Saturday, March 13, 2021

Urdu Islamic Article: Shaitan or Farishta, Hazrat Junaid Bagdadi, Orat ka husan, Masjid ka hissa, Bachay, Maal o Dolat, Increment, Biwi ho to aisi,

 

Home Page  Urdu Islamic Article  HR Email Ids  Zikar Azkaar

Namaz Quran & Tableegh   School HR ID  Ulema Ikram Bayanat

Listen Quran Majeed   Read Quran Majeed  Social Media  Ramzan

Khulasa Quran Majeed


ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﭘﯿﻨﭩﺮ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﮨﻨﺮﻣﻨﺪﺍﻧﮧ ﺍﺛﺮ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮨﮯ . ﭘﯿﻨﭩﺮ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺴﺘﺠﻮ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﮐﯿﺎ . ﻭﮦ ﺍﺱ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺷﺨﺺ ﻣﻠﮯ ﺟﻮ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﮐﮩﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﻻﺋﻖ ﮨﻮ، ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺍﺻﻠﯽ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﭽﮧ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎﺋﯽ . ﺟﺐ ﺍﺱ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮐﻮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﮐﺎ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻓﻦ ﮐﯽ ﺩﺍﺩ ﺩﯼ .

ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﯿﻨﭩﺮ ﻧﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺷﮩﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﺳﮑﮯ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺷﯿﻄﺎﻧﯽ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﮨﻮ، ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺟﯿﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻣﺠﺮﻣﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺷﺨﺺ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﺗﮭﮯ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﻌﺾ ﻏﻠﻄﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ .

ﺗﻼﺵ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﮔﺰﺭ ﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﻣﻼ . ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺍﯾﺎﻡ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﯿﻨﭩﺮ ﮐﻮ ﺑﻼ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟﻠﺪ ﺍﺯ ﺟﻠﺪ ﺍﺱ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮐﻮ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﮨﯽ ﮨﻮﮔﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﺳﺮ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﭘﺎﺋﮯ . ﭘﯿﻨﭩﺮ ﻧﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺴﺘﺠﻮ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮﮐﺎﺭ ﺍﺳﮯ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎﻧﯽ ﺗﮭﯽ . ﺍﯾﮏ ﻣﺴﺖ، ﺑﺪ ﺻﻮﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﯾﮩﮧ ﺍﻟﻤﻨﻈﺮ ﻣﺠﺮﻡ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﻤﺒﮯ ﻟﻤﺒﮯ ﮔﻨﺪﮮ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﺳﻤﯿﺖ ﮐﺴﯽ ﻣﺨﺮﻭﺑﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ .

ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﮐﺮ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﮈﮬﯿﺮ ﺳﺎﺭﮮ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﮮ ﺗﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﻄﻮﺭ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎﺳﮑﮯ .

ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﯿﻨﭩﺮ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﯽ .

ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﭘﯿﻨﭩﺮ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ . ﺟﺐ ﻋﻠﺖ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ :

" ﻣﯿﮟ ﻭﮨﯽ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﭽﮧ ﮨﻮﮞ، ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ !!!

ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺑﻨﺎﺩﯾﺎ "...

ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﺖ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﯿﺠﺌﮯ ...

ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﺳﻮﭺ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﮮ ...

ﻓﺮﺷﺘﮧ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮨﻨﺎ ﯾﺎ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺑﻨﻨﺎ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ..!! 


!!_ Rj  Arsal _!!






حضرت جنید بغدادی ایک دن مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص نے ان سے کہا

حضرت  آپ کا وعظ صرف شہر میں کام کرتا ھے  یا اس کے اثرات جنگل میں بھی ہوتے ہیں


حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ نے اس بات کی وضاحت چاہی تو وہ کہنے لگا

چند آدمی جنگل کے فلاں مقام پر موجود ہیں  انہوں نے ناچ گانوں کی محفل سجا رکھی ھے  اور شراب پی کر مست ہو رھے ہیں 

حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ یہ سن کر منہ لپیٹ کر جنگل کی طرف چل دئیے 

جب وہ مطلوبہ مقام پر پہنچے تو دیکھا  کچھ لوگ شراب کے نشے میں مست تھے  ناچ گانا ہورہا تھا  وہ لوگ حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کو دیکہ کر بھاگنے لگے  تو آپ نے فرمایا 

بھاگومت  میں بھی تمہاری طرح پینے والا ہوں  میرے لیے بھی شراب لاؤ. شہر میں تو میں پی نہیں سکتا  اس لیے سب سے چھپ کر یہاں آیا ہوں 

حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کی بات سن کر وہ لوگ رک گئے ۔۔۔۔۔۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا۔۔۔۔۔۔

افسوس!۔۔۔۔۔ شراب تو ختم ہو گئ ھے ۔۔۔۔۔ اگر آپ فرمائیں تو شہر سے منگوادی جائے۔۔۔۔۔۔

حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ مسکرائے اور بولے۔۔۔۔۔۔۔

کیا ایسی صورت نہیں کہ شراب خودبخود یہاں آجائے۔۔۔۔۔۔

صاحب!۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم میں تو ایسا کمال نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کہ شراب خود بخود حاضر ہو جائے ۔۔۔۔ ان میں سے ایک نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا میں تمہیں وہ بات سکھا دوں کہ شراب خود بخود یہاں آجایاکرے۔۔۔۔۔۔۔ اور تم اس کا مزہ لو۔۔۔۔۔۔

یہ سن کر سب لوگ حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔۔۔۔۔۔ آخر ایک نے کہا۔۔۔۔۔

ضرور سکھائیں ۔۔۔۔۔ یہ کمال تو ضرور بتائیں ۔۔۔۔۔

ٹھیک ھے۔۔۔۔ تم لوگ نہا دھوکر۔۔۔۔ پاک صاف کپڑے پہن کر میرے پاس آؤ ۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں وہ کمال سکھا دوں گا۔۔۔۔۔۔

وہ لوگ غسل کرکے۔۔۔۔۔۔۔ پاک صاف کپڑے پہن کر ۔۔۔۔ حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔ تو حضرت جنید بغدادی نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دورکعت نماز پڑھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب وہ نماز میں مشغول ہو گئے ۔۔۔۔۔۔ تو حضرت جند بغدادی رحمہ اللہ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے ۔۔۔۔۔۔۔

اے اللہ! میرا تو اتنا ہی کام تھا ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے انہیں تیرے سامنے کھڑا کردیاہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اب تجھے اختیار ھے ۔۔۔۔۔ انہیں ہدایت دے دے یا گمراہی میں رکھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کی دعا قبول ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان سب کی زندگی بدل گئی ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ نے انہیں ہدایت عطا فرمادی تھی







: مکہ مکرمہ میں ایک عورت تھی اُسکو اپنے حسن پر بڑا ناز تھا۔

وہ ایک مرتبہ نہانے کہ بعد کپڑے بدل کر اپنے بال سنوار رہی تھی. آئینے کے سامنے کھڑی تھی اور اپنے آپ پہ بہت فریفتہ تھی کہ میں بہت حور پری ہوں.

