Home Page Urdu Islamic Article HR Email Ids Zikar Azkaar
Namaz Quran & Tableegh School HR ID Ulema Ikram Bayanat
Listen Quran Majeed Read Quran Majeed Social Media Ramzan
کسی جنگل بیابان میں ایک غریب آدمی کا گدھا کیچڑ میں پھنس گیا۔ ایک تو جنگل ، دوسرا موسم بہت خراب ، سردی کے موسم میں تیز ہوا چل رہی تھی اور بارش ہو رہی تھی۔
اس مصیبت نے غریب آدمی کو سخت مشتعل کردیا تھا اور جھنجھنلاہٹ کے عالم میں گدھے سے لے کر ملک کے بادشاہ تک ، سب کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ بادشاہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اس طرف سے گزرا اوراس نے یہ بدکلامی اپنے کانوں سے سن لی ، وہ وہیں رک گیا اور اس خیال سے اپنے لشکریوں کی طرف دیکھا کہ وہ اس معاملے میں اپنی رائے دیں۔
ایک صاحب نے بادشاہ کی منشا سے آگاہ ہو کر کہا، یہ گستاخ واجب القتل ہے ، اس نے حضور کی شان میں گستاخی کی ہے۔
بادشاہ یہ سن کر مسکرایا اور تحمل سے بولا، بے شک اس نے گستاخی کی ہے ، لیکن دراصل اس مصیبت نے اس حواس باختہ کردیا ہے جس میں پھنسا ہوا ہے ، اسے سزا دینے کے مقابلے میں مناسب یہ ہوگا کہ اسے مصیبت سے نکالا جائے اور اس کے ساتھ احسان کیا جائے۔
یہ کہہ کر بادشاہ نے نہ صرف اس کا گدھا کیچڑ سے نکلوادیا بلکہ اسے سواری کے لئے گھوڑا ، پوشین اور نقدی بھی عطا کی۔
انعام عطا کرنے کے بعد بادشاہ آگے بڑھ گیا تو ایک شخص نے گدھا والے سے کہا ، تو نے اپنی ہلاکت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ اسے خدا کا خاص انعام خیال کر کہ تیری جان بچ گئی ، وہ بولا بھائی میں اپنی حالت کے مطابق بک بک کررہا تھا اور بادشاہ نے اپنی شان کے مطابق مجھ پر کرم کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ برائی کے بدلے بھلائی کرنا ہی جوان مردوں کا شیوہ ہے۔
حضرت سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے اس حکایت میں رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی تشریح کی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ جو تجھ سے توڑے تو اس سے جوڑ، جو تجھے محروم کرے تو اسے دے۔
اس میں شک نہیں کہ خدائی قانون میں بھی بدلہ اور انتقام لینے کی اجازت ہے لیکن مقام احسان یہ ہے کہ برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی کی جائے..!!
ایک خاتون نے بزرگ سے پوچھا! میں اپنے بچوں کے ساتھ ایسا کیا کروں کہ فجر کے وقت گہری نیند کے باوجود نماز کیلئے اُٹھا سکوں ؟
بزرگ نے کہا! تم اس وقت کیا کرو گی جب بچے گہری نیند سورہے ہوں اور گھر میں آگ لگ جائے ؟
خاتون نے کہا! میں اُنہیں جگائوں گی۔۔۔ بزرگ نے کہا! اُن کی نیند گہری ہوگی اور وہ نہ اُٹھے تو ؟؟؟
خاتون نے کہا! اللّٰہ کی قسم میں اُنہیں گردنوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے آگ سے بچاکر باہر لے جائوں گی ۔۔۔
تب بزرگ نے جواب دیا! اگر تم اُنہیں دنیا کی آگ سے بچانے کیلئے یہ کرو گی تو پر جہنم کی آگ سے بچانے کیلئے بھی ایسا ہی کرو
ہم دنیا کی فکر میں آخرت بھلا دیتے ہیں آپ اپنے بچے کو بچپن سے جو عادت ڈالیں گے وہ ساری زندگی اس پر عمل کرے گئے اسکول سے پہلے بچوں کو نماز کیلئے اُٹھائیں والدین فکر کریں ۔۔۔
جزاك اللّه خيرًا
︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗
📚💦اردو تحاریر💦📚
︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘
بزرگ نے کہا! تم اس وقت کیا کرو گی جب بچے گہری نیند سورہے ہوں اور گھر میں آگ لگ جائے ؟
خاتون نے کہا! میں اُنہیں جگائوں گی۔۔۔ بزرگ نے کہا! اُن کی نیند گہری ہوگی اور وہ نہ اُٹھے تو ؟؟؟
خاتون نے کہا! اللّٰہ کی قسم میں اُنہیں گردنوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے آگ سے بچاکر باہر لے جائوں گی ۔۔۔
تب بزرگ نے جواب دیا! اگر تم اُنہیں دنیا کی آگ سے بچانے کیلئے یہ کرو گی تو پر جہنم کی آگ سے بچانے کیلئے بھی ایسا ہی کرو
ہم دنیا کی فکر میں آخرت بھلا دیتے ہیں آپ اپنے بچے کو بچپن سے جو عادت ڈالیں گے وہ ساری زندگی اس پر عمل کرے گئے اسکول سے پہلے بچوں کو نماز کیلئے اُٹھائیں والدین فکر کریں ۔۔۔
جزاك اللّه خيرًا
︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗
📚💦اردو تحاریر💦📚
︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘
بیوہ عورت
ایک بزرگ ولی اللہ جناب داؤد طائی رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ایک حکایت ہے کہ:
ان کے شہر ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﯿﻮﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﺼﯿﺒﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﮩﺎﮌ ﭨﻮﭦ ﭘﮍﮮ۔ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻭﺭ ﮐﻞ ﺟﻤﻊ ﭘﻮﻧﺠﯽ ﺑﺲ ﺗﯿﻦ ﺩﺭﮨﻢ۔ ﺣﺎﻻﺕ ﺳﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﭨﮭﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﺍﻥ ﺗﯿﻦ ﺩﺭﮨﻢ ﮐﺎ ﺍﻭﻥ ﺧﺮﯾﺪ ﻻﺋﯽ، ﮐﭽﮫ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﺎﻧﭻ ﺩﺭﮨﻢ ﻭﺻﻮﻝ ﭘﺎﺋﮯ۔ ﺩﻭ ﺩﺭﮨﻢ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺧﺮﯾﺪﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﻦ ﺩﺭﮨﻢ ﮐﺎ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺍﻭﻥ ﻟﯿﺘﯽ ﺁﺋﯽ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﮔﺰﺭ ﺑﺴﺮ ﮐﯿﺎ، ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻥ ﻟﯿﮑﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﻟﻮﭨﯽ، ﺍﻭﻥ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﻧﺪﮦ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﮌﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻥ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻞ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﺎ ﯾﻮﮞ ﻟُﭧ ﺟﺎﻧﺎ ﺳﻮﮨﺎﻥ ﺭﻭﺡ ﺗﮭﺎ، ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﮐﯽ ﮨﻮﻟﻨﺎﮐﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﻏﻢ ﻭ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﭘﺎﮔﻞ ﺳﯽ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ۔
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﺳﯿﺪﮬﺎ جناب داؤد طائی ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻗﺼﮧ ﺳﻨﺎ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺭﺏ ﺭﺣﻤﺪﻝ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻇﺎﻟﻢ؟ جناب داؤد طائی ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺩﺭﺩ ﺑﮭﺮﯼ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳﻦ ﮐﺮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ابھی اسے تسلی دے رہے تھے کہ اتنے میں ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﮨﻮﺋﯽ، ﺟﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺩﺱ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺍﺷﺨﺎﺹ ﮐﻮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﺎﯾﺎ۔ ﺍُﻥ ﺳﮯ ﺁﻣﺪ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺟﺮﺍ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ؛ ﺣﻀﺮﺕ ﮨﻢ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮐﺸﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﺱ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﻮﺕ ﺻﺎﻑ ﻧﻈﺮ ﺁ ﮔﺌﯽ۔ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﮐﯽ ﺍﺱ ﮔﮭﮍﯼ ﻣﯿﮟ، ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﻋﮩﺪ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺟﺎﻥ ﺑﭽﺎ دیں ﺗﻮ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﺮ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮨﺰﺍﺭ ﺩﺭﮨﻢ ﺻﺪﻗﮧ ﺩﮮ ﮔﺎ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﯾﮧ ﺩُﻋﺎ ﮐﺮ ﮨﯽ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﻧﮯ کہیں سے ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮐﺸﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮔﻮﻻ ﻻ ﮐﺮ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺎ۔ ﺟﺴﮯ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺳﻮﺭﺍﺥ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺴﺎﯾﺎ، ﮐﺸﺘﯽ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺪﮬﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺗﺮﯾﻦ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﺮ ﺁ ﭘﮩﻨﭽﮯ۔ ﮨﻢ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﭘﻮﭼﮭﺎ تو ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﻟﯿﺠﯿﺌﮯ ﺩﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﺩﺭﮨﻢ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻣﺴﺘﺤﻘﯿﻦ ﮐﻮ ڈھونڈ کر ﺩﮮ ﺩﯾﺠﯿﺌﮯ گا
داؤد طائی رحمتہ اللہ علیہ اللہ رب العزت کی اس حکمت پر حیران و پریشان ہوتے ہوئے ﺩﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﺩﺭﮨﻢ ﻟﯿﮑﺮ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺍﻧﺪﺭ ﺍُﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﺌﮯ۔ ﺳﺎﺭﮮ ﭘﯿﺴﮯ ﺍُﺳﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ؛ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺗﯿﺮﺍ ﺭﺏ ﺭﺣﻤﺪﻝ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻇﺎﻟﻢ؟
بیوہ عورت داؤد طائی رحمتہ اللہ کے چہرے کو تکتی رہ گئی... اسکی آنکھوں سے اشک جاری تھے... گویا اس کے جسم کا ہر ہر حصہ, ہر ہر بال رب کے شکر میں ڈوبا جا رہا ہو.
