Monday, December 14, 2020

Urdu Islamic Article: Corona, Qadyani, Neelam Ghar - Tariq Aziz, Naaf, Ankh may motiya utarna, Sir may khushki, Mufti Taqi Usmani

 

Home Page  Urdu Islamic Article  HR Email Ids  Zikar Azkaar

Namaz Quran & Tableegh   School HR ID  Ulema Ikram Bayanat

Listen Quran Majeed   Read Quran Majeed  Social Media  Ramzan

Khulasa Quran Majeed


 

کورونا کو مار ڈالو
امام محسن کا پیغام
_______________________________
** سب کے لئے اہم پیغام **
آپ جو گرم پانی پییتے ہیں وہ آپ کے گلے کیلئے اچھا ہے۔ لیکن یہ کورونا وائرس آپ کی ناک کے پاراناسل ہڈیوں کے پیچھے 3 سے 4 دن تک پوشیدہ ہے۔ جو گرم پانی ہم پیتے ہیں وہ وہاں نہیں پہنچتا ہے۔ 4 سے 5 دن کے بعد یہ وائرس جو پاراناسل ہڈیوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا آپ کے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے۔ پھر آپ کو سانس لینے میں دشواری ہو۔
اسی لئے بھاپ لینا بہت ضروری ہے ، جو آپ کے پاراناسل ہڈیوں کے پچھلے حصے تک پہنچ جاتا ہے۔ آپ کو یہ وائرس ناک میں بھاپ سے مارنا ہے۔
50 ° C پر ، یہ وائرس معذور ہوجاتا ہے یعنی مفلوج ہوجاتا ہے۔ 60 ° C پر یہ وائرس اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ انسانی مدافعت کا کوئی بھی نظام اس کے خلاف لڑ سکتا ہے۔ 70 ° C پر یہ وائرس پوری طرح سے مر جاتا ہے۔
بھاپ یہی کام کرتا ہے۔ محکمہ صحت کا پورا محکمہ اس کو جانتا ہے۔ لیکن ہر کوئی اس وبائی بیماری سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ لہذا وہ اس معلومات کو کھلے عام شیئر نہیں کرتے ہیں۔
جو گھر پر رہتا ہے اسے دن میں ایک بار بھاپ لینا چاہئے۔ اگر آپ سبزی خریدنے کے لئے بازار جاتے ہیں تو ، اسے دن میں دو بار لیں۔ جو بھی کچھ لوگوں سے ملتا ہے یا دفتر جاتا ہے اسے دن میں 3 بار بھاپ لینا چاہئے۔
اسے اپنے تمام پیاروں کے آگے بھیج دیں۔
🙏
* بھاپ کا ہفتہ *
ڈاکٹروں کے مطابق ، کوونڈ -19 ناک اور منہ سے بھاپ سانس لے کر ، کورونا وائرس کو ختم کرکے مارا جاسکتا ہے۔ اگر تمام لوگوں نے ایک ہفتہ کے لئے بھاپ ڈرائیو مہم شروع کی تو وبائی بیماری بہت جلد ختم ہوجائے گی۔ تو یہاں ایک تجویز ہے:
* ایک ہفتہ کے لئے 8دسمبر سے سے 15دسمبر تک صبح اور شام ، ہر بار صرف 5 منٹ تک بھاپ میں سانس لینا شروع کریں۔ اگر سب ایک ہفتہ اس طرز عمل کو اپنائیں گے تو مہلک کوویڈ -19 مٹ جائے گا۔
اس مشق کے بھی کوئی مضر اثرات نہیں ہیں۔
تو براہ کرم یہ پیغام اپنے تمام رشتہ داروں ، دوستوں اور پڑوسیوں کو بھیجیں ، تاکہ ہم سب مل کر اس کورونا وائرس کو مار سکیں اور اس خوبصورت دنیا میں آزادانہ طور پر چل سکتے ہیں۔
 
 
 
 
ﺍﯾﮏ ﺩﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﻟﮍﮐﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﮯﻗﺮﯾﺐ
ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﮔﺰﺭﺍ۔ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯﺍﺳﮯ ﺳﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ
ﻟﺌﮯﻣﺮﺯﺍ ﮐﻮ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ۔ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺍﻭﮐﺎﮌﮦ
ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﻨﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺎ ﮨﮯ۔ﺍﺱ ﻭﻗﺖ
ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﭘﻮﺭﺍ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﺘﯽ
ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻟﮍﮐﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ
ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﺘﮏ ﻋﺰﺕ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻭﮐﺎﮌﮦ
ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﻠﺲ ﺍﺣﺮﺍﺭ ﻻﮨﻮﺭ ﮐﮯ ﺩﻓﺘﺮ ﮐﻮ
ﺧﻂ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﯼ ﺻﻮﺭﺗﺤﺎﻝ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ
ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺪﺩﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻓﺘﺮ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺠﺎ
ﺟﺎﺋﮯ۔ﺟﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ۔
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻄﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺷﺎﮦ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ
ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﯿﺎﺕ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ۔ ﺍٓﭖ
ﺍﻭﮐﺎﮌﮦ ﭼﻠﮯﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯿﺲ ﮐﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﺮﯾﮟ ۔
ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻭﮐﺎﮌﮦ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ۔ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ
ﮐﯽ۔ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﯿﺲ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﯿﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﻭﮐﯿﻞ ﮐﯽ
ﺧﺪﻣﺎﺕ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﮟ۔ ﺍﺳﮯ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ﺣﻮﺍﻟﮯ
ﺩﮐﮭﺎﺋﮯﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﺮﺯﺍ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ
ﮐﯿﺎ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﯼ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ
ﮐﺮﻧﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﻥ ﮐﻮﻥ ﺳﮯ ﺩﻻﺋﻞ ﺩﯾﻨﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﻘﺮﺭﮦ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮭﭽﺎﮐﮭﭻ ﺑﮭﺮ
ﮔﺌﯽ۔ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ﻣﻘﺪﻣﮯ ﮐﯽ ﮐﺎﺭﻭﺍﺋﯽ ﮐﻮ ﺳﻨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ
ﺗﮭﮯ۔ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺣﯿﺎﺕ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻭﮐﯿﻞ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺗﯿﺎﺭﯼ
ﮐﺮﻭﺍﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﻭﮦ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ
ﻭﮐﯿﻞ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﻟﮯ ﮔﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﯽ
ﺑﺘﺎﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺳﺐ ﯾﻮﻧﮩﯽ
ﺭﮦ ﮔﺌﯽ۔
ﻭﮐﯿﻞ ﺍﺱ ﻃﺮﻑ ﺍٓﯾﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻋﺪﺍﻟﺖ
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻟﻤﺒﯽ
ﭼﻮﮌﯼ ﺑﺤﺚ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺩﻻﺋﻞ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﺍٓﭖ
ﺻﺮﻑ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ! ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺮﺯﺍ ﮐﻮ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ
ﮔﺎﻟﯽ ﺩﯼ ﮨﮯ۔ ﺗﺎﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺳﮑﮯ ﮐﮧ
ﻭﮦ ﮔﺎﻟﯽ ﮨﮯ ﺑﮭﯽ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ
ﺳﮑﺘﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ
ﻣﺠﺴﭩﺮﯾﭧ ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﺭﻭﻣﺎﻝ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ
ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﺧﻮﺏ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ۔ ﺍٓﺧﺮ ﻣﺮﺯﺍﺋﯽ ﻧﮯ
ﮐﮩﺎ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﻮﻧﺴﯽ ﮔﺎﻟﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ
ﮔﺎﻟﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﺗﮭﯽ ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ
ﻧﮩﯿﮟ ، ﻣﯿﮟ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﺍٓﭖ ﺳﻨﺘﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ، ﺟﺐ ﻭﮦ
ﮔﺎﻟﯽ ﺍٓﺋﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺩﯾﮟ :
کیا اسنے کہا تھا کہ تیرے مرزے دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺳﺎﻧﺲ
ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺯﺍﺋﯽ ﮐﻮ ﮐﺌﯽ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ، ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﮐﯿﺎ ﺍﻥ ﮔﺎﻟﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﮔﺎﻟﯽ ﺍٓﺋﯽ ھﮯ، ﺟﻮ ﺍﻥ ﻟﮍﮐﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﺎ :
ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﻭﺭ
ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺳﻨﻮ، ﺍﺱ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﯼ 51 ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ
ﺩﯾﮟ۔ ﻣﺠﺴﭩﺮﯾﭧ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺩﺑﯽ ﺩﺑﯽ ﮨﻨﺴﯽ
ﮨﻨﺲ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﺲ ﻣﺮﺯﺍﺋﯽ ﺳﺎﮐﺖ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ
ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﻓﻖ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺏ ﭘﮭﺮ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ۔ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﮔﺎﻟﯽ ﺍٓﺋﯽ ھﮯ۔؟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ
ﻧﮩﯿﮟ۔
ﺍﺏ ﻭﮐﯿﻞ ﻧﮯ ﺟﺞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺳﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻞ ﮐﯽ
ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﮐﮯ ﺁﺅﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ
ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ھﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﻞ ﺗﮏ ﻭﮦ ﮔﺎﻟﯽ ﯾﺎﺩ ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ۔
ﺟﺞ ﻧﮯ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺩﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺩﮮ ﺩﯼ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺩﻥ ﺟﺐ ﻭﮐﯿﻞ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺠﺴﭩﺮﯾﭧ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ
ﺑﺘﺎﯾﺎ : ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﻞ ﮨﯽ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﺩﮮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﯿﺲ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
(اب کیا مجھے بتانا پڑے گا کہ اسے فارورڈ کریں ورنہ صبح اٹھو گے تو اتنے لاکھ کا نقصان ھو جائیگا۔ کوئی کام عشق رسول (ص) میں فی سبیل اللہ بھی کر لیا کریں)۔
 