خاوند کو جب دیکھا تو اُس نے بڑے ناز نخرے سے بات کی کہ ہے کوئی مرد ایسا جو مجھے دیکھے اور میری تمنا نہ کرے؟ تو خاوند نے کہا ہاں ہے"عبید بن عمیر" یہ مسجد نبویﷺ میں مدرس اور خطیب تھے۔

تو میاں بیوی کا تعلق عجیب سا ہوتا ہے آگے سے کہنے لگی تو دے مجھے اجازت میں تجھے دیکھاتی ہوں وہ پھسلتا کیسے ہے، اُس نے کہا ٹھیک ہے میں اجازت دیتا ہوں. عورت کو اجازت مل گئی اور وہ نکلی، پھر مسجد کے دروازے پر آ کر کھڑی ہو گئی.

اب جب مولانا عبید بن عمیرؒ مسجدنبویﷺ سے باہر نکلے تو عورت نے پہلے اس طریقے سے بات کہی جیسے کوئی مسئلہ پوچھنے کے لیے کھڑی ہو.  تو مولانا کھڑے ہو گئے. اس دوران اس نے اپنے چہرے سے نقاب کو ہٹا دیا.

اُسکا خیال یہ تھا کہ جب وہ میرے حسن و جمال کو دیکھیں گے تو فریفتہ ہو جائیں گے، جسے ہی اس نے ایسا کیا تو اُنہوں نے نظر ہٹا دی اور کہا۔

دیکھو۔ کیوں ایسے کام کے بارے میں سوچتی ہو جس سے تمہیں دنیا میں بھی ذلّت ملے گی اور آخرت میں بھی ذلّت ملے گی۔

اب یہ الفاظ  انکے منہ سے اتنے درد سے نکلے وہ شرما گئی اور واپس آ گئی(عمل سے بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی مستی میں نہ نوری ہے نہ ناری) جس کا عمل ہوتا ہے اس کی زبان میں درد بھی ہوتا ہے جو دوسروں کے دل میں اتر جاتا ہے.

شوہر نے پوچھا کیا بنا؟ کہنے لگی۔

"کیا مرد ہی نیک ہوتے ہیں؟ عورتیں نیک نہیں ہو سکتی۔ میں بھی نیک بنو گی۔

  اُسکی زندگی بدل گئی اُسکے بعد روز وہ خاوند سے پوچھتی عشاء کے وقت کہ تمہیں میری ضرورت ہے؟ اگر کہتا ہاں تو وہ وقت خاوند کے ساتھ وقت گزارتی اور اگر وہ کہتا نہیں تو جبّا پہن لیتی اور ساری رات مسلے پہ عبادت کرتی.

اُسکا خاوند کہا کرتا تھا۔ پتا نہیں عبید بن عمیر نے ایک فقرہ بول کہ میری بیوی کو نیک کیسے بنا دیا


شکار کرنے کو آئے شکار ہو کے چلے گئے ایسے بھی لوگ ہیں آج اس معاشرہ میں مگر نظر ان کو دیکھ نہیں سکتی وہ خود اپنے عمل کے زریعے ہی لوگوں پر آشکار ہوجاتے ہیں۔


تو یہ کیفیتیں اُن کی اس لیے تھیں کہ پروردگار عالم نے اُن  کے دلوں میں اک اثر ڈالا ہوا تھا، ایمان کامل اُن کے دلوں میں تھا۔


محبوبُ العُلماء والصلحاء ، حضرت مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی حفظہ اللہ کے بیان سے ماخوذ 

طالبِ دعا عاقب علی







ایک دلچسپ گفتگو 

شیخ جنید بغدادی ایک دفعہ اپنے مریدوں اور شاگردوں کے ساتھ بغداد کی سیر کے لیے نکلے انھوں نے بہلول کے بارے میں پوچھا، تو کسی نے کہا سرکار وہ تو ایک دیوانہ شخص ہے اور اپنے عصا کو گھوڑا بنا کر سواری کر رہا ہوتا ہے، شیخ صاحب نے کہا مجھے اسی دیوانے سے کام ہے آیا کسی نے آج اس کو دیکھا ہے؟ 


ایک نے کہا میں نے فلاں مقام پر اس کو دیکھا ہے سب اس مقام کی طرف چل دیئے، حضرت بہلول وہاں ریت پر بیٹھے ہوئے تھے، شیخ صاحب نے بہلول کو سلام کیا، بہلول نے سلام کا جواب دیا اور پوچھا کون ہو؟ 


شیخ صاحب نے بتایا، بندے کو جنید بغدادی کہتے ہیں، بہلول نے کہا وہی جو لوگوں کو درس دیتے ہیں؟ کہا جی الحمدللہ۔ 

بہلول نے پوچھا شیخ صاحب کھانے کے آداب جانتے ہیں؟ 

کہنے لگے، بسم اللہ کہنا، اپنے سامنے سے کھانا، لقمہ چھوٹا لینا، سیدھے ہاتھ سے کھانا، خوب چبا کر کھانا، دوسرے کے لقمہ پر نظر نہ کرنا، اللہ کا ذکر کرنا، الحمدللہ کہنا، اول و آخر ہاتھ دھونا۔ 


بہلول نے کہا، لوگوں کے مرشد ہو اور کھانے کے آداب نہیں جانتے اپنے دامن کو جھاڑا اور وہاں سے اٹھ کر آگے چل دیئے۔ 

شیخ صاحب بھی پیچھے چل دیئے، مریدوں نے اصرار کیا، سرکار وہ دیوانہ ہے لیکن شیخ صاحب پھر وہاں پہنچے پھر سلام کیا۔ بہلول نے سلام کا جواب دیا اور پھر پوچھا کون ہو؟ کہا جنید بغدادی جو کھانے کے آداب نہیں جانتا۔ بہلول نے پوچھا اچھا بولنے کے آداب تو جانتے ہوں گے۔ 


