Home Page Urdu Islamic Article HR Email Ids Zikar Azkaar
Namaz Quran & Tableegh School HR ID Ulema Ikram Bayanat
Listen Quran Majeed Read Quran Majeed Social Media Ramzan
ﺍﯾﮏ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﻪ ﺑﮩﺖ ﺍﻧﻮﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻭﻩ ﻫﺮ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻥ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺑﺪﻝ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺳﺎﻝ
ﮐﮯ ﺍٓﺧﺮﯼ ﺩﻥ ﺟﻮ ﺑﮭﯽﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯﻣﻠﮏ ﮐﯽ ﺣﺪﻭﺩ ﻣﯿﮟ
ﺩﺍﺧﻞ ﻫﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﯿﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﺍﻭﺭ
ﻣﻮﺟﻮﺩﻩ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﻮ ’ ﻋﻼﻗﻪ ﻏﯿﺮ ‘ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﻪ
ﭼﮭﻮﮌ ﺍٓﺗﮯ ﺟﻬﺎﮞ ﺻﺮﻑ ﺳﺎﻧﭗ، ﺑﭽﮭﻮ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ
ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﻪ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﮔﺮ ﻭﻩ ﺳﺎﻧﭗ، ﺑﭽﮭﻮﻭﮞ ﺳﮯ
ﮐﺴﯽ ﻧﻪ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﭽﺎ ﻟﯿﺘﺎ ﺗﻮ ﺑﮭﻮﮎ
ﭘﯿﺎﺱ ﺳﮯ ﻣﺮ ﺟﺎﺗﺎ۔ ﮐﺘﻨﮯ ﻫﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺍﯾﺴﮯ ﻫﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ
ﮐﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻫﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ " ﻋﻼﻗﻪ ﻏﯿﺮ " ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺮ
ﮐﮭﭗ ﮔﺌﮯ۔
ﺍﺱ ﺩﻓﻌﻪ ﺷﻬﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻫﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺭ
ﺩﺭﺍﺯ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﻟﮓ ﺭﻫﺎ ﺗﮭﺎ ﺳﺐ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ
ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﻪ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ
ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﭼﻦ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﻫﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ، ﻭﻩ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﻫﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ
ﺑﮭﯽ۔ ﺗﺨﺖ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﻫﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﻪ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﭘﮩﻼ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﮩﺎﮞ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ
ﻗﺎﻧﻮﻥ
ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﻪ ﻫﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﻮ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ
ﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﭼﻦ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ ﯾﻪ ﺳﻨﺘﮯ ﻫﯽ
ﻭﻩ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﻪ ﺗﻮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻫﻮﺍ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ
ﻋﻘﻞ ﮐﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﻫﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﻪ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺟﮕﻪ ﻟﮯ
ﮐﺮ ﺟﺎﺅ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﻢ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺁﺗﮯ ﻫﻮ۔ ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ
ﻧﮯ ﺳﭙﺎﻫﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺳﻼﻣﺖ ﮐﻮ ﻭﻩ
ﺟﮕﻪ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ، ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻧﮯ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ
ﺍﺱ ﺟﮕﻪ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﻩ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮔﯿﺎ۔
ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﺣﮑﻢ ﯾﻪ ﺩﯾﺎ ﮐﻪ ﻣﺤﻞ ﺳﮯ
’ ﻋﻼﻗﻪﻏﯿﺮ ‘ ﺗﮏ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺳﺒﺰ ﻭ ﺷﺎﺩﺍﺏ ﺭﺍﺳﺘﻪ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺟﮕﻪ ﮐﮯ ﺑﯿﭽﻮﮞ ﺑﯿﺞ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺭﻫﺎﺋﺶ ﺗﻌﻤﯿﺮ
ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻫﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺳﻬﻮﻟﺖ ﻫﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﺎﻍ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﮯ
ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﻫﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﻫﻮﮔﺌﯽ، ﮐﭽﮫ ﻫﯽ
ﻋﺮﺻﻪ ﻣﯿﮟ ﺳﮍﮎ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻞ ﻭﻏﯿﺮﻩ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﻫﻮ ﮔﺌﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﭘﻮﺭﮮ ﻫﻮﺗﮯ ﻫﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻧﮯ ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ ﺳﮯ
