Home Page Urdu Islamic Article HR Email Ids Zikar Azkaar
Namaz Quran & Tableegh School HR ID Ulema Ikram Bayanat
Listen Quran Majeed Read Quran Majeed Social Media Ramzan
Namaz
ki pabandi kijyay, Quran Majeed ki Tilawat her roz kijyay, Quran or Sunnat kay
mutabiq zindagee guzarain, Tahajud ki Namaz perhnay ki koshish kijyay, apki jo
field hay us ki zada say zada knowledge hasil karain, free time may tution
perhanay ki koshish kijyay ya positive activities may busy rahay takay gunah
say bachain, Zada say Zada Dua Mangiyay, English communication skills ko zada
say zada improve karain.
Pleae click on the following link, inshaAllah it will be beneficial for your
deen , duniya, Akhirat and career as well. Very useful and exciting stuff is
waiting for you.
Email id of HR department, Islamic Wazaif, Islamic Dua, Islamic Videos, Zikar
Azkaar (Allah kay zikar say dil ko sukoon milta hay), Islamic Messages and
Islamic Bayans.
https://proudpakistaniblogging.blogspot.com/2018/05/all-time-best-post-of-sharing-is-caring.html
ایک بحری جہاز میں کافی بوجھ تھا سفر کے دوران طوفان کی
وجہ سے ہچکولے کھانے لگا جہاز ڈوبنے کے قریب تھا لہذا اس کے کپتان نے تجویز پیش کی
کہ جہاز پر بوجھ ہلکا کرنے اور زندہ رہنے کے لئے کچھ سامان کو سمندر میں پھینک دیا
جائے۔
تو انہوں نے متفقہ طور پر اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک سوداگر کا سارا سامان چھوڑ
دیا جائے کیونکہ یہ ڈوبنے سے بچنے کے لیے بہت ہو گا ،
جس تاجر کا سامان پھینکا جانا تھا اس نے اعتراض کیا کہ کیوں اس کا ہی سارا سامان
پھینکا جائے اور تجویز پیش کی کہ سارے تاجروں کے سامان میں سے تھوڑا تھوڑا پھینکا
جائے تا کہ نقصان تمام لوگوں میں تقسیم ہو اور نہ صرف ایک شخص متاثر ہو۔
تب باقی سارے تاجروں نے اس کے خلاف بغاوت کی اور چونکہ وہ ایک نیا اور کمزور
سوداگر تھا اس لئے انہوں نے اس کے سامان کے ساتھ اسے سمندر میں پھینک دیا اور اپنا
سفر جاری رکھا۔
لہروں نے سوداگر کے ساتھ لڑائی کی یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہوگیا جب وہ بیدار ہوا تو
اسے معلوم ہوا کہ لہروں نے اسے کسی نامعلوم اور ویران جزیرے کے کنارے پھینک دیا
ہے۔
سوداگر بہت مشکل سے اٹھا اور سانس لیا یہاں تک کہ وہ گھٹنوں کے بل گر گیا اور خدا
سے مدد کی درخواست کی اور کہا کہ وہ اسے اس تکلیف دہ صورتحال سے بچائے .
کئی دن گزرے اس دوران تاجر نے درختوں کے پھل اور خرگوش کا شکار کر کے گزارا کیا وہ
قریبی ندی سے پانی پیتا اور رات کی سردی اور دن کی گرمی سے اپنے آپ کو بچانے
کے لئے درخت کی لکڑی سے بنی ایک چھوٹی جھونپڑی میں سوتا۔
ایک دن جب تاجر اپنا کھانا بنا رہا تھا تیز آندھی چل رہی تھی اور اس کے ساتھ لکڑی
کی جلتی ہوئی لاٹھی اٹھ جاتی ہے اور اس کی لاپرواہی میں اس کی جھونپڑی میں آگ لگ
جاتی تھی لہذا اس نے آگ بجھانے کی کوشش کی لیکن وہ ایسا نہ کر سکا کیونکہ آگ نے
پوری جھونپڑی کو اس کے ساتھ ہی بھسم کر دیا
یہاں سوداگر چیخنے لگا:
"کیوں ، رب ..؟
مجھے غلط طریقے سے سمندر میں پھینک دیا گیا اور میرا سامان ضائع ہوگیا اور اب تو
یہ جھونپڑی بھی جو میرا گھر ہے جل گئی ہے اور میرے پاس اس دنیا میں کچھ نہیں بچا
ہے اور میں اس جگہ پر اجنبی ہوں ..
خداوند یہ ساری آفتیں مجھ پر کیوں آتی ہیں ..