جی الحمدللہ، متکلم مخاطب کے مطابق بولے، بےموقعہ، بے محل اور بےحساب نہ بولے، ظاہر و باطن کا خیال رکھے۔ بہلول نے کہا کھانا تو کھانا، آپ بولنے کے آداب بھی نہیں جانتے، بہلول نے پھر دامن جھاڑا اور تھوڑا سا اور آگے چل کر بیٹھ گئے۔


شیخ صاحب پھر وہاں جا پہنچے سلام کیا۔ بہلول نے سلام کا جواب دیا، پھر وہی سوال کیا کون ہو؟ 

شیخ صاحب نے کہا، جنید بغدادی جو کھانے اور بولنے کے آداب نہیں جانتا۔ بہلول نے اچھا سونے کے آداب ہی بتا دیں؟ 

کہا نماز عشاء کے بعد، ذکر و تسبیح، سورہ اور وہ سارے آداب بتا دیئے جو روایات میں ذکر ہوئے ہیں۔ بہلول نے کہا آپ یہ بھی نہیں جانتے، اٹھ کر آگے چلنا ہی چاہتے تھے کہ شیخ صاحب نے دامن پکڑ لیا اور کہا جب میں نہیں جانتا تو بتانا آپ پر واجب ہے۔ 


بہلول نے کہا جو آداب آپ بتا رہے ہيں وہ فرع ہیں اور اصل کچھ اور ہے، اصل یہ ہے کہ جو کھا رہے ہیں وہ حلال ہے یا حرام، لقمہ حرام کو جتنا بھی آداب سے کھاؤ گے وہ دل میں تاریکی ہی لائے گا نور و ہدایت نہیں، شیخ صاحب نے کہا جزاک اللہ۔ 


بہلول نے کہا کلام میں اصل یہ ہے کہ جو بولو اللہ کی رضا و خوشنودی کیلئے بولو اگر کسی دنیاوی غرض کیلئے بولو گے یا بیھودہ بول بولو گے تو وہ وبال جان بن جائے گا۔ 

سونے میں اصل یہ ہے کہ دیکھو دل میں کسی مؤمن یا مسلمان کا بغض لیکر یا حسد و کینہ لیکر تو نہیں سو رہے، دنیا کی محبت، مال کی فکر میں تو نہیں سو رہے، کسی کا حق گردن پر لیکر تو نہيں سو رہے ۔۔۔
















اپنے ماہانہ بجٹ میں مسجد کا حصہ بھی مخصوص کیجیے!


ہم جس مسجد میں روزانہ نماز ادا کرتے ہیں وہاں ہمیں وضو کے لیے پانی، ہوا کے لیے پنکھے، روشنی کے لیے لائیٹس، آرام دہ سجدے کے لیے کارپیٹ اور امام، مؤذن اور خادم فراہم کیا جاتا ہے تاکہ ہم نمازآسانی سے ادا کرسکیں

اِن تمام سہولیات کے بدلے میں ہم مسجد کو کیا دیتے ہیں؟

جبکہ ہم کیبل،نیٹ،بجلی ،گیس ،پانی،موبائل فون،اسکول، کالج،ٹیوشن وغیرہ کے بِل باقاعدگی سے ادا کرتے رہتے ہیں تو ہمیں غور کرنا چاہیے

کیا ہمارے ماہانہ بجٹ میں مسجد کا کوئی حصہ ہے یا نہیں؟





🔘 کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں 🔘


میں ایک گھر کے قریب سے گزر رہا تھا کہ اچانک مجھے گھر کے اندر سے ایک دس سالہ بچے کے رونے کی آواز آئی۔ آواز میں اتنا درد تھا کہ مجھے مجبوراً گھر میں داخل ہو کر معلوم کرنا پڑا کہ یہ دس سالہ بچا کیوں رو رہا ہے۔ اندر داخل ہو کر میں نے دیکھا کہ ماں اپنے بیٹے کو آہستہ سے مارتی اور بچے کے ساتھ خود بھی رونے لگتی۔ میں نے آگے ہو کر پوچھا بہن کیوں بچے کو مار رہی ہو جبکہ خود بھی روتی ہو۔۔۔۔۔

اس نے جواب دیا کہ بھائی آپ کو تو معلوم ہے کہ اس کے والد اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں اور ہم بہت غریب بھی ہیں۔ 

میں لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرتی ہوں اور اس کی پڑھائی کا مشکل سے خرچ اٹھاتی ہوں۔ یہ کم بخت سکول روزانہ دیر سے جاتا ہے اور روزانہ گھر دیر سے آتا ہے۔ جاتے ہوئے راستے میں کہیں کھیل کود میں لگ جاتا ہے اور پڑھائی کی طرف ذرا بھی توجہ نہی دیتا۔ جس کی وجہ سے روزانہ اپنی سکول کی وردی گندی کر لیتا ہے۔ میں نے بچے اور اس کی ماں  کو تھوڑا سمجھایا اور چل دیا۔۔۔۔

ایک دن صبح صبح سبزی منڈی کچھ سبزی وغیرہ لینے گیا تو اچانک میری نظر اسی دس سالہ بچے پر پڑی جو روزانہ گھر سے مار کھاتا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بچہ منڈی میں پھر رہا ہے اور جو دوکاندار اپنی دوکانوں کے لیے سبزی خرید کر  اپنی بوریوں میں ڈالتے تو ان سے کوئی سبزی زمین پر گر جاتی اور وہ بچہ اسے فوراً اٹھا کر اپنی جھولی میں ڈال لیتا۔ میں یہ ماجرہ دیکھ کر پریشانی میں مبتلا ہو رہا تھا کہ چکر کیا ہے۔ میں اس بچے کو چوری چوری فالو کرنے لگا۔جب اس کی جھولی سبزی سے بھر گئی تو وہ سڑک کے کنارے بیٹھ کر اونچی اونچی آوازیں لگا کر اسے بیچنے لگا۔ منہ پر مٹی گندی وردی اور آنکھوں میں نمی کے ساتھ ایسا دوکاندار زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔۔۔