ﮐﮩﺎ ﮐﻪ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺳﻢ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﻫﺎﮞ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺅ
ﺟﻬﺎﮞ ﻣﺠﮫ ﺳﮯﭘﮩﻠﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﻫﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﮯ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﻪ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺳﻼﻣﺖ ﺍﺱ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﯾﻪ
ﺭﺳﻢ ﺧﺘﻢ ﻫﻮ ﮔﺌﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﻪ ﻫﻤﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻘﻞ ﻣﻨﺪ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ
ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﻫﮯ، ﻭﻫﺎﮞ ﺗﻮ ﻫﻢ ﺍﻥ ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ ﺑﺎﺩﺷﺎﻫﻮﮞ ﮐﻮ
ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻫﯽ ﮐﮯ ﻣﺰﮮ
ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ
ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻧﻪ
ﮐﺮﺗﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻋﻘﻠﻤﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﻣﻈﺎﻫﺮﻩ ﮐﯿﺎ ﮐﻪ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ
ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﺪﻩ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﻓﺮﻣﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﻫﻤﯿﮟ
ﺍﯾﺴﮯ ﻫﯽ ﻋﻘﻞ ﻣﻨﺪ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﯽﺿﺮﻭﺭﺕ ﺗﮭﯽ ﺍﺏ ﺁﭖ ﺁﺭﺍﻡ
ﺳﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻫﻢ ﭘﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺮﯾﮟ۔
*
ﺍﺱ ﺍﻧﻮﮐﮭﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ’ﺩﻧﯿﺎ ‘ ﻫﮯ؛ ﻭﻩ ﻧﯿﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻣﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﻫﯿﮟ-
ﺍﻭﺭ " ﻋﻼﻗﻪ ﻏﯿﺮ " ، ﻫﻤﺎﺭﯼ ﻗﺒﺮ ﻫﮯ۔
ﺍﺏ ﺁﭖ ﺧﻮﺩ ﻓﯿﺼﻠﻪ ﮐﺮ ﻟﯿﺠﯿﮯ ﮐﻪ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﻫﻤﯿﮟ
ﺑﮭﯽ ﯾﻪ ﺩﻧﯿﺎ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﻪ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ
ﻫﻢ ﻧﮯ ﻋﻘﻞ ﻣﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﻣﻈﺎﻫﺮﻩ ﮐﺮﺗﮯ ﻫﻮﺋﮯ ﻭﻫﺎﮞ ﺍﭘﻨﺎ
ﻣﺤﻞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻏﺎﺕ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﻟﯿﮯ ﻫﯿﮟ ﯾﺎ ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ ﺑﻦ ﮐﺮ
ﺍﺳﯽ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯﻩ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﻣﺰﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﮯ ﻫﻮﺋﮯ ﻫﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎﻭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻣﺪﺕ ﺷﺎﻫﯽ
ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺳﮯﮔﺰﺍﺭ ﮐﺮ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮ ﺭﻫﮯ ﻫﯿﮟ
ﺫﺭﺍ ﺳﻮﭼﺌﮯ ﮐﻪ ﺁﺝ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮧ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﺴﺎ ﺁﮮ ﮔﺎ ﮐﮯ ﭘﮭﺮ
ﭘﭽﮭﺘﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻣﮪﻠﺖ ﺑﮭﯽ ﻧﻬﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﮬﻢ ﺳﺐ ﮐﻮ
ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺧﺮﺕ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﺧﻮﺏ ﺳﭽﯽ ﻓﮑﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﻤﺖ
ﺍﻭﺭ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﮮ ﺁﻣﯿن
سماجی اخلاقیات/ Social Ethics
1. کسی شخص کو مسلسل دو بار سے زیادہ فون کال مت کریں . اگر وہ اپکی کال نہیں اٹھاتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی اور ضروری کام میں مصروف ہیں ۔
اسی طرح کسی کے گھر 3 بار دستک دینے کے بعد واپس آجائیں۔ کسی کے گھر میں مت جھانکیں۔
.
2. کسی سے لی گئی ادھار رقم انکے یاد دلانے سے پہلے ادا کردیں . 1 روپیہ ہو یا 1 لاکھ یہ آپ کے کردار کی پختگی دکھاتا ہے۔
3. کسی کی دعوت پر مینو پر مہنگی ڈش کا آرڈر نہ کریں. اگر ممکن ہو تو ان سے پوچھیں کہ آپ کے لئے کھانے کی اپنی پسند کا آرڈر دیں ۔
. 4. مختلف سوالات کسی مت پوچھیں جیسے 'اوہ تو آپ ابھی تک شادی شدہ نہیں ہیں
' یا '
آپ کے بچے نہیں ہیں
' یا
'آپ نے گھر کیوں نہیں خریدا؟'
یہ ہرگز آپ کاذاتی مسئلہ نہیں ہے. دوسروں کی پرسنل سپیس میں گھسنے سے احتراز کریں۔ خصوصا غیر خواتین سے انکی عمر ہرگز نا پوچھی جائے۔ آپ نے ان سے نکاح نہیں کرنا ہوتا۔
5. ہمیشہ اپنے پیچھے آنے والے شخص کے لئے دروازہ کھولیں. یہ آپ کی منکسر المزاجی کو ظاہر کرے گا۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پیچھے آنے والا چھوٹا ہے یا بڑا ۔
. 6. اگر آپ کسی دوست کے ساتھ ٹیکسی لے لیں ، اور کرایہ وہ ادا کرتا ہے تو آپ اگلی بار آپ ضرور ادا کریں.