 
 
 
کار کا انعام، حافظ نسیم الدین
اور نیلام گھر کا پاکستان !
یہ 1985 کے اوائل کی بات ہے، ٹی وی کا صرف ایک چینل تھا اور اس پہ ہفتہ وار ایک ہی معلوماتی اور تفریحی شو 'نیلام گھر' ہوا کرتا تھا، جو ہر گھر دیکھا جانے والا ایک مقبول شو تھا۔ معلوماتی مقابلے جیتنے والوں کو اکثر چھوٹے بڑے انعامات ملتے تھے، لیکن عوامی اشتیاق اس وقت بہت بڑھا جب پہلی بار گاڑی کے انعام کا اعلان ہوا۔ اور اس بڑے انعام کے لیے ایک مشکل شرط رکھی گئی کہ جیتنے والے کو لگاتار سات ہفتے ناقابل شکست رہنا پڑے گا۔ کئی مہینوں تک اس کڑے امتحان میں بہت سے قابل شرکاء نے قسمت آزمائی کی، لیکن کوئی بھی دو ہفتے سے زیادہ مسلسل جیت نہیں سکا۔
حافظ نسیم الدین، ایک نابینا نوجوان تھا۔ ان کے والد کی کراچی کے علاقے کورنگی میں کتابوں کی دکان تھی ۔ بصارت سے محرومی کی وجہ سے وہ سکول نہ جا سکے، اور ان کا بچپن اپنے والد کے ساتھ اسی دکان میں گزرا ۔ ان کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے ان کے والد نے ان کو نہ صرف قرآن کا حفظ کروایا، بلکہ سارا دن دکان میں موجود مختلف کتابیں بھی پڑھ کر سنایا کرتے، جس وجہ سے ان کا معلومات عامہ پر بہت عبور تھا، اور اسی شوق کی وجہ سے انہیں نیلام گھر میں شرکت کا موقع ملا۔
حافظ نسیم کی غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے انہوں نے نیلام گھر کے پہلے ہی پروگرام میں کامیابی حاصل کی اور بڑھتے چلے گئے۔ ان کے مد مقابل عموما تجربہ کار اور اعلی تعلیم یافتہ ہوتے تھے، لیکن نسیم الدین کا حافظہ کمال کا تھا اور بہت کم غلطیاں کیا کرتے تھے، اور یہی وجہ تھی کہ وہ لگاتار چھ پروگرام جیت گئے۔ گاڑی کے انعام کے لئے ساتویں پروگرام تک پہنچتے پہنچتے وہ بھرپور عوامی توجہ، دلچسپی اور داد کا مرکز بن چکے تھے۔ ان کی جیت کے لیے چھوٹے بڑے سب، پر خلوص دعائیں کر رہے تھے۔ اس فائنل مقابلے میں ان کا کوئی جواب بھی غلط نہیں تھا، اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ مخالف کو آخری سوال کا جواب نہیں آیا تھا اور اور چند لمحے خاموشی کے بعد اس کا جواب بھی حافظ صاحب نے ہی دے کر مقابلہ جیت لیا۔ اس دن نسیم الدین کیلئے ہر کوئی خوش تھا، نیلام گھر کا پورا ہال کھڑے ہو کر کئی منٹ تک پرمسرت تالیاں بجاتا رہا، ٹی وی پر لاکھوں دیکھنے والے، اور سب سے بڑھ کر طارق عزیز بہت خوش تھے، جنہوں نےاس دن ملکی تاریخ میں ذہانت پر دیا جانے والا سب سے بڑا انعام، اسے گاڑی کی چابی کی صورت میں پیش کیا۔
اس تحریر کا مقصد ایک پرانی یاد کو تازہ کرنا اور اس کو موجودہ دور اور اقدار کے تقابل میں جانچنا ہے۔ تقریبا 35 سال گزر گئے، وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ آجکا میڈیا اور اس میں دکھائےجانے والے پروگرام بھی نیلام گھر جیسے نہیں رہے، درجنوں چینلز کے گیم شوز میں گاڑیاں، سونا اور کروڈوں کے انعامات بانٹے جاتے ہیں، ڈانس کر کے بھی بائیک مل جاتی ہے، لیکن نیلام گھر والا مزہ اور ماحول نہیں بن پاتا، ان شوز میں کمپیرنگ کے نام پر ہر قسم کے بھانڈ اچھل کود کرتے ہیں، لیکن کوئی بھی طارق عزیز جیسا نہیں، جن کے پاس ہر کسی کے لیئے مزاح، مثبت تفریح، سماجی اصلاح اور معلومات دینے کا ایک بےمثال فن اور پروقار جذبہ تھا۔ آج ہر کوئی اپنے مفاد میں مگن ہے، کسی ہم وطن کی کامیابی کی دعائیں تو دور، اب تو کسی کے پاس کسی کیلئیے بے غرض خوش ہونے کا بھی وقت نہیں ہے۔ نیلام گھر کا پاکستان بدل چکا ہے ، میڈیا کا کردار، ہماری معاشرتی اقدار اور ہمارے لوگوں کا مزاج بھی بدل گیا ہے۔ ہم نے بحیثیت ایک معاشرہ اور قوم کیا کھویا اور کیا پایا ۔۔ یہ فیصلہ آپ خود کریں۔  
 
 
 
