Monday, December 14, 2020

Urdu Islamic Article: Hijab, Janat Dosakh, Amal ka daromadar niyat per, Consistency, Tum ya May, Thomas Edison, Ami Jaan, Behlool, Hazrat Junaid Bagdadi,

 

Home Page  Urdu Islamic Article  HR Email Ids  Zikar Azkaar

Namaz Quran & Tableegh   School HR ID  Ulema Ikram Bayanat

Listen Quran Majeed   Read Quran Majeed  Social Media  Ramzan

Khulasa Quran Majeed


 

 

 ❤❤❤ " #حـــــــجابکــــــیـاہے "؟؟؟ ❤❤❤

 🍃 ... #یہبساِکتحـــــــریرنہــــیں

                     #بلکہتحــــــفــةالنســــــاء_ہے... 🍃

            

                               🍃❤🍃❤🍃❤🍃❤


عورت کا پردہ معاشرے کی فلاح میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر اس بارے ہم ذرا سی بھی غلطی یا کم فہمی کا شکار ہوتے ہیں تو اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔ اس لئے مرد اور عورت  دونوں کو  آیت کے آخری حصے میں پردے کی اہمیت باور کرواتے ہوئے اللّٰه سبحان و تعالی نے فرمایا:


وَتُوبُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ جَمِيعًاأَيُّهَ 

ٱلْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون٥


#ترجمہ: اے ایمان والوں!(پردے کے حکم کو مان کر)  اللّٰه کی طرف رجوع کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔۔۔

🌹(النور :31) 


 معاشرے نے حجاب کرنے کی جو حدود مقرر کی ہیں اس کو جاننے کی بجائے ہم اللّٰه کی آیات سے حجاب کی حدود متعین کرتے ہیں۔


قرآن میں اللّٰه نے جو بھی terminologies استعمال کیں ہیں ان کو ہماری سمجھ کے لئے مختلف آیات میں مختلف انداز میں بیان بھی کیا ہے۔ ان میں سے ایک " #حجاب" ہے۔۔۔۔۔۔

حجاب کو ہمارے معاشرے میں غلط define کیا جاتا ہے  جو قرآن کے بالکل برعکس ہے۔ حجاب لفظ بذاتِ خود ایک مکمل تعارف اپنے اندر رکھتا ہے۔ 

" #حجاب" واحد ہے اور حُجُبٌ جمع ہے یعنی ہر وہ چیز جو دو چیزوں کے درمیان حائل ہو جائے "#حجاب" ہے۔۔۔۔۔۔

حجبه: چھپانا۔۔۔۔۔۔۔۔حَاجب: اپنے آپ کو چھپانے والا۔۔۔۔۔۔۔محجوبٌ: جس سے چھپا جائے۔۔۔۔

اس طرح عورت خود کو پردے میں چھپانے  والی حاجبہ ہے۔ اور مرد جس سے عورت نے خود کو چھپانا ہے محجوب ہے۔ 

قرآن میں جہاں حجاب  کا لفظ آیا ہے وہاں حجاب  پورے پردے کو ثابت کرتا ہے۔یعنی from head to toe قرآن نے حجاب کی جو لفظی تصریف کی ہے اسے نظر انداز کرنا حجاب کو من چاہی تاویل سے ماخوذ کرنے کے مترادف  ہے۔ قرآن لفظ حجاب میں  "پورے پردے" کو ظاہر کرتا ہے۔  دلائل میں " #حجاب" کے حوالے سے قرآنی دلائل تصریف آیات سے ملاحظہ فرمائیں:


💢 #دلیل نمبر 1: سورة المطفّفين: 15


كَلَّآ إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ ۔۔


#ترجمہ: بےشک یہ لوگ اس روز اپنے ربّ (کے دیدار) سے محجوب  ہوں گے۔۔

اس آیت کے مطابق اس دن بدکار  اللّٰه کے وجود کو نہ دیکھ سکے گے۔ وہ بدکار محجوب ہوں گے اور اللّٰه ان سے حجاب میں ہوگا۔۔ یعنی یومِ آخرت اللّٰه تو ان کو دیکھ رہا ہو گا لیکن وہ اللّٰه کو نہیں دیکھ رہے ہوں گے۔ یہاں ایسا مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ اللّٰه کے وجود کا کچھ حصہ دیکھ رہے ہوں گے۔۔۔۔

                 •┈••✦✿✦••┈•   


💢 #دلیل نمبر 2:


اللّٰه تعالی نے بشر سے ہمکلام ہونے کے تین طریقے بتائے ان میں سے ایک حجاب بھی ہے:


سورة الشّورى: 51


" أَوْ مِن وَرَآئِ حِجَابٍ "

ترجمہ:  یا پردے کے پیچھے سے۔ 

اب یہاں " #حجاب" سے مراد یہ ہے کہ اللّٰه جس بشر سے ہمکلام ہوتے ہیں اللّٰه کو تو وہ دیکھائی دیتا ہے لیکن وہ بشر اللّٰه کو نہیں دیکھ رہا ہوتا۔ حجاب بمعنی مکمل پردے کا تصور یہاں بھی مل دیتا ہے۔جیسے اللہ سبحان و تعالی موسی السلام علیہ سے ہم کلام ہوئے تھے ۔۔۔ 


               •┈••✦✿✦••┈•      


💢 #دلیل نمبر 3 :