اللہ کی تدبیریں ہماری سوچ سے کہیں بہتر ہیں. اللہ کا شکر ادا کریں اور اسکی ذات پر مکمل بھروسہ رکھیں. وہ کسی کو تنہا نہیں چھوڑتا۔
ایک بزرگ ولی اللہ جناب داؤد طائی رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ایک حکایت ہے کہ:
ان کے شہر ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﯿﻮﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﺼﯿﺒﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﮩﺎﮌ ﭨﻮﭦ ﭘﮍﮮ۔ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻭﺭ ﮐﻞ ﺟﻤﻊ ﭘﻮﻧﺠﯽ ﺑﺲ ﺗﯿﻦ ﺩﺭﮨﻢ۔ ﺣﺎﻻﺕ ﺳﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﭨﮭﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﺍﻥ ﺗﯿﻦ ﺩﺭﮨﻢ ﮐﺎ ﺍﻭﻥ ﺧﺮﯾﺪ ﻻﺋﯽ، ﮐﭽﮫ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﺎﻧﭻ ﺩﺭﮨﻢ ﻭﺻﻮﻝ ﭘﺎﺋﮯ۔ ﺩﻭ ﺩﺭﮨﻢ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺧﺮﯾﺪﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﻦ ﺩﺭﮨﻢ ﮐﺎ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺍﻭﻥ ﻟﯿﺘﯽ ﺁﺋﯽ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﮔﺰﺭ ﺑﺴﺮ ﮐﯿﺎ، ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻥ ﻟﯿﮑﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﻟﻮﭨﯽ، ﺍﻭﻥ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﻧﺪﮦ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﮌﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻥ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻞ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﺎ ﯾﻮﮞ ﻟُﭧ ﺟﺎﻧﺎ ﺳﻮﮨﺎﻥ ﺭﻭﺡ ﺗﮭﺎ، ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﮐﯽ ﮨﻮﻟﻨﺎﮐﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﻏﻢ ﻭ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﭘﺎﮔﻞ ﺳﯽ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ۔
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﺳﯿﺪﮬﺎ جناب داؤد طائی ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻗﺼﮧ ﺳﻨﺎ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺭﺏ ﺭﺣﻤﺪﻝ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻇﺎﻟﻢ؟ جناب داؤد طائی ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺩﺭﺩ ﺑﮭﺮﯼ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳﻦ ﮐﺮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ابھی اسے تسلی دے رہے تھے کہ اتنے میں ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﮨﻮﺋﯽ، ﺟﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺩﺱ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺍﺷﺨﺎﺹ ﮐﻮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﺎﯾﺎ۔ ﺍُﻥ ﺳﮯ ﺁﻣﺪ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺟﺮﺍ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ؛ ﺣﻀﺮﺕ ﮨﻢ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮐﺸﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﺱ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﻮﺕ ﺻﺎﻑ ﻧﻈﺮ ﺁ ﮔﺌﯽ۔ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﮐﯽ ﺍﺱ ﮔﮭﮍﯼ ﻣﯿﮟ، ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﻋﮩﺪ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺟﺎﻥ ﺑﭽﺎ دیں ﺗﻮ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﺮ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮨﺰﺍﺭ ﺩﺭﮨﻢ ﺻﺪﻗﮧ ﺩﮮ ﮔﺎ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﯾﮧ ﺩُﻋﺎ ﮐﺮ ﮨﯽ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﻧﮯ کہیں سے ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮐﺸﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮔﻮﻻ ﻻ ﮐﺮ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺎ۔ ﺟﺴﮯ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺳﻮﺭﺍﺥ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺴﺎﯾﺎ، ﮐﺸﺘﯽ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺪﮬﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺗﺮﯾﻦ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﺮ ﺁ ﭘﮩﻨﭽﮯ۔ ﮨﻢ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﭘﻮﭼﮭﺎ تو ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﻟﯿﺠﯿﺌﮯ ﺩﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﺩﺭﮨﻢ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻣﺴﺘﺤﻘﯿﻦ ﮐﻮ ڈھونڈ کر ﺩﮮ ﺩﯾﺠﯿﺌﮯ گا
داؤد طائی رحمتہ اللہ علیہ اللہ رب العزت کی اس حکمت پر حیران و پریشان ہوتے ہوئے ﺩﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﺩﺭﮨﻢ ﻟﯿﮑﺮ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺍﻧﺪﺭ ﺍُﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﺌﮯ۔ ﺳﺎﺭﮮ ﭘﯿﺴﮯ ﺍُﺳﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ؛ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺗﯿﺮﺍ ﺭﺏ ﺭﺣﻤﺪﻝ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻇﺎﻟﻢ؟
بیوہ عورت داؤد طائی رحمتہ اللہ کے چہرے کو تکتی رہ گئی... اسکی آنکھوں سے اشک جاری تھے... گویا اس کے جسم کا ہر ہر حصہ, ہر ہر بال رب کے شکر میں ڈوبا جا رہا ہو.
اللہ کی تدبیریں ہماری سوچ سے کہیں بہتر ہیں. اللہ کا شکر ادا کریں اور اسکی ذات پر مکمل بھروسہ رکھیں. وہ کسی کو تنہا نہیں چھوڑتا۔
ایک دن ایک معروف کمپنی کا ایک ملازم اپنے دفتر پہنچا
تو اس کی نگاہ دفتر کے گیٹ پر لگے ہوئے ایک نوٹس پر پڑی جس پر لکھا تھا
جو شخص کمپنی میں آپ کی ترقی اور بہتری میں رکاوٹ تھا کل رات اسکا انتقال ہو گیا آپ سے گزارش ہے
کہ اس کی آخری رسومات اور جنازے کے لیے کانفرنس ہال میں تشریف لے آئیں
جہاں پر اس کی میت رکھی ہوئی ہے
یہ پڑھتے ہی وہ اداس ہو گیا کہ اس کا کوئی ساتھی ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہو گیا لیکن چند لمحوں بعد اس پر تجسس غالب آ گیا
کہ آخر وہ شخص کون تھا جو اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا اس تجسس کو ساتھ لیے وہ جلدی سے کانفرس ہال میں پہنچا
تو وہاں اس کے دفتر کے باقی سارے ساتھی بھی اسی نوٹس کو پڑھ کر آئے ہوئے تھے
اور سب حیران تھے کہ آخر یہ شخص کون تھا
کانفرس ہال کے باہر میت کو دیکھنے کے لیے لوگوں کا اس قدر ہجوم ہو گیا کہ سکیورٹی گارڈ کو یہ حکم جاری کرنا پڑا کہ سب لوگ ایک ایک کر کے اندر جائیں اور میت کا چہرہ دیکھ لیں
سب ملازمین ایک ایک کر کے اندر جانے لگے
جو بھی اندر جاتا اور میت کے چہرے سے کفن ہٹا کر
اس کا چہرہ دیکھتا تو ایک لمحے کی لیے حیرت زدہ
اور گنگ ہو کر رہ جاتا
اور اس کی زبان گویا تالو سے چپک جاتی یوں لگتا کہ گویا کسی نے اس کے دل پر گہری ضرب لگائی ہو
اپنی باری آنے پر وہ شخص بھی اندر گیا اور میت کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر دیکھا تو اس کا حال بھی دوسروں جیسا ہی ہوا
کفن کے اندر ایک بڑا سا آئینہ رکھا ہوا ہے اور اس کے ایک کونے پر لکھا تھا
"دنیا میں ایک ہی شخص ہے جو آپ کی صلاحتیوں کو محدود کر کے آپ کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور وہ آپ خود ہیں۔"
یاد رکھیۓ ..