 
: ناف (دھن) پر دلچسپ معلومات :
صدقہ جاریہ سمجھ کر شیئیر کریں
ناف اللہ سبحان و تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص تحفہ ھے ۔ 62 سال کی عمر کے ایک بوڑھے آدمی کو لیفٹ آنکھ سے صحیح نظر نہیں آ رہا تھا - خاص طور پر رات کو تو اور نظر خراب ھو جاتی تھی ۔
ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ آپ کی آنکھیں تو ٹھیک ہیں -
بس ایک پرابلم ھے - کہ جن رگوں سے آنکھوں کو خون فراہم ھوتا ھے - وہ سوکھ گئی ہیں ۔
سائنس کے مطابق سب سے پہلے اللہ کی تخلیق انسان میں ناف بنتی ھے - جو پھر ایک کارڈ کے ذریعے ماں سے جڑ جاتی ھے ۔ اور اس ہی خاص تحفے سے جو باظاہر ایک چھوٹی سی چیز ھے - ایک پورا انسان فارم ھو جاتا ھے ۔ سبحان اللہ
ناف کا سوراخ ایک حیران کن چیز ھے : - ☆
سائنس کے مطابق ایک انسان کے مرنے کے تین گھنٹے بعد تک ناف کا یہ حصہ گرم رہتا ھے - وجہ اس کی یہ بتائی جاتی ھے - کہ یہاں سے بچے کو ماں کے ذریعے خوراک ملتی ھے ۔ بچہ پوری طرح سے 270 دن میں فارم ھو جاتا ھے - یعنی 9 مہینے میں ۔
یہ وجہ ھے - کہ ہماری تمام رگیں اس مقام سے جڑی ھوتی ہیں ۔ اس کی اپنی ایک خود کی زندگی ھوتی ھے ۔
پیچوٹی ناف کے اس سوراخ کے پیچھے موجود ھوتی ھے - جہاں تقریبا 72،000 رگیں موجود ھوتی ہیں ۔ ہمارے جسم وجود رگیں - اگر پھیلائی جائیں تو زمین کے گرد دو بار گھمائی جا سکتی ہیں ۔
علاج : - ☆
آنکھ اگر سوکھ جائے - صحیح نظر نا آتا ھو -
پتہ صحیح کام نا کر رہا ھو - پاؤں یا ھونٹ پھٹ جاتے ھوں - چہرے کو چمک دار بنانے کے لیے - بال چمکانے کے لیے - گھٹنوں کے درد - سستی - جوڑوں میں درد، سکن کا سوکھ جانا -
طریقہ علاج : - ☆
آنکھوں کے سوکھ جانا - صحیح نظر نہیں آنا - گلونگ کھال اور بال کے لیے روز رات کو سونے سے پہلے تین قطرے خالص دیسی گھی کے یا ناریل کے تیل کے ناف کے سوراخ میں ٹپکائیں اور تقریبا ڈیرھ انچ سوراخ کے ارد گرد لگائیں ۔
گھٹنوں کی تکلیف دور کرنے کے لیے تین قطرے ارنڈی کے تیل کے تین قطرے سوراخ میں ٹپکائیں اور ارد گرد لگائیں جیسے اوپر بتایا ھے ۔
کپکپی اور سستی دور کرنے کے لیے اور جوڑوں کے درد میں افاقہ کے لیے اور سکن کے سوکھ جانے کو دور کرنے کے لیے سرسوں کے تیل کے تین قطرے اوپر بتائے گئے طریقے کے مطابق استعمال کریں -
ناف کے سوراخ میں تیل کیوں ڈالا جائے - ☆
ناف کے سوراخ میں اللہ نے یہ خاصیت رکھی ھے -
کہ جو رگیں جسم میں اگر کہیں سوکھ گئی ہیں -
تو ناف کے ذریعے ان تک تیل پہنچایا جا سکتا ھے ۔
جس سے وہ دوبارہ کھل جاتی ہیں -
بچے کے پیٹ میں اگر درد ھو تو ہینگ پانی اور تیل میں مکس کر کے ناف کے ارد گرد لگائیں چند ہی منٹوں میں ان شاءاللہ اللہ کے کرم سے آرام آ جائے گا ۔
#تناو کی کمی کے لئے ناف میں : - ☆
آب پیاز بیس گرام -
روغن ذیتون آدھ پاو -
میں جلا کے لگانے سے یہ مسلہ حل ھو جاتا ھے -
ناف کے اندر اور باہر مالش کرنے سے -
#برائے کان کے لئے : - ☆
کانوں میں سائیں سائیں کی آواز آتی ھو -
تو سرسوں کے تیل پچاس گرام میں تخم ہرمل دو عدد پیس کر ناف میں پندرہ دن لگانے سے سائیں سائیں کی آواز آنا ختم ھو جاتی ھے ۔
قوت سماعت کے لئے : - ☆
قوت سماعت کی کمی دور کرنے کے لئے -
سرسوں کے پچاس گرام تیل میں دار چینی پیسیں -
بیس گرام جلا کے وہ تیل ناف میں لگانے سے قوت سماعت میں بہتری آتی ھے ۔
پیٹ کا پھولنا : - ☆
پچاس گرام سرسوں کے تیل میں بیس گرام کلونجی کا تیل ملا کے ہلکا گرم کر کے ٹھنڈا کر کے لگانے سے دو ماہ میں پیٹ کنٹرول ھو جاتا ھے ☆
بڑا قبض کشا نسخہ ھے -
اگر نہانے کے بعد روغن زیتون ناف میں لگا دیں -
اور مزے کی بات یہ کہ الرجی اور زکام نہیں ھوتا -
(ذرا غور کیجیے جو علم آپ تک پہنچا وہ امانت ھے ان لوگوں کی جو لاعلم ہیں لہذا یہ امانت اس کے حقدار تک سبھی اپنا اپنا فرض ادا کریں اچھی اچھی معلوماتی و دینی پوسٹس کو ذیادہ سے
زیادہ شیئر کیا کریں.......
 
 
 
 
 