7. مختلف سیاسی مزہبی معاشرتی نظریات کا احترام کریں.سب کو اپنے برابر عزت دیں۔ آپ کا معاشرہ اور آپ کا نظریہ کوئی الہامی شئے نہیں ہیں ۔
8. لوگوں کی بات نہ کاٹیں۔ آواز کو دھیمی مگر دلائل کو مضبوط رکھیں۔ بات کو دہرانے سے اور تکرار کرنے سے اسکا اثر ختم ہو جاتا ہے۔
. 9. اگر آپ کسی کو تنگ کررے ہیں، اور وہ اس سے لطف اندوز نہیں ہوتے تو رک جائیں اور دوبارہ کبھی ایسا نہ کریں.مذاق اور تضحیک میں فرق کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
10. جب کوئی آپکی مدد کرے تو آپ اسکا شکریہ ہمیشہ ادا کریں۔
11. کسی دوست کی تعریف کرنی ہو تو لوگوں کے سامنے کریں. اور تنقید اسے صرف تنہائی میں کریں۔
12. کسی کے وزن اور جسمانی ساخت پر تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔. ." اگر وہ خود اپنےمسائل کے بارے بات کرنا چاہتا ہے تب ہی گفتگو کریں۔
13. جب کوئی آپ کو اپنے فون پر ایک تصویر دکھاتا ہے، تو بائیں یا دائیں سوائپ نہ کریں. آپکو کچھ نہیں پتہ کہ آگے اسکی انتہائی ذاتی اور فیملی کی تصاویر ہوں۔
. 14. اگر آپ کو کوئی بتاتا ہے کہ اسے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے،تو یہ نہ پوچھیں کہ کس لئے۔۔ بس آپ اچھی صحت کی دعا دیں . اگر وہ اس کے بارے میں بات کرنا یا مشورہ لینا چاہتا ہے تو وہ ضرور دیں۔
15.جس طرح آپ اپنے باس کے ساتھ احترام سے پیش آتے ہیں اسی طرح اپنے سے نچلے لوگوں کے ساتھ پیش آئیں۔ اپنے سے کم تر حثیت کے لوگوں سے اپکا برتاو آپکے کردار کا آئینہ دار ہے ۔ یہ لوگ آپ کی دل سے اور اس سے بڑھ کر عزت کریں گیں جو آپ ظاہرا اپنے باس کی کرتے ہیں۔
16. اگر کوئی شخص آپ کے ساتھ براہ راست بات کر رہا ہے، تو آپ مسلسل اپنے موبائل فون کی طرف نہ دیکھیں۔ دوسرے کو لگے گا آپ اسے اگنور کر کے اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔
. 17. جب تک آپ سے پوچھا نہ جائے مشورہ ہرگز نہ دیں۔ بلا ضرورت مشورہ صرف اپنی فیملی اور انتہائی قریبی دوستوں تک محدود رکھیں۔
18. کسی سے عرصے بعد ملاقات ہورہی ہو تو ان سے، عمر اور تنخواہ نہ پوچھیں جب تک وہ خود اس بارے میں بات نہ کرنا چاہیں۔
19. اپنے کام سے کام رکھیں اور کسی معاملے میں دخل نہ دیں جب تک آپکو دعوت نہ دی جائے۔
20. اگر آپ گلی میں کسی سے بات کر رہے ہیں تو دھوپ کا۔چشمہ اور ہینڈ فری اتار دیں ۔یہ احترام کی نشانی ہے۔۔!