آپ کی زندگی میں تبدیلی
آپ کی کمپنی تبدیل ہونے سے آپ کا باس تبدیل ہونے سے
آپ کے دوست احباب تبدیل ہونے سے نہیں آتی
آپ کی زندگی میں تبدیلی تب آتی ہے
جب آپ اپنی صلاحیتوں پر اعتبار کرنا شروع کر دیتے ہیں ناممکن کو ممکن
اور مشکلات کو چیلنج سمجھتے ہیں
اپنا تجزیہ کریں
اپنے آپ کو آزمائیں
مشکلات ، نقصانات اور نا ممکنات سے گھبرانا چھوڑ دیں اور ایک فاتح کی طرح جیئیں
🌹
تو اس کی نگاہ دفتر کے گیٹ پر لگے ہوئے ایک نوٹس پر پڑی جس پر لکھا تھا
جو شخص کمپنی میں آپ کی ترقی اور بہتری میں رکاوٹ تھا کل رات اسکا انتقال ہو گیا آپ سے گزارش ہے
کہ اس کی آخری رسومات اور جنازے کے لیے کانفرنس ہال میں تشریف لے آئیں
جہاں پر اس کی میت رکھی ہوئی ہے
یہ پڑھتے ہی وہ اداس ہو گیا کہ اس کا کوئی ساتھی ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہو گیا لیکن چند لمحوں بعد اس پر تجسس غالب آ گیا
کہ آخر وہ شخص کون تھا جو اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا اس تجسس کو ساتھ لیے وہ جلدی سے کانفرس ہال میں پہنچا
تو وہاں اس کے دفتر کے باقی سارے ساتھی بھی اسی نوٹس کو پڑھ کر آئے ہوئے تھے
اور سب حیران تھے کہ آخر یہ شخص کون تھا
کانفرس ہال کے باہر میت کو دیکھنے کے لیے لوگوں کا اس قدر ہجوم ہو گیا کہ سکیورٹی گارڈ کو یہ حکم جاری کرنا پڑا کہ سب لوگ ایک ایک کر کے اندر جائیں اور میت کا چہرہ دیکھ لیں
سب ملازمین ایک ایک کر کے اندر جانے لگے
جو بھی اندر جاتا اور میت کے چہرے سے کفن ہٹا کر
اس کا چہرہ دیکھتا تو ایک لمحے کی لیے حیرت زدہ
اور گنگ ہو کر رہ جاتا
اور اس کی زبان گویا تالو سے چپک جاتی یوں لگتا کہ گویا کسی نے اس کے دل پر گہری ضرب لگائی ہو
اپنی باری آنے پر وہ شخص بھی اندر گیا اور میت کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر دیکھا تو اس کا حال بھی دوسروں جیسا ہی ہوا
کفن کے اندر ایک بڑا سا آئینہ رکھا ہوا ہے اور اس کے ایک کونے پر لکھا تھا
"دنیا میں ایک ہی شخص ہے جو آپ کی صلاحتیوں کو محدود کر کے آپ کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور وہ آپ خود ہیں۔"
یاد رکھیۓ ..
آپ کی زندگی میں تبدیلی
آپ کی کمپنی تبدیل ہونے سے آپ کا باس تبدیل ہونے سے
آپ کے دوست احباب تبدیل ہونے سے نہیں آتی
آپ کی زندگی میں تبدیلی تب آتی ہے
جب آپ اپنی صلاحیتوں پر اعتبار کرنا شروع کر دیتے ہیں ناممکن کو ممکن
اور مشکلات کو چیلنج سمجھتے ہیں
اپنا تجزیہ کریں
اپنے آپ کو آزمائیں
مشکلات ، نقصانات اور نا ممکنات سے گھبرانا چھوڑ دیں اور ایک فاتح کی طرح جیئیں
🌹
سبق آموز تحریر
لازمی پڑهیں
ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﺍﺋﻤﺮﯼ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﻼﺱ 5 ﮐﯽ ﭨﯿﭽﺮ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ " ﺁﺋﯽ ﻟﻮ ﯾﻮ ﺁﻝ " ﺑﻮﻻ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺳﭻ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺘﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﭽﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮑﺴﺎﮞ ﭘﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﭽﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ مس عائشہ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﮧ ﺑﮭﺎﺗﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ طارق ﺗﮭﺎ۔ طارق ﻣﯿﻠﯽ ﮐﭽﯿﻠﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺁﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺑﮕﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﺗﮯ، ﺟﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺴﻤﮯ ﮐﮭﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ، ﻗﻤﯿﺾ ﮐﮯ ﮐﺎﻟﺮ ﭘﺮ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻥ۔ ۔ ۔ ﻟﯿﮑﭽﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﺎ۔
مس عائشہ ﮐﮯ ﮈﺍﻧﭩﻨﮯ ﭘﺮ ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺗﻮ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﺎﻟﯽ ﺧﻮﻟﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺻﺎﻑ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮐﮧ طارق ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺩﻣﺎﻏﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻏﺎﺋﺐ ﮨﮯ۔ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ مس عائشہ ﮐﻮ طارق ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺳﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ طارق مس عائشہ ﮐﯽ ﺳﺨﺖ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻨﻨﮯ ﻟﮕﺘﺎ۔ ﮨﺮ ﺑﺮﯼ ﻣﺜﺎﻝ طارق ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ۔ ﺑﭽﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﮭﻠﮑﮭﻼ ﮐﺮ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﺍﻭﺭ مس عائشہ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺬﻟﯿﻞ ﮐﺮ ﮐﮧ ﺗﺴﮑﯿﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ طارق ﻧﮯ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
مس عائشہ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﺟﺎﻥ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻟﮕﺘﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﮨﺮ ﮈﺍﻧﭧ، ﻃﻨﺰ ﺍﻭﺭ ﺳﺰﺍ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﺲ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﻋﺎﺭﯼ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ۔ مس عائشہ ﮐﻮ ﺍﺏ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﭼﮍ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﮩﻼ ﺳﯿﻤﺴﭩﺮ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺭﭘﻮﺭﭨﯿﮟ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﺮﺣﻠﮧ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ مس عائشہ ﻧﮯ طارق ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺮﺍﺋﯿﺎﮞ ﻟﮑﮫ ﻣﺎﺭﯾﮟ۔ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯿﮉ ﻣﺴﭩﺮﯾﺲ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ طارق ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ مس عائشہ ﮐﻮ ﺑﻼ ﻟﯿﺎ۔ " مس عائشہ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺑﮭﯽ ﻧﻈﺮﺁﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ طارق ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮨﯽ ﻧﺎ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﻨﮕﮯ۔ " " ﻣﯿﮞ ﻤﻌﺬﺭﺕ ﺧﻮﺍﮦ ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ طارق ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮨﯽ ﺑﺪﺗﻤﯿﺰ ﺍﻭﺭ ﻧﮑﻤﺎ ﺑﭽﮧ ﮨﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮫ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮﮞ۔ " مس عائشہ ﻧﻔﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻝ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﭨﮫ ﺁﺋﯿﮟ۔
ﮨﯿﮉ ﻣﺴﭩﺮﯾﺲ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﯽ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭼﭙﮍﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ مس عائشہ ﮐﯽ ﮈﯾﺴﮏ ﭘﺮ طارق ﮐﯽ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﺭﮐﮭﻮﺍ ﺩﯾﮟ۔ اگلے دن مس عائشہ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﯼ۔ ﺍﻟﭧ ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ طارق ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﮨﯿﮟ۔ " ﭘﭽﮭﻠﯽ ﮐﻼﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﯾﮩﯽ ﮔﻞ ﮐﮭﻼﺋﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ۔ " ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻼﺱ 3 ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮭﻮﻟﯽ۔ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﻤﺎﺭﮐﺲ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ﺟﺐ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻔﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﭘﮍﯼ ﮨﮯ۔ " طارق ﺟﯿﺴﺎ ﺫﮨﯿﻦ ﺑﭽﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ " " ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺣﺴﺎﺱ ﺑﭽﮧ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭨﯿﭽﺮ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻟﮕﺎﺅ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ ""
ﺁﺧﺮﯼ ﺳﯿﻤﺴﭩﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ طارق ﻧﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯽ ﮨﮯ۔ " مس عائشہ ﻧﮯ ﻏﯿﺮ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﻼﺱ 4 ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮭﻮﻟﯽ۔ " طارق ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺍﺛﺮ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ ۔ ۔ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﮨﭧ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ " " طارق ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺁﺧﺮﯼ ﺍﺳﭩﯿﺞ ﮐﺎ ﮐﯿﻨﺴﺮ ﺗﺸﺨﯿﺺ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ۔ ۔ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﮯﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﺎ ﮔﮩﺮﺍ ﺍﺛﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ۔ " "