آنکھ میں موتیا اتر آیا..!!
رنگ خوشبو گلاب دے مجھ کو
اس دعا میں عجب اثر آیا
میں نے پھولوں کی آرزو کی تھی
آنکھ میں موتیا اتر آیا...!!
اطہر شاہ خان جیدی
سے معزرت مجھے ان کے اس خیال سے اتفاق نہیں ہے بلکہ
میں اپنے خالق و مالک
اللہ رب العالمین کا بیحد شکر گزار ہوں
اس نے ہر دعا قبول کی ہے
رنگ، خوشبو، گلاب بھی دیا اور
آنکھوں کی عظیم ترین نعمت کو پھر سے بحال کیا
گزشتہ پانچ سال سے
آنکھ میں ہلکا ہلکا دھندلا پن محسوس ہوتا تھا
اپنی سست مزاجی کی وجہ سے
چشمے کی دکان سے چشمہ کا نمبر چینج کرتا رہا
لیکن آنکھ کا دھندلا پن بڑھتا ہی رہا
بالآخر ایک روز شاپ کے پاس آنکھ کے ماہر ڈاکٹر کو دکھایا
اور انہوں نے دو سیکنڈ دیکھتے ہی کہہ دیا
موتیا ہے..!
سچ عرض کرتا ہوں
میں خوفزدہ ہوگیا اور اگلے ہی روز آنکھوں کے ہسپتال پہنچ گیا وہاں کئی مشینوں پر چیک اپ کے بعد کنفرم ہوگیا کہ
سفید موتیا ہے جسے Cataract کہتے ہیں
ہر آنکھ میں ایک لینس عدسہ ہوتا ہے
جب تک وہ صاف شفاف رہے نظر آنے والی ہر تصویر کا عکس دماغ تک ٹھیک ٹھیک پہنچتا ہے
اور اگر کسی وجہ سے آنکھ کا یہ عدسہ لینس خراب ہوجائے تو دماغ تک تصویر بھی دھندلی پہنچتی ہے
اس کی مثال یوں سمجھ لیں جیسے
نظر کے چشمے پر کوئی چکنائی لگ جائے تو صاف دکھائی نہیں دیتا
اسے سفید موتیا کیوں کہتے ہیں..؟
آنکھ کے اندر کا یہ لینس خراب ہوجائے تو
اس کی شکل سفید موتیا کے پھول جیسی نظر آتی ہے
کن علامات سے پتہ چل سکتا ہے کہ
موتیا آگیا ہے..؟
. سب سے پہلے تو دور کی نظر کمزور ہونے لگتی ہے
. البتہ قریب کی نظر بہت عرصہ ٹھیک رہتی ہے
. متاثرہ آنکھ میں ہلکا ہلکا سا درد رہتا ہے
. کسی حد تک دباؤ محسوس ہوتا ہے جیسے بلڈ پریشر بڑھ گیا ہو
. ایک بلب، یا چاند دیکھنے میں دو، تین یا پانچ تک نظر آتے ہیں
مجھے تو روشن چاند ایک کے بجائے پانچ چاند برابر برابر نظر آتے تھے
. رات کے وقت ڈرائیونگ میں دشواری
. پانی بہنے لگتا ہے
. چیزوں پر دھبے نظر آتے ہیں۔
. نزدیک کی چیزوں پر نظر مرکوز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
. چیزیں پھیلی پھیلی نظر آ تی ہیں اور بہت زیادہ چمک محسوس ہوتی ہے
. چہروں کو پہچاننا مشکل ہوسکتا ہے
. رنگ پہچاننا دشوار ہو سکتا ہے
. روشنی کے آس پاس ہالے
.
آئیے کچھ اسباب کے بارے میں جانتے ہیں
. وٹامن سی کی کمی
. شوگر
. کچھ بچے پیدائشی طور پر موتیا کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں
. کوئی چوٹ ، یا حادثہ بھی اس کا سبب بنتا ہے
علاج
موتیا سے متاثر ہر مریض کی طرح میں نے
بہت سارے متبادل علاج تلاش کئے
مگر
سرجری کے علاوہ کوئی کامیاب نہیں ہو سکا
آپریشن کے لئے بہترین ہسپتال کی تلاش
پی، او، بی ہسپتال
POB
Eye Hospital
Prevention of Blindness
Gulistan Johar Karachi
تک لے گئی
جہاں صفائی ستھرائی ہائی جین
معیاری مشینری
اور ماہر ترین آنکھوں کے سرجن کی موجودگی اسے ملک کی بہترین علاج گاہ بناتے ہیں
یہاں پچانوے فیصد مستحق مریضوں کا علاج مفت ہوتا ہے
لیکن جو لوگ اخراجات برداشت کر سکتے ہیں وہ
انتہائی مناسب خرچ میں شہر کے معروف ہسپتالوں سے تقریباً آدھی قیمت میں آپریشن کے زریعے نیا لینس لگوا سکتے ہیں
سب سے پہلے ایک دن آپ کا طبی معائنہ ہوتا ہے
اور پھر دو چار دن بعد کی تاریخ دے دی جاتی ہے
مجھے بھی مقررہ دن صبح آٹھ بجے بلایا گیا
اس روز مزید کچھ ٹیسٹ کئے گئے جن میں شگر اور بلڈ پریشر کے ساتھ آنکھوں کے ٹیسٹ شامل ہیں
اور پھر آنکھ میں دوا ڈال کر پندرہ بیس مریضوں کے ساتھ ایک انتظار گاہ میں بٹھا دیا گیا
انتظار گاہ کا ماحول اور جگہ کی کشادگی بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مجھ جیسے مریض جو کم آکسیجن والی گھٹن زدہ جگہ پر پریشان ہوجاتے ہیں
بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے
آپریشن سے زرا پہلے کسی پیچیدگی سے بچایا جاسکے
تقریباً دو گھنٹے انتظار کے اور ہر دس پندرہ منٹ بعد آنکھ میں دوا ڈالنے کے بعد
ہمیں اندر لے جایا گیا جہاں ایک ماہر ٹیکنیشن نے
آنکھ کو سن کرنے کا انجکشن لگایا اور آنکھ پر ہتھیلی کا دباؤ ڈال کر بیٹھنے کی ھدایت کی
مزید تیس منٹ بعد سرجری کی ٹیبل پر لٹا دیا گیا
آنکھ کی پلکوں کو اوپر نیچے ٹیپ لگا کر روکا گیا
اور پھر
فائنل میچ شروع ہوا
مہربان سرجن ڈاکٹر ذکی صاحب نے اپنی مہارت کا مظاہرہ شروع کیا جو بمشکل چھ سات منٹ جاری رہا
اور بس.....!
ڈاکٹر صاحب نے آرام سے اٹھنے اور جانے کی اجازت دی
باہر موجود مستعد اسٹاف نے آنکھ پر پٹی لگا کر چند ھدایات دیں
ان ھدایات کے ساتھ ساتھ یہ بہت اہم ہیں
. دو گھنٹے بعد یہ پٹی اتار دیں
. دو آئی ڈراپس ہر ایک گھنٹہ بعد ایک ایک قطرہ آنکھ میں ڈالیں
آنکھ پر کسی قسم کا دباؤ نہ ڈالیں
. پہلا ہفتہ چھینک، کھانسی، الٹی کو روکنے کی کوشش کیجئے
. چلتے وقت بہت محتاط رہیں گھر اور باہر اوپر نیچے راستوں پر چلتے وقت احتیاط رکھیے، ٹھوکر سے بچیں، دروازے، میز، کسی چیز سے ٹکر نہ ہو
. مٹی، دھواں اور گرم جگہوں سے دور رہیں
.
. پانچ دن اینٹی بائیوٹک اور درد کم کرنے کی دوا کھائیں
. چوبیس گھنٹے تک موبائل، ٹی وی، پڑھنا بند
. دو دن تک ڈرائیونگ نہ کریں
. آنکھ کو محفوظ رکھنے والا پلاسٹک کا آئی کور لگا کر سونا بہتر ہے یہ کور آسانی سے دستیاب نہیں مگر تلاش کرنے سے مل ہی جائے گا
. دو ہفتے آنکھ کو کھجانا نہیں، خارش نہیں کرنی
. پانی نہیں ڈالنا
. نہا سکتے لیکن سر اور چہرے پر پانی نہ ڈالیں
کوئی میک اپ نہ کریں
. سرمہ نہ لگائیں
.
. پندرہ دن صابن شیمپو ہیئر کلر استعمال نہ کریں
. دو ہفتے جھک کر رکوع اور سجدہ نہ کیا جائے اشارے سے نماز ادا کریں
. دو ہفتے تک کوئی وزن نہیں اٹھانا بچوں کو گود میں نہ اٹھائیں
. جھک کر فرش سے کوئی چیز نہ اٹھائیں
. جس آنکھ کا آپریشن ہوا ہے اس طرف کروٹ لے کر نہ سوئیں
. آپریشن کے دوسرے دن ڈاکٹر سے معائنہ بہت ضروری بلکہ لازمی ہے
پھر ہر ہفتے ایک ماہ تک چیک کرائیے
نوٹ
ڈاکٹر حضرات اور میڈیکل عملہ احتیاطی تدابیر کے بارے میں تفصیل سے نہ بھی بتائیں تب بھی
آپ پہلے ہفتے انتہائی محتاط رہیں
کم از کم دو ہفتے بعد چہرہ دھونا، سر پر پانی ڈالنا شروع کریں
آنکھ سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں
اس کی حفاظت پر ممکن طریقے سے کرنا
آپ کے لازم ہے
ایک آنکھ کے آپریشن کے مکمل اخراجات
آٹھ ہزار
بیس ہزار
تیس ہزار
تین پیکیج ہیں
اس میں لینس کی کوالٹی اور برانڈ کا فرق ہے
میں نے ایلکون کمپنی کا IQ لینس لگوایا
اس کا خرچ تیس ہزار روپے آیا اور
کسی پرائیویٹ کلینک میں یہی لینس پینسٹھ ہزار کا لگایا جارہا ہے
ایک بات یاد رہے
مستحق افراد کا ایک روپیہ خرچ نہیں ہوتا سو فیصد مفت علاج ہوتا ہے
پچاس سال اوپر کے افراد
ہر چھ ماہ بعد آنکھوں کے ہسپتال سے معائنہ ضرور کرائیں
اپنی مرضی سے چشمے کا نمبر تبدیل نہ کریں
آخری بات
آنکھ کی سرجری میں کامیابی کا چانس پچانوے فیصد سے زیادہ ہے
لینس اور سرجری کے آلات میں ناقابل یقین ترقی ہوئی ہے
آپریشن سے خوفزدہ ہوکر تاخیر نہ کریں
تاخیر سے نقصان کا اندیشہ ہے
اللہ کریم
آپ کو
اہل خانہ و احباب کو
آنکھوں کی عظیم ترین نعمت
کے ساتھ ساتھ دنیا و آخرت کی ہر نعمت
ہر آسانی عطا فرمائے پھر آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے
نیکی اور بھلائی کی ہر بات صدقہ جاریہ ہے
اور اسے جاری رہنا چاہیے
جزاکم اللہ خیرا کثیراً
جاوید اختر آرائیں
٢٣ اکتوبر ٢٠١٩
3
comments
 
