Monday, December 14, 2020

Urdu Islamic Article: Ishq Rasool, Asal Kamyabi, Maa Beta , Tilawat Quran or Namaz, Rizq, Sunheri Batain

 

Home Page  Urdu Islamic Article  HR Email Ids  Zikar Azkaar

Namaz Quran & Tableegh   School HR ID  Ulema Ikram Bayanat

Listen Quran Majeed   Read Quran Majeed  Social Media  Ramzan

Khulasa Quran Majeed


 

 

عشق رسول کیا ہے؟

 

محمد قاسم اوجھاری

 

کہا جاتا ہے کہ ایک کیڑے نے دعوی کیا کہ میں پروانہ ہوں اس سے کہا گیا کہ فلاں جگہ شمع جل رہی ہے وہاں سے ہو کر آؤ اس کے بعد ہم تمہیں پروانہ تسلیم کریں گے، وہ اڑتا ہوا گیا اور تھوڑی دیر میں واپس آگیا اور دل میں یہ خیال لئے ہوئے آیا کہ اب میں اصلی پروانہ کہلانے کا مستحق ہوں، جب وہ صحیح سالم واپس پہنچ گیا تو کہا گیا کہ تم اصلی پروانہ نہیں نقلی ہو، وہ کہنے لگا واہ ہم نے تو شرط بھی پوری کر دی اب کیا رہ گیا ہے، اس سے کہا گیا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ شمع جل رہی ہو اور پروانہ زندہ واپس آجائے، کیوں کہ اصلی پروانہ تو شمع پر قربان ہوجاتا ہے واپس نہیں آتا۔

 

آج ہمارا حال بھی یہی ہے کہ ہم عاشق رسول ہونے کا دعوی تو بہت کرتے ہیں مگر عشق رسول والے اعمال نہیں اپناتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آیا تو انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھ لئے، محض سیرت النبی کا جلسہ کر لیا، جھنڈے اٹھا لیے اور یا رسول اللہ یا محمد کا نعرہ لگا لیا اور سمجھ لیا کہ ہم پکے عاشق رسول ہوگئے۔ یاد رکھیں: اس کا نام عشق رسول نہیں ہے بلکہ عشق رسول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے کا نام ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر چلنے اور آپ کے کردار کو اپنانے کا نام ہے، عشق رسول کی دلیل سنت پر عمل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من احب سنتي فقد احبني ومن احبني كان معي في الجنة (جامع ترمذی) جو میری سنت سے محبت کرنے والا ہے وہی مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور جو مجھ سے محبت کرنے والا ہے وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کی سنتوں پر عمل کرنے کا نام عشق رسول ہے۔

 

سچے عاشق رسول وہ تھے کہ جنہوں نے اپنی جانیں تو دے دیں مگر مذہب اسلام احکامات قرآن اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر آنچ نہیں آنے دی، ایک سچا عاشق رسول یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ انسان دوزخ کے راستے پر چل رہا ہوں اور اسے چین آجائے اور اپنی قوم و ملت کا غم اسے نہ ستائے۔ سید التابعین حضرت سعید ابن مسیب رضی اللہ عنہ کو دیکھیے کہ حکام کے حکم سے ان کی پیٹھ پر درے لگائے جا رہے ہیں مگر ان کی زبان سے صدائے حق مسلسل بلند ہو رہی ہے، امام ابوحنیفہ نور اللہ مرقدہٗ بغداد کے قید خانے میں اسیر ہیں لیکن اس کے باوجود زبان صدق اعلان حق میں پہلے سے بھی زیادہ سرگرم ہے، اس طرح کے سینکڑوں واقعات تاریخ کے صفحات پر بکھرے پڑے ہیں۔

 

آج ہمارے ذہنوں میں یہ رچ بس گیا ہے کہ عشق رسول یہ ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ آئے تو خوشیاں منالی جائیں، بازاروں میں جھنڈیاں لگالی جائیں، لوبانوں کی بتیاں سلگالی جائیں، جلوس نکال لیا جائے وغیرہ۔ یاد رکھیں: اگر ان چیزوں کا نام عشق رسول ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے امت کے لیے ہر مسئلہ کی رہنمائی فرما دیں کہیں ان چیزوں کا بھی تو ذکر فرماتے، لیکن پوری تاریخ اور تمام ذخیرہ احادیث میں ان چیزوں کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا، لہذا ہم پر ضروری ہے کہ ہم اپنے وقت کو بدعات و خرافات میں نہ ضائع کرکے صحیح راہ پر چلیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ کی تمام سنتوں کو بجا لائیں، تب کہیں ہمارا نام عاشقان رسول کی فہرست میں شمار ہوگا ورنہ عشق رسول لوبانوں کی بتیوں میں سلگ کر رہ جائے گا اور ہمیں خبر تک نہیں ہوگی۔ اللہ تعالی ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے، دین اسلام پر استقامت نصیب فرمائے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