قرآن میں سورہ النور آیت 31 میں ان رشتوں کی لسٹ ہے جن سے پردہ نہیں یہ رشتے وہ ہیں جن سے معمول میں عورت اپنا چہرہ کور (cover) نہیں کرتی۔۔۔۔۔اس کا صاف مطلب  ہے کہ جو  اعضائے جسمانی ان رشتوں سے عورت نہیں چھپاتی ان اعضائے جسمانی کو عورت ان کے علاؤہ رشتوں سے مکمل کور کرے گی۔اس سے چہرہ چھپانے کے ساتھ ہاتھ اور پاؤں کا بھی پردہ ثابت ہو رہا ہے۔ 


                  •┈••✦✿✦••┈•      

💢 #دلیل نمبر 4:


سورة الْأحزاب :53


وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَٰعًا فَسْـَٔلُوهُنَّ مِن وَرَآءِ حِجَابٍ 


#ترجمہ: "جب ان (عورتوں ) سے کوئی سامان مانگو تو حجاب کے پیچھے مانگو۔ "


یعنی عورت سے کوئی بھی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے (حجاب)  سے مانگو۔۔ یہاں بھی عورت کو مکمل کور کرنے کا حکم ہے اور جب کسی چیز کا پردے کے پیچھے چھپ جانے کا تصور ہو  تو آپ خود سمجھدار ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہوتا ہے۔مثلا جب کسی کمرے میں دھوپ آ رہی ہوتی ہے تو آپ اس دھوپ کو روکنے کے لئے کھڑکی پر پردہ ڈال دیتے ہیں تا کہ سورج کی کرن بھی کمرے میں داخل نہ ہو اور اس کے لئے کھڑکی کو پردے سے اچھی طرح کور کیا جاتا ہے ۔۔۔


                 •┈••✦✿✦••┈•      

💢 #دلیل نمبر 5:سورہ احزاب : 33


وَقَرْنَ فِى بُيُوتِكُنَّ


#ترجمہ: اپنے گھروں میں وقار سے رہو۔۔۔۔

اللّٰه نے اس آیت میں  بتایا ہے کہ عورت کا وقار گھر میں ہے۔ گھر کی چار دیواری کا تصور دے کر عورت کے لئے مکمل پردےداری مضبوط کی دلیل ملتی ہے۔ 

کہ وہ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلے بلکہ گھروں میں ٹکی رہیں ۔۔۔


                 •┈••✦✿✦••┈•


💢 #دلیل نمبر :6  سورہ احزاب : 32


 فَلَا تَخْضَعْنَ بِٱلْقَوْلِ 


#ترجمہ: پس تم آپنی آواز میں نرمی مت رکھو۔۔۔۔


جہاں عورت کو آواز کا پردہ رکھنا ہے وہاں چہرے کے پردے کی چھوٹ مل جائے۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اس کا مطلب یہ چہرے کا پردہ نہ ماننے والوں کی کم فہمی ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے۔۔ انہیں اس پرغور فرمانے کی ضرورت ہے ۔۔۔


                •┈••✦✿✦••┈•  


💢 #دلیل نمبر :7  سورہ ص :32


فَقَالَ  اِنِّیۡۤ  اَحۡبَبۡتُ حُبَّ الۡخَیۡرِ عَنۡ ذِکۡرِ  رَبِّیۡ ۚ حَتّٰی تَوَارَتۡ بِالۡحِجَابِ ﴿ٝ۳۲﴾


#ترجمہ: تو کہنے لگے میں نے اپنے رب کی یاد پر ان گھوڑوں کی محبت کو ترجیح دی ، یہاں تک کہ وہ اوجھل ہو  گئے ۔ 


یہاں حجاب بمعنی اوجھل یا چھپ جانے کے معنی میں ہے تو جو چیز نظروں سے اوجھل ہو یا چھپ جائےاس کا مطلب وہ نظر نہیں آ رہی ہے... سلیمان السلام علیہ کی نظروں سے گھوڑے اوجھل ہوگئے ایسا نہیں تھا کہ آپ کو گھوڑے کاچہرہ تو نظر آ رہا تھا لیکن باقی سارا گھوڑے کا وجود انکھوں سے اوجھل تھا یا اس کی صرف دم نظر آ رہی تھی یا صرف ٹانگیں .... 


لہذا آیت میں گھوڑے کا حجاب میں ہو جانا یہی ثابت کرتا ہے کہ اس کا پورے کا پورا وجود سلیمان السلام  علیہ کی نظروں سے اوجھل تھا یا چھپا ہوا تھا ۔۔


                  •┈••✦✿✦••┈• 


💢 #دلیل نمبر :8  سورہ احزاب : 59


يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَ ٰبِيبِهِنَّ ۚ

ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ


#ترجمہ: اپنی چادروں سے محل زینت اعضاء کو چھپاؤ یہ حجاب بہترین طریقہ ہے کہ مسلم عورتوں کی پہچان ہو جائے اور مسلم عورتوں کو  ایذا نہیں دی جائیگی۔۔۔۔۔


#يُدْنِينَعَلَيْهِنَّمِن_جَلَبِيبِهِنَّ ۚ:


يُدْنِينَ کا سہ حرفی مادہ د،ن،و ہے اس کے معنی قریب ہونا ،کمتر ہونا،گھٹیا ہونا،قریب کرنا،اور پردہ لٹکانے کے ہیں  دنیا اسی سے ہےکیونکہ یہ قریب ،نظر آتی اور آخرت دور اور نظر نہیں آتی جلباب کی جمع جلابیب ہے اس کے معنی چادر اور اوڑھنی ہے منشاء ربانی ہے کہ عورتیں اوڑھنیاں اس طرح لیں کہ ان کے محل زینت جسمانی اعضاء نظر نہ آئیں ان کی اوڑھنیاں دنیا بن جایئں یعنی جسمانی اعضاء اوڑھنیوں میں چھپ جائیں ۔اسلامی معاشرے میں چادر چار دیواری عورت کی عزت و احترام اور شان و شوکت کی معراج ہے اور حجاب نسواں والا معاشرہ مطاہر اور فوزو فلاح کی سیڑھی کا زینہ طے کرتا ہے حجاب عورت کی آزادی اور صلاحیتوں میں رکاوٹ نہیں لہذا چادر اور چار دیواری میں صلاحیتوں کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔بے حجابی سے معاشرے میں جنسی کرپشن ،بے حیائی ،بدکاری،بداخلاقی کے ماحول کو پروان چڑھا کر قرآن کی محافظت کرنا اور اللہ کی رٹ کو چیلنچ اور قدیم جہالت کا نشان ہے 


یہاں اوڑھنیاں اپنے اوپر یعنی پورے وجود پر  ڈالنے کا حکم ہے۔ لیکن چہرے کا پردہ نہ ماننے والے اوڑھنیاں سر پر  رکھنے کا تصور دیتے ہیں۔ ڈالنے اور سر پر رکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔۔۔۔۔

قرآنی آیات کے مطابق حجاب کے تعارف سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ عورت کا پردہ پورا ہے جس میں چہرہ بھی شامل ہے۔


                 •┈••✦✿✦••┈•      


اللّٰه  سب بہنوں کو آیات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.....   


       ❤ #آمینیاربالعالمین ❤


➖➖➖➖➖➖➖➖➖







معاملہ بڑا حساس اور نازک ہے!!🙄🤐


حضرت ابوہریرہ ؓ اس حدیث کو بیان کرتے وقت بسا اوقات شدت تاثر سے ان پر کئی کئی بار بے ہوشی طاری ہوجاتی تھی۔حضرت معاویہ ؓ کو یہ حدیث پہنچی تو اس قدر روئے کہ بے ہوش ہوگئے۔

حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ :👇


"روز قیامت جس شخص کے خلاف سب سے پہلے جہنم کا فیصلہ ہوگا وہ ایک شہید ہوگا ، اسے پروردگار کے سامنے حاضر کیا جائے گا ، ﷲ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائیگا وہ ان کا اقرار کرے گا ، پھر ﷲ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم نے ان نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟ وہ کہے گا کہ پروردگار!

میں نے تیرے راستہ میں جہاد کیا، یہاں تک کہ شہید ہوگیا ، اس طرح اپنی عزیز جان بھی تیرے لئے قربان کردی ۔ﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ تُو جھوٹ کہتا ہے، تُونے تو جہاد اس لئے کیا تھا کہ تیری بہادری کے چرچے ہوں، سو یہ دنیا میں ہوچکے۔ پھر اس کے بار ے میں حکم ہوگا اور اسے اوندھے منہ گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔


اسی کے ساتھ ایک دوسرے شخص کو لایا جائے گا جس نے دین کا علم سیکھا اور لوگوں کو سکھایا ہوگا اور قرآن بھی خوب پڑھا ہوگا، ﷲ تعالیٰ اسے بھی اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ ان نعمتوں کا اقرار کرے گا، سوال ہوگا کہ تُونے ان نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟

وہ کہے گا کہ پروردگار ! میں نے علم سیکھا اور دوسروں کو بھی سکھایا اور تیری رضا و خوشنودی کے لئے قرآن بھی پڑھا (الغرض زندگی بھر قرآن کی تعلیم اور دین کی نشر و اشاعت میں لگارہا )

ﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ تُو جھوٹ کہتا ہے ۔تیرا مقصد تو یہ تھا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور قاری کہیں یہ تو دنیا میں ہوچکا۔ پھر اس کے بارے میں بھی عدالت ِ الٰہی سے یہ فیصلہ صادر ہوگا کہ اسے بھی اوندھے منہ گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے۔


اسی طرح ایک اور شخص حاضر کیا جائے گا جسے ﷲ تعالیٰ نے ہر طرح کا مال اور خوب دولت سے نوازا ہوگا، وہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا ، ﷲ پوچھے گا کہ تُونے ان سے کیا کام لیا اور ان کا کیا حق ادا کیا ؟ وہ کہے گا کہ پروردگار !

جس راستہ اور جس کام میں مال خرچ کرنا تجھے پسند ہے میں نے وہاں تیرا دیا ہوا مال خوب خرچ کیا تاکہ تو راضی ہوجائے ۔ﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ تُو جھوٹ کہتا ہے ، تُونے تو مال اس لئے خرچ کیا تھا کہ تجھ کو سخی کہیں، دنیا میں یہ صلہ تجھے مل چکا، پھر اس کے بارے میں بھی یہی حکم ہوگا اور اسے اندھے منہ گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔"(مسلم )۔

اسی طرح حضرت جندب ؓ ایک روایت یوں نقل کرتے ہیں، رسول ﷲنے ارشاد فرمایا : "جو شخص ( کوئی عمل ) سنائے اور شہرت دینے کے لئے کرے تو ﷲ اس کو شہرت دے گا اور جو کوئی کام دکھانے کے لئے کرے ، ﷲاس کو خوب دکھا دے گا ۔"(بخاری)۔

اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ﷲ تعالیٰ دنیا میں بھی یا آخرت میں جہنم میں داخل کئے جانے سے پہلے سرِ محشر ایسے لوگوں کو ان کی بد باطنی ظاہر فرما کر رسوا کرے گا کہ یہ لوگ اپنے عمل میں مخلص نہ تھے بلکہ شہرت و نمود اور ریا کاری سے نیک کام کرتے تھے