 
 
*کاش میں سانسیں بھی خرید سکتا*
25 اکتوبر 2020ء کا دن تھا۔ ڈاکٹر نے مریض کا بازو سیدھا کیا اور مایوسی سے سر ہلا دیا‘ بیٹے نے آہستہ آواز میں پوچھا ”کیا کوئی چانس نہیں“ ڈاکٹر نے جواب دیا ”سر اب نہیں‘ ہمیں وینٹی لیٹر بند کرنا ہوگا“ بیٹے نے سر نیچے کیا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ مریض 2014ء سے کومے میں تھا۔
مریض کی کہانی 1940ء میں شروع ہوئی تھی‘ اس کے والد نے جنوبی کوریا کے شہر ٹائیگو میں چھوٹی سی کمپنی بنائی تھی۔ کوریائی زبان میں تین ستاروں کو ”سام سنگ“ کہتے ہیں‘ قدیم روایات کے مطابق اکٹھے طلوع ہونے والے تین ستارے کبھی غروب نہیں ہوتے۔
یہ لوگ شروع میں فروٹ اور فروزن فش ایکسپورٹ کرتے تھے‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد تعمیر نو شروع ہوئی تو سام سنگ کمپنی خوراک سے کنسٹرکش انڈسٹری میں آگئی اور اس نے دھڑا دھڑ عمارتیں‘ پل اور سڑکیں بنانا شروع کر دیں‘ لی بیونگ چل نے ان ٹھیکوں میں کروڑوں روپے کمائے‘ یہ سمجھ دار انسان تھے‘ یہ جانتے تھے انسان کو اپنے سارے انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہییں چناں چہ یہ کنسٹرکشن کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل‘ فیشن اور الیکٹرانکس کے کاروبار میں بھی آ گئے‘ گروپ بڑا ہوتا چلا گیا۔
لی کن ہی اپنے والد لی بیونگ چل کے تیسرے بیٹے تھے‘ یہ کند ذہن اور لاابالی مزاج کے لڑکے تھے‘ پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا لیکن والد انہیں ہرحال میں پڑھانا چاہتے تھے‘ لی کن ہی نے وسیڈا یونیورسٹی سے اکنامکس کی ڈگری لی اور بزنس کی اعلیٰ تعلیم کے لیے جارج واشنگٹن یونیورسٹی امریکا میں داخلہ لے لیا‘ جارج واشنگٹن کا دورلی کی زندگی کا فضول اور ناقابل بیان زمانہ تھا‘ یہ اپنی ڈگری تک مکمل نہ کر سکے‘ والد نے انہیں واپس بلایا اور کنسٹرکشن اور ٹریڈنگ کے کام میں لگا دیا‘ یہ گرتے پڑتے یہ کام کرتے رہے‘ والد ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے‘ ان کا خیال تھا یہ پوری کمپنی کو ڈبو دیں گے‘ والد 1987ء میں انتقال کر گئے اور لی کو مجبوراً کمپنی سنبھالنا پڑ گئی‘ کمپنی اس وقت 34 مختلف شعبوں میں کام کر رہی تھی۔
لی کے لیے اگلے پانچ سال بہت مشکل تھے‘ یہ ایک دفتر سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کی طرف دوڑتے رہتے تھے یہاں تک کہ 1993ء آ گیا‘ لی کو اچانک محسوس ہوا ہم بہت زیادہ مصنوعات بنا رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم کوالٹی میں مار کھا رہے ہیں جب کہ ہمارے حریف صرف ایک ایک کام کرتے ہیں اور ان کی مصنوعات کی کوالٹی سام سنگ سے بہت بہتر ہے‘ لی کو محسوس ہوا ہم نے اگر اپنے حریفوں کو کوالٹی میں مار نہ دی تو ہم پٹ جائیں گے ۔
اس نے ایک دن اپنے تمام ایگزیکٹوز کو جمع کیا اور ان سے کہا ”ہم آج سے اپنی بیوی اور بچوں کے علاوہ سب کچھ بدل رہے ہیں‘ تم لوگ نقصان کی پرواہ نہ کرو‘ ہم اگر فٹ پاتھ پر بھی آ جائیں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں‘ آپ بس صرف اور صرف کوالٹی پر توجہ دیں‘ ہماری پراڈکٹس ہر صورت مارکیٹ میں نمبر ون ہونی چاہیئے‘ سام سنگ کے لوگو کو گارنٹی ہونا چاہیے“ یہ میجر شفٹنگ تھی‘ کمپنی کی انتظامیہ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ ڈٹے رہے۔
وہ ہر قسم کا نقصان برداشت کرنے کے لیے بھی تیار تھے‘ ایگزیکٹوز نے ہار مان لی اور تعداد کی بجائے معیار پر چلے گئے‘ شروع کے سال بہت مشکل تھے‘ کمپنی کے گودام کباڑ خانہ بن گئے‘ مارکیٹ میں سام سنگ کا انبار لگ گیا‘ لوگ اس کے سائن بورڈز کے قریب سے بھی نہیں گزرتے تھے‘ ڈسٹری بیوٹرز تک بھاگ گئے مگر یہ پیچھے نہ ہٹے‘ 1995ء میں ایک طرف کمپنی کا بیڑہ غرق ہو گیا اور دوسری طرف لی کن ہی پر جنوبی کوریا کے صدر کو 30 ملین ڈالر رشوت دینے کا الزام لگ گیا۔
یہ تفتیش‘ انکوائریاں اور عدالتی مقدمات کا سامنا بھی کرنے لگے‘ وہ دور مشکل تھا مگر اس دور نے انہیں پگھلا کر کندن بنا دیا‘ یہ نکھرتے چلے گئے‘ سام سنگ اس دوران ٹیلی ویژن کی انڈسٹری میں آگیااور اس کا ٹی وی دیکھتے ہی دیکھتے مارکیٹ لیڈر بن گیا اور یہ چند ماہ میں پیداوار‘ معیار اور فروخت میں سونی کو بہت پیچھے چھوڑ گیا یوں کمپنی 2006ء میں اعلیٰ معیار کا گارنٹی کارڈ بن گئی‘ یہ ہر گھر تک پہنچ گئی‘ لی کن ہی نے 1998ء میں سمارٹ فونز کا یونٹ بھی لگا لیا۔
یہ یونٹ گلیکسی کہلاتا تھا‘ گلیکسی مارکیٹ میں آ یا اور اس نے کشتے کے پشتے لگا دیے‘ یہ بھی دیکھتے ہی دیکھتے عالمی برینڈ بن گیا جس کے بعد سام سنگ 350 بلین ڈالر کی کمپنی بن گئی‘ لی کن ہی کو فوربس نے 2014ء میں دنیا کے100 بااثر ترین لوگوں کی لسٹ میں بھی شامل کر لیااور یہ کوریا کا امیر ترین شخص بھی بن گیا‘ یہ ریاست سے بھی امیر ہو گیا۔لی کن ہی کی کامیابی کا پہلا ستون ٹیکنالوجی تھی‘سام سنگ کا آر اینڈ ڈی بہت مضبوط ہے۔
اس نے اہل ترین سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر انجینئرز بھرتی کر رکھے ہیں جن کی وجہ سے یہ گروپ پچھلے دس برسوں سے مارکیٹ کو لیڈ کر رہا ہے‘ دوسرا یہ گروپ معیار پر کمپرومائز نہیں کرتا‘ آپ ان کی کوئی پراڈکٹ اٹھا کر دیکھ لیں‘ پیکنگ سے لے کر سائز تک آپ کو اس کا معیار حیران کر دے گا اور تیسرا لی کن ہی خرید و فروخت کا ایکسپرٹ تھا‘ یہ راستے کی ہر رکاوٹ کو خرید کر یا گرا کر آگے نکل جاتا تھا‘ یہ جنوبی کوریا کے قوانین تک بدل دیتا تھا۔
یہ اپنی مرضی کی حکومتیں بھی لے آتا تھا اور اعلیٰ عدالتوں کے جج بھی بدل دیتا تھا چناں چہ یہ سٹیٹ کے اندر ایک سٹیٹ بن گیا اور یہ سٹیٹ اصل سٹیٹ سے بڑی اور مضبوط تھی‘ آپ جنوبی کوریا کی تاریخ نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو ملک کے ہر سیاسی اتار چڑھاؤ کے پیچھے سام سنگ اور لی کن ہی ملے گا۔
اسے سزا بھی ہوئی لیکن اس نے عدالت اور حکومت دونوں کو خرید لیا، یہ خود اپنے منہ سے کہتا تھا آپ اگر دولت سے آسانیاں نہیں خرید سکتے تو پھر آپ کو دولت مند ہونے کا کوئی فائدہ نہیں اس کی یہ عادت اتنی پختہ ہو چکی تھی کہ اس نے آخر میں زندگی کو بھی خریدنے کی کوشش شروع کر دی۔
چیئرمین لی کن ہی کو 2014ء میں ہارٹ اٹیک ہوا اور یہ کوما میں چلا گیا‘ اس کی وصیت کے مطابق اسے وینٹی لیٹر پر شفٹ کر دیا گیا اور اس کے لیے نئی ادویات کی ایجاد کا کام شروع کر دیا گیا‘ سام سنگ نے درجنوں ریسرچ اداروں کو فنڈنگ کی‘ بڑے سے بڑے ڈاکٹر کا بندوبست کیا اور قیمتی سے قیمتی ترین ادویات بنوائی گئیں مگر لی کن ہی کومے سے باہر نہ آ سکا‘ اس کے بیٹے لی جائے یونگ نے کمپنی کی عنان سنبھال لی‘ یہ اپنے والد کو ایک بار اپنے پاؤں پر کھڑا دیکھنا چاہتا تھا۔اس کی شدید خواہش تھی یہ ایک بار اپنے منہ سے بولیں لیکن لی جائے یونگ کی کوئی کوشش بارآور نہ ہوسکی اور یوں 25 اکتوبر 2020ء کی وہ شام آ گئی جب ڈاکٹروں نے مایوسی کا اعلان کر دیا‘ لی کن ہی کومے کے عالم میں انتقال کر گیا اور اس کا جسم ٹھنڈا ہو رہا تھا‘ ڈاکٹر نے اس کا بازو سائیڈ پر رکھا اور مایوسی میں سر ہلا دیا‘ سام سنگ کا مالک مر چکا تھا لیکن مرنے کے باوجود اس کے اکاؤنٹ میں 20 بلین ڈالرز تھے اور یہ 350 بلین ڈالرز کی کمپنی کا مالک تھا مگر 350 بلین ڈالرز کی کمپنی اور 20 بلین ڈالرز کے اکاؤنٹس موت کا مقابلہ نہ کر سکے، مسافر چھ سال کی طویل نیند کے بعد اگلے سفر پر روانہ ہو گیا۔
لی کن ہی کی موت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا انسان دنیا میں دولت کے ذریعے سب کچھ خرید سکتا ہے لیکن یہ کتنا ہی بڑا بیوپاری کیوں نہ ہو جائے یہ ایک بھی اضافی سانس نہیں خرید سکتااور اس کے پاس قدرت کے سامنے ہارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا‘ کہتے ہیں انسان اگر زندگی خرید سکتا تو ہم آج بھی نمرود اور فرعون کی خدائی میں سانس لے رہے ہوتے‘ موت وہ امر ربی ہے جس کے ذریعے اللہ لی کن ہی جیسے لوگوں کو یہ پیغام دیتا ہے‘ جاؤ تم جتنا بھاگ سکتے ہو بھاگ لو لیکن تم نے آخر میں میرے پاس ہی آنا ہے،
*تاریخ انسانی خداؤں کا قبرستان ہے۔*
جاوید چودھری
2 comm
ents
 
