Monday, December 14, 2020

Urdu Islamic Article: Soch, Ameer, Faisla, Ishq e Nabi, Kirdar, Mehmood Ghaznwai

 

Home Page  Urdu Islamic Article  HR Email Ids  Zikar Azkaar

Namaz Quran & Tableegh   School HR ID  Ulema Ikram Bayanat

Listen Quran Majeed   Read Quran Majeed  Social Media  Ramzan

Khulasa Quran Majeed


 

 

ایک مشہور مصنف نے اپنے مطالعے کے کمرے میں قلم اٹھایا اور ایک کاغذ پر لکھا:


٭٭٭ گزشتہ سال میرا آپریشن ہوا اور پتا نکال دیا گیا، بڑھاپے میں ہو نے والے اس آپریشن کی وجہ سے مجھے کئی ہفتے تک بستر کا ہو کر رہنا پڑا۔


٭٭٭ اسی سال ہی میری عمر ساٹھ سال ہوئی اور مجھے اپنی پسندیدہ اور اہم ترین ملازمت سے سبکدوش ہونا پڑا۔ میں نے نشرو اشاعت کے اس ادارے میں اپنی زندگی کے تیس قیمتی سال گزارے تھے۔


٭٭٭ اسی سال ہی مجھے اپنے والد صاحب کی وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا۔ 


٭٭٭ اسی سال ہی میرا بیٹا میڈیکل کے امتحان میں فیل ہو گیا، وجہ اس کی کار کا حادثہ تھا جس میں زخمی ہو کر اُسے کئی ماہ تک پلستر کرا کر گھر میں رہنا پڑا، کار کا تباہ ہوجانا علیحدہ سے نقصان تھا۔


صفحے کے نیچے اس نے لکھا؛ آہ، یہ کیا ہی برا سال تھا!!!


مصنف کی بیوی کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ اُس کا خاوند غمزدہ چہرے کے ساتھ خاموش بیٹھا خلاؤں میں گُھور رہا تھا۔ اُس نے خاوند کی پشت کے پیچھے کھڑے کھڑے ہی کاغذ پر یہ سب کچھ لکھا دیکھ لیا۔ خاوند کو اُس کے حال پر چھوڑ کر خاموشی سے باہر نکل گئی۔ کچھ دیر بعد واپس کمرے میں لوٹی تو اس نے ایک کاغذ تھام رکھا تھا جسے لا کر اُس نے خاموشی سے خاوند کے لکھے کاغذ کے برابر رکھ دیا۔ خاوند نے کاغذ دیکھا تو اس پر لکھا تھا


٭٭٭ گزشتہ سال میں آخر کار مجھے اپنے پتے کے درد سے نجات مل گئی جس سے میں سالوں کرب میں مبتلا رہا۔


٭٭٭ میں اپنی پوری صحت مندی اور سلامتی کے ساتھ ساٹھ سال کا ہو گیا۔ سالوں کی ریاضت کے بعد مجھے اپنی ملازمت سے ریٹائرمنٹ ملی ہے تو میں مکمل یکسوئی اور راحت کے ساتھ اپنا وقت کچھ بہتر لکھنے کیلئے استعمال کر سکوں گا۔


٭٭٭ اسی سال ہی میرے والد صاحب پچاسی سال کی عمر میں بغیر کسی پر بوجھ بنے اور بغیر کسی بڑی تکلیف اور درد کے آرام کے ساتھ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔


٭٭٭ اسی سال اللہ تعالیٰ نے میرے بیٹے کو ایک نئی زندگی عطا فرما دی اور ایسے حادثے میں جس میں فولادی کار تباہ ہو گئی تھی مگر میرا بیٹا کسی معذوری سے بچ کر زندہ و سلامت رہا۔


آخر میں مصنف کی بیوی نے یہ فقرہ لکھ کر تحریر مکمل کی تھی کہ :

"واہ ایسا سال، جسے اللہ نے رحمت بنا کر بھیجا اور بخیرو خوبی گزرا۔"


ملاحظہ کیجیئے: بالکل وہی حواداث اور بالکل وہی احوال لیکن ایک مختلف نقطہ نظر سے۔۔۔۔


بالکل اسی طرح اگر، جو کچھ ہو گزرا ہے، اسے اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے جو اس کے برعکس ہوتا تو، ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شاکر بن جائیں گے۔ 


اگر ہم بظاہرکچھ کھو بیٹھے اسے مثبت زاویے سے دیکھیں تو ہمیں جو کچھ عطا ہوا وہ بہتر نظر آنا شروع ہو جائے گا


اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے


وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ ﴿٧٣﴾


"اور بے شک تیرا رب تو لوگوں پر فضل کرتا ہے لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے"

صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ اوروں کو بھی شریک کریں, یہ صدقہ جاریہ ہوگا, اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو ..