حضرت ڈاکٹر عبد الحئی عارفی رحمتہ اللہ علیہ

 کا ایک عجیب عارفانہ نکتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دفعہ حاضرین مجلس سے فرمانے لگے، آپ کہاں لمبے لمبے مراقبے اور وظائف کرو گے، میں تمہیں اللہ کے قرب کا مختصر راستہ بتائے دیتا ہوں، کچھ دن کر لو پھر دیکھو کیا ہوتا ہے، قرب کی منزلیں کیسے طے ہوتی ہیں:


پہلا اللہ پاک سے چُپکے چُپکے باتیں کرنے کی عادت ڈالو، وہ اس طرح کہ جب بھی کوئی جائز کام کرنے لگو، دل میں یہ کہا کرو، اللہ جی ۔۔ 1۔ اس کام میں میری مدد فرمائیں ۔۔۔  2۔ میرے لئے آسان فرما دیں ۔۔۔ 3۔ عافیت کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائیں ۔۔۔ 4۔ اپنی بارگاہ میں قبول فرما لیں۔


یہ چار مختصر جملے ہیں مگر دن میں سینکڑوں دفعہ اللہ کی طرف رجوع ہو جائیگا۔ اور یہ ہی مومن کا مطلوب ہے کہ اسکا تعلق ہر وقت اللہ سے قائم رہے۔


دوسرا انسان کو روز مرہ زندگی میں چار حالتوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔۔۔ 1۔ طبیعت کے مطابق ۔۔۔ 2۔ طبیعت کے خلاف ۔۔۔ 3۔ ماضی کی غلطیاں اور نقصان کی یاد ۔۔۔ 4۔ مستقبل کے خطرات اور اندیشے۔ 


جو معاملہ طبیعت کے مطابق ہو جائے، اس پر "اللهم لك الحمد ولك الشكر" کہنے کی عادت ڈالو۔ جو معاملہ طبیعت کے خلاف ہو جائے، تو "انا لله وانا اليه راجعون" کہو۔ ماضی کی لغزش یاد آجائے تو فورا  "استغفراللہ" کہو۔ مستقبل کے خطرات سامنے ہوں تو کہو: "اللهم اِنى أعوذ بك من جميع الفتن ما ظهر منها وما بطن"۔


شکر سے موجودہ نعمت محفوظ ہو گئی۔ نقصان پر صبر سے اجر محفوظ ہو گیا اور اللہ کی معیت نصیب ہو گی۔ استغفار سے ماضی صاف ہو گیا۔ اور اللهم انى أعوذ بك سے مستقبل کی حفاظت ہو گئی۔


تیسرا شریعت کے فرائض و واجبات کا علم حاصل کر کے وہ ادا کرتے رہو اور گناہِ کبیرہ سے بچتے رہو۔ اور چوتھا تھوڑی دیر کوئی بھی مسنون ذکر کر کے اللہ پاک سے یہ درخواست کر لیا کرو اللہ جی ۔۔۔ میں آپ کا بننا چاھتا ہوں، مجھے اپنا بنا لیں، اپنی محبت اور معرفت عطا فرما دیں۔ چند دن یہ نسخہ استعمال کرو، پھر دیکھو کیا سے کیا ہوتا ہے، اور قرب کی منزلیں کیسے تیزی سے طے ہوتی ہیں!






✍️ تُم یا مَیں ۔۔۔✍️


👨‍❤️‍👨 دوسری شادی👩‍❤️‍💋‍👩


یہ 2018 کی ایک شام تھی جب میرے موبائل کی بَیل بَجی کال ریسیو کی....

ایک صاحب نے سلام دعا کے بعد پوچھا پروفیسر عبداللہ صاحب! 

کیا آپ رشتے کرواتے ھیں؟ 


میں نے کہا جی الحمد اللہ........


 تو اگلا سوال غیر متوقع تھا کہ سَر مَیں آپ سے ملنا چاھتا ھوں، 

مَیں نے پوچھا کس سلسلے میں، 

تو جواب ملا کہ بہن کے رشتے کے سلسلے میں مدد درکار ھے۔ 


تین سال ھو گئے ھیں، کوئی رشتہ نہیں مل رھا، 

میں نے مکمل تفصیل مانگی تو اُنہوں نے مجھے تفصیل واٹس ایپ کر دی۔۔۔۔

 اس کے ساتھ ھی ملاقات کرنے کی اِستدعا بھی کی..... 


مزید معلومات لینے سے پتہ چلا بھائی کریانہ کی دکان کرتے ھیں اور میرے علاقے کے نزدیک ھی تھے، 

تو ملاقات کے لئے چلا گیا، 

کافی اچھے شریف النّفس انسان تھے، 


بہن کے متعلق پُوچھنے پر بتایا،

 کہ چار سال پہلے اس بھائی کے بہنوئی ایک حادثے میں اللہ کو پیارے ھو چکے ھیں، تین بچّے ھیں اور سِتم یہ کہ ایک بچی معذور ھے...

 مَیں نے ان سے کہا کہ پاکستان میں دوسرے کے بچے کوئی نہیں پالتا۔۔۔

 یہ سُن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ رھے تھے اور کہنے لگے پروفیسر صاحب میری بیوی نے میری بہن اور اس کے بچوں کا جینا حرام کر رکھا ھے، 

عورت ھی عورت کی دشمن ھے آپ کسی طریقے سے کسی بھی طرح رشتہ کروا دیں احسان مند ھونگا، ھاتھ جوڑتے ھوۓ کہا...... 