21۔ برائے با وردی ملازمان ۔کسی کمرے میں یا چھت کے نیچے ٹوپی اتار کر رکھ دیں یا ہاتھ میں پکڑ لیں۔
22۔ لفٹ میں داخل ہوتے وقت آپ سب سے پہلے داخل ہوں اور آپ کے سینئر افسران بعد میں۔ اور اسی اصول کے تحت پہلے سیئنرافسران کو لفٹ سے نکلنے دیں۔
23۔ سئنیر افسران کے ساتھ چلتے ہوئے فاصلہ بنائیں رکھیے۔ انکے تھوڑا سا پیچھے یا بالکل پیچھے ہو کر چلیے۔
24۔اپنے باس کی کسی خصوصی چیز کو دیکھ کر ضرور تعریف کریں۔ تعریف اور چاپلوسی میں کافی فرق ہوتا ہے۔ اس فرق کو ضرور قائم رکھیں۔
25۔ دوسروں کی خواتیں کو تاڑنے سے بالکل پرہیز کریں۔ خصوصا معاشرتی طور پر باپردہ خواتین کو۔ اپنی خاتون خانہ کی موجودگی میں ایسا کرنا آپ کے جسمانی سلامتی اور عزت نفس کی بربادی کا باعث ہو سکتا ہے۔ معاشرتی لحاظ سے بیہودہ لباس کسی خاتون کو تاڑنے اور اسکے کردار کا لائسینس نہیں ہوتا۔ بطور انسان معاشرتی اقدار کی پابندی کرنا ضروری ہے لیکن آپ کی حکمرانی آپ کے گھر تک ہے۔
26۔ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے ہوئے انتہائی ضعیف اور اپنے سے بڑی عمر خواتین کے لیے سیٹ لازمی چھوڑ دیں۔ اس بات کو انکا حق سمجھیں۔ بڑھاپا آپ پر بھی آنا ہے۔ رش میں کوشش کریں دوسروں سے مناسب فاصلہ بنائے رکھیں۔ کسی کو ٹچ نا کریں اور نا ٹچ ہونے دیں۔
27۔ کسی کے سامنے آنکھ ناک کان دانتوں کی صفائی سے پرہیز فرمائیں۔ یہ ذاتی کام گھر میں یا تنہائی میں سر انجام دیے جائیں۔
28۔ محفل میں کھانا کھاتے ہوئے منہ سے آواز نا آنے دیں۔ کسی کے گھر بطور مہمان گئے ہوں تو کھانے کی تعریف لازمی کریں اور واپسی پر میزبان کا شکریہ ادا کریں۔
29۔ بطور میزبان مہمان کو گھر کے گیٹ تک لازمی رخصت کر کے آئیں اور اسکی آمد پر مسکرا کر ملیں چاہے اپکا دل نا بھی کرے۔ مہمان کو زحمت نہیں رحمت تصور کریں۔ لیکن آپ کسی کے گھر بلا اجازت نا جائیں تاکہ اپکی وجہ سے اسکی ذاتی مصروفیات کا حرج نا ہو۔
30۔ محلہ داروں سے ضرور ملتے رہا کریں۔ انسان کو سماجی جانور کہا جاتا ہے۔ سماج سے جڑے رہیں۔ دوستوں کو بلا ضرورت بھی خیر خیریت کے لیے کال کر لیا کریں۔ رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں۔
1. کسی شخص کو مسلسل دو بار سے زیادہ فون کال مت کریں . اگر وہ اپکی کال نہیں اٹھاتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی اور ضروری کام میں مصروف ہیں ۔
اسی طرح کسی کے گھر 3 بار دستک دینے کے بعد واپس آجائیں۔ کسی کے گھر میں مت جھانکیں۔
.
2. کسی سے لی گئی ادھار رقم انکے یاد دلانے سے پہلے ادا کردیں . 1 روپیہ ہو یا 1 لاکھ یہ آپ کے کردار کی پختگی دکھاتا ہے۔
3. کسی کی دعوت پر مینو پر مہنگی ڈش کا آرڈر نہ کریں. اگر ممکن ہو تو ان سے پوچھیں کہ آپ کے لئے کھانے کی اپنی پسند کا آرڈر دیں ۔
. 4. مختلف سوالات کسی مت پوچھیں جیسے 'اوہ تو آپ ابھی تک شادی شدہ نہیں ہیں
' یا '
آپ کے بچے نہیں ہیں
' یا
'آپ نے گھر کیوں نہیں خریدا؟'
یہ ہرگز آپ کاذاتی مسئلہ نہیں ہے. دوسروں کی پرسنل سپیس میں گھسنے سے احتراز کریں۔ خصوصا غیر خواتین سے انکی عمر ہرگز نا پوچھی جائے۔ آپ نے ان سے نکاح نہیں کرنا ہوتا۔
5. ہمیشہ اپنے پیچھے آنے والے شخص کے لئے دروازہ کھولیں. یہ آپ کی منکسر المزاجی کو ظاہر کرے گا۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پیچھے آنے والا چھوٹا ہے یا بڑا ۔
. 6. اگر آپ کسی دوست کے ساتھ ٹیکسی لے لیں ، اور کرایہ وہ ادا کرتا ہے تو آپ اگلی بار آپ ضرور ادا کریں.