اللہ کریم ہمیں شکر کرنے والا بناے -شکوہ کرنے سے محفوظ رکھے..... 


 جزاک اللہ خیرا کثیرا






‏ایران کا ایک بادشاہ سردیوں کی شام جب اپنے محل میں داخل ھو رھا تھا تو ایک بوڑھے دربان کو دیکھا جو محل کے صدر دروازے پر پُرانی اور باریک وردی میں پہرہ دے رھا تھا۔

بادشاہ نے اُس کے قریب اپنی سواری کو رکوایا اور اُس ضعیف دربان سے پوچھنے لگا:

"سردی نہیں لگ رھی؟"

دربان نے جواب دیا: "

‏بہت لگتی ھے حضور۔مگر کیا کروں، گرم وردی ھے نہیں میرے پاس، اِس لئے برداشت کرنا پڑتا ھے۔"

"میں ابھی محل کے اندر جا کر اپنا ھی کوئی گرم جوڑا بھیجتا ھوں تمہیں۔"

دربان نے خوش ھو کر بادشاہ کو فرشی سلام کہے اور بہت تشکّر کا اظہار کیا،

لیکن بادشاہ جیسے ھی گرم محل میں داخل ھوا، دربان کے

‏ساتھ کیا ھوا وعدہ بھول گیا۔

صبح دروازے پر اُس بوڑے دربان کی اکڑی ھوئی لاش ملی اور قریب ھی مٹّی پر اُس کی یخ بستہ انگلیوں سے لکھی گئی یہ تحریر بھی:

"بادشاہ سلامت،

میں کئی سالوں سے سردیوں میں اِسی نازک وردی میں دربانی کر رھا تھا

مگر کل رات آپ کے گرم لباس کے وعدے نے میری جان نکال

‏دی۔"

سہارے انسان کو کھوکھلا کر دیتے ہیں اسی طرح امیدیں کمزور کر دیتی ہیں اپنی طاقت کے بل بوتے جینا شروع کیجیے






کسی آبادی میں ایک امیر آدمی نے نیا مکان بنایا اور وہاں آکر رہنے لگا یہ امیر آدمی کبھی کسی کی مدد نہیں کرتا تھا...

اسی محلے میں کچھ دکاندار ایسے تھے جو خود امیر نہیں تھے لیکن لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے🤫

ایک قصائی تھا جو اکثر غریبوں کو مفت اور بہت عمدہ گوشت دے دیا کرتا تھا۔

.ایک راشن والا تھا جو ہر مہینہ کچھ گھرانوں کو ان کے گھر تک مفت راشن پہنچا دیتا تھا۔

ایک دودھ والا تھا جو بچوں والے گھروں میں مفت دودھ پہنچاتا۔

لوگ مالدار شخص کو خوب برا کہتے کہ دیکھو اتنا مال ہونے کے باوجود کسی کی مدد نہیں کرتا ہے اور یہ دکاندار بے چارے خود سارا دن محنت کرتے ہیں لیکن غریبوں کا خیال بھی رکھتے ہیں۔

کچھ عرصہ اسی طرح گذر گیا اور سب نے مالدار آدمی سے ناطہ توڑ لیا اور جب اس مالدار کا انتقال ہوا تو محلہ سے کوئی بھی اس کے جنازے میں شریک نہ ہوا.

مالدار کی موت کے اگلے روز ایک ًغریب نے گوشت والے سے مفت گوشت مانگا تو اس نے دینے سے صاف انکار کردیا....

دودھ والے نے مفت دودھ سے صاف انکار کردیا.

راشن والے نے مفت راشن دینے سے صاف انکار کردیا..