اور سوداگر غم سے بھوکا ہی رات کو سو گیا لیکن صبح ایک "حیرت انگیز
واقعہ" اس کا انتظار کر رہا تھا جب اسے جزیرے کے قریب پہنچنے والا ایک جہاز
ملا اسے بچانے کے لئے ایک چھوٹی کشتی سے اتر رہا تھا جب سوداگر جہاز پر سوار ہوا
تو خوشی کی شدت سے یقین نہیں کر پا رہا تھا اور
اس نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اسے کیسے ڈھونڈا اور اس کا ٹھکانہ کیسے جانا؟
انہوں نے اس کا جواب دیا:
ہم نے دھواں دیکھا لہذا ہمیں معلوم ہوا کہ کوئی شخص مدد کے لئے پکاررہا ہے لہذا ہم
دیکھنے آئے"
جب اس نے اُن کو اپنی کہانی سنائی کہ کس طرح اسے ناجائز طریقے سے سوداگروں کے جہاز
سے پھینک دیا گیا
انہوں نے اسے بتایا "
کہ سوداگروں کا جہاز منزل تک نہیں پہنچا ڈاکوں نے اس پر چھاپہ مارا سب کو
لوٹ لیا اور لوگوں کو مار ڈالا ۔
تو سوداگر روتے ہوئے سجدہ کرتا ہے اور کہتا ہے خداوند خداوند تمہارے سب کام اچھے
ہیں پاک ہے وہ رب جس نے قتل سے بچایا اور اس کے لیے بالائی کا انتخاب کیا
اگر آپ کے حالات بگڑ جاتے ہیں تو خوفزدہ نہ ہوں بس اتنا بھروسہ کریں کہ خدا ہر چیز
میں حکمت رکھتا ہے
آب زم زم کا سراغ لگانے والوں کو منہ کی کھانی پڑی عالمی
تحقیقی ادارے آب زم زم اور اسکے کنویں کی پر اسراریت اور قدرتی ٹیکنالوجی کی تہہ
تک پہنچنے میں ناکام ہو کر رہ گئے۔ مزید نئے روشن پہلوؤں کے انکشافات سامنے آ گئے۔
تفصیلات کے مطابق آب زم زم اور اسکے کنویں کی پر اسراریت پر تحقیق کرنے والے عالمی
ادارے اسکی قدرتی ٹیکنالوجی کی تہہ تک پہنچنے میں ناکام ہو کر رہ گئے۔ عالمی
تحقیقی ادارے کئی دہائیوں سے اس بات کا کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ آب زم زم میں
پائے جانے والے خواص کی کیا وجوہات ہیں اور ایک منٹ میں 720لیٹر جبکہ ایک گھنٹے
میں43ہزار 2سو لیٹر پانی فراہم کرنے والے اس کنویں میں پانی کہاں سے آ رہا ہے ۔
جبکہ مکہ شہر کی زمین میں سینکڑوں فٹ گہرائی کے باوجود پانی موجود نہیں ہے۔ جاپانی
تحقیقاتی ادارے ہیڈو انسٹیٹیوٹ نے اپنی تحقیقی میں کہا ہے کہ اب زم زم ایک قطرہ
پانی میں شامل ہو جائے تو اس کے خواص بھی وہی ہو جاتے ہیں جو آب زم زم کے ہیں جبکہ
زم زم کے ایک قطرے کا بلور دنیا کے کسی بھی خطے کے پانی میں پائے جانے والے بلور
سے مشابہت نہیں رکھتا۔ ایک اور انکشاف یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ری سائیکلنگ سے بھی
زم زم کے خواص میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ آب زم زم میں معدنیات کے تناسب کا
ملی گرام فی لیٹر جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ اس میں سوڈیم133، کیلشیم96،
پوٹاشیم43.3، بائی کاربونیٹ195.4کلورائیڈ163.3، فلورائیڈ0.72، نائیٹریٹ124.8 اور
سلفیٹ 124ملی گرام فی لیٹر موجود ہے۔ آب زم زم کے کنویں کی مکمل گہرائی99فٹ ہے اور
اس کے چشموں سے کنویں کی تہہ تک کا فاصلہ 17میٹر ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کے تقریباً
تمام کنوؤں میں کائی کا جم جانا، انواع و اقسام کی جڑی بوٹیوں اور خود رو بودوں کا
اگ آنا نباتاتی اور حیاتیاتی افزائش یا مختلف اقسام کے حشرات کا پیدا ہو جانا ایک
عام سی بات ہے جس سے پانی رنگ اور ذائقہ بدل جاتا ہے اللہ کا کرشمہ ہے کہ اس کنویں
میں نہ کائی جمتی ہے نہ نباتاتی و حیاتیاتی افزائش ہوتی ہے نہ رنگ تبدیل ہوتا ہے
نہ ذائقہ۔
🥀
حل المشکلات کیلئے آزمایا عمل
جب بھی آپ گھر سے باہر نکلیں تو نکلنے سے پہلے ایک مرتبہ درود شریف ابراہیمی‘ ایک
مرتبہ سورۂ فاتحہ ‘ تین مرتبہ سورۂ اخلاص اور ایک مرتبہ درود شریف ابرہیمی پڑھ
کر اس کا ثواب حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ذات اقدس کو بھیج
دیں۔ آپ اللہ کی حفظ و امان میں ہوجائیں گے ۔ اس کے علاوہ جب بھی سخت مشکل ہو‘
مصیبت ہو ‘ درج بالا عمل کے علاوہ دو رکعت نمازنفل پڑھ کر اُس کا ثواب بھی سیدہ
فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پہنچائیں۔ فوری مشکل حل ہوگی۔ کسی افسر کے
سامنے پیش ہونا ہو‘ کوئی مشکل امتحان ہو‘ آپریشن کیلئے ہسپتال میںہوں‘ الغرض آپ
کسی بھی مصیبت میں گرفتار ہوں ۔درج بالا عمل کے ساتھ34 مرتبہ اَللہُ اَکْبَرُ 33