دیکھتے دیکھتے اچانک ایک آدمی اپنی دوکان سے اٹھا جس کی دوکان کے سامنے اس بچے نے ننھی سی دکان لگائی تھی۔ اس شخص نے آتے ہی ایک زور دار پاؤں مار کر اس ننھی سی دکان کو ایک ہی جھٹکے میں ساری سڑک پر پھیلا دیا اور بازو سے پکڑ کر اس بچے کو بھی اٹھا کر دھکا دے دیا۔ ننھا دکاندار آنکھوں میں آنسو لیے دوبارہ اپنی سبزی کو اکٹھا کرنے لگا اور تھوڑی دیر بعد اپنی سبزی کسی دوسری دکان کے سامنے ڈرتے ڈرتے لگا لی۔بھلا ہو اس شخص کا  جس کی دکان کے سامنے اب اس نے اپنی ننھی دکان لگائی اس شخص نے اس بچے کو کچھ نہی کہا۔ تھوڑی سی سبزی تھی جلد ہی فروخت ہو گئی۔اور وہ بچہ اٹھا اور بازار میں ایک کپڑے والی دکان میں داخل ہوا اور دکان دار کو وہ پیسے دیکر  دکان میں پڑا اپنا سکول بیگ اٹھایا اور بنا کچھ کہے سکول کی جانب چل دیا۔ 

 میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ جب وہ بچہ سکول گیا تو ایک گھنٹا دیر ہو چکی تھی۔ جس پر اس کے استاد نے ڈنڈے  سے اسے خوب مارا۔ میں نے جلدی سے جا کر استاد کو منع کیا کہ یتیم بچہ ہے اسے مت مارو۔ استاد فرمانے لگے کہ سر یہ روزانہ ایک گھنٹا دیر سے آتا ہے میں روزانہ اسے سزا دیتا ہوں کہ ڈر سے سکول ٹائم پر آئے اور کئی بار میں اس کے گھر بھی پیغام دے چکا ہوں۔ بچہ مار کھانے کے بعد کلاس میں بیٹھ کر پڑھنے لگا۔ میں نے اس کے استاد کا موبائل نمبر لیا اور گھر کی طرف چل دیا۔ گھر جاکر معلوم ہوا کہ میں جو سبزی لینے گیا تھا وہ تو بھول ہی گیا ہوں۔

حسب معمول بچے نے سکول سے گھر آکر ماں سے ایک بار پھر مار کھائی ھو گی۔ ساری رات میرا سر چکراتا رہا۔ 

اگلے دن صبح کی نماز ادا کی اور فوراً بچے کے استاد کو کال کی کہ منڈی ٹائم ہر حالت میں منڈی پہنچے۔ جس پر مجھے مثبت جواب ملا۔ سورج نکلا اور بچے کا سکول جانے کا وقت ہوا اور بچہ گھر سے سیدھا منڈی اپنی ننھی دکان کا بندوبست کرنے نکلا۔ میں نے اس کے گھر جا کر اس کی والدہ کو کہا کہ بہن میرے ساتھ چلو میں تمہیں بتاتا ہوں آپ کا بیٹا سکول کیوں دیر سے جاتا ہے۔ وہ فوراً میرے ساتھ منہ میں یہ کہتے ہوئے چل پڑی کہ آج اس لڑکے کی میرے ہاتھوں خیر نہی۔چھوڑوں گی نہیں اسے آج۔منڈی میں لڑکے کا استاد بھی آچکا تھا۔ ہم تینوں نے منڈی کی تین مختلف جگہوں پر پوزیشنیں سنبھال لیں اور ننھی دکان والے کو چھپ کر دیکھنے لگے۔ حسب معمول آج بھی اسے کافی لوگوں سے جھڑکیں لینی پڑیں اور آخر کار وہ لڑکا اپنی سبزی فروخت کر کے کپڑے والی دکان کی طرف چل دیا۔۔۔۔۔

اچانک میری نظر اس کی ماں پر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ بہت ہی درد بھری سیسکیاں لے کر زاروقطار رو رہی تھی اور میں نے  فوراً اس کے استاد کی طرف دیکھا تو بہت شدت سے اس کے آنسو بہہ رہے تھے۔دونوں کے رونے میں مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے انہوں نے کسی مظلوم پر بہت ظلم کیا ہو اور آج ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہو۔

اس کی ماں روتے روتے گھر چلی گئی اور استاد بھی سسکیاں لیتے ہوئے سکول چلا گیا۔ 

حسب معمول بچے نے دکان دار کو پیسے دیے اور آج اس کو دکان دار نے ایک لیڈی سوٹ دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا آج سوٹ کے سارے پیسے پورے ہوگئے ہیں۔ اپنا سوٹ لے لو۔ بچے نے اس سوٹ کو پکڑ کر سکول بیگ میں رکھا اور سکول چلا گیا۔ آج بھی ایک گھنٹا لیٹ تھا وہ سیدھا استاد کے پاس گیا اور بیگ ڈیسک پر رکھ کر مار کھانے کے لیے پوزیشن سنبھال لی اور ہاتھ آگئے بڑھا دیے کہ استاد ڈنڈے سے اس کو مار لے۔

استاد کرسی سے اٹھا اور فوراً بچے کو گلے لگا کر اس قدر زور سے رویا کہ میں بھی دیکھ کر اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکا۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور آگے بڑھ کر استاد کو چپ کرایا اور بچے سے پوچھا کہ یہ جو بیگ میں سوٹ ہے وہ کس کے لیے ہے۔ بچے نے جواب دیا کہ میری ماں امیر لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرنے جاتی ہے اور اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کے پاس جسم کو مکمل ڈھانپنے والا کوئ سوٹ نہی ہے اس لیے میں نے اپنی ماں کے لیے یہ سوٹ خریدا ہے۔ یہ سوٹ اب گھر لے جا کر ماں کو دو گے؟؟؟ میں نے بچے سے سوال پوچھا ۔۔۔۔جواب نے میرے اور اس کے استاد کے پیروں کے نیچے سی زمین ہی نکال دی۔۔۔۔ 

بچے نے جواب دیا نہیں انکل جی چھٹی کے بعد میں اسے درزی کو سلائی کے لیے دے دوں گا اور روزانہ تھوڑے تھوڑے پیسے دوں گا.... 😭😭


يا الله غريبوں پر رحم فرما ۔آمین     

😭😭






ایک بڑی کمپنی نے اپنے ورکر کے لیے ایک جھیل کے کنارے سیر و تفریح کا انتظام کیا۔یہ جھیل مگرمچھوں سے بری پڑی تھی۔کمپنی نے بطور تفریح لوگوں سے کہا:جو صحیح  سالم اس جھیل کو پار کر کے گا اس کو دس لاکھ ڈالر انعام ملے گا اور اگر اس کو مگر مچھ نے نگل لیا تو اس کے ورثا کو دس لاکھ ڈالر ملے گئے 

ورکرز میں سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی لیکن ان میں سے اچانک ایک شخص نے جھیل میں چھلانگ لگا دی اور ہانپتے کانپتے بحفاظت پار کر لیا 

اس مقابلے میں وہ آدمی کامیاب ہو کر کے اپنے گاوں کا کروڑ پتی بن گیا لیکن اس نے معلوم کرنا چاہا کے آخر کار اس کر دھکا کس نے دیا تھا آخر کار اس کو معلوم ہو گیا کے اس کی بیوی نے اس کو دھکا دیا تھا اس وقت سے یہ معقولہ مشہور ہو گیا ((ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے ))







:  ایک صحابیہؓ کے طلاق مانگنے کا عجیب واقعہ  ""


میں نے ایک صحابیہؓ کا ایک عجیب واقعہ پڑھا ہے کہ ایک صحابی رسول رات کو اپنے گھر میں آرام فرما تھے .