پتہ ہے کیوں؟؟؟؟؟؟

ان سب کا ایک ہی جواب تھا، تمہیں یہاں سے کچھ بھی مفت نہیں مل سکتا کیونکہ وہ جو تمہارے پیسے ادا کیا کرتا تھا کل دنیا سے چلا گیا ہے


کبھی کسی کے بارے میں خود سے فیصلہ نہ کرو کیونکہ تم نہیں جانتے کس کا باطن کتنا پاکیزہ ہے





ہندوستان کی ریاست کتیانہ جونا گڑھ میں ایک سنگ تراش رہتا تھا جو حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ  وسلم کا دیوانہ تھا💚❤


درودشریف سے اسے محبت تھی کام کے دوران بھی وہ درودشریف پڑھتا رہتا تھا درودشریف کی مشہور کتاب دلائل الخیرات اسے زبانی یاد تھی❤


اس کا ایک معمول تھا جب بھی کوئی پتھر تراشتا تو اس کا ایک باب پڑھتا. ایک دفعہ حج کے موسم میں قافلے مکہ مکرمہ کی طرف رواں دواں تھے تو اس کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا💞

ایک رات جب سویا تو دل کی آنکھیں کھل گئیں. کیا دیکھتا ہے کہ مدینہ منورہ میں حاضر ہے اور حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ  وسلم بھی جلوہ فرما ہیں💚


سبز گنبد کے انوار سے فضا منور ہو رہی ہے اور مسجد نبوی صلی ﷲ علیہ وآلہ  وسلم کے مینار بھی نور برسا رہے ہیں، مگر ایک مینار کا کنگرہ شکستہ تھا❤


 اتنے میں حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ  وسلم کے لب مبارک کو جنبش ہوئی اور الفاظ یوں ترتیب پائے دیوانے وہ دیکھو، ہماری مسجد کے مینار کا ایک کنگرہ ٹوٹ گیا ہے، تم ہمارے مدینہ منورہ میں آؤ اور اس کنگرے کو ازسرنو بنا دو💞


جب اس سنگ تراش کی آنکھ کھلی تو کانوں میں حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ  وسلم کے ادا کئے ہوئے کلمات گونج رہے تھے💚


مدینے کا بلاوہ آ چکا تھا. مگر سنگ تراش کی آنکھوں میں یہ سوچ کر آنسو آئے کہ میں تو بہت غریب ہوں، میرے پاس مدینہ منورہ جانے کے وسائل کہاں ہیں، لیکن عشق نے ہمت دی، 😥


آرزو نے دلاسہ دیا کہ تمہیں تو خود حضور نبی کریم صلی علیہ وآلہ  وسلم نے بلایا ہے، تم وسائل کی فکر کیوں کرتے ہو. چنانچہ دیوانے نے رخت سفر باندھا. اوزار کا تھیلا کندھے پر چڑھایا اور پور بندر کی بندرگاہ کی طرف چل پڑا


ادھر پور بندر کی بندرگاہ پر سفینہ مدینہ تیار کھڑا تھا مسافر پورے ہو چکے تھے مگر عجیب تماشا تھا کہ کپتان کی کوشش کے باوجود سفینہ چلنے کا نام نہ لیتا تھا💞


 اتنے میں جہاز میں سے کسی کی نظر دور سے جھومتے ہوئے آتے دیوانے پر پڑی لوگ سمجھے کہ شاید ایک مسافر رہ گیا تھا جہاز گہرے پانی میں کھڑا تھا. دیوانے کو لینے کے لیے ایک کشتی آئی💞


دیوانہ اس کشتی کے ذریعے جہاز میں سوار ہو گیا. اس کے سوار ہوتے ہی جہاز جھومتا ہوا مدینے چل پڑا. نہ اس سے کسی نے ٹکٹ مانگا. نہ اس کے پاس تھا. بالآخر دیوانہ مدینہ منورہ پہنچ گیا💚❤


اب دیوانہ جھومتا ہوا روضہ رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ  وسلم کی طرف چلا جا رہا تھا کچھ خدام حرم کی نظر دیوانے پر پڑی تو پکار اٹھے ارے یہ تو وہی ہے جس کا حلیہ ہمیں دکھایا گیا ہے💞


دیوانے نے اشکبار آنکھوں سے سنہری جالیوں پر حاضری دی. پھر باہر آ کر خواب میں جو جگہ دکھائی گئی تھی، اس کو دیکھا تو واقعی ایک کنگرہ شکستہ تھا❤