 
 
 
 
 
 

کیا آپ
سر میں خشکی
ڈینڈرف سے پریشان ہیں.؟
پہلے
یہ جان لیں
یہ ہے کیا..؟
اور کتنی خطرناک ہے.؟
دنیا کی تقریباً
آدھی آبادی اس مسئلہ سے پریشان ہے
جو بالکل بے ضرر اور قدرتی عمل ہے
جس طرح سارے جسم میں اربوں کھربوں سیل
ہر وقت بنتے اور ختم ہوتے رہتے ہیں
اسی طرح ہمارے سر میں بھی سیلز بنتے اور مرتے ہیں
ان ختم ہونے والے سیل کی باقیات یعنی ڈیڈ سیل
سارے جسم میں خاموشی سے نظر آئے بغیر ٹھکانے لگ جاتے
لیکن سر میں نظر آجاتے ہیں اور خاص طور پر
ڈارک کلر کپڑے پہننے پر
عام طور پر
ان کا نیچرل سائکل تقریباً 28 دن میں مکمل ہوتا ہے
مگر کچھ افراد جن کی اسکن حساس ہوتی ہے ان میں
یہ پانچ سے چھ دن میں مکمل ہوجاتا ہے
یعنی تیز ہوجاتا ہے اسے
میلاسیزیا گلوبوسا کہا جاتا ہے
یہ خشک چھلکے جیسی ڈینڈرف
بالکل بے ضرر ہے، لیکن حساس طبیعت کے افراد کو
زیادہ ہی پریشان کرتی ہے
ڈینڈرف سے بچاؤ کے لئیے چند ٹپس
🔸 ایک بہت اچھے ہیئر برش سے مساج
جس کی ٹپس موٹی ہوں نوک دار باریک نہ ہوں
رات سونے سے پہلے اور صبح شیمپو کرنے سے پہلے
🔹 ہفتے میں ایک بار چھٹی والے دن
بیکنگ سوڈا زرا سے پانی میں ملا کر پیسٹ بنا کر
بیس منٹ سر پر لگا لیں
پھر شیمپو کر لیں
🔸 ایلو ویرا جیل
تقریباً دو ٹیبل اسپون سر پر لگائیں
پندرہ بیس منٹ بعد شیمپو کر لیں
🔹تازہ کوکونٹ کا پانی
سر پر لگائیں بھی اور پئیں بھی
🔸 Tea Tree Oil
ٹی ٹری آئل
کے آٹھ دس قطرے شیمپو میں ملا کر
سر میں لگایا جانا چاہیئے
یہ آئل ایسنس فروخت کرنے والی شاپس سے مل جاتا ہے
🔹 ڈسپرین کی دو گولیاں
باریک پیس کر شیمپو میں ملا کر
اس سے سر دھو لیں
🔖 نوٹ
کچھ افراد کو
کسی مخصوص چیز سے
الرجی ہوتی ہے اگر
ان میں سے کسی چیز سے سر کی جلد میں خارش، جلن
بڑھ جائے تو اس کا استعمال روک دیں
📌یاد رکھئے
جب سارا جسم صحت مند ہوگا
تو اسکن، بال سب صحتمند ہونگے
🔸اپنی غذا پر دھیان رکھیں
آپ کے لئے یہ سب مفید ہیں
🔹کچی سبزیوں کھیرا، ککڑی، کا سلاد
موسم کے تازہ پھل
اور خوب سارا پانی
اپنے سب کھانے کوکونٹ آئل میں پکانا شروع کر دیں
چند روز عجیب لگے گا مگر بیحد مفید ہے
اور
🔸آکسیجن کے بغیر کوئی دوا کوئی علاج کام نہیں کرے گا
دن میں پانچ بار ہر نماز کے بعد
پانچ منٹ گہرے سانس لینا بیحد ضروری اور مفید ہے
اللّٰہ کریم
صحت و تندرستی کےساتھ
عمر دراز عطا فرمائے
آمین ثم آمین یا رب العالمین
دعا گو اور طالبِ دعا
جاوید اختر آرائیں
 