 

آمین ثم آمین یا رب العالمین بحق سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وسلم

 

منقول از: محمد قاسم اوجھاری

 

🌹🌹🌹

•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°

علمائے حق کے بیانات ، نعتِ رسولِ حق صلّی اللّٰہ علیہ و علی آلہٖ وسلّم ، خوبصورت نظموں اور دیگر اسلامک پوسٹس اور بہت سی مفید چیزیں حاصل کرنے کے لئے ہمارے گروپ "الحق میڈیا سروسز" کو نیچے دیے گئے لنک میں سے کسی ایک کے ذریعے جوائن کریں....

اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کو بھی اس کی دعوت دیں...

 جزاکم اللّٰہ خیرا کثیرا

«««°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°»»»

 Al-Haq media services 1: 

 

https://chat.whatsapp.com/LO3yGMpGKfN8SCJxO01O4y

 

 Al-Haq media services 2: 

 

https://chat.whatsapp.com/BW5v0qhYgRaGvNDg4oAdAS

 

•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°

             🌹🌹

 

 

 

 

"بچوں کو بالغ ہوکر احساس ہوتا ہے کہ اصل کامیابی کھلونے جمع کرنا نہیں بلکہ تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا ہے. پھر شادی ہونے پر معلوم ہوتا ہے کہ بہترین شریکِ حیات کا ملنا اصل کامیابی ہے. پھر روزگار کے معاملات سے دل میں یقین پیدا ہوجاتا ہے کہ اصل کامیابی کاروبار کے وسیع ہونے یا ملازمت میں پرموشن سے ہے. جوانی ڈھلنے پر نقطہِ نظر تبدیل ہو جاتا ہے کہ اصل کامیابی تو باصلاحیت اولاد، بڑے سے گھر اور بہترین گاڑی کے ہونے سے ہے. پھر بڑھاپے میں انسان کے نزدیک اصل کامیابی کا پیمانہ بیماریوں سے بچ کر جسمانی و دماغی تندرستی کا برقرار رہنا قرار پاتا ہے. بالآخر جب موت کا فرشتہ انسان کو لینے آ جاتا ہے تو اصل بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ کامیابی کے تمام تر دنیاوی تصوّر درحقیقت بہت بڑا دھوکا تھے، اصل کامیابی کا تصوّر تو اللہ کی نازل کردہ کتاب میں درج ہے جسکے مطالعہ کا کبھی وقت ہی نہیں مل سکا تھا."

 

 

 

 

 

ماں: بیٹا انٹرویو کیسا ہوا؟

 

بیٹا: امی اچھا ہوا، ایک ہی آسان سا سوال پوچھا گیا تھا۔

 

ماں: کیا پوچھا تھا؟

 

بیٹا: انٹریو والے نے پوچھا تھا کہ کرپشن کیوں بری ہے؟

 

ماں: تو تم نے کیا جواب دیا؟

 

بیٹا: میں نے کہا کہ کرپشن سے انسان معاشرے کو کھوکھلا کردیتا ہے، قانون کو توڑ کر انسان معاشرے کا نظام درہم برہم کرتا ہے اور بھی پانچ منٹ تک بات کی کافی خوش تھا انٹرویو لینے والا۔۔ اور ہاں اسے یہ بھی بتایا کہ حضور نے رشوت دینے اور لینے والے دونوں کو جہنمی قرار دیا ہے۔ انٹرویو لینے والا یہ سن کر بہت خوش ہوا تھا ان شاء اللہ اچھا رزلٹ آئے گا۔

 

ماں: ماشاءاللہ میرا بیٹا جیتا رہ لیکن بیٹا تم اتنی جلدی کیسے آ گئے؟ انٹرویو تو تمہارا 3 بجے تھا اور تم 3 بجے ہی واپس آ گئے؟ کیا اور لوگ نہیں آئے تھے؟

 

بیٹا: نہیں ماں اور بھی لوگ تھے، کافی لمبی لائن تھی، بیٹھا رہتا تو 5 بج جاتے، تب بھی شائد باری نہ آتی، وہ تو اچھا ہوا ایک کلرک مل گیا جسے 500 روپے پکڑا دیئے اور جلدی انٹریو دینے چلا گیا۔

 

ماں: میرا ذہین بیٹا بہت اچھا کیا ورنہ شام تک بیٹھنا پڑتا، صحیح ہے، اب آرام کر لے.......