مرتبہ اَلْحَمْدُلِلہِ 33 مرتبہ سُبْحَانَ اللہِ ضرور پڑھیں۔ آقا ﷺ زادی کے حضور ثواب کے نذرانے بھجیں‘ پتھر موم ہوجائیں گے‘
پہاڑ رائی بن جائیں گے‘ مصیبت فوری ٹلے گی‘ رزق میں اضافہ‘ اولاد نیک‘ مصیبتیں
دور‘ رنج وغم ختم اور سکون قلب حاصل کرنے کیلئے سب قارئین اس عمل سے بھرپور فائدہ
اٹھائیں۔
(نوٹ) اجازت کے لیئے کمینٹ میں ایک بار اللہ اکبر لکھ کر پوسٹ کو شیئر کریں
اللہ تعالیٰ نے رزق کے 16 دروازے مقرر کئے ہیں
اور اس کی چابیاں بھی بنائی ہیں۔ جس نے یہ چابیاں حاصل کر لیں وہ کبھی
تنگدست نہیں رہے گا۔
۔
* پہلا دروازہ نماز ہے۔ جو لوگ نماز نہیں پڑھتے ان کے رزق سے برکت اٹھا دی جاتی
ہے۔ وہ پیسہ ہونے کے باوجود بھی پریشان رہتے ہیں۔
* دوسرا دروازہ استغفار ہے۔ جو انسان زیادہ سے زیادہ استغفار کرتا ہے توبہ کرتا ہے
اس کے رزق میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اللہ ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے کبھی اس
نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔
* تیسرا دروازہ صدقہ ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ تم اللہ کی راہ میں جو خرچ کرو گے اللہ
اس کا بدلہ دے کر رہے گا، انسان جتنا دوسروں پر خرچ کرے گا اللہ اسے دس گنا بڑھا
کر دے گا
* چوتھا دروازہ تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ جو لوگ گناہوں سے دور رہتے ہیں اللہ اس
کیلئے آسمان سے رزق کے دروازے کھول دیتے ہیں۔
* پانچواں دروازہ کثرتِ نفلی عبادت ہے۔ جو لوگ زیادہ سے زیادہ نفلی عبادت کرتے ہیں
اللہ ان پر تنگدستی کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ اللہ کہتا ہے اگر تو عبادت میں
کثرت نہیں کرے گا تو میں تجھے دنیا کے کاموں میں الجھا دوں گا، لوگ سنتوں اور فرض
پر ہی توجہ دیتے ہیں نفل چھوڑ دیتے ہیں جس سے رزق میں تنگی ہوتی ہے
٭ چھٹا دروازہ حج اور عمرہ کی کثرت کرنا ، حدیث میں آتا ہے حج اور عمرہ گناہوں اور
تنگدستی کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح آگ کی بھٹی سونا چاندی کی میل دور کر دیتی
ہے
٭ ساتواں دروازہ رشتہ داروں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آنا۔ ایسے رشتہ داروں سے بھی
ملتے رہنا جو آپ سے قطع تعلق ہوں۔
٭ آٹھواں دروازہ کمزوروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا ہے۔ غریبوں کے غم بانٹنا، مشکل میں
کام آنا اللہ کو بہت پسند ہے
٭ نوواں دروازہ اللہ پر توکل ہے۔ جو شخص یہ یقین رکھے کہ اللہ دے گا تو اسے اللہ
ضرور دے گا اور جو شک کرے گا وہ پریشان ہی رہے گا
٭دسواں دروازہ شکر ادا کرنا ہے۔ انسان جتنا شکر ادا کرے گا اللہ رزق کے دروازے
کھولتا چلا جائے گا
٭ گیارہواں دروازہ ہے گھر میں مسکرا کر داخل ہونا ،، مسکرا کر داخل ہونا سنت بھی
ہے حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ فرماتا ہے کہ رزق بڑھا
دوں گا جو شخص گھر میں داخل ہو اور مسکرا کر سلام کرے
٭بارہواں دروازہ ماں باپ کی فرمانبرداری کرنا ہے۔ ایسے شخص پر کبھی رزق تنگ نہیں
ہوتا
٭ تیرہواں دروازہ ہر وقت باوضو رہنا ہے۔ جو شخص ہر وقت نیک نیتی کیساتھ باوضو رہے
تو اس کے رزق میں کمی نہیں ہوتی
٭چودہواں دروازہ چاشت کی نماز پڑھنا ہے جس سے رزق میں برکت پڑھتی ہے۔ حدیث میں ہے
چاشت کی نماز رزق کو کھینچتی ہے اور تندگستی کو دور بھگاتی ہے
٭ پندرہواں دروازہ ہے روزانہ سورہ واقعہ پڑھنا ۔۔ اس سے رزق بہت بڑھتا ہے
٭ سولواں دروازہ ہے اللہ سے دعا مانگنا۔ جو شخص جتنا صدق دل سے اللہ سے مانگتا ہے
اللہ اس کو بہت دیتا ہے
اللّه ہمیں ان سب پے اخلاص کے ساتھ عمل کی توفیق آتا فرمائے آمین
ایک حاجی صاحب کا واقعہ ہے وہ کافی بیمار تھے۔
کئی سالوں سے ہر ہفتے پیٹ سے چار بوتل پانی نکلواتے تھے
اب ان کے گردے واش ہوتے ہوتے ختم ہوچکے تھے۔
ایک وقت میں آدھا سلائس ان کی غذا تھی۔ سانس لینے میں بہت دشواری کا سامنا تھا۔
نقاہت اتنی کہ بغیر سہارے کے حاجت کیلئے نہ جاسکتے تھے۔
ایک دن چوہدری صاحب ان کے ہاں تشریف لے گئے
اور انہیں سہارے کے بغیر چلتے دیکھا تو بہت حیران ہوئے انہوں نے دور سے ہاتھ ہلا
کر چوہدری صاحب کا استقبال کیا‘