مَیں حالات کو مکمل سمجھ چکا تھا لیکن مسئلہ بچّوں کا تھا، پھر ایک معذور بچّی کا ساتھ، 

بات کچھ سمجھ سے باھر تھی، 

خیر کوشش اور تسلی دے کر واپس آیا.

کافی سارے لوگوں سے بات کی سب تیار، مگر بچّوں کا سنتے ھی سب انکار کر جاتے تھے تنگ آ کر پہلی بیوی کی موجودگی میں شادی کرنے والوں سے بات کی، 

تو اندازہ ھوا کہ اُن کو صِرف جسم کی ضرورت تھی اور بات یہاں بچّوں کی بھی تھی، 

جو بھی سنتا کہتا بچّے نہیں چاھئے بھائی مجھے، 

سُنت پوری کرنی ھے بچے نہیں پالنے، 

میں دوسرے کی اولاد کیوں پالوں۔۔۔


دوسرے کی اولاد کون پالتا ھے، دو ماہ اسی طرح گزر گئے میرا ایک دوست، جو ھول سیل کا کاروبار کرتا تھا،

 کافی مالدار بھی تھا 

ماشاء اللہ ۔۔۔۔۔


ایک دن اس کی دکان پر بیٹھے بیٹھے خیال آیا میں نے کہا رضوان بھائی، یار دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتا اس نے غور سے مجھے دیکھا، میری طرف جھانکنے لگا، تو میں نے کہا کیا ھوا، 

جواب ملا کہ عبداللہ بھائی دیکھ رھا ھوں آپ نشہ تو نہیں کرنے لگ گئے، کیوں مجھے مروانا چاھتے ھو، میں نے کہا رضوان یہ سنت ھے، 

آپ  ماشاءاللہ سے اچھا کماتے ھیں، 

اللہ نے  آپ کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا ھے.....

 آپ کو ضرور شادی کرنا چاھئے اور کسی کا سہارا بننا چاھئے، تو اس کے انکار سے بھی مایوسی ملی، 

خیر چند دن بعد رضوان سے دوبارہ  ملاقات ھوئی تو کافی مایوس لگ رھے تھے، 

 مَیں نے پوچھا کیا بات ھے، 

کوئی پریشانی دیکھائی دے رھی کہنے لگے دکان میں چوری ھو گئی..... 

حالات خراب ھو گئے ھیں، 

میری بیوی بھی جھگڑا کر کے میکے جا بیٹھی ھے اور مسلسل طلاق کا مطالبہ کر رھی ھے اولاد نہیں تھی،  میں نے افسوس کیا اور تسلی دینے کے ساتھ ھی کہہ دیا کہ رضوان اسی لئے آپ سےکہا تھا کہ دوسری شادی کر لیں، 

آج دوسری بیوی ھوتی تو آپ کو پہلی بھی نہ چھوڑ کر جاتی، 

اگر نہیں یقین تو دوسری شادی کر کے یتیم بچوں کے سر پر ھاتھ رکھیں، دیکھیں اللہ کی قدرت، 

پہلی بیوی بھی واپس آۓ گی اور خوشحالی بھی، 

میری طرف دیکھنے کے بعد رضوان بھائی نے کچھ سوچا اور پوچھا کتنے بچے ھیں ان کے، 

مَیں نے کہا دو، 

ایک بیٹا ایک بیٹی، 

معذور بچی کا ﺫکر مَیں بھول چکا تھا، اس نے کہا ٹھیک ھے، آپ بات کریں جو میرے اللہ کو منظور، 

میں نے لڑکی کے بھائی کو کال کی اور شام کو اس کی دکان پر ھی بلا لیا ملاقات کروائی، 

گھر بار کاروبار دیکھنے کے بعد ھاں کر دیا، 

یوں قصہ مختصر ان کا نکاح پروفیسرز ریسرچ اکیڈمی ٹیم کے بھائی پروفیسر شیخ الحدیث ابو تراب مکی حفظہ اللہ نے پڑھایا اور ریحانہ اپنے بچّے لے کر رضوان کی زندگی میں خوشگوار جھونکے کی طرح شامل ھو گئی، 

رضوان بھائی نے ایک مکان جو کرایہ پر دیا ھوا تھا، 

خالی کروا کر ریحانہ اور بچوں کو وھاں شِفٹ کر دیا، 

تب پہلی بیوی کو پتہ چلا تو وہ آندھی کی طرح گھر آئی، 

گھر خالی دیکھ کر رضوان بھائی کو کال کر کے گھر بلایا، 

اور میاں اور پہلی بیوی کی نوک جھونک ھوئی تو رضوان نے کہا تم نے نہیں رھنا تو بے شک مت رھو، طلاق لینی ھے، بے شک لے لیں، اگر یہاں رھنا ھے، عزت سے رھو جیسے پہلے رھتی تھی، 

لیکن یہ نہ کہنا کہ ریحانہ کو چھوڑ دو، یہ ممکن نہیں، 

پہلی بیوی نے جب دیکھا کہ تیر کمان سے نکل چکا ھے، تو وہ بھی خاموش ھو  گئی، 

اب رضوان بھائی کی زندگی میں بہاریں آ چکی تھیں، ریحانہ نے اس کی زندگی میں رنگ بھر دئیے تھے، بچّے شہر کے بہترین سکول میں داخل ھو گئے،

لیکن رضوان بھائی ریحانہ کی آنکھوں میں اَب بھی اُداسی دیکھتے اور شک کر چُکے،

 کہ کوئی بات ضرور ھے، 

ایک دن اس نے مجھ سے ﺫکر کیا، تو مَیں نے کہا اُداسی کیوں نہ ھو اس کی ایک بچی اس سے دور ھے، رضوان نے کہا بچّی، کون سی بچّی، 

تو مَیں نے سب کچھ بتا دیا، 

رضوان نے سب سن کر مجھے ایک نظر دیکھا تو مَیں نے سَر جُھکا لیا ..