طارق ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻣﺮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ طارق ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺭﻣﻖ ﺑﮭﯽ ۔ ۔ ﺍﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﯾﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ۔ " مس عائشہ ﭘﺮ ﻟﺮﺯﮦ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﮐﺎﻧﭙﺘﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺑﻨﺪ ﮐﯽ۔ ﺁﻧﺴﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﮔﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺟﺐ مس عائشہ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﻣﺴﺘﻤﺮﮦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﻭﺍﯾﺘﯽ ﺟﻤﻠﮧ " ﺁﺋﯽ ﻟﻮ ﯾﻮ ﺁﻝ " ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ ۔ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﮭﻮﭦ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﯽ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﺗﺮﺗﯿﺐ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﭽﮯ طارق ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﻭﮦ ﺁﺝ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﭽﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﺴﺐِ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ طارق ﭘﺮ ﺩﺍﻏﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ طارق ﻧﮯ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﺟﺐ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ مس عائشہ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮉﺍﻧﭧ ﭘﮭﭩﮑﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﮨﻨﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﭘﮍﯼ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭼﮭﻨﺒﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﺧﻼﻑِ ﺗﻮﻗﻊ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﺁﺝ ﺑﻞ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ، ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ طارق ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﻠﻮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﺘﺎ ﮐﺮ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﺩﮨﺮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮩﺎ۔
طارق ﺗﯿﻦ ﭼﺎﺭ ﺩﻓﻌﮧ ﮐﮯ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﺧﺮ ﺑﻮﻝ ﮨﯽ ﭘﮍﺍ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯽ مس عائشہ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺧﻮﺩ ﭘﺮﺟﻮﺷﮟ ﺎﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻟﯿﺎﮞ ﺑﺠﺎﺋﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺠﻮﺍﺋﯿﮟ۔ ﭘﮭﺮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺭﻭﺯ ﮐﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ مس عائشہ ﮨﺮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺍﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﺑﺘﺎﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﻮﺏ ﭘﺬﯾﺮﺍﺋﯽ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ ﮨﺮ ﺍﭼﮭﯽ ﻣﺜﺎﻝ طارق ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ ﭘﺮﺍﻧﺎ طارق ﺳﮑﻮﺕ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﭘﮭﺎﮌ ﮐﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﮔﯿﺎ۔ ﺍﺏ مس عائشہ ﮐﻮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮧ ﭘﮍﺗﯽ۔ ﻭﮦ ﺭﻭﺯ ﺑﻼ ﻧﻘﺺ ﺟﻮﺍﺑﺎﺕ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﺘﮯ ﻧﺌﮯ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﭘﻮﭼﮫ ﮐﺮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺑﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺍﺏ ﮐﺴﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺳﻨﻮﺭﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﺗﮯ، ﮐﭙﮍﮮ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺻﺎف ہوتے ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺩﮬﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺳﺎﻝ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ طارق ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻟﯽ۔ ﺍﻟﻮﺩﺍﻋﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺑﭽﮯ مس عائشہ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﺤﻔﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ مس عائشہ ﮐﮯ ﭨﯿﺒﻞ ﭘﺮ ﮈﮬﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﺍﻥ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﺳﮯ ﭘﯿﮏ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﺪ ﺳﻠﯿﻘﮧ ﻃﺮﺯ ﭘﺮ ﭘﯿﮏ ﮨﻮﺍ ﺍﯾﮏ ﺗﺤﻔﮧ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﭽﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮨﻨﺲ ﭘﮍﮮ۔ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺮ ﻧﮧ ﻟﮕﯽ ﮑﮧ ﺗﺤﻔﮯ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﯾﮧ ﭼﯿﺰ طارق ﻻﯾﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔ مس عائشہ ﻧﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﮐﮯ ﺍﺱ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﺎﮌ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻟﭙﮏ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﻧﮑﺎﻻ۔ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﻟﯿﮉﯾﺰ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﮐﯽ ﺁﺩﮬﯽ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺷﺪﮦ ﺷﯿﺸﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺳﺎ ﮐﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﻣﻮﺗﯽ ﺟﮭﮍ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ مس عائشہ ﻧﮯ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﮐﻮ ﺧﻮﺩ ﭘﺮ ﭼﮭﮍﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﮍﺍ ﭘﮩﻦ ﻟﯿﺎ۔ ﺑﭽﮯ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ۔ ۔ﺧﻮﺩ طارق ﺑﮭﯽ۔ ﺁﺧﺮ طارق ﺳﮯ ﺭﮨﺎ ﻧﮧ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ مس عائشہ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭨﮏ ﺍﭨﮏ ﮐﺮ مس عائشہ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ " ﺁﺝ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺟﯿﺴﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ "
ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﮌﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺩﻥ ﮨﻔﺘﻮﮞ، ﮨﻔﺘﮯ ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺑﮭﻼ ﮐﮩﺎﮞ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ؟ ﻣﮕﺮ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﭘﺮ مس عائشہ ﮐﻮ طارق ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﻂ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻮﺻﻮﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ " ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻝ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻧﺌﮯ ﭨﯿﭽﺮﺯ ﺳﮯ ﻣﻼ۔ ۔ ﻣﮕﺮ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ " ﭘﮭﺮ طارق ﮐﺎ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺨﺘﻢ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻄﻮﻁ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ۔ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﻣﺰﯾﺪ ﮔﺰﺭﮮ ﺍﻭﺭ مس عائشہ ﺭﯾﭩﺎﺋﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﺍﮎ ﻣﯿﮟ طارق ﮐﺎ ﺧﻂ ﻣﻼ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ:
" ﺍﺱ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ۔۔ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻞ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ۔ ۔ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ - " فقط ڈاکٹر طارق
ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ جہاز ﮐﺎ ﺭﯾﮍﻥ ﭨﮑﭧ ﺑﮭﯽ ﻟﻔﺎﻓﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ۔ مس عائشہ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﮨﺮ ﮔﺰ ﻧﮧ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ وہ دوسرے شہر کے لئے ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﻋﯿﻦ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺟﺐ ﻭﮦ شادی کی جگہ ﭘﮩﻨﭽﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﻟﯿﭧ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﻮﮔﯽ۔ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ﮐﮧ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﮈﺍﮐﮍ، ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ کہ وہاں موجود نکاح خواں ﺑﮭﯽ ﺍﮐﺘﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ طارق تقریب کی ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﮔﯿﭧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭨﮑﭩﮑﯽ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﮐﺎ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﺗﮭﺎ۔ پھر سب نے دیکھا کہ جیسے ہی یہ بوڑھی ٹیچر گیٹ سے داخل ہوئیں طارق ان کی طرف لپکا اور ﺍﻥ ﮐﺎ وہ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍﺍ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻭﮦ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺳﺎ ﮐﮍﺍ ﭘﮩﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺍﺳﭩﯿﺞ ﭘﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﺎﺋﯿﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ " ﺩﻭﺳﺘﻮ ﺁﭖ ﺳﺐ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﻠﺪ ﺁﭖ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﻮﺍﺅﻧﮕﺎ۔" ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮨﯿﮟ".