چہل قدمی کرتے کرتے حاجی صاحب نے دس چکر لان میں لگائے‘
پھر مسکرا کر ان کے سامنے بیٹھ گئے‘
ان کی گردن میں صحت مند لوگوں جیسا تناؤ تھا۔
چوہدری صاحب نے ان سے پوچھا کہ یہ معجزہ کیسے ہوا؟
کوئی دوا‘ کوئی دعا‘ کوئی پیتھی‘ کوئی تھراپی۔ آخر یہ کمال کس نے دکھایا۔
حاجی صاحب نے
فرمایا میرے ہاتھ میں ایک ایسا نسخہ آیا ہے کہ اگر دنیا کو معلوم ہوجائے تو سارے
ڈاکٹر‘ حکیم بیروزگار ہوجائیں۔
سارے ہسپتال بند ہوجائیں اور سارے میڈیکل سٹوروں پر تالے پڑجائیں۔
چوہدری صاحب مزید حیران ہوئے کہ آخر ایسا کونسا نسخہ ہے جو ان کے ہاتھ آیا ہے۔
حاجی صاحب نے فرمایا کہ میرے ملازم کی والدہ فوت ہوگئی‘
میرے بیٹوں نے عارضی طورپر ایک چھ سات سالہ بچہ میری خدمت کیلئے دیا‘
میں نے ایک دن بچے سے پوچھا کہ آخر کس مجبوری کی بنا پر تمہیں اس عمر میں میری
خدمت کرنا پڑی‘بچہ پہلے تو خاموش رہا پھر سسکیاں بھر کر بولا کہ ایک دن میں گھر سے
باہر تھا‘میری امی‘ ابو‘ بھائی‘ بہن سب سیلاب میں بہہ گئے
میرے مال مویشی ڈھور ڈنگر‘ زمین پر رشتہ داروں نے قبضہ کرلیا۔
اب دنیا میں میرا کوئی نہیں۔
اب دو وقت کی روٹی اور کپڑوں کے عوض آپ کی خدمت پر مامور ہوں۔
یہ سنتے ہی حاجی صاحب کا دل پسیج گیا اور پوچھا بیٹا کیا تم پڑھوگے بچے نے ہاں میں
سرہلا دیا۔
حاجی صاحب نے منیجر سے کہا کہ اس بچے کو شہر کے سب سے اچھے
سکول میں داخل کراؤ۔
بچے کا داخل ہونا تھا کہ اس کی دعاؤں نے اثر کیا‘
قدرت مہربان ہوگئی‘
میں نے تین سالوں کے بعد پیٹ بھر کر کھانا کھایا‘
سارے ڈاکٹر اور گھروالے حیران تھے۔
اگلے روز اس یتیم بچے کو ہاسٹل میں داخلہ
دلوایا اور بغیر سہارے کے ٹائلٹ تک چل کرگیا‘ میں نے منیجر سے کہا کہ شہر سے پانچ
ایسے اور بچے ڈھونڈ کرلاؤ جن کا دنیا میں کوئی نہ ہو۔
پھر ایسے بچے لائے گئے
انہیں بھی اسی سکول میں داخل کرادیا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور آج میں بغیر سہارے کے چل رہا ہوں۔
سیر ہوکر کھاپی رہا ہوں اور قہقہے لگارہا ہوں۔ حاجی صاحب سینہ پھلا کر گلاب کی
کیاریوں کی طرف چل دئیے
اور فرمایا میں اب نہیں گروں گا جب تک کہ یہ بچے اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہوجاتے۔
حاجی صاحب گلاب کی کیاریوں کے قریب رک
گئے اور ایک عجیب فقرہ زبان پر لائے :-
’’قدرت‘ یتیموں کو سائے دینے والےدرختوں کے سائے لمبے کردیا کرتی ہے.
پ کو ماننا پڑیگا کہ اسلام میں تو کچھ خاص ہے
ایمان کو جھنجھوڑنے والا سچا واقعہ 👇
اس کا نام ڈاکٹر لارنس براؤن تھا وہ ایک کیتھولک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا تھا
مگر بقول اس کے وہ ہوش سنبھالنے کے بعد ایک دن کے لئے بھی عیسائی نہیں رہا وہ ملحد
ہو گیا تھا ، وه کسی خدا کا قائل نہیں تھا ۔ وہ نہ صرف امریکہ کا بہترین ھارٹ
اسپیشلسٹ تھا بلکہ پورے بر اعظم امریکہ میں شاید اس کے مقابلے کا کوئی ڈاکٹر نہیں
تھا، وہ دنیا بھر میں لیکچر دیتا پھرتا تھا ، اس کی ڈیوٹی امریکہ کے بہترین اسپتال
میں تھی جہاں رونالڈ ریگن کو گولی لگنے کے بعد فوری طور پہ شفٹ کیا گیا تھا، اس سے
اس اسپتال کی اہمیت اور سہولیات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مگر یہی اہم ترین
اسپتال اور اس کی سہولیات ایک دن اس کے سامنے بے بس و لاچار سر جھکائے کھڑی تھیں ۔
یہ سال تھا 1990 جب اس کے گھر اس کی دوسری بیٹی حنا Henna پیدا ہوئی ۔ بچی کو لیبر
روم سے سیدھا آپریشن تھیٹر منتقل کیا گیا کیونکہ وہ ابنارمل پیدا ہوئی تھی ، اس کی
ایک آرٹری میں نقص تھا جس کی وجہ سے اس کے بدن کو آکسیجن ملا خون نہیں مل رہا تھا
اور وہ سر سے پاؤں کے انگوٹھے تک "Gun Metal Blue" پیدا ہوئی تھی ۔ بقول
ڈاکٹر صاحب میں خود ڈاکٹر تھا اور مجھے پتہ تھا کہ میری بچی کے ساتھ کیا مسئلہ ہے
، اس کا بدن مر رہا تھا کیوں کہ اسے آکسیجن ملا خون نہیں مل پا رھا تھا ، اس کا
علاج یہ تھا کہ اس کی چیر پھاڑ کر کے آرٹری کی گرافٹنگ کر کے اسے تبدیل کیا جائے ،
مگر پہلی بات یہ کہ اس آپریشن کی کامیابی کی کوئی گارنٹی نہیں تھی ، دوسری بات یہ
کہ اگر یہ گرافٹنگ کامیاب بھی ہو جائے تو بھی سال دو سال بعد پھر گرافٹنگ کرنی ہو