اسی دن شام کو رضوان بھائی، بیوی سے کہنے لگے تیار ھو جاؤ، بچوں کو بھی تیار کرو، آج ھم نے آپ کے بھائی کے ھاں جانا ھے ضروری کام ھے، بیوی کا دل دَھڑک اُٹھا، 

پوچھا تو جواب ملا جتنا کہا ھے، اتنا کرو، 

کچھ دیر کے بعد ھی وہ لوگ بھائی کے گھر تھے، وھاں رضوان نے ریحانہ کو کہا کہ معذور بیٹی کہاں ھے، 

اتنا سننا تھا کہ اسے لگا شاید کچھ غلط ھونے جا رھا ھے، 

وہ دوسرے کمرے میں ھے رضوان نے دوسرے کمرے میں جا کر دیکھا تو غلاظت سے لَت پَت بچّی انتہائی کمزوری کی حالت میں پڑی تھی، رضوان بھائی اِشارہ کرتے ھوئے کہنے لگے ریحانہ بچی کے کپڑے بدلو یہ ھمارے ساتھ جاۓ گی۔۔۔

 ریحانہ نے یہ سنا تو رضوان کے قدموں میں گِر گئی، بھائی نے رضوان کو گلے لگا لیا، 

یوں وہ بچی رضوان اپنے گھر لے آیا، 

اب وہ بچّی اور دوسرے دونوں بچّے رضوان، ریحانہ اور اس کی پہلی بیوی کی جان ھیں، 

رضوان دن دُگنی رات چُگنی ترقّی کر رھا ھے، 

ایک دن رضوان اور اس کی بیگم نے میری دعوت کی تو ریحانہ بھابی نے ھاتھ جوڑ کر کہا سر عبداللہ صاحب کبھی زندگی میں رشتے کروانے کا کام مَت چھوڑنا میری رضوان سے شادی نہ ھوتی، 

تو میں آج بچوں کو قتل کر کے خُودکُشی کر چکی ھوتی، لوگوں کو بتاؤ عبداللہ بھائی، 

دوسری شادی وہ نعمت ھے جو شرطیہ خوشیاں دیتی ھے، 

خوشحالی لاتی ھے، 

میری جیسی لاکھوں ھیں جو دُکھوں بھری زندگی گزار رھی ھیں، 

اُن کو بھی خوشیاں دینی ھیں، 

کاش کہ یہ نعمت معاشرے میں عام ھو جاۓ ..

یہ واقعہ فرضی نہیں حقیقی ھے، 

نام ضرور تبدیل کئے گئے ھیں، اس میں کچھ شک نہیں۔۔۔

 دوسری شادی واقعی ایک نعمت ھے اور ایسی عورت سے دوسری شادی جس کے بچے ھوں، زندگی میں حقیقی خوشیاں بھر دیتی ھے، 

مگر کیا کِیا جاۓ ایسے لوگوں کا، جو دوسری شادی کرنا چاھتے ھیں،

مگر بچے نہیں پالنا چاھتے، 

جو دوسری شادی کے مزے تو لینا چاھتے ھیں مگر کسی کے سر دستِ شفقت نہیں رکھنا چاھتے، 

کیا یہ ھے سُنت؟ 

کہاں لے کے جاۓ وہ عورت ان بچوں کو قتل کر دے، یا کسی دریا میں پھینک دے، 

کیا کرے، زندگی موت کا کس کو علم، 

کب کس کو موت اپنے شکنجے میں لے لے، 

علم ھے نہیں نہ تو تمھارے بعد تمھارے بچوں کے ساتھ ایسا ھو، 

پھر کیا کرو گے، 

دیر مت کرو، 

آگے بڑھو اس سے پہلے کہ بہت دیر ھو جاۓ، 

دوسری شادی کرنا چاھتے ھو، 

تو بچوں والی سے کرو، پہلی بیوی کو بھی کہنے کے قابل ھو گے کہ سہارا دینے کی خاطر شادی کی ھے، 

بے سہارا بچوں کو باپ کا سہارا دو، 

یہ مت کہو کسی کے بچّے نہیں پال سکتا، 

کیا تم پالتے ھو بچّوں کو؟ 


ارے پالنے والی ﺫات تو اللہ کی ھے، اللہ سے ﮈرو، 

ﮈرو اس وقت سے جب اللہ تمھیں خود دکھاۓ کہ دیکھو کون پالتا ھے .. 

*تُم.  یا مَیں






” تھامس ایڈیسن مشہور عالم سائنسدان تھا.. 

اپنے بچپن میں  بخار کے باعث وہ سماعت سے محروم ہو گیا تھا...

جب وہ چھوٹا تھا.... 

تو ایک دن وہ سکول سے آیا اور ایک سر بمہر لفافہ اپنی والدہ کو دیا کہ استاد نے دیا ہے کہ " اپنی ماں کو دے دو ." 


ماں نے کھول کر پڑھا... 

اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.


پھر اس نے با آواز بلند پڑھا.


” تمھارا بیٹا ایک جینئس ہے.... یہ سکول اس کے لئے بہت چھوٹا ہے، اور یہاں اتنے اچھے استاد نہیں کہ اسے پڑھا سکیں سو آپ اسے خود ہی پڑھائیں. “

اس کے بعد اس کو پڑھانے کی ذمہ داری اس کی والدہ نے لے لی.... 