.

اور انہیں پیاس لگی تو انہوں نے اہلیہ سے پانی مانگا ،ان کی اہلیہ صحابیہ عورت تھی وہ پانی لے کر آئی تو وہ صحابی دوبارہ سو چکے تھے


 وہ عورت اتنی خدمت گزار تھی کہ پانی لے کر کھڑی ہوگئی ،جب رات کا کافی حصہ گزر گیا تو صحابی کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کی وفادار بیوی پانی لے کر کھڑی ہے ،پوچھا : تم کب سے کھڑی ہو؟ 

.

اس صحابیہ عورت نے جواب دیا کہ جب آپ نے پانی مانگا تھا میں پانی لے کر آئی تو آپ آرام فرما چکے تھے اس لئے میں نے آپ کو جگا کر آپ کے آرام میں خلل ڈالنا مناسب نہ سمجھا اور سونا بھی گوارا نہ کیا کیونکہ میں نے سوچا کہ ممکن ہے پھر آپ کی آنکھ کھلے اور آپ کو پانی کی طلب ہو اور کوئی پانی دینے والا نہ ہو ، کہیں خدمت گزاری اور وفا شعاری میں کوتاہی نہ ہوجائے اس لئے میں ساری رات پانی لے کر کھڑی رہی ۔


ذرا سوچیے! آج کوئی ایک عورت ایسی باوفا اور خدمت گزار ہیں، 


اور ان عورتوں کی وفا شعاری بھی دیکھیں ، جب اس عورت نے یہ کہا کہ میں ساری رات کھڑی رہی تو اس صحابی کی حیرت کی انتہا نہ رہی وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا اور عجیب خوشی کی کیفیت میں اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ تم نے خدمت کی انتہا کردی ،اب میں تم سے اتنا خوش ہوں کہ آج تم مجھ سے جو مانگو گی میں دوں گا، 


صحابیہ نے کہا مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں بس آپ راضی اور خوش رہیں ،لیکن جب صحابی نے بار بار اصرار کیا تو عورت نے کہا اگر ضرور میرا مطالبہ پورا کرنا ہے تو مہربانی کرکے مجھے طلاق دے دو، جب اس نے یہ الفاظ کہے تو اس صحابی کے پاؤں کے نیچے سے جیسے زمین نکل گئی ہو ،وہ ہکا بکا اور حیران رہ کر اپنی بیوی کا منہ دیکھنے لگا کہ یہ کیا کہہ رہی ہے۔


اس نے کہا اتنی خدمت گزار بیوی آج مجھ سے طلاق کا مطالبہ کررہی ہو ،اس نے کہا چونکہ میں وعدہ کر چکا ہوں اس لئے تیرا مطالبہ تو پورا کروں گا لیکن پہلے چلتے ہیں 


رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں ،آپ سے مشورہ کے بعد جو فیصلہ ہوگا اسی پر عمل کروں گا ۔

چنانچہ صبح صادق کا وقت ہوچکا تھا یہ دونوں میاں بیوی اپنے گھر سے نکل کر رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حجرہ کی طرف روانہ ہو گئے ،


راستے میں ایک گڑھے میں صحابی کا پاؤں پھسل گیا اور وہ گر گئے ،اس کی بیوی نے ہاتھ پکڑ کر صحابی کو اٹھایا اور کہا آپ کو چوٹ تو نہیں آئی ، صحابی نے کہا: اور تو کچھ نہیں البتہ پاؤں میں تکلیف ہے ۔ صحابیہ عورت نے فرمایا: چلو واپس گھر چلیں ،صحابی نے کہا اب تو قریب آچکے ہیں ، 


صحابیہ کہنے لگیں ،نہیں واپس چلو، چنانچہ جب واپس گھر آئے تو صحابی نے پوچھا کہ مجھے تو سمجھ نہیں آئی کہ سارا ماجرا کیا ہے ،صحابیہ نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے کسی سے سنا ہے کہ جسے ساری زندگی میں کوئی تکلیف نہ ہو اس کے ایمان میں شک ہے کیونکہ جو بھی ایمان دار ہوتا ہے وہ ضرور تکلیف میں آزمایا جاتا ہے ،


مجھے تو آپ کے ساتھ رہتے ہوئے ۱۵ سال کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن آپ کو کبھی سر میں بھی درد نہیں ہوا ،اس لئے مجھے شک ہو گیا اور میں نے سوچا کہ ایسے آدمی کے نکاح میں رہنے کا کیا فائدہ ہے جس کا ایمان مشکوک ہے ،اس لئے میں نے طلاق مانگی 

لیکن جب راستے میں آپ کے پاؤں میں چوٹ آئی تو میرا شک رفع ہو گیا کہ الحمد للہ آپ تکلیف میں آزمائے گئے اور آپ نے اس تکلیف پر صبر کیا ۔

یہ ہیں صحابہ۔۔۔


 آج تو میاں بیوی کی لڑائی سسرال، زیوروں ،کپڑوں ،گھر اور مکان اور اخراجات پر ہوتی ہے ،ایمان اور دین کی بات ہی کوئی نہیں پوچھتا.....





کیا آپ جانتے ہیں.


 ہم اپنے ماں باپ پے سب سی بڑا ظلم کیا کرتے ہیں۔..؟


ہم ان کے سامنے"بڑے" بن جاتے ہیں ...

"سیانے" ہو جاتے ہیں ...


اپنے تحت بڑے "پارسا نیک اور پرہیزگار" بن جاتے ہیں ...


وہی ماں باپ جنہوں نی ہمیں سبق پڑھایا ہوتا ہے ۔.


انھیں "سبق" پڑھانے لگتے ہیں ...


ابا جی یہ نہ کرو یہ غلط ہے ۔.


اماں جی یہ آپ نے کیا کیا ..