گی یوں زیادہ سے زیادہ دو سال کی زندگی لے کر میری بیٹی آئی تھی، اور اس وقت اس کی
جو حالت تھی اس میں میں بطور باپ تو اس کو چیر پھاڑ نہیں سکتا تھا اس کے لئے ایک
نہایت لائق ڈاکٹر کی سربراہی میں ایک ٹیم بنا دی گئی جو اپنا ساز و سامان اکٹھا
کرنے میں لگ گئی اور میں آپریشن تھیٹر کے ساتھ ملحق ”کمرہ استغاثہ” یا
"Prayer Hall” میں چلا گیا! کمرہ فریاد میں کسی مذہب کی کوئی نشانی یا مونو
گرام نہیں تھا ۔ نہ کعبہ ، نہ کلیسا، نہ مریم و عیسیٰ کی تصویر، نہ یہود کا ڈیوڈ
اسٹار، نہ ہندو کا ترشول ۔ الغرض وہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے بنایا گیا کمرہ
تھا۔ جہاں وہ آپریشن کے دوران اپنے اپنے عقیدے کے مطابق دعاء مانگتے تھے، جب تک کہ
ان کا مریض آپریشن تھیئٹر سے منتقل کیا جاتا ، اس سے قبل ڈاکٹر لارنس کے لئے یہ
کمرہ ایک “Psychological Dose" کے سوا کچھ نہیں تھا مگر آج اس کی اپنی جان پر
بن گئی تھی ، بقول ڈاکٹر لارنس ، میں نے آج تک جو چاہا تھا اسے ہر قیمت پر حاصل کر
لیا تھا ، چاہے وہ پیسے سے ملے یا اثر و رسوخ سے ”نہ اور ناممکن" جیسے الفاظ
میری ڈکشنری میں ہی نہیں تھے مگر آج میں بے بس ہو گیا تھا نہ تو سائنسی آلات و
وسائل کچھ کر سکتے تھے اور نہ ہے میرا پیسہ میری بچی کی جان بچا سکتا تھا ، میں نے
ہاتھ اٹھائے اور اس نادیدہ ہستی کو پکارا جس کے وجود کا میں آج تک منکر تھا۔ اے
خالق! اگر تُو واقعی موجود ہے تو پھر تُو یہ بھی جانتا ہوگا کہ میں آج تک تیرے
وجود کا منکر رہا ، مگر آج میری بیٹی مجھے تیرے در پہ لے آئی ہے ، اگر واقعی تیرا
وجود ہے تو پلیز میری مدد فرما ، اسباب نے جواب دے دیا ہے اب میری بچی کو اگر کوئی
بچا سکتا ہے تو صرف اس کا بنانے والا ہی بچا سکتا ہے ، وہی اس فالٹ کو درست کر
سکتا ہے جس نے یہ بچی تخلیق فرمائی ہے۔ اے خالق! میں صدقِ دل کے ساتھ تجھ سے وعدہ
کرتا ہوں کہ اگر تو میری بچی کا فالٹ درست فرما دے تو میں سارے مذاہب کو اسٹڈی کر
کے ان میں سے تیرے پسندیدہ مذہب کو اختیار کر لوں گا اور سارے زندگی تیرا غلام بن
کر رہوں گا ، یہ میرا اور تیرا عہد ہے ، میں نے صدقِ نیت سے یہ پیمان کیا اور اٹھ
کر آپریشن تھیئیٹر میں آیا ، مجھے زیادہ سے زیادہ 15 منٹ لگے ہوں گے ، مگر جب میں
آپریشن روم میں آیا تو وہاں کی بدلی ہوئی فضا کو میں نے ایک لمحے میں محسوس کر لیا
، وہاں افراتفری کی بجائے سکون و اطمینان تھا ، ٹیم کے سربراہ نے سر گھما کر مجھے
دیکھا اور بولا بچی کے آپریشن کی اب کوئی ضرورت نہیں خون کا دورانیا درست ہو گیا
ھے اور اس دورانِ خون کے درست ہونے کی جو سائنٹیفک وجوہات وہ بتا رھا تھا ، میں نے
سر اٹھا کر باقی ٹیم ممبران کی طرف دیکھا میرے سمیت ان میں سے کسی کی آنکھوں یا
چہرے پر ان وجوہات پر یقین کا ایک فیصد بھی نہیں تھا، ہمیں معلوم تھا کہ یہ صرف
باتیں ہیں ان میں حقیقت نام کو نہیں ، البتہ مجھے پتہ تھا کہ میرا ایگریمنٹ خالق
کی طرف سے Endorse کر لیا گیا ہے اور آرٹری کی خرابی اسی خالق نے جھٹ سے درست کر
دی ہے ، اس سے پہلے میری پہلی بیٹی کی بار بھی ایک سگنل مجھے خالق کی طرف سے ملا
تھا جو مثبت تھا ، اسی وجہ سے میں نے اسے معمولی سمجھا ، میری پہلی بیٹی کرسٹینا
نے پیدا ہونے کے بعد اسی دن میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی دونوں ٹانگوں پہ کھڑا ہو کر
مجھے حیران کر دیا ، ڈاکٹر حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسا ہونا ناممکن ہے ۔ مگر
میں نے اس نا ممکن میں خالق کو نہ پہچانا تو دوسری بیٹی کے ناممکن نے مجھے باندھ
کر خالق کے در پہ لا ڈالا
2014 میں میری بیٹی نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ہے! مجھے اپنا معاہدہ بڑی اچھی
طرح یاد تھا ، میں نے دنیا کے تمام مذاھب کی کتب کو پڑھنا شروع کیا ، بدھ ازم ،
ھندو ازم ، عیسائیت اور یہودیت سمیت تمام کتب بھی پڑھیں اور ان کے علماء سے مزاکرے
بھی ہوئے مگر میرے سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا
،، اسلام میرا آخری آپشن تھا ،،
میں نے قرآن کو پڑھنا شروع کیا اور میرے دل و دماغ کے دریچے کھُلتے چلے گئے ، میں
نے عیسائیوں اور یہودیوں سے بار بار سوال کیا کہ یحيٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ
السلام کے ساتھ وہ تیسرا کون ہے جس کی گواہی تورات بھی دیتی ھے اور انجیل بھی دیتی
ہے ، مگر وہ آئیں بائیں شائیں کرتے تھے ، قرآن نے مجھے جواب دیا کہ وہ تیسری ہستی ﷴ رسول الـلــَّـه ﷺ کی ہی ہے ۔ ۔ ۔ اللہ اکبر جزاک اللہ خیرا کثیرا کثیرا دعا کا
طالب غلام سمنانی اشرفی بھاگلپور بہار
"مال ودولت کی حقیقت"
1۔لبنان کا سب سے مالدار آدمی ایمیل البستانی تھا۔
اس نے اپنے لئے ایک خوبصورت علاقے میں جوکہ بیروت کے ساحل پر تھا ، قبر بنوائی کہ
مرنے کے بعد مجھے اس قبر میں دفن کیا جائے ۔
اس کے پاس اپنا ذاتی جہاز تھا اور جب دھماکہ ہوا تو وہ جہاز سمیت سمندر میں ڈوب
گیا ۔ لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد اس کے جہاز کا پتہ تو چل گیا
لیکن لاش نہیں ملی جسے اس قبر میں دفن کیا جائے جو اس نے اپنے لئے بنوائی
تھی۔
2۔برطانیہ کا ایک بہت زیادہ مالدار آدمی ایک یہودی "رود تشلر"تھا۔
وہ اتنا دولتمند تھا کہ کبھی کبھی حکومت اس سے قرض لیتی تھی ۔ اس نے اپنے عظیم
الشان محل میں ایک کمرہ اپنی دولت رکھنے کے لئے مختص کیا تھا جو کہ ہر وقت سیم و
زر سے بھرا رہتا تھا۔
ایک دفعہ وہ اس کمرے میں داخل ہوا اور غلطی سے دروازہ بند ہو گیا ۔
دروازہ صرف باہر سے کھل سکتا تھا اندر سے نہیں ۔
اس نے زور زور سے چیخ و پکار شروع کی لیکن محل بڑا ہونے کی وجہ سے کسی نے اس کی
آواز نہ سنی۔
اس کی عادت تھی کہ وہ کبھی کبھی بغیر کسی کو بتائے کئی کئی ہفتے گھر سے غائب
رہتا تھا۔
جب وہ کسی کو نظر نہ آیا تو گھر والوں نے سوچا کہ حسب عادت کہیں گیا ہو گا۔
وہ برابر چیختا رہا یہاں تک کہ اسے سخت بھوک اور پیاس لگی۔ اس نے اپنی انگلی کو
زخمی کیا اور کمرے کی دیوار پر لکھا
"دنیا کا سب سے مالدار آدمی بھوک اور پیاس سے مر رہا ہے"
اس کی لاش کئی ہفتے بعد دریافت ہوئی۔
یہ پیغام ہے ان لوگوں کے لئے جو سمجھتے ہیں کہ
مال و دولت ہی ہر مشکل کا حل ہے اور دنیا کی ہر ضرورت اس سے پوری کی جا سکتی ہے۔
دنیا سے جانا ایک بڑا حادثہ ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ کب، کیسے اور کہاں جانا ہے
انسان سفر پر جاتا ہے اور پھر واپس آتا ہے،
گھر سے باہر جاتا ہے اور پھر لوٹتا ہے
لیکن جب دم نکل جائے تو پھر کوئی لوٹتا نہیں ہے۔
مبارکباد کے قابل ہیں وہ لوگ جو کسی پر ظلم نہیں کرتے، نہ کسی سے نفرت کرتے ہیں ،
نہ کسی کا دل زخمی کرتے ہیں اور نہ اپنے آپ کو کسی سے برتر سمجھتے ہیں اس لئے کہ
سب کو جانا ہے۔
ایک آدمی ٹیکسی میں بیٹھا تو دیکھا کہ ڈرائیور قرآن سن رہا ہے اس نے پوچھا کیا
کوئی آدمی مر گیا ہے؟ اس نے کہا ہاں ہمارے دل مر چکے ہیں۔
قیدی اس لئے قرآن مانگتا ہے کہ قید تنہائی میں اس کا ساتھی بنے۔
* مریض ہسپتال میں اس لئے قرآن مانگتا ہے تاکہ اللہ اس کے مرض کو دور کرے۔*
اور مردہ قبر میں تمنا کرے گا کاش میں قرآن پڑھتا تو آج قبر میں میرا غمخوار ہوتا۔
آج نہ ہم قیدی ہیں ، نہ مریض ہیں اور نہ مرے ہوئے ہیں کہ قبر میں قرآن کی
تمنا کریں ،
قرآن آج ہمارے ہاتھوں میں ہے ، آنکھوں کے سامنے ہے ، تو کیا ہمیں اس بات کا انتظار
ہے کہ ہم ان مصیبتوں میں سے کسی ایک مصیبت میں گرفتار ہو جائیں اور پھر قرآن کو
طلب کریں
اے اللہ قرآن کو ہمارے دلوں کی بہار، سینوں کا نور ، عیوب کا پردہ پوش ، نفوس کا
مددگار ، قبر کا ساتھی اور روزمحشر میں سفارشی بنا دیجئے ۔
اور ہمیں قرآن پاک کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرما
اے ہمارے رب ہمیں قرآن پاک پر ایمان لانے پڑھنے اور اس کی زبان سیکھنے اور سمجھنے
اور عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرما
آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔
"قرآن کی قدر کیجئے"
جزاک اللہ خیرا و الحسن الجزا
کیا آپ جانتے ہیں.
ہم اپنے ماں باپ پے سب سی بڑا ظلم کیا کرتے ہیں۔..؟
ہم ان کے سامنے"بڑے" بن جاتے ہیں ...
"سیانے" ہو جاتے ہیں ...
اپنے تحت بڑے "پارسا نیک اور پرہیزگار" بن جاتے ہیں ...
وہی ماں باپ جنہوں نی ہمیں سبق پڑھایا ہوتا ہے ۔.
انھیں "سبق" پڑھانے لگتے ہیں ...
ابا جی یہ نہ کرو یہ غلط ہے ۔.
اماں جی یہ آپ نے کیا کیا ..
آپ کو نہی پتا ایسے نہیں کرتے ...