سالوں بعد جب تھامس ایڈیسن ایک سائنسدان کے طور مشہور عالم ہو گیا تھا.... 


اور اس کی والدہ وفات پا چکی تو وہ اپنے خاندان کے


پرانے کاغذات میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا کہ اسے وہی خط ملا.


اُس نے خط کو کھولا تو پر اس پر لکھا تھا.... 


” آپ کا بیٹا انتہائی غبی ( کند ذہن ) اور ذہنی طور پہ ناکارہ ہے... ہم اسے اب مزید اسکول میں نہیں رکھ سکتے.“


اسی دن ایڈیسن نے اپنی ڈائری میں لکھا.... 


” تھامس ایلوا ایڈیسن ایک ذہنی ناکارہ بچہ تھا

پر ایک عظیم ماں نے اسے صدی کا سب سے بڑا سائنسدان بنا دیا. “


ماں نسلوں کو سنوار دیتی ہے ۔۔







مجھے یاد ہے بچپن میں جب کبھی ہمیں رات میں نیند نہیں آتی تو ہم اٹھ کر امی جان کے پاس چلے جایا کرتے تھے اور انہیں نیند سے بیدار کر کے کہا کرتے تھے

"امی مجھے نیند نہیں آرہی" امی فوراً نیند سے بیدار ہو کر پو چھتیں کیوں بیٹا کیا ہوا طبعیت تو ٹھیک ہے نا؟ 

پیشانی پر ہاتھ رکھ کر بخار چیک کرتیں, پیٹ میں تو درد نہیں نا؟

اور تسلی کر لینے کے بعد اکثر اپنے پاس سلا لیا کرتیں یا جب تک ہم چاہتے ہمارے پاس بیٹھتیں. 

پھر ہم بڑے ہو گئے اور رات کو بے سُد ہو کر بے فکری کی نیند سونے لگے اور امی بوڑھی ہو گئیں انہیں اکثر راتوں کو نیند نہیں آتی اول تو ماں اپنے بچے کے آرام میں مخل نہیں ہوتی مگر کبھی وہ یہ غلطی کر ہی دے تو عموماً بچے ماں کو انٹی ڈپریشن یا نیند کی گولی کھاکر سونے کی تلقین کرتے ہیں یا اگر وہ بیمار ہوں تو روٹین کی دوائیں وغیرہ لینے کی ہدایت کر دیتے ہیں۔

در اصل بچپن میں اور بڑھاپے میں کافی مماثلت ہے دونوں عمروں میں کسی انجانی بات پر دل مضطرب ہو جاتا ہے۔

مگر خوش نصیب بچوں کا یہ اضطراب انکی مائیں اپنے ہاتھوں کے لمس سے ہی دور کر دیتی ہیں اکثر کسی بات پر روتے ہوئے بچے کا سر جب ماں اپنی گود میں رکھ کر ہاتھوں کی انگلیوں سے سہلہیں

 کرتی ہے تو یک دم بچہ سکون پا جاتا ہے شایدہم سمجھ ہی نہیں پائے کہ ہمیشہ بے چینی کا علاج گولیاں, دوائیں نہیں ہوتیں کبھی کبھی ماؤں کو بھی ہمارے ہاتھوں کے لمس درکار ہوتے ہیں..

کبھی کبھی ان کے ناتواں جسم ہمارے مضبوط ہاتھوں سے آرام کے متلاشی ہوتے ہیں.. 

سوچیے ہم میں سے کتنے ایسے بچے ہیں جو راتوں کو اٹھ کر اپنے والدین کو دیکھتے ہیں کہ آیا وہ پر سکون نیند سو رہے یا بڑھاپے کی ویران راتوں میں اپنے بچپن کو, 

اپنی ماں کے ہاتھوں کے لمس کو یاد کر رہے ہیں !!!






واپڈا آفس کے سامنے ایک شخص کیلے بیچ رہا تھا

واپڈا کے ایک بڑے افسر نے پوچھا کیلے کیسے دیتے ہو؟ 

کیلے کس کے لئے خرید رہے ہو صاحب؟

افسر۔ کیا مطلب ؟


کیلے والا :

مطلب یہ کہ

یتیم خانے کے لئے لے رہے ہو تو 40 روپیہ درجن

اولڈ ہوم کے لئے لے رہے ہو تو 50 روپیہ درجن

بچوں کے ٹفن کے لئے 60 روپیہ درجن

گھر کھانے کے لئے لے رہے ہو تو 70 روپیہ درجن

اگر پکنک کے لئے خریدنے ہوں تو 80 روپیہ درجن


افسر یہ کیا بیوقوفی ہے؟

ارے بھائی جب سب کیلے ایک جیسے ہیں تو ریٹ الگ الگ کیوں؟

کیلے والا:

پیسے کی وصولی کا اسٹائل تو آپ لوگوں والا ہی ہے 

جیسے 

1 سے 100 یونٹ کا الگ ریٹ

100 سے 200 کا الگ

200 سے 300 کا الگ

300 سے 400 کا الگ


بجلی تو آپ ایک ہی کھمبے سے دیتے ہو ؟

تو پھر گھر کے لئے الگ ریٹ

دکان کے لئے الگ ریٹ

کارخانے کا الگ ریٹ


اور ایک بات۔۔ اور میٹر کی قیمت ہم سے لیکر پھر میٹر کا کرایہ الگ لیتے ہو۔۔۔انکم واپڈا کو ہوتی ہے اور انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ہم سے الگ لیتے ہو

