 میرا  جنازہ گھر سے رات کے اندھیرے میں نکالنا تاکہ غیر محرم کی نظر مجھ پر نہ پڑے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا 

یوم حیاء 

💕💔❤

 

 

 

 

 


 ❣️🤲🏻 🌙۔


قدر کیجیئے!

ان ہاتھوں کی جن ہاتھوں نے ہماری بنیادیں مضبوط کرتے کرتے اپنے ہاتھوں میں لاٹھیاں پکڑیں،،، انکی خواہشات کا احترام کریں۔ان کیلئے مسکرائیں جیسے کبھی وہ ہمارے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی مسکراتے تھے...!!!‌ باپ زینہ ہے جو لے جاتا ہے اونچائی تک ماں دعا ہے جو صدا سایہ  فگن رہتی ہے....!!!!


❣دَبِــــــــستَانِ اَدَب 🌙

 

 

 

 

 

❣️🤲🏻 🌙۔


علم حاصل کرتے رہیں. 

کیونکہ کثرتِ علم, خرافات کو کم کرتا ہے....!!!!


❣دَبِــــــــستَانِ اَدَب 🌙

 

 

 

 

 

❣️🤲🏻 🌙۔


ميں تو يہى سمجھتا ہوں کہ حجاب خداوند تعالى کى طرف اپنی بندیوں کے لیے ایک عظيم الشان تحفہ ہے جسے اپنا وہ روحانی طور پر سکون اور تحفظ محسوس کرتی ہیں اور عورت کو جو عزّت پردہ کرنے سے ملتى ہے وہ بے پردگى میں کہا.....!!!


❣دَبِــــــــستَانِ اَدَب 🌙

 

 

 

 

 ❣️🤲🏻 🌙۔


‏جانتے ہـو اِنسان ڪسے ڪہتــے ہیں ؟جس ڪے دِل میں اِنسانیت آنڪھ میں احترام ، الفاظ میں نرمــی اخــلاق میں رحــمدلی  اور مَقاصد میں اعلـٰی ظَـــرفی ہـو...!!!!


❣دَبِــــــــستَانِ اَدَب 🌙

 

 

 

 

 ❣️🤲🏻 🌙۔


کبھی آپ نے پانی میں گرے تیل کے قطرے کو دیکھا ھے..؟ وہ پھیلتا ھے تو اپنے رنگ بکھیرتا ھے.. اگر پانی چل پڑے تو وہ ساتھ چلتا ھے لیکن وہ قطرہ کبھی ٹوٹتا نہی.. پانی چاھے گدلا ھو یا صاف ' تیل کا وہ قطرہ اپنی شناخت نہیں کھوتا ' پانی کی سطح پر تیرتا رھتا ھے..  کیا ہم تیل کہ اِس قطرے کی طرح نہیں بن سکتے..جب بھی معاشرہ  ہم کو اپنے میں ضم کرنا چاھے لیکن ہم اپنی نیکی اور اچھائی کی شناخت برقرار رکھیں..!!!


❣دَبِــــــــستَانِ اَدَب 🌙

 

 

 

 

 ❣️🤲🏻 🌙۔


سمندر بڑا ھو کر بھی اپنی حدوں میں رہتا ہے. انسان چھوٹا ھوکر بھی اپنی اوقات بھول جاتا ہے....!!!!


❣دَبِــــــــستَانِ اَدَب 🌙

 

 

 

 

❣️🤲🏻 🌙۔


کون دیکھتا ہے اب کسی کو سیرت اخلاق سے صرف خوبصورتی کو پوجتے ہیں نئے زمانے کے لوگ....!!!!


❣دَبِــــــــستَانِ اَدَب 🌙

 

 

 

 

 حضرت جگر مرادآبادی کی توبہ


رئیس المتغزلین اور شہنشاہِ غزل حضرت جگر مرادآبادی نے ابتدائے شباب سے ہی شاعری اور شراب نوشی شروع کر دی۔ حقیقت یہ ہے کہ جگر صاحب برِصغیر پاک و ہند میں اپنی انہی دو باتوں کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ شاعر ایسے تھے کہ اُن کا کلام عشق و محبت کا سچا آئینہ دار شمار ہوتا اور شراب نوش ایسے کہ لوگ مشاعرے کے بعد اُٹھا کر گھر لاتے۔ بلانوشی کے سبب وہ ہوش میں نہ ہوتے۔ اُنہی کا ایک شعر ہے


پینے کو تو بے حساب پی لی

اب ہے روزِ حساب کا دھڑکا


جگرصاحب کے ذاتی کردار میں ایک ہی خامی تھی کہ وہ بلانوش تھے، ورنہ طبیعت میں غیرت و حیا کی کمی نہ تھی۔ محفل میں ہمیشہ نظریں نیچی کرکے بیٹھتے۔ شریکِ محفل مستورات کی طرف قطعاً متوجہ نہ ہوتے۔ صاف دل اور صاف باطن تھے۔ سخاوت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ مہمان کے آنے سے خوش اور جہاں تک ہو سکتا، اُس کا اکرام کرتے۔


اکثر لوگوں کو یہ غلط فہمی رہی کہ جگر صاحب کی خوبصورت غزلیں اُن کی کثرتِ مے نوشی کا نتیجہ ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ حضرت جگر مرادآبادی نے شراب نوشی سے توبہ کے بعد جو غزلیں کہیں، وہ اُن غزلوں سے کہیں زیادہ فائق ہیں جو پہلے کہی گئیں۔ توبہ کے بعد کہی گئی غزلوں میں خاص قسم کا سوزوگداز اور کیف و مستی پائی جاتی ہے۔ جگر صاحب نے خود ایک مرتبہ فرمایا تھا