ابو آپ یہاں کیوں گیے۔.
اماں جی پھر گڑبڑ کر دی آپ نے ..
سارے کام خراب کر دیتی ہیں آپ ..
اب کیسے سمجھاؤں آپ کو ...
جانتے ہو صاحب ...
ہمارا یہ "بڑا پن یہ سیانا پن" ہمارے اندر کے "احساس" کو مار
دیتا ہے ...🍁
وہ احساس جس سی ہم یہ محسوس کر سکیں ...
کہ ہمارے ماں باپ اب بلکل بچے بن گئےہیں۔..
وہ عمر کے ساتھ ساتھ بے شمار ذہنی الجھنوں سی آزاد ہوتے جا رہے ہیں ...😇
چھوٹی سے خوشی ...😇
تھوڑا سا پیار...😇
ہلکی سی مسکراہٹ ... 😇
انھیں نہال کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے ...
انھیں "اختیار" سے محروم نہ کریں صاحب ....🍂
"سننے" کا اختیار ...🍂
"کہنے" کا اختیار ...🍂
"ڈانٹنے" کا اختیار ...🍂
"پیار" کرنے کا اختیار ...🍂
یہی سب انکی خوشی ہے ..🍂
چھوٹی سے دنیا ہے ...🍂
ہمارے تلخ رویوں سے وہ اور کچھ سمجھیں یا نہ سمجھیں ...
یہ ضرور سمجھ جاتے ہیں ک اب وقت انکا نہیں رہا ...😔
وہ اپنے ہی خول میں قید ہونے لگتے ہیں ...
اور بالآخر رنگ برنگی ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہونے لگتے ہیں ...💞
اس لئے صاحب ...
اگر ماں باپ کو خوش رکھنا ہے ..
تو ان کے سامنے زیادہ "سیانے" نہ بنیں ...
"بچّے" بن کے رہیں ..💛💛💛
تا کے آپ خود بھی "بَچے" رہیں .
" ایک صحابیہؓ کے طلاق مانگنے کا عجیب واقعہ
""
میں نے ایک صحابیہؓ کا ایک عجیب واقعہ پڑھا ہے کہ ایک صحابی رسول رات کو اپنے گھر
میں آرام فرما تھے .
.
اور انہیں پیاس لگی تو انہوں نے اہلیہ سے پانی مانگا ،ان کی اہلیہ صحابیہ عورت تھی
وہ پانی لے کر آئی تو وہ صحابی دوبارہ سو چکے تھے
وہ عورت اتنی خدمت گزار تھی کہ پانی لے کر کھڑی ہوگئی ،جب رات کا کافی حصہ
گزر گیا تو صحابی کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کی وفادار بیوی
پانی لے کر کھڑی ہے ،پوچھا : تم کب سے کھڑی ہو؟
.
اس صحابیہ عورت نے جواب دیا کہ جب آپ نے پانی مانگا تھا میں پانی لے کر آئی تو آپ
آرام فرما چکے تھے اس لئے میں نے آپ کو جگا کر آپ کے آرام میں خلل ڈالنا مناسب نہ
سمجھا اور سونا بھی گوارا نہ کیا کیونکہ میں نے سوچا کہ ممکن ہے پھر آپ کی آنکھ
کھلے اور آپ کو پانی کی طلب ہو اور کوئی پانی دینے والا نہ ہو ، کہیں خدمت گزاری
اور وفا شعاری میں کوتاہی نہ ہوجائے اس لئے میں ساری رات پانی لے کر کھڑی رہی ۔
ذرا سوچیے! آج کوئی ایک عورت ایسی باوفا اور خدمت گزار ہیں،
اور ان عورتوں کی وفا شعاری بھی دیکھیں ، جب اس عورت نے یہ کہا کہ میں ساری رات
کھڑی رہی تو اس صحابی کی حیرت کی انتہا نہ رہی وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا اور عجیب
خوشی کی کیفیت میں اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ تم نے خدمت کی انتہا کردی ،اب میں تم
سے اتنا خوش ہوں کہ آج تم مجھ سے جو مانگو گی میں دوں گا،
صحابیہ نے کہا مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں بس آپ راضی اور خوش رہیں ،لیکن جب صحابی
نے بار بار اصرار کیا تو عورت نے کہا اگر ضرور میرا مطالبہ پورا کرنا ہے تو
مہربانی کرکے مجھے طلاق دے دو، جب اس نے یہ الفاظ کہے تو اس صحابی کے پاؤں کے نیچے
سے جیسے زمین نکل گئی ہو ،وہ ہکا بکا اور حیران رہ کر اپنی بیوی کا منہ دیکھنے لگا
کہ یہ کیا کہہ رہی ہے۔
اس نے کہا اتنی خدمت گزار بیوی آج مجھ سے طلاق کا مطالبہ کررہی ہو ،اس نے کہا
چونکہ میں وعدہ کر چکا ہوں اس لئے تیرا مطالبہ تو پورا کروں گا لیکن پہلے چلتے ہیں
رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں ،آپ سے مشورہ کے بعد جو فیصلہ ہوگا
اسی پر عمل کروں گا ۔
چنانچہ صبح صادق کا وقت ہوچکا تھا یہ دونوں میاں بیوی اپنے گھر سے نکل کر رحمت
عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حجرہ کی طرف روانہ ہو گئے ،
راستے میں ایک گڑھے میں صحابی کا پاؤں پھسل گیا اور وہ گر گئے ،اس کی بیوی نے ہاتھ
پکڑ کر صحابی کو اٹھایا اور کہا آپ کو چوٹ تو نہیں آئی ، صحابی نے کہا: اور تو کچھ
نہیں البتہ پاؤں میں تکلیف ہے ۔ صحابیہ عورت نے فرمایا: چلو واپس گھر چلیں ،صحابی
نے کہا اب تو قریب آچکے ہیں ،
صحابیہ کہنے لگیں ،نہیں واپس چلو، چنانچہ جب واپس گھر آئے تو صحابی نے پوچھا کہ
مجھے تو سمجھ نہیں آئی کہ سارا ماجرا کیا ہے ،صحابیہ نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے
کسی سے سنا ہے کہ جسے ساری زندگی میں کوئی تکلیف نہ ہو اس کے ایمان میں شک ہے
کیونکہ جو بھی ایمان دار ہوتا ہے وہ ضرور تکلیف میں آزمایا جاتا ہے ،
مجھے تو آپ کے ساتھ رہتے ہوئے ۱۵ سال کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن آپ کو کبھی سر میں بھی
درد نہیں ہوا ،اس لئے مجھے شک ہو گیا اور میں نے سوچا کہ ایسے آدمی کے نکاح میں
رہنے کا کیا فائدہ ہے جس کا ایمان مشکوک ہے ،اس لئے میں نے طلاق مانگی
لیکن جب راستے میں آپ کے پاؤں میں چوٹ آئی تو میرا شک رفع ہو گیا کہ الحمد للہ آپ
تکلیف میں آزمائے گئے اور آپ نے اس تکلیف پر صبر کیا ۔
یہ ہیں صحابہ۔۔۔
آج تو میاں بیوی کی لڑائی سسرال، زیوروں ،کپڑوں ،گھر اور مکان اور اخراجات
پر ہوتی ہے ،ایمان اور دین کی بات ہی کوئی نہیں پوچھتا.....