آپ کو نہی پتا ایسے نہیں کرتے ...


ابو آپ یہاں کیوں گیے۔.


اماں جی پھر گڑبڑ کر دی آپ نے  ..

سارے کام خراب کر دیتی ہیں آپ ..

اب کیسے سمجھاؤں آپ کو ...


جانتے ہو صاحب ...

ہمارا یہ "بڑا پن یہ سیانا پن" ہمارے اندر کے "احساس" کو مار دیتا ہے ...🍁

وہ احساس جس سی ہم یہ محسوس کر سکیں ...

 کہ ہمارے ماں باپ اب بلکل بچے بن گئےہیں۔.. 

وہ عمر کے ساتھ ساتھ بے شمار ذہنی الجھنوں سی آزاد  ہوتے جا رہے ہیں ...😇

 چھوٹی سے خوشی ...😇

تھوڑا سا پیار...😇

ہلکی سی مسکراہٹ ... 😇

انھیں نہال کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے ...


انھیں "اختیار" سے محروم نہ کریں صاحب ....🍂

"سننے" کا اختیار ...🍂

"کہنے" کا اختیار ...🍂

"ڈانٹنے" کا اختیار ...🍂

"پیار" کرنے کا اختیار ...🍂

یہی سب انکی خوشی ہے ..🍂

چھوٹی سے دنیا ہے ...🍂


ہمارے تلخ رویوں سے وہ اور  کچھ سمجھیں یا نہ سمجھیں ...


 یہ ضرور سمجھ جاتے ہیں ک اب وقت انکا نہیں رہا ...😔


وہ اپنے ہی خول میں قید ہونے لگتے ہیں ...


اور بالآخر رنگ برنگی ذہنی اور جسمانی بیماریوں  کا شکار ہونے لگتے ہیں ...💞


اس لئے صاحب ...


اگر ماں باپ کو خوش رکھنا ہے  ..

تو ان کے سامنے  زیادہ "سیانے"  نہ بنیں ...


"بچّے" بن کے رہیں ..💛💛💛


تا کے آپ خود بھی "بَچے" رہیں .





"مال ودولت کی حقیقت"


1۔لبنان کا سب سے مالدار آدمی ایمیل البستانی تھا۔

اس نے اپنے لئے ایک خوبصورت علاقے میں جوکہ بیروت کے ساحل پر تھا ، قبر بنوائی کہ مرنے کے بعد مجھے اس قبر میں دفن کیا جائے ۔


اس کے پاس اپنا ذاتی جہاز تھا اور جب دھماکہ ہوا تو وہ جہاز سمیت سمندر میں ڈوب گیا ۔ لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد اس کے جہاز کا پتہ تو چل گیا

 لیکن لاش نہیں ملی جسے اس قبر میں دفن کیا جائے جو اس نے اپنے لئے بنوائی تھی۔


2۔برطانیہ کا ایک بہت زیادہ مالدار آدمی ایک یہودی "رود تشلر"تھا۔

وہ اتنا دولتمند تھا کہ کبھی کبھی حکومت اس سے قرض لیتی تھی ۔ اس نے اپنے عظیم الشان محل میں ایک کمرہ اپنی دولت رکھنے کے لئے مختص کیا تھا جو کہ ہر وقت سیم و زر سے بھرا رہتا تھا۔


ایک دفعہ وہ اس کمرے میں داخل ہوا اور غلطی سے دروازہ بند ہو گیا ۔

دروازہ صرف باہر سے کھل سکتا تھا اندر سے نہیں ۔

اس نے زور زور سے چیخ و پکار شروع کی لیکن محل بڑا ہونے کی وجہ سے کسی نے اس کی آواز نہ سنی۔


 اس کی عادت تھی کہ وہ کبھی کبھی بغیر کسی کو بتائے کئی کئی ہفتے گھر سے غائب رہتا تھا۔


جب وہ کسی کو نظر نہ آیا تو گھر والوں نے سوچا کہ حسب عادت کہیں گیا ہو گا۔


وہ برابر چیختا رہا یہاں تک کہ اسے سخت بھوک اور پیاس لگی۔ اس نے اپنی انگلی کو زخمی کیا اور کمرے کی دیوار پر لکھا 

"دنیا کا سب سے مالدار آدمی بھوک اور پیاس سے مر رہا ہے"


اس کی لاش کئی ہفتے بعد دریافت ہوئی۔


یہ پیغام ہے ان لوگوں کے لئے جو سمجھتے ہیں کہ

مال و دولت ہی ہر مشکل کا حل ہے اور دنیا کی ہر ضرورت اس سے پوری کی جا سکتی ہے۔


دنیا سے جانا ایک بڑا حادثہ ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ کب، کیسے اور کہاں جانا ہے


انسان سفر پر جاتا ہے اور پھر واپس آتا ہے،

گھر سے باہر جاتا ہے اور پھر  لوٹتا ہے

لیکن جب دم نکل جائے تو پھر کوئی لوٹتا نہیں ہے۔


مبارکباد کے قابل ہیں وہ لوگ جو کسی پر ظلم نہیں کرتے، نہ کسی سے نفرت کرتے ہیں ، نہ کسی کا دل زخمی کرتے ہیں اور نہ اپنے آپ کو کسی سے برتر سمجھتے ہیں اس لئے کہ سب کو جانا ہے۔


ایک آدمی ٹیکسی میں بیٹھا تو دیکھا کہ ڈرائیور قرآن سن رہا ہے اس نے پوچھا کیا کوئی آدمی مر گیا ہے؟ اس نے کہا ہاں ہمارے دل مر چکے ہیں۔


قیدی اس لئے قرآن مانگتا ہے کہ قید تنہائی میں اس کا ساتھی بنے۔


* مریض ہسپتال میں اس لئے قرآن مانگتا ہے تاکہ اللہ اس کے مرض کو دور کرے۔*


اور مردہ قبر میں تمنا کرے گا کاش میں قرآن پڑھتا تو آج قبر میں میرا غمخوار ہوتا۔


 آج نہ ہم قیدی ہیں ، نہ مریض ہیں اور نہ مرے ہوئے ہیں کہ قبر میں قرآن کی تمنا کریں ،


قرآن آج ہمارے ہاتھوں میں ہے ، آنکھوں کے سامنے ہے ، تو کیا ہمیں اس بات کا انتظار ہے کہ ہم ان مصیبتوں میں سے کسی ایک مصیبت میں گرفتار ہو جائیں اور پھر قرآن کو طلب کریں 