7. مختلف سیاسی مزہبی معاشرتی نظریات کا احترام کریں.سب کو اپنے برابر عزت دیں۔ آپ کا معاشرہ اور آپ کا نظریہ کوئی الہامی شئے نہیں ہیں ۔
8. لوگوں کی بات نہ کاٹیں۔ آواز کو دھیمی مگر دلائل کو مضبوط رکھیں۔ بات کو دہرانے سے اور تکرار کرنے سے اسکا اثر ختم ہو جاتا ہے۔
. 9. اگر آپ کسی کو تنگ کررے ہیں، اور وہ اس سے لطف اندوز نہیں ہوتے تو رک جائیں اور دوبارہ کبھی ایسا نہ کریں.مذاق اور تضحیک میں فرق کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
10. جب کوئی آپکی مدد کرے تو آپ اسکا شکریہ ہمیشہ ادا کریں۔
11. کسی دوست کی تعریف کرنی ہو تو لوگوں کے سامنے کریں. اور تنقید اسے صرف تنہائی میں کریں۔
12. کسی کے وزن اور جسمانی ساخت پر تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔. ." اگر وہ خود اپنےمسائل کے بارے بات کرنا چاہتا ہے تب ہی گفتگو کریں۔
13. جب کوئی آپ کو اپنے فون پر ایک تصویر دکھاتا ہے، تو بائیں یا دائیں سوائپ نہ کریں. آپکو کچھ نہیں پتہ کہ آگے اسکی انتہائی ذاتی اور فیملی کی تصاویر ہوں۔
. 14. اگر آپ کو کوئی بتاتا ہے کہ اسے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے،تو یہ نہ پوچھیں کہ کس لئے۔۔ بس آپ اچھی صحت کی دعا دیں . اگر وہ اس کے بارے میں بات کرنا یا مشورہ لینا چاہتا ہے تو وہ ضرور دیں۔
15.جس طرح آپ اپنے باس کے ساتھ احترام سے پیش آتے ہیں اسی طرح اپنے سے نچلے لوگوں کے ساتھ پیش آئیں۔ اپنے سے کم تر حثیت کے لوگوں سے اپکا برتاو آپکے کردار کا آئینہ دار ہے ۔ یہ لوگ آپ کی دل سے اور اس سے بڑھ کر عزت کریں گیں جو آپ ظاہرا اپنے باس کی کرتے ہیں۔
16. اگر کوئی شخص آپ کے ساتھ براہ راست بات کر رہا ہے، تو آپ مسلسل اپنے موبائل فون کی طرف نہ دیکھیں۔ دوسرے کو لگے گا آپ اسے اگنور کر کے اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔
. 17. جب تک آپ سے پوچھا نہ جائے مشورہ ہرگز نہ دیں۔ بلا ضرورت مشورہ صرف اپنی فیملی اور انتہائی قریبی دوستوں تک محدود رکھیں۔
18. کسی سے عرصے بعد ملاقات ہورہی ہو تو ان سے، عمر اور تنخواہ نہ پوچھیں جب تک وہ خود اس بارے میں بات نہ کرنا چاہیں۔
19. اپنے کام سے کام رکھیں اور کسی معاملے میں دخل نہ دیں جب تک آپکو دعوت نہ دی جائے۔
20. اگر آپ گلی میں کسی سے بات کر رہے ہیں تو دھوپ کا۔چشمہ اور ہینڈ فری اتار دیں ۔یہ احترام کی نشانی ہے۔۔!
21۔ برائے با وردی ملازمان ۔کسی کمرے میں یا چھت کے نیچے ٹوپی اتار کر رکھ دیں یا ہاتھ میں پکڑ لیں۔
22۔ لفٹ میں داخل ہوتے وقت آپ سب سے پہلے داخل ہوں اور آپ کے سینئر افسران بعد میں۔ اور اسی اصول کے تحت پہلے سیئنرافسران کو لفٹ سے نکلنے دیں۔
23۔ سئنیر افسران کے ساتھ چلتے ہوئے فاصلہ بنائیں رکھیے۔ انکے تھوڑا سا پیچھے یا بالکل پیچھے ہو کر چلیے۔
24۔اپنے باس کی کسی خصوصی چیز کو دیکھ کر ضرور تعریف کریں۔ تعریف اور چاپلوسی میں کافی فرق ہوتا ہے۔ اس فرق کو ضرور قائم رکھیں۔