!!ﻋﺰﯾﺰ ﺩﻭﺳﺘﻮ ﺍﺱ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﺮ ﮐﮧ ﮨﯽ ﻣﺖ ﺳﻮﭼﯿﮯ ﮔﺎ۔ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﺩﯾﮑﮭﯿﮯ، طارق ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺌﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﻣﺮﺟﮭﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺗﻮﺟﮧ، ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﺷﻔﻘﺖ ﻧﺌﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﯽ ﻫﮯ
لازمی پڑهیں
ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﺍﺋﻤﺮﯼ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﻼﺱ 5 ﮐﯽ ﭨﯿﭽﺮ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ " ﺁﺋﯽ ﻟﻮ ﯾﻮ ﺁﻝ " ﺑﻮﻻ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺳﭻ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺘﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﭽﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮑﺴﺎﮞ ﭘﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﭽﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ مس عائشہ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﮧ ﺑﮭﺎﺗﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ طارق ﺗﮭﺎ۔ طارق ﻣﯿﻠﯽ ﮐﭽﯿﻠﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺁﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺑﮕﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﺗﮯ، ﺟﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺴﻤﮯ ﮐﮭﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ، ﻗﻤﯿﺾ ﮐﮯ ﮐﺎﻟﺮ ﭘﺮ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻥ۔ ۔ ۔ ﻟﯿﮑﭽﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﺎ۔
مس عائشہ ﮐﮯ ﮈﺍﻧﭩﻨﮯ ﭘﺮ ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺗﻮ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﺎﻟﯽ ﺧﻮﻟﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺻﺎﻑ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮐﮧ طارق ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺩﻣﺎﻏﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻏﺎﺋﺐ ﮨﮯ۔ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ مس عائشہ ﮐﻮ طارق ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺳﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ طارق مس عائشہ ﮐﯽ ﺳﺨﺖ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻨﻨﮯ ﻟﮕﺘﺎ۔ ﮨﺮ ﺑﺮﯼ ﻣﺜﺎﻝ طارق ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ۔ ﺑﭽﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﮭﻠﮑﮭﻼ ﮐﺮ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﺍﻭﺭ مس عائشہ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺬﻟﯿﻞ ﮐﺮ ﮐﮧ ﺗﺴﮑﯿﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ طارق ﻧﮯ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
مس عائشہ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﺟﺎﻥ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻟﮕﺘﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﮨﺮ ﮈﺍﻧﭧ، ﻃﻨﺰ ﺍﻭﺭ ﺳﺰﺍ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﺲ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﻋﺎﺭﯼ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ۔ مس عائشہ ﮐﻮ ﺍﺏ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﭼﮍ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﮩﻼ ﺳﯿﻤﺴﭩﺮ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺭﭘﻮﺭﭨﯿﮟ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﺮﺣﻠﮧ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ مس عائشہ ﻧﮯ طارق ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺮﺍﺋﯿﺎﮞ ﻟﮑﮫ ﻣﺎﺭﯾﮟ۔ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯿﮉ ﻣﺴﭩﺮﯾﺲ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ طارق ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ مس عائشہ ﮐﻮ ﺑﻼ ﻟﯿﺎ۔ " مس عائشہ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺑﮭﯽ ﻧﻈﺮﺁﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ طارق ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮨﯽ ﻧﺎ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﻨﮕﮯ۔ " " ﻣﯿﮞ ﻤﻌﺬﺭﺕ ﺧﻮﺍﮦ ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ طارق ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮨﯽ ﺑﺪﺗﻤﯿﺰ ﺍﻭﺭ ﻧﮑﻤﺎ ﺑﭽﮧ ﮨﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮫ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮﮞ۔ " مس عائشہ ﻧﻔﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻝ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﭨﮫ ﺁﺋﯿﮟ۔
ﮨﯿﮉ ﻣﺴﭩﺮﯾﺲ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﯽ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭼﭙﮍﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ مس عائشہ ﮐﯽ ﮈﯾﺴﮏ ﭘﺮ طارق ﮐﯽ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﺭﮐﮭﻮﺍ ﺩﯾﮟ۔ اگلے دن مس عائشہ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﯼ۔ ﺍﻟﭧ ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ طارق ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﮨﯿﮟ۔ " ﭘﭽﮭﻠﯽ ﮐﻼﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﯾﮩﯽ ﮔﻞ ﮐﮭﻼﺋﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ۔ " ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻼﺱ 3 ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮭﻮﻟﯽ۔ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﻤﺎﺭﮐﺲ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ﺟﺐ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻔﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﭘﮍﯼ ﮨﮯ۔ " طارق ﺟﯿﺴﺎ ﺫﮨﯿﻦ ﺑﭽﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ " " ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺣﺴﺎﺱ ﺑﭽﮧ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭨﯿﭽﺮ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻟﮕﺎﺅ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ ""
ﺁﺧﺮﯼ ﺳﯿﻤﺴﭩﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ طارق ﻧﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯽ ﮨﮯ۔ " مس عائشہ ﻧﮯ ﻏﯿﺮ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﻼﺱ 4 ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮭﻮﻟﯽ۔ " طارق ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺍﺛﺮ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ ۔ ۔ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﮨﭧ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ " " طارق ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺁﺧﺮﯼ ﺍﺳﭩﯿﺞ ﮐﺎ ﮐﯿﻨﺴﺮ ﺗﺸﺨﯿﺺ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ۔ ۔ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﮯﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﺎ ﮔﮩﺮﺍ ﺍﺛﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ۔ " "
طارق ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻣﺮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ طارق ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺭﻣﻖ ﺑﮭﯽ ۔ ۔ ﺍﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﯾﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ۔ " مس عائشہ ﭘﺮ ﻟﺮﺯﮦ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﮐﺎﻧﭙﺘﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺑﻨﺪ ﮐﯽ۔ ﺁﻧﺴﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﮔﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺟﺐ مس عائشہ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﻣﺴﺘﻤﺮﮦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﻭﺍﯾﺘﯽ ﺟﻤﻠﮧ " ﺁﺋﯽ ﻟﻮ ﯾﻮ ﺁﻝ " ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ ۔ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﮭﻮﭦ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﯽ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﺗﺮﺗﯿﺐ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﭽﮯ طارق ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﻭﮦ ﺁﺝ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﭽﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﺴﺐِ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ طارق ﭘﺮ ﺩﺍﻏﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ طارق ﻧﮯ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﺟﺐ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ مس عائشہ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮉﺍﻧﭧ ﭘﮭﭩﮑﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﮨﻨﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﭘﮍﯼ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭼﮭﻨﺒﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﺧﻼﻑِ ﺗﻮﻗﻊ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﺁﺝ ﺑﻞ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ، ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ طارق ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﻠﻮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﺘﺎ ﮐﺮ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﺩﮨﺮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮩﺎ۔
طارق ﺗﯿﻦ ﭼﺎﺭ ﺩﻓﻌﮧ ﮐﮯ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﺧﺮ ﺑﻮﻝ ﮨﯽ ﭘﮍﺍ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯽ مس عائشہ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺧﻮﺩ ﭘﺮﺟﻮﺷﮟ ﺎﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻟﯿﺎﮞ ﺑﺠﺎﺋﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺠﻮﺍﺋﯿﮟ۔ ﭘﮭﺮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺭﻭﺯ ﮐﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ مس عائشہ ﮨﺮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺍﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﺑﺘﺎﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﻮﺏ ﭘﺬﯾﺮﺍﺋﯽ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ ﮨﺮ ﺍﭼﮭﯽ ﻣﺜﺎﻝ طارق ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ ﭘﺮﺍﻧﺎ طارق ﺳﮑﻮﺕ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﭘﮭﺎﮌ ﮐﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﮔﯿﺎ۔ ﺍﺏ مس عائشہ ﮐﻮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮧ ﭘﮍﺗﯽ۔ ﻭﮦ ﺭﻭﺯ ﺑﻼ ﻧﻘﺺ ﺟﻮﺍﺑﺎﺕ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﺘﮯ ﻧﺌﮯ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﭘﻮﭼﮫ ﮐﺮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺑﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺍﺏ ﮐﺴﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺳﻨﻮﺭﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﺗﮯ، ﮐﭙﮍﮮ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺻﺎف ہوتے ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺩﮬﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺳﺎﻝ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ طارق ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻟﯽ۔ ﺍﻟﻮﺩﺍﻋﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺑﭽﮯ مس عائشہ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﺤﻔﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ مس عائشہ ﮐﮯ ﭨﯿﺒﻞ ﭘﺮ ﮈﮬﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﺍﻥ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﺳﮯ ﭘﯿﮏ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﺪ ﺳﻠﯿﻘﮧ ﻃﺮﺯ ﭘﺮ ﭘﯿﮏ ﮨﻮﺍ ﺍﯾﮏ ﺗﺤﻔﮧ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﭽﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮨﻨﺲ ﭘﮍﮮ۔ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺮ ﻧﮧ ﻟﮕﯽ ﮑﮧ ﺗﺤﻔﮯ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﯾﮧ ﭼﯿﺰ طارق ﻻﯾﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔ مس عائشہ ﻧﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﮐﮯ ﺍﺱ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﺎﮌ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻟﭙﮏ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﻧﮑﺎﻻ۔ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﻟﯿﮉﯾﺰ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﮐﯽ ﺁﺩﮬﯽ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺷﺪﮦ ﺷﯿﺸﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺳﺎ ﮐﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﻣﻮﺗﯽ ﺟﮭﮍ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ مس عائشہ ﻧﮯ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﮐﻮ ﺧﻮﺩ ﭘﺮ ﭼﮭﮍﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﮍﺍ ﭘﮩﻦ ﻟﯿﺎ۔ ﺑﭽﮯ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ۔ ۔ﺧﻮﺩ طارق ﺑﮭﯽ۔ ﺁﺧﺮ طارق ﺳﮯ ﺭﮨﺎ ﻧﮧ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ مس عائشہ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭨﮏ ﺍﭨﮏ ﮐﺮ مس عائشہ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ " ﺁﺝ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺟﯿﺴﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ "
ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﮌﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺩﻥ ﮨﻔﺘﻮﮞ، ﮨﻔﺘﮯ ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺑﮭﻼ ﮐﮩﺎﮞ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ؟ ﻣﮕﺮ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﭘﺮ مس عائشہ ﮐﻮ طارق ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﻂ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻮﺻﻮﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ " ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻝ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻧﺌﮯ ﭨﯿﭽﺮﺯ ﺳﮯ ﻣﻼ۔ ۔ ﻣﮕﺮ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ " ﭘﮭﺮ طارق ﮐﺎ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺨﺘﻢ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻄﻮﻁ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ۔ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﻣﺰﯾﺪ ﮔﺰﺭﮮ ﺍﻭﺭ مس عائشہ ﺭﯾﭩﺎﺋﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﺍﮎ ﻣﯿﮟ طارق ﮐﺎ ﺧﻂ ﻣﻼ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ:
" ﺍﺱ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ۔۔ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻞ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ۔ ۔ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ - " فقط ڈاکٹر طارق
ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ جہاز ﮐﺎ ﺭﯾﮍﻥ ﭨﮑﭧ ﺑﮭﯽ ﻟﻔﺎﻓﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ۔ مس عائشہ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﮨﺮ ﮔﺰ ﻧﮧ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ وہ دوسرے شہر کے لئے ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﻋﯿﻦ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺟﺐ ﻭﮦ شادی کی جگہ ﭘﮩﻨﭽﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﻟﯿﭧ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﻮﮔﯽ۔ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ﮐﮧ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﮈﺍﮐﮍ، ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ کہ وہاں موجود نکاح خواں ﺑﮭﯽ ﺍﮐﺘﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ طارق تقریب کی ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﮔﯿﭧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭨﮑﭩﮑﯽ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﮐﺎ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﺗﮭﺎ۔ پھر سب نے دیکھا کہ جیسے ہی یہ بوڑھی ٹیچر گیٹ سے داخل ہوئیں طارق ان کی طرف لپکا اور ﺍﻥ ﮐﺎ وہ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍﺍ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻭﮦ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺳﺎ ﮐﮍﺍ ﭘﮩﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺍﺳﭩﯿﺞ ﭘﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﺎﺋﯿﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ " ﺩﻭﺳﺘﻮ ﺁﭖ ﺳﺐ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﻠﺪ ﺁﭖ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﻮﺍﺅﻧﮕﺎ۔" ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮨﯿﮟ".