 
 
 
 
 
پچیس تیس سال پرانی بات ہے کہ ہم ایک ٹیچر سے میتھس پڑھا کرتے تھے ۔میں نے ایک دفعہ ان سے عرض کی:
’’سر! اگرمجھے فیس میں کچھ رعایت مل جائے تومیرے لیے بڑی آسانی رہے گی ۔‘‘انہوں نے کہا :’’چھٹی کے بعد بات کریں گے۔‘‘چھٹی کے بعد جب ہم بیٹھے تو انہوں نے کہا:
’’ اگر میں ساری فیس ہی معاف کردوں تو؟‘‘میں نے کہا:’’ سر اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟‘‘انہوں نے کہا:’’لیکن شرط یہ ہے کہ آپ نے پھر اس کو واپس کر نا ہوگا۔‘‘میں نے کہا: ’’کیاواپس کرنا ہو گا؟‘‘انہوں نے کہا:’’ آپ نے بھی زندگی میں کسی کو اس طرح پڑھادیناہے۔‘‘میں نے کہا: ’’بالکل ٹھیک ہے ۔ اگر مجھے موقع ملا تو میں ضرور پڑھادوں گا۔‘‘
ہم اس وقت کلاس میں پانچ لڑکے تھے ۔ہمارے استاد کچھ عرصہ زندہ رہے پھر اللہ کو پیارے ہوگئے. جنازے کے وقت میں نے دیکھا تو میرے باقی چار طلبہ ساتھی بھی رورہے تھے اور ہم پانچوں کواسی دِن پتہ لگا کہ فیس ہم میں سے کوئی بھی نہیں دے رہا تھا۔
انسان کی اصل کمائی اس کی ’’یاد ‘‘ ہے جس کے ساتھ وہ دنیا میں زندہ رہتا ہے۔بحیثیت استاد ہمیں یہ نہیں پتا ہوتا کہ چند سال بعد ہماری فزکس اور کیمسٹری کسی کو یاد نہیں رہتی بلکہ وہ رویہ یاد رہتا ہے جو ہم نے کسے کے ساتھ اپنایا ہوتا ہے ۔
 
 
 
 
 