اے اللہ قرآن کو ہمارے دلوں کی بہار، سینوں کا نور ، عیوب کا پردہ پوش ، نفوس کا مددگار ، قبر کا ساتھی اور روزمحشر میں سفارشی بنا دیجئے ۔


اور ہمیں قرآن پاک کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرما

اے ہمارے رب ہمیں قرآن پاک پر ایمان لانے پڑھنے اور اس کی زبان سیکھنے اور سمجھنے اور عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرما 


 آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔


"قرآن کی قدر کیجئے"


جزاک اللہ خیرا و الحسن الجزا


❤️🌹❤️🌹❤️




#انکریمنٹاورپروموشن

ایک بیوی اپنے شوہر سے لڑ رہی تھی کہ چوبیس گھنٹے آن ڈیوٹی ہوتی ہوں ، کام ختم ہی نہیں ہوتے۔ لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ آپ کی طرح نہ تو کبھی سالانہ انکریمنٹ لگتی ہے اور نہ ہی پروموشن ہوتی ہے۔

شوہر نے کہا: میری انکریمنٹ لگے یا پروموشن ہو ، ظاہر ہے سب کچھ تمہارا ہی ہے لیکن پھر بھی تمہارے دونوں گِلے دور کر دیتا ہوں۔

ہر سال تمہاری پاکٹ منی میں دو ہزار کا اضافہ ہوگا۔

بیوی نے ہنستے ہوئے کہا کہ ڈن ہوگیا۔ اب پروموشن کی بات کریں۔

شوہر نے کہا: میری کسی بیس بائیس سالہ جوان دو شیزہ سے شادی کرا دو۔ تم سینئر ہوجاؤ گی اور وہ جونئیر۔

اب بیوی پروموشن لینے سے انکاری ہیں اور شوہر انکریمنٹ دینے سے انکاری۔

🤣😁😭





بیوی ہو تو ایسی 👇


‏دو ماہ سے کوئی میرے دروازے پر روزانہ کچرا پھینک کر چلا جاتا بڑی کوشش کے باوجود وہ پکڑ میں نہیں آیا


اہلیہ نے کہا کہ یقیناً یہ محلے کا کوئی ایسا

بندہ ہے جو فجر کی نماز باقاعدگی

سے پڑھتا ہوگا اور مسجد جاتے ہوئے یہ کارنامہ سرانجام دیتا جاتا ہوگا

اب مسئلہ تھا میرا اپنا

‏میں پکا نہیں کچا مسلمان تھا

روزانہ دس بجے اٹھ کر

فجر قضا پڑھا کرتا تھا

بیس دن قبل میں نے اہلیہ سے

فجر میں اٹھانے کا کہا

تو اہلیہ حیران

کہ

یہ آج سورج مشرق کے بجائے مغرب سے

کیسے نکل رہا ہے

خیر انہوں نے مجھے اگلے روز فجر کے وقت اٹھادیا

میں نے اٹھتے ہی کھڑکی سے نیچے جھانک

‏کر دیکھا تو دروازے پر کچرا موجود نہیں تھا

فٹافٹ وضو کیا

کھڑکی کے پاس ہی مصلیٰ بچھایا

اور

دو رکعت سنت کھٹاکھٹ پڑھ کر

پھر سے جھانک کر دیکھا تو کچرا دروازے پر پڑا میرا منہ چڑارہا تھا

خیر پھر دو رکعت فرض

پڑھ کر دوبارہ سوگیا

اگلے دن سنت کے بجائے فرض پڑھتے کچرا پھینک دیا گیا

‏چار دن اِسی طرح گزرگئے

لیکن کچرا پھینکنے والے کو

پکڑ نہیں پایا

پانچویں دن اہلیہ کہنے لگیں

ما شاء اللّٰه آپ اب فجر کی نماز پڑھنے لگے ہیں تو مسجد میں

باجماعت نماز پڑھ لیا کیجیے

بات دل کو لگی

اور

پانچویں دن سنت گھر میں پڑھ کر

جماعت سے پندرہ منٹ پہلے

دروازے پر کرسی لگا کر

‏بیٹھ گیا اور محلے کے نمازی

حضرات کو آتے دیکھنے لگا

کہ

کس نمازی کے ہاتھ میں کچرے کا شاپر ہے

لیکن افسوس سارے خالی ہاتھ آتے دکھائی دیے

نماز پڑھ کر آیا تو دروازے پر کچرا موجود نہیں تھا

ایک ہفتے مسلسل پابندی سے باجماعت نماز پڑھنے کے بعد میں نے اہلیہ سے کہا

بیگم اب کچرا

‏پھینکنے والا شاید ڈر گیا ہے

جب ہی کچرا نہیں پھینک رہا

اب آپ مجھے فجر کے وقت نہیں اٹھانا

اہلیہ کچھ نہیں بولیں

اگلے دن اہلیہ نے تو مجھے نہیں اٹھایا

البتہ میری خود آنکھ کھل گئی

کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو کچرا دروازے پر موجود تھا

ٹائم دیکھا تو فجر کا وقت تو باقی تھا

لیکن

‏جماعت نکل چکی تھی

اب اگلے دن پھر وہی معمول تھا

دو ہفتے مسلسل فجر کی نماز باجماعت پڑھتا رہا اور دروازہ صاف ستھرا ملتا رہا

دو ہفتے بعد اب میری جماعت سے فجر کی نماز پڑھنے کی عادت ہوچکی تھی

اور الحمدللّٰہ میں

با جماعت فجر کی نماز پڑھنا شروع ہو گیا

پھر کچھ دن بعد

‏رات کے کھانے میں اُس کچرا پھینکنے

والے کا ذکر آگیا

میں اُسے برابھلا کہنے لگا

بیٹا بولا

ابو آپ اُسے برا تو نا کہیں

بلکہ وہ تو آپ کا محسن ہے

جس کی وجہ سے آپ فجر کی نماز باجماعت پابندی سے پڑھنے لگے ہیں

بیٹے کی بات سن کر میرے دماغ کو

جھٹکا سا لگا

اور سب کو غور سے دیکھنے لگا

‏مجھے یوں اپنی طرف دیکھتے ہوئے

سارے ہنسنے لگے

بیٹا کہنے لگا

ابو آپ کی وہ محسن اور کوئی نہیں بلکہ امی ہیں

آپ امی کا شکریہ ادا کیجیے

میں نے اہلیہ کو دیکھا تو کہنے لگیں

"جب گھی سیدھی انگلی سے نا نکلے

تو ٹیڑھی انگلی سے نکالنا پڑتا ہے"