!!ﻋﺰﯾﺰ ﺩﻭﺳﺘﻮ ﺍﺱ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﺮ ﮐﮧ ﮨﯽ ﻣﺖ ﺳﻮﭼﯿﮯ ﮔﺎ۔ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﺩﯾﮑﮭﯿﮯ، طارق ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺌﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﻣﺮﺟﮭﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺗﻮﺟﮧ، ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﺷﻔﻘﺖ ﻧﺌﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﯽ ﻫﮯ
1998 میں کاربن پیپر لگا لگا کر اور محض 200 روپے فیس لینے والے سیکنڈ ائیر کے طالبعلم کے پاس دیکھتے ہی دیکھتے ایک سے چار ، چار سے چالیس اور چالیس سے چار سو تک طلبہ کی تعداد پہنچ گئی ۔ 1998 سے لے کر 2003 تک اس نوجوان کے گھر کے باہر کسی بھی قسم کا کوئی ٹیوشن سینٹر کا بورڈ تک آویزاں نہیں تھا ۔ باہر لائن سے کھڑی سائیکلیں اور ان میں دن بہ دن ہونے والا اضافہ واحد ” مارکیٹنگ” تھی ۔ اس نوجوان نے انجینئیرنگ یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن علم بانٹنے کا شوق اس کو واپس اسی جگہ لے آیا جہاں یونیورسٹی جانے اور انجینئیر بننے سے پہلے موجود تھا ۔بالآخر 6 سال بعد پہلی دفعہ اس ٹیوشن سینٹر کے باہر ” اکیڈمی ” کا بورڈ لگا ۔ یونیورسٹی کے تیسرے ہی سال اس کی ماہانہ آمدن ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی ۔ یہ اکیڈمی اپنی نوعیت کی واحد اکیڈمی تھی جہاں طلبہ و طالبات کو ان کے نصاب کے ساتھ ساتھ ” کیر ئیر کاؤنسلنگ ” ، پرسنل ڈیولپمنٹ اور ٹائم مینجمنٹ پر باقاعدہ لیکچرز دئیے جاتے تھے ۔ اسی دوران اس نوجوان نے یہ فیصلہ بھی کرلیا کہ وہ مقابلے کا امتحان پاس کریگا اور کسی سرکاری ادارے میں ” بیوروکریسی ” کے مزے لوٹتے وقت گذر جائیگا ۔ لیکن : ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں جب امتحان پاس ہوگیا اور بقول شاعر : دو چار قدم جب کہ لب بام رہ گئے اس نوجوان نے بیوروکریسی میں جانے سے پہلے ہی اس کو خیر باد کہ دیا۔اس دفعہ بھی لوگ اسی طرح حیران و پریشان تھے ۔جس طرح انجینئیرنگ کرنے کے بعد اس کی ٹیچنگ پر تھے ۔ کہتے ہیں کہ محنت اتنی خاموشی سے کرو کہ تمھاری کامیابی شور مچادے ۔ اس نے اپنے آپ کو اپنی اکیڈمی تک محدود کرنے کے بجائے پورے ملک کے نوجوانوں اور انسانوں کی سوچ کو بدلنے کا فیصلہ کیا ۔ اقبال نے کہا تھا : نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری۔۔۔کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری اس نوجوان کا عقیدہ تھا کہ ” سوچ بدلے گی تو پاکستان بدلے گا “۔ اس دوران وہ ملک کی تین یونیورسٹیز میں پڑھا کر خود کو خاصا پولش کر چکا تھا ۔ بچپن میں ایک ایک روپے کرائے پر کتابیں لے لے کر پڑھنے اور پیسے بچانے کی خاطر موٹی سے موٹی کتاب بھی ایک سے دو دن میں پڑھ لینے کے اس کے شوق کی سرمایہ کاری نے اب اس کو پھل دینا شروع کردیا تھا ۔ ایک سیشن کے دوران جب اس نے وہاں موجود ٹرینر کی ویڈیو بنانے کی کوشش کی تو اس ٹرینر نے اس کو زور سے ڈانٹا اور انتظامیہ کو کہا ” یا تو یہ ویڈیو بن کرواؤ یا پھر اس لڑکے ہو باہر نکالو ، میں مفت میں نہیں کرواتا ہوں یہ سیشنز “۔ اور پھر اس نوجوان نے فیصلہ کیا کہ میں جو کچھ بھی اپنے طالبعلموں سے کہونگا اس کی ویڈیو ضرور بنواؤنگا ۔ یہ ویڈیوز دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بلکہ ساری دنیا میں موجود اردو بولنے اور سمجھنے والوں تک جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی چلی گئیں ۔لاکھوں کی تعداد میں یہ ویڈیوز دیکھی جانے لگیں ، ہزاروں کی تعداد میں شئیر ہونے لگیں ۔ سینکڑوں نوجوانوں نے ان ویڈیوز کے ذریعے اپنی زندگیاں بدلنے کا فیصلہ کرلیا۔ 200 روپے لے کر ریاضی پڑھانے والا یہ نوجوان سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ سرچ کیا جانے والا ” موٹیویشنل اسپیکر اور ٹرینر ” بن چکا تھا ۔ ادھر کوئی ویڈیو اپ لوڈ ہوئی اور ادھر اس کے ” نظارے ” ہزاروں میں چلے گئے ۔ فیس بک پر اس کے چاہنے والوں کی تعداد سولہ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ یوٹیوب پر اس کو مستقل دیکھنے والے پانچ لاکھ سے زیادہ ہیں ۔ ملک کے تقریبا تمام ہی چینلز ان کو اپنے پروگرامات میں بلانا اور کاپوریٹ ادارے اپنے اداروں میں ورکشاپس کروانا اعزاز سمجھتے ہیں ۔ خود شناسی اور سیلف ڈیولپمنٹ کے موضوعات پر انھوں نے اب تک سات کتابیں لکھیں اور چھپنے کے فورا بعد ہی وہ کتابیں لوگوں کی لائبریریوں کا حصہ بن گئیں ۔ نہ صرف یہ کہ وہ کارپوریٹ اداروں کے مقبول ترین ٹرینر بن گئے بلکہ ملک سے باہر بھی امریکا ، برطانیہ ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دنیا کے 28 ممالک میں وہ اب تک مختلف سیشنز کرواچکے ہیں ۔ مہنگا کرنے کے بعد انھوں نے اب خود کو ” مفت ” کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ” بدل دو ” کے عنوان سے پنجاب کے 36 اضلاع میں جانے کا ارادہ ہے ۔ بڑی تعداد میں اساتذہ ، طلبہ و طالبات بلکہ پولیس اور ججز تک کے ساتھ ان کی ورکشاپس منعقد ہورہی ہیں ۔ترقی کا یہ سفر 2017 میں باقاعدہ ” فاؤنڈیشن ” کی شکل اختیار کرگیا اور اب اس فاؤنڈیشن سے بڑی تعداد میں ایسے لڑکے اور لڑکیاں پاس آؤٹ ہورہے ہیں جو تبدیلی کے اس عمل کو اپنے ” شوق ” کے ساتھ اپنا پروفیشن بھی بنارہے ہیں ۔ جی ہاں یہ قاسم علی شاہ صاحب ان کی اکیڈمی اور ان ہی کی فاؤنڈیشن کی سوانح عمری ہے جو تاحال جاری ہے ۔ میری دعا ہے کہ اللہ اس میں برکت دے اور کامیابی کا یہ سفر یونہی جاری و ساری رہے✨✨