’’میں شراب نوشی کے بعد کئی کئی گھنٹے روتا ہوں اور شعر میں نے کہے ہیں شراب نے نہیں۔"


جگر صاحب کو عموماً بھارت کا سب سے بڑا شراب نوش شاعر کہا جاتا ہے۔ سستی اور گھٹیا قسم کی شراب اُنھوں نے اس کثرت سے پی کہ اس کی نظیر ادبیات کی تاریخ میں نہ ملے گی۔ پھر رفتہ رفتہ اُن کا دل توبہ کی طرف مائل ہوا۔ طبیعت شراب سے بے زار رہنے لگی اور دل میں یہ بات آئی کہ کسی اللہ والے کے ہاتھ پر شراب خانہ خراب سے توبہ کی جائے۔ اس سلسلے میں اُنھوں نے خواجہ عزیز الحسن مرادآبادی سے مشورہ کیا۔ خواجہ عزیز الحسن مرادآبادی جگر کے گہرے دوست تھے۔ مشاعروں میں بھی جگر کے ساتھ شریک ہوتے۔ بڑے باکمال اور قادرالکلام شاعر تھے۔ عشقِ حقیقی کے قائل تھے اور مجاز کے پردے میں حقیقت بیان کرتے۔ خواجہ صاحب کا تخلص ’’مجذوب‘‘ تھا۔ اُن کی شاعری کا مجموعہ ’’کشکولِ مجذوب‘‘ کے نام سے طبع ہو چکا۔ خواجہ صاحب نے جگر کو بھی مولانا تھانوی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مشورہ دیا۔ جگرصاحب خود تو مولانا کی خانقاہ حاضر نہ ہوئے۔ ایک سفید کاغذ پر اپنا یہ فارسی شعر لکھ بھیجا۔


بہ سرِ تو ساقی مستِ من آید سرورِ بے طلبی خوشم

اگرم شراب نمی دھدبہ خمارِتشنہ لبی خوشم


"اے میرے مدہوش ساقی تیرے دل میں یہ بات ہے کہ میں تجھ سے کچھ نہ مانگوں۔ ٹھیک ہے اگر تُو مجھے شراب نہیں دیتا تو میں اسی تشنہ لبی کے خمار میں ہی خوش ہوں۔‘‘


چنانچہ یہ خط مولانا کی خدمت میں پہنچایا گیا۔ مولانا کے لیے فارسی اجنبی نہیں تھی۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مولانا نے بچپن میں قرآنِ پاک حفظ کیا۔ اُس کے بعد ذاتی شوق سے فارسی پڑھی۔ اُنھوں نے جگر کے خط کو پڑھا تو اُن کی مراد سمجھ گئے۔ اُس کے بعد اُنھوں نے کاغذ کے دوسری جانب مندرجہ ذیل شعر لکھ کر جگر کو واپس بھجوا دیا۔


نہ بہ نثرِ نا تو بے بدل، نہ بہ نظم شاعر خوش غزل

بہ غلامی شہہ عزوجل و بہ عاشقی نبی خوشم


’’ اے جگر تیرا تو یہ حال ہے لیکن میرا یہ حال ہے کہ نہ میرا کسی عظیم ادیب کی تحریر میں دل لگتا ہے اور نہ ہی مجھے کسی بڑے شاعر کی شاعری خوش کرتی ہے۔ بلکہ میں تو اللہ تعالی کی بندگی میں اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ہی خوش رہتا ہوں۔‘‘


قدرت کو جب کسی کی ہدایت کا انتظام کرنا منظور ہو تو اُس کے لیے وہ اسباب بھی خود مہیا کرتی ہے۔ یہ خط جب جگرصاحب کے پاس پہنچا تو اُن کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور وہ دیر تک روتے رہے۔


اگلے ہفتے وہ خواجہ صاحب کی معیت میں مولانا کی خانقاہ میں حاضر ہوئے۔ مولانا صاحب شاید پہلے ہی سے منتظر تھے۔ توبہ ہوئی اور بیعت بھی۔ اُس کے بعد جگر صاحب نے مولانا سے چار دعاؤں کی درخواست کی۔ ایک یہ کہ وہ شراب چھوڑ دیں، دوسرے ڈاڑھی رکھ لیں، تیسرے حج نصیب ہوجائے اور چوتھے یہ کہ اُن کی مغفرت ہوجائے۔ مولانا نے جگر کے لیے یہ 4 دعائیں کیں اور حاضرینِ محفل نے آمین کہی۔ بعدازاں مولانا نے جگر صاحب سے کچھ سُنانے کی فرمائش کی۔ جگر نے محفل میں نہایت سوزوگداز سے اپنی یہ غزل سنائی۔


کسی صورت نمودِ سوزِ پنہانی نہیں جاتی

بُجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی


صداقت ہو تو دل سینوں سے کھینچنے لگتے ہیں واعظ

حقیقت خود کو منوا لیتی ہے، مانی نہیں جاتی


چلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر مٹے جاتے ہیں گر گر کر

حضور شمعِ پروانوں کی نادانی نہیں جاتی


وہ یوں دل سے گزرتے ہیں …

 


No comments:

Post a Comment