 اپنی کمر میں رسی بندھوا کر خدام کی مدد سے دیوانہ گھٹنوں کے بل اوپر چڑھا اگر حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کا حکم نہ ہوتا تو عاشق گنبد و مینار پر جانے کی جرأت تو کجا ایسا کرنے کے لیے سوچ بھی نہیں سکتا💞


اور حسب الارشاد کنگرہ ازسرنو بنا دیا واہ رے دیوانے دیوانے کی خوش بختی جب دیوانے کی بے تاب روح نے سبز گنبد کا قرب پایا تو بے قراری اور اضطراب بے حد بڑھ گیا. دیوانہ کام مکمل کر چکا تھا اور اب اسے نیچے آنا تھا، 


لیکن اس کی روح مضطر نے لوٹنے سے انکار کر دیا. جب دیوانے کا وجود نیچے آیا تو دیکھنے والوں کے کلیجے پھٹ گئے کیوں کہ دیوانے کی روح تو کبھی کی سبز گنبد کی رعنائیوں پر نثار ہو چکی تھی❤💚


دیوانہ دم توڑ چکا تھا💞


💞 فِداک اٙبِی و اُمّی و رُوحِی و ماٰلی و نٙفسی و وٙلدیّ  یٙارٙسُول اللّہ ﺻَﻠّﯽ ﺍﻟﻠّٰﮧُ علیہ ﻭَّﺁﻟِﮧ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ 







جاپانی انجینئر یوشینوسان جب مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ اشکوں کی برسات میں ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے رب کا شکر ادا نہیں کر سکتا، جس نے مجھے اسلام جیسی دولت سے نوازا۔ یوشینوسان نے کچھ عرصہ قبل اسلام قبول کیا تھا۔ بعدازاں انہیں سعودی حکومت نے شاہی مہمان کی حیثیت سے عمرے کی دعوت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ نعمت اسلام کے بغیر زندگی بے کیف تھی۔ اب تک وہ شاید خود کشی کر چکے ہوتے۔ مگر اللہ نے انہیں ہدایت سے نوازا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب میرے والدین بھی اسلام کے قریب آچکے ہیں۔ امید ہے وہ بھی جلد کلمہ پڑھ کر دین حنیف کے سایہ عاطفت میں پناہ لیں گے۔ ان شاء اللہ






کردار نسل کا پتہ دیتا ھے 


🌻خلیفہ عبدالملک بن مروان بیت اللہ کا طواف کر رھا تھا- اس کی نظر ایک نوجوان پر پڑی- جس کا چہرہ بہت پُر وقار تھا- مگر وہ لباس سے مسکین لگ رھا تھا- خلیفہ عبدالملک نے پوچھا :-

◾" یہ نوجوان کون ھے"؟ -

🌻تو اسے بتایا گیا کہ اس نوجوان کا نام " سالم " ھے اور یہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیٹا اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا پوتا ھے۔

🌻خلیفہ عبدالملک کو دھچکا لگا۔ اور اُس نے اِس نوجوان کو بُلا بھیجا- خلیفہ عبدالملک نے پوچھا :-

🔹" بیٹا میں تمہارے دادا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بڑا مداح ھوں۔ مجھے تمہاری یہ حالت دیکھ کر بڑا دُکھ ھوا ھے۔ مجھے خوشی ھو گی اگر میں تمھارے کچھ کام آ سکوں۔ تم اپنی ضرورت بیان کرو۔ جو مانگو گے تمہیں دیا جائے گا" -

⬛ نوجوان نےجواب دیا:-

" اے امیر المومنین! میں اس وقت اللہ کے گھر بیتُ اللّٰہ میں ھوں اور مجھے شرم آتی ھے کہ اللہ کے گھر میں بیٹھ کر کسی اور سے کچھ مانگوں " - -

🌻خلیفہ عبدالملک نے اس کے پُرمتانت چہرے پر نظر دوڑائی اور خاموش ھو گیا۔ خلیفہ نے اپنے غلام سے کہا:-

🔸" یہ نوجوان جیسے ھی عبادت سے فارغ ھو کر بیتُ اللّٰہ سے باھر آئے، اسے میرے پاس لے کر آنا " - -