 
#مفتی_محمد_تقی_عثمانی_صاحب کے بارے میں چند معلومات
قاتلانہ حملے کے بعد پاکستانیوں کو پتا چلا کہ ان کے ملک میں ایک ایسا عالمِ دین بھی ہے کہ مسجد نبوی اور حرم مکہ کے ائمہ حضرات میں بھی ان کے شاگرد ہیں .
سعودی عرب نیشنیلٹی دینے کے لیے عرصہ سے اصرار کر رہا ہے اردن کے بادشاہ نے انھیں اپنے ملک کا سب سے بڑا ایورڈ دیا ہے،
ڈیوڈ کیمرون سے لے کر شمالی امریکہ کے صدر تک وقت لے کر ان سے ملتے ہیں
ورلڈ اکنامک فورم پر انھیں معیشت کے موضوع پر خصوصی خطاب کے لیے بلایا گیاتھا
مختلف ممالک میں اسلامی معاشیات میں صلاح مشورے کے لیے بلایا جاتا ہے۔
ڈیڑھ سو کے قریب کتابوں کے مصنف ہیں
وطن عزیز پاکستان کی اعلی عدالت سپریم کورٹ میں شریعت ایپلٹ بنچ پر سترہ سال کام کیا اور اہم تاریخی فیصلے صادر فرمائےجنمیں "ربا" سودکیخلاف تاریخی فیصلہ بھی شامل ہے
دنیا میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی اسلامی بینکاری حضرت صاحب کے بنائے ہوئے اسلامی اصولوں پر مبنی ہے
اور آپ کو مزے کی ایک اور بات بتاوں.
وہ کونسی کتاب ہے جو "ہوا" (فضاء) میں لکھی گئی ہے؟
تو اس کا جواب ہے(آسان ترجمہ قرآن) یہ کتاب مفتی صاحب نے دوران اسفار جہازوں میں لکھی ہے جو تین جلدوں ہر مشتمل ہے(فیا سبحان اللہ)
اور یہ بات بھی مشہور تھی کہ کراچی ایئرپورٹ پر ایک سال میں سب سے زیادہ بیرون ملک سفر کیا تھا
حضرت وقت کے اتنے پابند ہیں! کہ اپنا ایک منٹ فضول ضائع نہیں کرتے
یا تو وہ پڑھ رہے ہونگے یا لکھ رہے ہونگے یا ورزش کررہے ہونگے، مہمانوں سے بھی ملتے ہیں لیکن لمبی ملاقاتیں بہت ہی کم کرتے ہیں
تین زبانوں پر عبور رکھتے ہیں
عربی
انگریزی, Spanish
مادری زبان اردو ہے
دنیا کے پڑھے لکھے لوگ انہیں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں!! لیکن چراغ کے نیچے ہمیشہ اندھیرا ہوتا ہے ہم نے ان کی قدر نہیں کی، اور نہ ہی گورنمنٹ آف پاکستان نے ان سے کوئی بڑا کام لیا.
اللہ انکی عمر میں برکت فرمائے
پوسٹ آگے شئیر کریں
"پنچر والا"
آج میرا اپنی ایک بیماری میں علاج کی غرض سے مجیدیہ ہسپتال نئی دہلی جانا ہوا۔ ڈاکٹروں سے دکھانے اور دوا لینے کے بعد جیسے ہی واپس ہوا چار نمبر گیٹ کے باہر ہی اسکوٹر پنچر ہو گیا۔ میں اسکوٹر کو کھینچتا ہوا آگے بڑھتا رہا کہ شاید کہیں کوئی پنچر والا نظر آ جائے۔ تھوڑی سی دوری پر لب روڈ ایک جھونپڑے پر ٹائر لگا دیکھ کر مجھے اسکوٹر گھسیٹنے کی کوفت سے نجات مل گئی اور ایک انچاہی مشقت اور تکلیف اٹھانے کے بعد ایک انجانی سی خوشی کا احساس ہوا۔
میں نے اسکوٹر کھڑا کرتے ہی پوچھا بھائی صاحب اسکوٹر پنچر ہو گیا ہے، کیا بن جائے گا؟ پنچر والا جو کسی کام میں مشغول تھا فوراً ہی میری جانب متوجہ ہوا اور کہنے لگا کیوں نہیں ابھی دیکھتا ہوں کہہ کر 'رنچ اور پانے' وغیرہ لیکر ٹائر کھولنے میں لگ گیا۔
میں اسکے دھول اور گرد و غبار سے اٹے بستر پر اپنی تھکان مٹانے کی غرض سے اجازت لیکر تھوڑی دیر بیٹھ گیا اور روڈ پر لاکھوں کروڑوں کی گزرتی ہوئی گاڑیوں اور اس میں سوار لوگوں کو تو کبھی ان لگزری کاروں میں پچھلی سیٹ پر کھڑکی سے باہر منھ نکالے اور زبان سے رال ٹپکاتے بھونکتے اور ہانپتے ہوئے کتوں کو تو دوسری جانب پیٹ کی بھوک مٹانے کی غرض سے روڈ پر دھول گرد چاٹتے ہوئے ایک ٹائر والے کے پچاس روپئے کی جائز جدوجہد کو بغور دیکھتا رہا۔
پنچر لگانے والے نے پہلے ٹائر میں ہوا بھرنے کی کوشش کی لیکن ٹائر میں ہوا نہیں رکنے سے ٹائر کھولتے ہی کہنے لگا بھائی صاحب آپکا ٹائر ٹیوبلیس نہیں ہے اس میں لوکل ٹیوب پڑا ہوا ہے اور پہلے سے کئی پنچر بھی لگ رہے ہیں، کیا اسے بدل دوں؟ "اور میں سال بھر پہلے اصلی ٹیوب لگانے کے پیسے لینے والے اپنے بھائی کے تئیں سوچوں میں گم ہو گیا" اس نے دوبارہ پوچھا بتائے صاحب کیا کروں؟ میں نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا، کیا تمہارے پاس کمپنی کی ٹیوب ہے؟ پنچر والے نے فوراً ہی معذرت کرتے ہوئے کہا، ابھی کل ہی ختم ہو گیا۔ آپ چاہو تو اگلی موڑ پر ٹیوب کی ایک دکان ہے وہاں "سیئٹ کمپنی" کی اوریجنل ٹیوب مل جائیگی وہاں سے لے لیجئے میرے پاس تو لوکل ٹیوب ہے۔
میں نے جلد بازی میں پنچر والے سے کہا اب جبکہ آپ نے ٹائر کھول ہی دیا ہے تو میں کمپنی کی ٹیوب لا دیتا ہوں آپ کا تھوڑا وقت ضائع ہوگا اور زیادہ محنت لگے گی اسے بدل دیں۔ ہمارے علاقے میں پنچر بنانے کا پچاس روپیہ لے لیتے ہیں آپ اپنے زائد محنت کے ساٹھ روپیے لے لینا اور نیا ٹیوب ڈال دینا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنی رضامندی ظاہر کی۔
میں اگلی موڑ تک ٹیوب لینے کی غرض سے چل پڑا لیکن تھوڑی ہی دور پیدل چلنے کے بعد گرد و غبار اور شور شرابے سے عاجز آکر اچانک ہی خیال آیا کہ پتہ نہیں دکان کتنی دوری پر ہوگا؟ ٹیوب ملے یا نہ ملے؟ خواہ مخواہ وقت اور محنت دونوں ہی برباد ہوں؟ میں واپس آیا اور پنچر والے سے کہا، بھائی آپ اسی میں پنچر لگا دو، بعد میں دیکھیں گے، ابھی وقت نہیں ہے، میں نہیں جا سکا۔ پنچر والا میری جانب دیکھتے ہوئے کہنے لگا کوئی بات نہیں بھائی جی، میں پرانے ٹیوب میں ہی پنچر لگا دیتا ہوں۔
پنچر والے نے جلدی ہی پنچر لگا دیا۔ میں نے اسے سو کا نوٹ دیا۔ دس دس کے چھہ نوٹوں کی واپسی پر مجھے تشویش لاحق ہوئی کہ شاید جلد بازی میں اس نے دس یا بیس روپیہ زیادہ واپس نہ کر دیا ہو؟ میں نے پوچھا، بھائی آپ نے ساٹھ روپیہ واپس کر دیا؟ اس نے برجستہ کہا جی میرے چالیس روپیے ہی ہوتے ہیں۔ میں نے دوبارہ پوچھا اگر آپ برا نہ مانیں تو کیا میں ایک بات پوچھوں؟ اس نے کہا، کیوں نہیں صاحب، پوچھیے؟ میں نے کہا جبکہ میں پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ ہمارے علاقے میں پنچر بنانے کا پچاس روپیہ لگ جاتا ہے، تو آپ ساٹھ روپیہ بھی لے سکتے تھے؟ آپکا وقت بھی زیادہ لگا ہے، لیکن آپنے چالیس ہی کاٹا؟
پنچر والے نے میری طرف غور سے دیکھا اور یوں گویا ہوا۔ بھائی صاحب ہم سب سے یہاں پنچر لگانے کے چالیس روپیے ہی لیتے ہیں، تو آپ کے انجان آدمی ہونے کیوجہ کر پچاس کیوں لیں؟ بے ایمانی، فریب اور دھوکے سے کمایا ہوا پیسہ راس نہیں آتا۔ یہ اپنے ساتھ ایمانداری سے کمائے ہوئے چالیس روپیے کو بھی خراب کر دیگا اور پریشانی اور تکلیف الگ سے اٹھانی پڑیگی۔ دکھ اور بیماری کو مفت میں جھیلنا پڑیگا۔
میرے باوجی ایک سال ہو گیا بھگوان کو پیارے ہو گئے اکثر سمجھایا کرتے تھے، بیٹے کبھی کسی انجان آدمی سے زیادہ پیسے نہیں لینا اور نہ کبھی کسی ضرورت مند سے اپنے کام کے زیادہ پیسے مانگنا اور نہ ہی کبھی رات یا صبح سویرے کسی کے اسکوٹر کا پنچر بنانے کے بعد کام کرنے کے عوض اس سے زیادہ پیسے وصولنا۔ یہ کہتے کہتے اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ ایک لمحے کو کہیں کھو سا گیا پھر کہنے لگا بھائی جی، اس روڈ پر چلنے والے سبھی لوگ جانتے ہیں میں رات میں نیند سے اٹھکر یا تڑکے صبح کسی کو ایمرجنسی ہو تو پنچر لگا دیتا ہوں، لیکن کبھی کسی سے چالیس روپیہ سے زیادہ نہیں لیا۔ یہ کہتے کہتے اسکی آنکھیں بھیگ گئیں۔ کہنے لگا بھائی صاحب، کتنی بار ایسا ہوا کہ لوگوں نے سو دو سو یہاں تک کہ بعض رحمدل انسان نے میری حالت دیکھتے ہوئے پانچ سو کے نوٹ بھی خوشی خوشی دئے لیکن میں نے باوجی کی آتما کو آجتک تکلیف نہیں پہنچائی۔
اور میں اس کا منھ تکتا ہی رہ گیا، اور سوچنے لگا اگر کبھی انسان کو حالات ایسے موڑ پر لا کھڑا کریں کہ ہم بچوں کو کسی وجہ سے تعلیم نہ دلا پائیں تو کم از کم ہم انکی اچھی تربیت تو کر ہی سکتے ہیں تاکہ وہ ایک اچھے شہری اور نیک انسان بنکر زندگی گزار سکیں اور دوسرے انسانوں کی زندگیوں میں آسانی مہیا کرنے والے فرشتے ثابت ہوں۔
میں دل ہی دل میں اسکی پرورش کرنے والے ماتا پیتا، بھائی بہن، دوست احباب اور سماج کو دعائیں دینے لگا جس نے روڈ پر بیٹھے ہوئے ایک انپڑھ انسان کے اندر بھی افراتفری اور زر پرستی کے اس پر فتن دور میں پیسے کی بھوک اور حرص و ہوس سے باز رکھا۔
۔۔۔ ختم شد ۔۔۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا:
جس انساں کو سگ دنیا نہ پایا۔
فرشتہ اس کو ہم پایا نہ پایا۔
از قلم: تاج الدین محمد، نئی دہلی
 
 
 
 
❤
 
 
 

No comments:

Post a Comment