قاسم علی شاہ ”خوشی کے راز“ پر بات کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ایک دفعہ میرا بلوچستان میں بارڈر ایریا کے قریب ایک سیشن تھا اور اُسی دن میری سالگرہ بھی تھی۔ سیشن سے فارغ ہونے کے بعد میرے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا۔ مجھے خیال آیا کہ میں نے زندگی میں کبھی اپنی سالگرہ نہیں منائی لیکن میں یہاں گھر سے کوسوں دور ہوں توکیوں ناں آج اپنی سالگرہ خود منا لیتا ہوں۔ یہ سوچ کر میں نے ایک کیک منگوایا، کیک کاٹا اور اپنے آپ کو خود ہی HAPPY BIRTHDAY کہا۔ ابھی میں اپنے آپ سے یہ الفاظ کہہ ہی رہا تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو گِرنا شروع ہو گئے۔ مجھے بلکل بھی خوشی نہیں ہوئی ۔آپ بتاتے ہیں کہ اُس دن مجھے شدت سے احساس ہوا کہ خوشی سب کے ساتھ ہو تو دوبالا ہوتی ہے۔ خوشی بھی اکیلے میں ہوتوغم بن جاتی ہے۔ اگر کوئی اپنا پاس نہ ہو توخوشی تنگ کرنے لگ جاتی ہے۔
قاسم علی شاہ مزید کہنے لگےآپ آج ہی کامیاب ترین انسان بن کر دیکھ لیں۔ جب آپ کسی منزل یا مقام پر پہنچ جائیں گے تو آپ کا دوسروںکو بتانے کادل کرے گا۔ لیکن میں وثوق سے کہتا ہوں کہ اگرآپ کے پاس بتانے اور دِکھانے کے لیے کوئی اپنا نہیں ہو گا تو یہی کامیابی اور خوشی آپ کی تکلیف کا باعث بن جائے گی۔ لہٰذا خوش رہنے کے لیے اپنی زندگی میں لوگوں کو شامل کریں۔اپنے حلقۂ احباب میں ہم مزاج لوگ تلاش کریں۔جن کے ساتھ آپ شیئرنگ(sharing)کر سکیں اورجن کے پاس بیٹھ کر یا اُنہیں کچھ بتا کر آپ کی خوشی بڑھتی ہے۔ ہماری زندگی میں خوشی صرف اِس لیے نہیں ہوتی کیونکہ ہماری زندگی میں رشتے نہیں ہوتے۔
قاسم علی شاہ اپنی پُر اِنہماک گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے میری ایک بات یاد رکھیے گا زندگی کے سفر میں ہر کامیاب، ہر مضبوط، اور ہر طاقتور انسان کو کبھی نہ کبھی گِرنا پڑتا ہے۔ اورجب اِنسان سخت زمین پر گِرتا ہے تو وہ اُس کو توڑ دیتی ہے۔اور گِرتے لمحوں میں سخت زمین پر کُشن موجود ہو تو تکلیف کم ہو جاتی ہے اور رشتے کشُن کی طرح ہو تے ہیں۔لیکن اگر کشُن ہی کوئی نہ ہو، کوئی اپنا ہی نہ ہو تو انسان کی تکلیف لمحہ بہ لمحہ بڑھتی رہتی ہے۔ آپ مزید خوش رہنے کے مشورات سے نوازتے ہوئے کہنے لگے کہ خوشیاں صرف اُنہی کی بڑھتی ہیں جو اپنی خوشیاں دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں ۔۔۔۔
1: لوگوں کے ساتھ نیکی اور محبت اللہ کی رضا کے لیے کیاکریں آپ کی خوشی بڑھ جائے گی۔
2: ہر انسان کے اَسی فیصد (80%) مسائل اور تکلیفیں کم ہو جاتی ہیں اگر اُس کے پاس شیئرنگ (sharing) کے لیے کوئی اپنا ہو۔
3: خوش رہنے کے لیے دوسروں کو اُن کی غلطیوں پر معاف کر دیا کریں۔
4: لوگوں کو اپنی محبت کا احساس دلایا کریں۔اس سے دوسروں کے ساتھ آپ میں بھی خوشی کا احساس بڑھے گا۔
5: لوگوں سے بے لوث محبت کیا کریں۔بے لوث محبت کرنے والے کے دِل پر قدرت سکون اور امن کی شکل میں خوشی نازل کر تی ہے۔
6: لوگوں کی خوشیوں میں خوشدلی سے شریک ہوا کریں اور اپنی خوشیوں میں اُنہیں شامل کیا کریں۔آپ خوش رہیں گے۔
7: اپنے رشتوں کو دل سے نبھانا شروع کردیں اس سےآپ کی خوشی کے ساتھ عمر میں برکت اور رزق میں فراوانی ہو گی ۔
8: اپنے رشتوں کا احساس اور قدر کرنا شروع کر دیں۔اللہ تمہاری زندگی میں خوشیاں اور آسانیاں پیدا کر دے گا۔
9: اپنے اندرشکرگزاری کی کیفیت پیدا کریں۔ شکر گزاری کا احساس رکھنے والے لوگ زیادہ خوش اور کامیاب ہوتے ہیں۔
10: اپنی آسانیوں میں دوسروں کو شامل کیا کریں کیونکہ دوسروں میں آسانیاں تقسیم کر نے سے خوشی بڑھتی ہے۔
11: اپنے نصیب پر راضی رہا کریں۔ اپنے نصیب پرمکمل یقین رکھنے والا خوش رہتا ہے۔
12: مشکل حالات میں بھی شکر گزاری کو اپنے مزاج کا حصّہ بنا لیں آپ کی زندگی میں خوشی شامل ہو جائے گی۔ کیونکہ بد ترین حالات بھی اللہ کی طرف سے کسی مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں۔
13: اپنی ازدواجی زندگی کو بہتر بنا ئیں آپ کی خوشی بڑھ جائے گی۔بڑے لوگ کامیاب ہونے کے باوجود صرف اِسی لیے خوش نہیں ہو پاتے کیونکہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں نا کام ہوتے ہیں۔
14: اللہ پر کامِل یقین اور ایمان رکھا کریں ۔ یہ احساس اور یقین کہ ہر چیز کامحافظ اور بندوبست کرنے والا کوئی انسان نہیں بلکہ وہ مالکِ کُل کائنات ہے، انسان کو خوش رکھتا ہے۔
15: لوگوں کو اپنی چھوٹی چھوٹی خوبیوں، عادتوں یعنی بہترین رویہ ، برتاؤ اور سلوک سے خوش رکھا کریں کیونکہ دوسروں کو خوش کر کے خوش ہونا باتوں سے ہٹ کر بات ہے۔
قاسم علی شاہ خوشی کا ایک گہرا راز بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ میرے ایک بہت اچھے دوست بیورو کریٹ ہیں۔ اُن کی عمر چھپن (56) کے قریب ہے۔ ایک دن میں نے اُن سے پوچھا سر آپ کی جاب کیسی چل رہی ہے؟ وہ کہنے لگے دنیا کی گھٹیا ترین نوکری ہے۔ میں نے دوسرا سوال کیا سر آپ کی سیلری کیسی ہے؟ وہ نا خوشگوار احساس کیساتھ کہنے لگے شاہ صاحب میں آپ کو کیسے بتاؤں کہ بمشکل گزارہ ہوتا ہے۔ اِس کے بعد میں مزید ایک سوال کیا سر اپنے باس کے بارے میں کچھ کہیے؟ لمحہ بھر ناراضی سے کہنے لگے اگر پھانسی ہوتی تو میں اُسے دے دیتا۔