25۔ دوسروں کی خواتیں کو تاڑنے سے بالکل پرہیز کریں۔ خصوصا معاشرتی طور پر باپردہ خواتین کو۔ اپنی خاتون خانہ کی موجودگی میں ایسا کرنا آپ کے جسمانی سلامتی اور عزت نفس کی بربادی کا باعث ہو سکتا ہے۔ معاشرتی لحاظ سے بیہودہ لباس کسی خاتون کو تاڑنے اور اسکے کردار کا لائسینس نہیں ہوتا۔ بطور انسان معاشرتی اقدار کی پابندی کرنا ضروری ہے لیکن آپ کی حکمرانی آپ کے گھر تک ہے۔
26۔ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے ہوئے انتہائی ضعیف اور اپنے سے بڑی عمر خواتین کے لیے سیٹ لازمی چھوڑ دیں۔ اس بات کو انکا حق سمجھیں۔ بڑھاپا آپ پر بھی آنا ہے۔ رش میں کوشش کریں دوسروں سے مناسب فاصلہ بنائے رکھیں۔ کسی کو ٹچ نا کریں اور نا ٹچ ہونے دیں۔
27۔ کسی کے سامنے آنکھ ناک کان دانتوں کی صفائی سے پرہیز فرمائیں۔ یہ ذاتی کام گھر میں یا تنہائی میں سر انجام دیے جائیں۔
28۔ محفل میں کھانا کھاتے ہوئے منہ سے آواز نا آنے دیں۔ کسی کے گھر بطور مہمان گئے ہوں تو کھانے کی تعریف لازمی کریں اور واپسی پر میزبان کا شکریہ ادا کریں۔
29۔ بطور میزبان مہمان کو گھر کے گیٹ تک لازمی رخصت کر کے آئیں اور اسکی آمد پر مسکرا کر ملیں چاہے اپکا دل نا بھی کرے۔ مہمان کو زحمت نہیں رحمت تصور کریں۔ لیکن آپ کسی کے گھر بلا اجازت نا جائیں تاکہ اپکی وجہ سے اسکی ذاتی مصروفیات کا حرج نا ہو۔
30۔ محلہ داروں سے ضرور ملتے رہا کریں۔ انسان کو سماجی جانور کہا جاتا ہے۔ سماج سے جڑے رہیں۔ دوستوں کو بلا ضرورت بھی خیر خیریت کے لیے کال کر لیا کریں۔ رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں۔
ایک شخص نے مولانا رُوم سے 5 سوال پوچھے ۔
مولانا روم کے جواب غور طلب ہیں
سوال ۔1۔ زہر کِسے کہتے ہیں ؟
جواب ۔ ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہو ” زہر“ بن جاتی ہے خواہ وہ قوت یا اقتدار ہو ۔ انانیت ہو ۔ دولت ہو ۔ بھوک ہو ۔ لالچ ہو ۔ سُستی یا کاہلی ہو ۔ عزم و ہِمت ہو ۔ نفرت ہو یا کچھ بھی ہو
سوال ۔ 2 ۔ خوف کس شئے کا نام ہے ؟
جواب ۔ غیرمتوقع صورتِ حال کو قبول نہ کرنے کا نام خوف ہے ۔ اگر ہم غیر متوقع کو قبول کر لیں تو وہ ایک مُہِم جُوئی میں تبدیل ہو جاتا ہے
سوال ۔ 3 ۔ حَسَد کِسے کہتے ہیں ؟
جواب ۔ دوسروں میں خیر و خُوبی تسلیم نہ کرنے کا نام حَسَد ہے ۔ اگر اِس خوبی کو تسلیم کر لیں تو یہ رَشک اور کشَف یعنی حوصلہ افزائی بن کر ہمارے اندر آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے
سوال ۔ 4 ۔ غُصہ کس بلا کا نام ہے ؟
جواب ۔ جو امر ہمارے قابو سے باہر ہو جائے ۔ اسے تسلیم نہ کرنے کا نام غُصہ ہے ۔ اگر کوئی تسلیم کر لے کہ یہ امر اُس کے قابو سے باہر ہے تو غصہ کی جگہ عَفو ۔ درگذر اور تحَمّل لے لیتے ہیں
سوال ۔ 5 ۔ نفرت کسے کہتے ہیں ؟
جواب ۔ کسی شخص کو جیسا وہ ہے تسلیم نہ کرنے کا نام نفرت ہے ۔ اگر ہم غیر مشروط طور پر اُسے تسلیم کر لیں تو یہ محبت میں تبدیل ہو سکتا ہے
مولانا روم کے جواب غور طلب ہیں
سوال ۔1۔ زہر کِسے کہتے ہیں ؟