💠 سالم بن عبداللہؓ بن عمرؓ جیسے ھی فارغ ھو کر حرمِ کعبہ سے باھر نکلے تو غلام نے اُن سے کہا :-

◾" امیر المؤمنین نے آپکو یاد کیا ھے" ۔

🔸سالم بن عبداللہؓ خلیفہ کے پاس پہنچے۔ خلیفہ عبدالملک نےکہا:-

🌻" نوجوان! اب تو تم بیتُ اللّٰہ میں نہیں ھو، اب اپنی حاجت بیان کرو۔ میرا دل چاھتا ھے کہ میں تمہاری کچھ مدد کروں" ۔

🔸سالم بن عبداللہؓ نےکہا:-

" اے امیرالمؤمنین! آپ میری کونسی ضرورت پوری کر سکتے ھیں - - - دنیاوی یا آخرت کی" ؟ -

🌻امیرالمؤمنین نےجواب دیا:-

" میری دسترس میں تو دنیاوی مال و متاع 

ھی ھے "۔

🔸 سالم بن عبداللہؓ نے جواب دیا:-

" امیر المؤمنین! دنیا تو میں نے کبھی اللّٰہ سے بھی نہیں مانگی جو اس دنیا کا مالکِ کُل ھے۔ آپ سے کیا مانگوں گا۔ میری ضرورت اور پریشانی تو صرف آخرت کے حوالے سے ھے۔ اگر اس سلسلے میں آپ میری کچھ مدد کر سکتے ھیں تو میں بیان کرتا ھوں" - -

🌻خلیفہ حیران و ششدر ھو کر رہ گیا اور کہنے لگا:-

" نوجوان یہ تُو نہیں، تیرا خون بول رھا ھے " - 

خلیفہ عبدالملک کو حیران اور ششدر چھوڑ کر سالم بن عبداللہؓ علیہ رحمہ وہاں سے نکلے اور حرم سے ملحقہ گلی میں داخل ہوئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

💗 یوں ایک نوجوان نے حاکمِ وقت کو آخرت کی تیاری کا بہت اچھا سبق دے گیا۔








کہتے ہیں محمود غزنوی کا دور تھا

ايک شخص کی طبیعت ناساز ہوئی تو  طبیب کے پاس گیا

اور کہا کہ  مجھے دوائی بنا کے دو طبیب نے کہا کہ دوائی کے لیے جو چیزیں درکار ہیں سب ہیں سواء شہد کے تم اگر شہد کہیں سے لا دو تو میں دوائی تیار کیے دیتا ہوں اتفاق سے موسم شہد کا نہیں تھا ۔۔

اس شخص نے حکیم سے وہ ڈبیا پکڑی اور لوگوں کے دروازے  کھٹکھٹانے لگا 

 مگر ہر جگہ مایوسی ہوئی

جب مسئلہ حل نہ ہوا  تو وہ محمود غزنوی کے دربار میں حاضر ہوا 

کہتے ہیں وہاں ایاز نے دروازہ  کھولا اور دستک دینے والے کی رواداد سنی اس نے وہ چھوٹی سی ڈبیا دی اور کہا کہ مجھے اس میں شہد چاہیے ایاز نے کہا آپ تشریف رکھیے میں  بادشاھ سے پوچھ کے بتاتا ہوں 

ایاز وہ ڈبیا لے کر  بادشاھ کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کی کہ بادشاھ سلامت ایک سائل کو شہد کی ضرورت ہے 

بادشاہ نے وہ ڈبیا لی  اور سائیڈ میں رکھ دی ایاز کو کہا کہ تین کین شہد کے اٹھا کے اس کو دے دیے جائیں 

ایاز نے کہا حضور اس کو تو تھوڑی سی چاہیے 

آپ  تین کین  کیوں دے رہے ہیں 

بادشاھ نے ایاز   سے کہا ایاز 

وہ مزدور آدمی ہے اس نے اپنی حیثیت کے مطابق مانگا ہے 

ہم بادشاہ ہیں  ہم اپنی حیثیت کے مطابق دینگے ۔

مولانا رومی فرماتے ہیں 

آپ اللہ پاک سے اپنی حیثیت کے مطابق مانگیں وہ اپنی شان کے مطابق عطا کریگا شرط یہ ہے کہ

مانگیں تو صحیح





No comments:

Post a Comment