کامیابی کا راز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے پچھلے دنوں ایک شخص کا انٹرویو سنا
انٹرویو دینے والا دنیا کی کسی بڑی یونیورسٹی یا کالج تو دور کی بات شاید مڈل سکول
تک بھی نہ گیا ہو گا
مگر کامیابی کا وہ راز بتا دیا کہ شاید ہی کوئی ڈگری والا کسی کو بتا پائے
وہ شخص ایک بکریاں پالنے والا چھوٹا سا فارمر ہے
اس سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس کتنی بکریاں ہیں اور سالانہ کتنا کما لیتے ہو
اس نے کہا میرے پاس اچھی نسل کی بارہ بکریاں ہیں اور جو مجھے سالانہ چھ لاکھ روپے
دیتی ہیں جو ماہانہ پچاس ہزار بنتا ہے
مگر کیمرہ مین نے جب بکریوں کا ریوڑ دیکھا تو اس میں تیرہ بکریاں تھیں
اب اس نے تیرہویں بکری کے بارے میں پوچھا کہ یہ آپ نے کنتی میں شامل کیوں نہیں کی
؟
تو بکری پال کا جواب جو تھا وہ کمال کا تھا اور وہی جملہ دراصل کامیابی کا راز تھا
اس نے کہا کہ بارا بکریوں سے میں چھ لاکھ منافع حاصل کرتا ہوں اور اس تیرہویں بکری
کے دو بچے ہوتے ہیں ایک کی قربانی کرتا ہوں اور دوسرا کسی مستحق غریب کو دے دیتا
ہوں
اس لئے یہ بکری میں نے کنتی میں شامل نہیں کی
گویا یہ تیرہویں بکری بارہ بکریوں کی محافظ ہے اور باعث خیر وبرکت ہے
یقین کریں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
دنیا کے بڑے بڑے فلاسفروں کے فلسفے ایک طرف اور اس بکریاں پالنے والے نوجوان کا جملہ
ایک طرف اپنا بڑا مقام رکھتا ہے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو اس نوجوان کی طرح اپنی حلال کمائی میں سے اللہ کی راہ
میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
منقول
آپ نے Entrepreneurship پر بہت
پڑھا ہوگا، لیکچر سنیں گے ورکشاپس میں شریک رہے ہونگے۔
لیکن اگر آپ نے Entrepreneurship کی کوئی بہترین مثال دیکھنی ہے تو پٹھان کو
دیکھیں، اپنے گاؤں سے مزدوری کرنے آتا ہے، روڈ کھودنا شروع کرتا ہے صرف 15 سال میں
"خیبر کنسٹرکشن کمپنی" کھول کر بیٹھا ہوتا ہے
کیتلی میں کہوہ اور شیشے کے گلاس گلی گلی دوکان دوکان لئے گھومتا ہے اور 20 سال
بعد کوئٹہ پیالہ کا مالک ہوتا ہے۔
بنیان پہن کر تندور پر نان لگاتا ہے اور 10 12 سال بعد شنواری کڑاہی پر لاکھوں
چھاپتا ہے۔
جو پٹھان سائیکل پر کپڑا بیچتا ہے اس کی اولاد داؤد کلاتھ سینٹر کی مالک بنتی ہے۔۔
اور پھر وہ ہی چھڑے پٹھان جو گاؤں سے بنارس، بلدیہ، ،مکی شاہ روڈ اور پٹھان کالونی
کی ایک دکان میں 6 اور 7 آکر رہتے تھے اور چائے کے ساتھ ایک نان کھا کر دن کا آغاز
کرتے تھے 30 سال بعد بہادرآباد، ڈیفنس، سوسائیٹی، گلبرگ، لطیف آباد یونٹ 6 اور
ہیرآباد کے پوش علاقوں میں منتقل ہوتے ہیں، ان کے بچے روغنی نان اور زیتون سے
ناشتہ کرتے ہیں۔۔۔
اس سب کا راز یہ ہے کہ
پٹھان کسی کام سے شرماتا نہیں
محنت اور معیار (Excellence) اس کی گھٹی میں ہوتی ہے۔
کاروبار میں گاہک اور پارٹنر کو جو زبان دیتا ہے اس سے پھرتا نہیں۔۔
آخری اور اہم بات یہ کہ جو کام کرتا ہے اپنے مزاج کے مطابق کرتا ہے اور پھر اسے
اپنا شوق بنا لیتا ہے