جواب ۔ ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہو ” زہر“ بن جاتی ہے خواہ وہ قوت یا اقتدار ہو ۔ انانیت ہو ۔ دولت ہو ۔ بھوک ہو ۔ لالچ ہو ۔ سُستی یا کاہلی ہو ۔ عزم و ہِمت ہو ۔ نفرت ہو یا کچھ بھی ہو
سوال ۔ 2 ۔ خوف کس شئے کا نام ہے ؟
جواب ۔ غیرمتوقع صورتِ حال کو قبول نہ کرنے کا نام خوف ہے ۔ اگر ہم غیر متوقع کو قبول کر لیں تو وہ ایک مُہِم جُوئی میں تبدیل ہو جاتا ہے
سوال ۔ 3 ۔ حَسَد کِسے کہتے ہیں ؟
جواب ۔ دوسروں میں خیر و خُوبی تسلیم نہ کرنے کا نام حَسَد ہے ۔ اگر اِس خوبی کو تسلیم کر لیں تو یہ رَشک اور کشَف یعنی حوصلہ افزائی بن کر ہمارے اندر آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے
سوال ۔ 4 ۔ غُصہ کس بلا کا نام ہے ؟
جواب ۔ جو امر ہمارے قابو سے باہر ہو جائے ۔ اسے تسلیم نہ کرنے کا نام غُصہ ہے ۔ اگر کوئی تسلیم کر لے کہ یہ امر اُس کے قابو سے باہر ہے تو غصہ کی جگہ عَفو ۔ درگذر اور تحَمّل لے لیتے ہیں
سوال ۔ 5 ۔ نفرت کسے کہتے ہیں ؟
جواب ۔ کسی شخص کو جیسا وہ ہے تسلیم نہ کرنے کا نام نفرت ہے ۔ اگر ہم غیر مشروط طور پر اُسے تسلیم کر لیں تو یہ محبت میں تبدیل ہو سکتا ہے
سیکھنا ہو تو۔۔۔ دریا بھی بہت کچھ سکھاتے ہیں۔۔
۔
1۔ دریا کبھی واپس نہیں بہتے، ہمیشہ آگے ہی آگے۔۔۔ ماضی کو بھول کر آپ بھی مستقبل پر فوکس کریں۔
2۔ دریا اپنا رستہ خود بناتے ہیں، لیکن اگر کوئی بڑی رکاوٹ سامنے آ جائے تو آرام سے اپنا رخ موڑ کر نئی راہوں پر چل پڑتے ہیں، مشکلوں اور رکاوٹوں سے لڑنا، بحث کرنا اور ضد کرنا دراصل وقت ضائع کرنا ہے۔
3۔ آپ گیلے ہوئے بغیر دریا پار نہیں کر سکتے۔۔۔ اسی طرح آپ کو دکھ سکھ کے ساتھ ہی زندگی گزارنا ہوگی۔ ہمت اور حوصلے کے ساتھ۔
4۔ دریاؤں کو دھکا نہیں لگانا پڑتا، یہ خود ہی آگے بڑھتے ہیں۔۔۔ کیا آپ سیلف سٹارٹ نہیں بن سکتے؟
5۔ جہاں سے دریا زیادہ گہرا ہوتا ہے، وہاں خاموشی اور سکوت بھی زیادہ ہوتا ہے۔ علم والے اور گہرے لوگ بھی پرسکون ہوتے ہیں۔
6۔ پیاسے شخص کا انتظار کیے بغیر اور پتھر پھینکنے والوں سے الجھے بغیر دریا بہتے چلے جاتے ہیں۔۔۔ روڑے اٹکانے والوں کی پرواہ کیے بغیر آپ بھی اپنی زندگی رواں دواں رکھیں۔
7۔ خواہشات کے دریا میں دنیاوی محبت ایک مگر مچھ کی طرح ہے۔۔۔ ذرا دھیان سے۔۔۔
8۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دریا کتنا بڑا، چوڑا اور وسیع ہو گیا ہے، وہ پھر بھی بڑھنا چاہتا ہے۔۔۔ آپ کی صلاحیتیں بھی لامحدود ہیں، ان کو وسیع کیجیے۔
9۔ ایک بڑا دریا چھوٹی ندیوں، نالوں اور چشموں کو اپنے ساتھ ملنے سے کبھی منع نہیں کرتا۔۔۔ آپ بھی اپنا ظرف بلند اور نگاہ سربلند کر کے تو دیکھیں۔
10۔ زمین اور آسمان، جنگلات اور کھیت، جھیلیں اور دریا، پہاڑ اور سمندر۔۔۔ ایسے شاندار ماسٹر ہیں جو ہمیں کتابوں سے بھی زیادہ اچھی باتیں سکھاتے ہیں۔
11۔ دریا ہمیشہ ایک راستے کی پیروی کرتا ہے، وہ راستہ۔۔۔ جہاں سے گزر کر وہ سمندر میں پہنچ جائے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کے لیے "صراط مستقیم" تو ہمیں بھی بتایا۔۔۔ سکھایا گیا ہے۔