تو میں نے اُن سے کہا سرآپ جاب چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ کہنے لگے بس چار سال رہ گئے ہیں پھر چھوڑ دوں گا۔ اور وہ اُس وقت کے انتظار میں ہیں کہ چار سال یعنی ریٹائرمنٹ کے بعد جووقت آئے گا اُس لمحہ مَیں خوش اور راضی ہو جاؤں گا۔ اِسی طرح ہم میں سے ہر کوئی جو ہمارے پاس موجود ہے اُس پر شکر نہیں کر رہا۔ اور خوش بھی نہیں ہے۔ لہٰذاپہلے آپ اپنے اندر شکر گزاری کی کیفیت پیدا کریں آپ خوش ہوں گے توخودبخود آپ کی زندگی میں بہتری آنا شروع ہو جائے گی۔ آپ شکر گزار ہوں گے تو ہر طرح کے حالات میں مطمئن اور خوش و خرم رہیں گے۔آپ اپنے اندر یہ یقین پیدا کر لیں کہ آپ کا نصیب چوری نہیں ہو سکتا۔جو آپ کا حصّہ ہے وہ آپ کو مِل کر رہے گاتو یہ احساس آپ میں خوشی پیدا کر دے گا۔
قاسم علی شاہ مزید کہنے لگےآپ آج ہی کامیاب ترین انسان بن کر دیکھ لیں۔ جب آپ کسی منزل یا مقام پر پہنچ جائیں گے تو آپ کا دوسروںکو بتانے کادل کرے گا۔ لیکن میں وثوق سے کہتا ہوں کہ اگرآپ کے پاس بتانے اور دِکھانے کے لیے کوئی اپنا نہیں ہو گا تو یہی کامیابی اور خوشی آپ کی تکلیف کا باعث بن جائے گی۔ لہٰذا خوش رہنے کے لیے اپنی زندگی میں لوگوں کو شامل کریں۔اپنے حلقۂ احباب میں ہم مزاج لوگ تلاش کریں۔جن کے ساتھ آپ شیئرنگ(sharing)کر سکیں اورجن کے پاس بیٹھ کر یا اُنہیں کچھ بتا کر آپ کی خوشی بڑھتی ہے۔ ہماری زندگی میں خوشی صرف اِس لیے نہیں ہوتی کیونکہ ہماری زندگی میں رشتے نہیں ہوتے۔
قاسم علی شاہ اپنی پُر اِنہماک گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے میری ایک بات یاد رکھیے گا زندگی کے سفر میں ہر کامیاب، ہر مضبوط، اور ہر طاقتور انسان کو کبھی نہ کبھی گِرنا پڑتا ہے۔ اورجب اِنسان سخت زمین پر گِرتا ہے تو وہ اُس کو توڑ دیتی ہے۔اور گِرتے لمحوں میں سخت زمین پر کُشن موجود ہو تو تکلیف کم ہو جاتی ہے اور رشتے کشُن کی طرح ہو تے ہیں۔لیکن اگر کشُن ہی کوئی نہ ہو، کوئی اپنا ہی نہ ہو تو انسان کی تکلیف لمحہ بہ لمحہ بڑھتی رہتی ہے۔ آپ مزید خوش رہنے کے مشورات سے نوازتے ہوئے کہنے لگے کہ خوشیاں صرف اُنہی کی بڑھتی ہیں جو اپنی خوشیاں دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں ۔۔۔۔
1: لوگوں کے ساتھ نیکی اور محبت اللہ کی رضا کے لیے کیاکریں آپ کی خوشی بڑھ جائے گی۔
2: ہر انسان کے اَسی فیصد (80%) مسائل اور تکلیفیں کم ہو جاتی ہیں اگر اُس کے پاس شیئرنگ (sharing) کے لیے کوئی اپنا ہو۔
3: خوش رہنے کے لیے دوسروں کو اُن کی غلطیوں پر معاف کر دیا کریں۔
4: لوگوں کو اپنی محبت کا احساس دلایا کریں۔اس سے دوسروں کے ساتھ آپ میں بھی خوشی کا احساس بڑھے گا۔
5: لوگوں سے بے لوث محبت کیا کریں۔بے لوث محبت کرنے والے کے دِل پر قدرت سکون اور امن کی شکل میں خوشی نازل کر تی ہے۔
6: لوگوں کی خوشیوں میں خوشدلی سے شریک ہوا کریں اور اپنی خوشیوں میں اُنہیں شامل کیا کریں۔آپ خوش رہیں گے۔
7: اپنے رشتوں کو دل سے نبھانا شروع کردیں اس سےآپ کی خوشی کے ساتھ عمر میں برکت اور رزق میں فراوانی ہو گی ۔
8: اپنے رشتوں کا احساس اور قدر کرنا شروع کر دیں۔اللہ تمہاری زندگی میں خوشیاں اور آسانیاں پیدا کر دے گا۔
9: اپنے اندرشکرگزاری کی کیفیت پیدا کریں۔ شکر گزاری کا احساس رکھنے والے لوگ زیادہ خوش اور کامیاب ہوتے ہیں۔
10: اپنی آسانیوں میں دوسروں کو شامل کیا کریں کیونکہ دوسروں میں آسانیاں تقسیم کر نے سے خوشی بڑھتی ہے۔
11: اپنے نصیب پر راضی رہا کریں۔ اپنے نصیب پرمکمل یقین رکھنے والا خوش رہتا ہے۔
12: مشکل حالات میں بھی شکر گزاری کو اپنے مزاج کا حصّہ بنا لیں آپ کی زندگی میں خوشی شامل ہو جائے گی۔ کیونکہ بد ترین حالات بھی اللہ کی طرف سے کسی مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں۔
13: اپنی ازدواجی زندگی کو بہتر بنا ئیں آپ کی خوشی بڑھ جائے گی۔بڑے لوگ کامیاب ہونے کے باوجود صرف اِسی لیے خوش نہیں ہو پاتے کیونکہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں نا کام ہوتے ہیں۔
14: اللہ پر کامِل یقین اور ایمان رکھا کریں ۔ یہ احساس اور یقین کہ ہر چیز کامحافظ اور بندوبست کرنے والا کوئی انسان نہیں بلکہ وہ مالکِ کُل کائنات ہے، انسان کو خوش رکھتا ہے۔
15: لوگوں کو اپنی چھوٹی چھوٹی خوبیوں، عادتوں یعنی بہترین رویہ ، برتاؤ اور سلوک سے خوش رکھا کریں کیونکہ دوسروں کو خوش کر کے خوش ہونا باتوں سے ہٹ کر بات ہے۔
قاسم علی شاہ خوشی کا ایک گہرا راز بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ میرے ایک بہت اچھے دوست بیورو کریٹ ہیں۔ اُن کی عمر چھپن (56) کے قریب ہے۔ ایک دن میں نے اُن سے پوچھا سر آپ کی جاب کیسی چل رہی ہے؟ وہ کہنے لگے دنیا کی گھٹیا ترین نوکری ہے۔ میں نے دوسرا سوال کیا سر آپ کی سیلری کیسی ہے؟ وہ نا خوشگوار احساس کیساتھ کہنے لگے شاہ صاحب میں آپ کو کیسے بتاؤں کہ بمشکل گزارہ ہوتا ہے۔ اِس کے بعد میں مزید ایک سوال کیا سر اپنے باس کے بارے میں کچھ کہیے؟ لمحہ بھر ناراضی سے کہنے لگے اگر پھانسی ہوتی تو میں اُسے دے دیتا۔
تو میں نے اُن سے کہا سرآپ جاب چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ کہنے لگے بس چار سال رہ گئے ہیں پھر چھوڑ دوں گا۔ اور وہ اُس وقت کے انتظار میں ہیں کہ چار سال یعنی ریٹائرمنٹ کے بعد جووقت آئے گا اُس لمحہ مَیں خوش اور راضی ہو جاؤں گا۔ اِسی طرح ہم میں سے ہر کوئی جو ہمارے پاس موجود ہے اُس پر شکر نہیں کر رہا۔ اور خوش بھی نہیں ہے۔ لہٰذاپہلے آپ اپنے اندر شکر گزاری کی کیفیت پیدا کریں آپ خوش ہوں گے توخودبخود آپ کی زندگی میں بہتری آنا شروع ہو جائے گی۔ آپ شکر گزار ہوں گے تو ہر طرح کے حالات میں مطمئن اور خوش و خرم رہیں گے۔آپ اپنے اندر یہ یقین پیدا کر لیں کہ آپ کا نصیب چوری نہیں ہو سکتا۔جو آپ کا حصّہ ہے وہ آپ کو مِل کر رہے گاتو یہ احساس آپ میں خوشی پیدا کر دے گا۔
No comments:
Post a Comment