سرچارج اور ایکسٹرا سرچارج کیا بلا ہے جو ہم سے لیتے ہو؟ 


میٹر کیا امریکہ سے امپورٹ کیا ہے 25 سال سے میٹر خرید کر بھی اس کا کرایہ بھر رہا ہوں ۔۔۔آخر میٹر کی قیمت کتنی ہے؟  آپ بتا دو مجھے ایک ہی بار


اسی طرح سوئی گیس والوں نے اَنّی پائی ہوئی اے 


 کڑوا سچ






بہلول نے حضرت جنيد بغدادی سے پوچھا

 شیخ صاحب کھانے کے آداب جانتے ھیں؟


کہنے لگے، بسم اللہ کہنا، اپنے سامنے سے کھانا،

لقمہ چھوٹا لینا، سیدھے ھاتھ سے کھانا،

خوب چبا کر کھانا، دوسرے کے لقمہ پر نظر نہ کرنا،

 اللہ کا ذکر کرنا، الحمدللہ کہنا، اول و آخر ھاتھ دھونا۔ 


بہلول نے کہا، لوگوں کے مرشد ھواور کھانے کے آداب نہیں جانتے اپنے دامن کو جھاڑا اور وھاں سے اٹھ کر آگے چل دیئے


شیخ صاحب بھی پیچھے چل دیئے، مریدوں نے اصرار کیا،

 سرکار وہ دیوانہ ھے لیکن شیخ صاحب پھر وھاں پہنچے پھر سلام کیا


بہلول نے سلام کا جواب دیا اور پھر پوچھا کون ھو؟ 

کہا جنید بغدادی جو کھانے کے آداب نہیں جانتا۔

 بہلول نے پوچھا اچھا بولنے کے آداب تو جانتے ھوں گے


جی الحمدللہ، متکلم مخاطب کے مطابق بولے، بےموقعہ، بے محل اور بےحساب نہ بولے، ظاہر و باطن کا خیال رکھے۔

 بہلول نے کہا کھانا تو کھانا، آپ بولنے کے آداب بھی نہیں جانتے، بہلول نے پھر دامن جھاڑا اورتھوڑا سا اور آگے چل کر بیٹھ گئے۔


شیخ صاحب پھر وھاں جا پہنچے سلام کیا بہلول نے سلام کا جواب دیا، پھر وھی سوال کیا کون ھو؟


شیخ صاحب نے کہا، جنید بغدادی جو کھانے اور بولنے کے آداب نہیں جانتا۔ بہلول نے اچھا سونے کے آداب ھی بتا دیں؟ 


کہا نماز عشاء کے بعد، ذکر و تسبیح، سورہ اور وہ سارے آداب بتا دیئے جو روایات میں ذکر ھوئے ھیں۔


بہلول نے کہا آپ یہ بھی نہیں جانتے، اٹھ کر آگے چلنا ھی چاھتے تھے کہ شیخ صاحب نے دامن پکڑ لیا اور کہا جب میں نہیں جانتا تو بتانا آپ پر واجب ھے


بہلول نے کہا 

جو آداب آپ بتا رھے ھيں وہ فرع ھیں اور اصل کچھ اور ھے، اصل یہ ھے کہ جو کھا رھے ھیں وہ حلال ھے یا حرام، لقمہ حرام کو جتنا بھی آداب سے کھاؤ گے وہ دل میں تاریکی ھی لائےگا نور و ہدایت نہیں، 


شیخ صاحب نے کہا جزاک اللہ


بہلول نے کہا کلام میں اصل یہ ھے کہ جو بولو اللہ کی رضا و خوشنودی کیلئے بولو اگر کسی دنیاوی غرض کیلئے بولو گے یا بیہودہ بول بولو گے تو وہ وبال جان بن جائے گا


سونے میں اصل یہ ھے کہ دیکھو دل میں کسی مؤمن یا مسلمان کا بغض لیکر یا حسد و کینہ لیکر تو نہیں سو رھے،


دنیا کی محبت، مال کی فکر میں تو نہیں سو رھے،

کسی کا حق گردن پر لیکر تو نہيں سو رھے۔




السلام علیکم

تیز بخار، کھانسی، شدید جسم درد، منہ کا کڑوا پن اور سونگھنے، ذائقے کی حس ختم ہونے جیسی علامات تقریباً پورے پاکستان میں پھیل چکی ہیں۔


خدارا اپنی حفاظت کریں۔


1- ٹھنڈے پانی سے پرہیز کریں

2- برف کا استعمال مکمل طور پر بند کردیں

3- جوشاندہ پئیں 

4- بھاپ لیں

5- انڈے کھائیں

6- انجیر کھائیں 

7- بادام کھائیں 

8- لونگ، الاچی، دارچینی کا قہوہ پئیں

9- مٹن سوپ پئیں، کالی مرچ ادرک، ہلدی ڈال کر 

10- دیسی مرغی کا سوپ پئیں، کالی مرچ، ادرک، ہلدی ڈال کر

11- کیلشیم کسی بھی صورت میں لازمی لیں

12- پانی کا استعمال زیادہ کریں 


ﷲ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو

 

اس پیغام کو نظر انداز نہ کریں.

جزاکم ﷲ خیراً کثیرا


Follow this link to join my WhatsApp group: https://chat.whatsapp.com/BTpeWPFOSyuLVm0ho6YvCs



زندگی ایک کتاب ہے

      پہلاصفحہ پیدائش

آخری صفحہ موت " درمیانی صفحات خالی، اس میں جو پسند ہو لکهیں ،،بس ایسا کچهہ لکهیں کہ "اللہ"کو دکهاتے ہوئے شرمندگی نہ ہو

                               🌹🌹🌹

اے اللہ ہم پر رحم فرما




No comments:

Post a Comment