12۔ دریا اپنا پانی خود نہیں پیتے، درخت اپنا پھل خود نہیں کھاتے۔۔۔ کیا آپ نے کبھی خدمت خلق کی اہمیت کے بارے میں کچھ سوچا۔۔۔ کچھ کیا۔۔۔؟
13۔ دریا میں دو خوبیاں زیادہ ہیں۔۔۔ فراخ دلی اور روانی۔۔۔ زندگی میں بھی فراخ دل اور رواں دواں لوگ کامیاب ہوتے ہیں۔
14۔ دریاؤں میں قدرتی زندگی، موسیقیت، تغیر پذیری اور حرکت ہوتی ہے اور اس کی کوئی حدیں بھی نہیں ہوتیں۔
اور آپ کی۔۔۔؟
15۔ دریا یہ بھی جانتے ہیں۔۔۔ کہ جلدی کی کوئی ضرورت نہیں، مستقل اور مسلسل حرکت سے ایک دن ہم منزل
1۔ دریا کبھی واپس نہیں بہتے، ہمیشہ آگے ہی آگے۔۔۔ ماضی کو بھول کر آپ بھی مستقبل پر فوکس کریں۔
2۔ دریا اپنا رستہ خود بناتے ہیں، لیکن اگر کوئی بڑی رکاوٹ سامنے آ جائے تو آرام سے اپنا رخ موڑ کر نئی راہوں پر چل پڑتے ہیں، مشکلوں اور رکاوٹوں سے لڑنا، بحث کرنا اور ضد کرنا دراصل وقت ضائع کرنا ہے۔
3۔ آپ گیلے ہوئے بغیر دریا پار نہیں کر سکتے۔۔۔ اسی طرح آپ کو دکھ سکھ کے ساتھ ہی زندگی گزارنا ہوگی۔ ہمت اور حوصلے کے ساتھ۔
4۔ دریاؤں کو دھکا نہیں لگانا پڑتا، یہ خود ہی آگے بڑھتے ہیں۔۔۔ کیا آپ سیلف سٹارٹ نہیں بن سکتے؟
5۔ جہاں سے دریا زیادہ گہرا ہوتا ہے، وہاں خاموشی اور سکوت بھی زیادہ ہوتا ہے۔ علم والے اور گہرے لوگ بھی پرسکون ہوتے ہیں۔
6۔ پیاسے شخص کا انتظار کیے بغیر اور پتھر پھینکنے والوں سے الجھے بغیر دریا بہتے چلے جاتے ہیں۔۔۔ روڑے اٹکانے والوں کی پرواہ کیے بغیر آپ بھی اپنی زندگی رواں دواں رکھیں۔
7۔ خواہشات کے دریا میں دنیاوی محبت ایک مگر مچھ کی طرح ہے۔۔۔ ذرا دھیان سے۔۔۔
8۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دریا کتنا بڑا، چوڑا اور وسیع ہو گیا ہے، وہ پھر بھی بڑھنا چاہتا ہے۔۔۔ آپ کی صلاحیتیں بھی لامحدود ہیں، ان کو وسیع کیجیے۔
9۔ ایک بڑا دریا چھوٹی ندیوں، نالوں اور چشموں کو اپنے ساتھ ملنے سے کبھی منع نہیں کرتا۔۔۔ آپ بھی اپنا ظرف بلند اور نگاہ سربلند کر کے تو دیکھیں۔
10۔ زمین اور آسمان، جنگلات اور کھیت، جھیلیں اور دریا، پہاڑ اور سمندر۔۔۔ ایسے شاندار ماسٹر ہیں جو ہمیں کتابوں سے بھی زیادہ اچھی باتیں سکھاتے ہیں۔
11۔ دریا ہمیشہ ایک راستے کی پیروی کرتا ہے، وہ راستہ۔۔۔ جہاں سے گزر کر وہ سمندر میں پہنچ جائے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کے لیے "صراط مستقیم" تو ہمیں بھی بتایا۔۔۔ سکھایا گیا ہے۔
12۔ دریا اپنا پانی خود نہیں پیتے، درخت اپنا پھل خود نہیں کھاتے۔۔۔ کیا آپ نے کبھی خدمت خلق کی اہمیت کے بارے میں کچھ سوچا۔۔۔ کچھ کیا۔۔۔؟
13۔ دریا میں دو خوبیاں زیادہ ہیں۔۔۔ فراخ دلی اور روانی۔۔۔ زندگی میں بھی فراخ دل اور رواں دواں لوگ کامیاب ہوتے ہیں۔
14۔ دریاؤں میں قدرتی زندگی، موسیقیت، تغیر پذیری اور حرکت ہوتی ہے اور اس کی کوئی حدیں بھی نہیں ہوتیں۔
اور آپ کی۔۔۔؟
15۔ دریا یہ بھی جانتے ہیں۔۔۔ کہ جلدی کی کوئی ضرورت نہیں، مستقل اور مسلسل حرکت سے ایک دن ہم منزل
No comments:
Post a Comment