یہ سبق ہے سب بیویوں کے لئیے

کہ وہ

‏چاہیں تو اپنی اولاد کے علاؤہ

اپنے خاوند کی بھی تربیت کر سکتی ہیں

ہاں اگر وہ خود تربیت یافتہ ہوں۔




: منقول 


#تحریریںرلاتیبھیہیں.....♦️ #یقیننہیںآتاتوپڑھکہدیکھلیں

میں ایک پرائمری اسکول ٹیچر ہوں ۔ ہمارے گورنمنٹ پرائمری اسکول میں آج اُردو کا پرچہ تھا ۔ میری ڈیوٹی پانچویں جماعت کےطلبہ پر تھی ۔

خلاف معمول آج کے پیپر میں ایک بچہ کم تھا ۔ دیوار کے ساتھ جُڑی پہلی قطار کی پہلی کُرسی خالی پڑی تھی ۔ یہ اویس کی کُرسی تھی ۔

آج اویس غیر حاضر نہیں تھا بلکہ اُس نے چُھٹی لے لی تھی ۔ اسکول سے نہیں !! دُنیا سے !! دائمی چُھٹی !!

وہ ایک دِن پہلے ہی اپنی گلی میں کھیلتے ہوئے گٹر کے کُھلے دھانے میں گِر کر مر گیا تھا ۔ بدقسمت تھا ورنہ اُس کی کمیونٹی کے بچوں میں بڑے ہو کر مخالف سیاسی پارٹی کے ہاتھوں شہید ہونے کی روایت تھی۔

بچے پُورے انہماک سے پیپر حل کرنے میں مصروف تھے ۔ پیپر کا دورانیہ ایک گھنٹہ تھا اور اب آخری دس منٹ چل رہے تھے ۔

 ٹہلتے ہوئے میں نے بچوں کے جوابات کا جائزہ لینا شروع کیا ۔ تقریباً سبھی بچے آخری سوال کو نمٹا رہے تھے ۔

سوال تھا !! آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے ؟؟

پانچویں جماعت کے بچوں سے مجھے کسی تخلیقی مضمون کی تو قطعاً کوئی اُمید نہیں تھی لیکن وقت گزاری کو میں نے اُن کے جوابی پرچوں میں جھانکنا شروع کر دیا ۔

تیسری قطار کی چاروں کرسیوں پر ڈاکٹر صاحبان براجمان تھے۔ پھر ایک پائلٹ اور یوں یہ سلسلہ پہلی قطار کے وسط تک ڈاکٹر ، پائلٹ اور انجنئیر کے درمیان ہی گھومتا رہا !!

پہلی قطار کی پہلی خالی کرسی کے پیچھے اویس کا دوست عبداللہ بیٹھا تھا ! 

عبداللہ اور اویس کلاس کے دوران بھی اکھٹے ہی بیٹھتے تھے ۔ عبداللہ کے جوابی پرچے پر جواب دیکھتے ہی ایسا لگا جیسے چھت سے لٹکتی سیمنٹ کی کھپریلیں یک دم چمگادڑ بن کے میرے سر کے اوپر سے میزائلوں کی صورت زبنگ زبنگ گزرنے لگی ہوں ۔

عبداللہ کا پرچہ کُرسی کے دستے پر پڑا تھا اور اُس کی سُوجی ہوئی آنکھیں اُس کی گود میں جمی ہوئی تھیں ۔

عبداللہ کا جواب بھی مختصر سا ہی تھا !!

"" بڑا ہونا بہت مُشکل ہے !! لیکن اگر ہو گیا تو کاریگر بنوں گا !! گٹر کے ڈھکن بنانے والا کاریگر !! بہت سارے ڈھکن بناؤں گا !! 

بہت سارے ڈھکن   ۔۔۔۔

Copeid

سارہ حسین کی وال سے۔




: ‏💕بدگمانی میـں اتنی طاقت ہے  کہ یہ انسان کا  ذہنی سکون برباد کرنے کے ساتھ ساتھ ایک  دوسرے سے جڑے تعلق  کو کچھ منٹوں میــــں ہڑپ کر جاتی ہے💕




✍️✍️جو ذہن اپنی لذتوں کا غلام اور روح اپنی خواہشوں کی قیدی ہوتی ہے۔وہ ایک بنجر زمین کی مانند ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!     

🏵️🏵️🏵️🏵️🌹🏵️🏵️🏵️🏵️







گناہ کو گناہ سمجھتے رہنا چاہیے 

اللہ سے ہر وقت ڈرتے رہنا چاہیے 

نہ جانے کون سے حالات میں زندگی کی شام ہو جائے 

اللہ سے ہر وقت توبہ کرتے رہنا چاہیے


☘️ اچھی اور پیاری باتیں☘️


💞💞💞💞💞💞




💫 میرے الفاظ 💫


واٹس اپ نے اپنا ڈیٹا فیس بک کے سامنے رکھنے کا اعلان کیا تو سب پریشان اور فکر مند نظر آنے لگے لیکن ہزاروں بار ہمارے سامنے یہ اعلان ہوتا رہا کہ ایک دن آئے گا جب آپکی زندگی کا مکمل ڈیٹا سب کے سامنے رکھا جائے گا اور اسکا حساب و کتاب ہوگا

لیکن ہائے افسوس کہ ہم لوگوں نے نہ کبھی اس سلسلے میں  سوچا اور نہ ہی فکر مند ہوئے

کاش کہ ہم اب بھی بیدار ہوجائیں


آخرت کی تیاری کرلو

 قیامت قریب ہے


_copy




-" کچھ ایسے بن جاؤ کہ تمہیں دیکھنے والے تمہاری تربیت کرنے والوں کے حق میں دعا کریں_"🖤





❣️🤲🌙۔


★گھر میں چھوٹی موٹی باتیں تو ہوتی رہتی ہیں اور پر سکون زندگی گزارنے کے لیے ان باتوں کو نظر انداز کرنا اور ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہی اصل رشتے نبھانا ہے★


❣️اصــــــــلاحی باتیں🌙





: ❣️🤲🌙۔


★اپنی زندگی کو اُس درخت کی طرح بناؤ جو جنگل میی تنہا کھڑے ہو کر سُورج کی تپش برداشت کرتا ہے لیکن اپنے دامن میں آنے والے کو سکُون بخشتا ہے★


❣️اصــــــــلاحی باتیں🌙

[



ضروری نہیں کے روشنیاں چراغوں سے ہوں.....                                                                                          بیٹیاں بھی تو گھر میں اجالا ہوا کرتیں ہیں....#


🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸




No comments:

Post a Comment