 

 

 

 

 

حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں ’’ میں نے اپنے پیرومرشد حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی صاحب  رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں لکھا کہ آج کل دارالعلوم دیوبند میں امتحانوں کا سلسلہ چل رہا ہے، مشغولیت کی وجہ سے تلاوت کی فرصت نہیں ملتی ناغہ ہورہا ہے۔اصلاح فرمایے. حکیم الامت حضرت تھانوی  رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ارشاد ھواکہ اب امتحانوں کی مشغولی ہے جب امتحانوں سے فارغ ہونگے تو کوئی اور کام سامنے آجائے گا کہ اب اس کو کرلیں یوں ناغوں کا سلسلہ چلتا رہے گا اور عمر بھر فرصت نہیں ملے گی، جو کام کرنا ہے اسے ہر قیمت پر (بروقت) کیجئے اس میں ناغہ نہ ہونے دیجئے۔‘‘ ذرا سوچئے کہ یہ ناغہ صرف تلاوت اور ذکر ہی میں کیوں ہوتا ہے کھانے پینے، سونے ا ور دنیا بھر کے دوسرے کاموں میں کیوں نہیں ہوتا ؟

 اصل بات یہی ہے کہ فکر نہیں، بے فکری کی وجہ سے دینی کاموں کا ناغہ ہورہاہے دنیا کے دھندوں کی چونکہ فکر سوار ہے اس لئے ان کا ناغہ بھی گوارا  نہیں ۔ اگر کسی کو ماہانہ تنخواہ ملتی ہو اور کام میں ناغہ کرنے پر تنخواہ کٹتی ہو تو کیا کبھی وہ ناغہ کرے گا ؟ کبھی نہیں کرے گا خواہ خود بیمار ہوجائے  یا بیوی بیمار پڑ جائے ، بچے پریشان ہوں، کچھ بھی ہوجائے ناغہ نہیں ہونے دیتا، دنیائے فانی کی خاطر اتنا اہتمام، ایسی فکر لیکن دین کی قدر اتنی بھی نہیں؟ قرآن مجید کی تلاوت چھوٹ جائے یہ گوارا ہے دکان اور دفتر جانے کا ناغہ ہو یہ گوارا نہیں ۔

 

https://chat.whatsapp.com/K2jDoQ0yfIa5qUeTwRciJS

 

 

 

 

" بندہ کمائے گا نہیں تو کھائے گا کہاں سے "

 

ستر کی دہائی تھی، کوئی آج کل والا پاکستان تو تھا نہیں، اُس نے کراچی میں موجود امریکی لائبریری میں قدم رکھا اور پڑھنا شروع کردیا۔ وہ پیاسا تھا اور علم پیتا چلا گیا، کچھ ہی سالوں میں انجینئرنگ میں ٹاپ کیا اور امریکہ چلا آیا۔ کام، کام اور بس کام۔ وہ اپنے خاندان میں واحد گریجویٹ تھا، اکیلا خوش نصیب جسے ملک سے باہر کام ملا اور واحد کفیل۔

 

کام کے دوران اُس کی ایک وائٹ امریکی مارگریٹ سے شادی ہوگئی۔ ترقی پر ترقی، اپنا گھر، اپنی گاڑی، بینک بیلنس، وہ منزلوں پر منزلیں طے کرتا چلا گیا۔

 

کافی سالوں بعد وہ آج اپنی بیوی کے ساتھ پاکستان لوٹا۔ سن 83ء کا زمانہ تھا۔ سب لوگ خوب خوش ہوئے مگر ایک ضروری کام سے کمپنی نے واپس بلا لیا۔ بیوی کو پاکستان چھوڑ کر ایک ہفتے کے بعد واپس آنے کا کہہ کر وہ امریکہ روانہ ہوگیا۔

 

26 گھنٹوں کے طویل سفر کے بعد اُس نے رات کی تاریکی میں نیویارک میں موجود اپنے گھر کا دروازہ کھولا اور بستر پر آکر اوندھے منہ لیٹ گیا کہ صبح کام پر پہنچنا تھا۔ اُس نے بمشکل تمام 6 بجے کا الارم لگایا۔

 

صبح اُس کی آنکھ 11 بجے کھلی، وہ کافی دیر تک حیران و پریشان گھڑی کو دیکھتا رہا، اُس نے چھلانگ مار کر بستر سے اٹھنے کی کوشش کی مگر یہ کیا، وہ تو اپنے آپ کو ایک انچ بھی نہ ہِلا پایا۔ اُس نے گھبراہٹ میں چیخنا چاہا مگر کوئی آواز نہ نکل سکی۔

 

رات کے کسی پہر جب وہ خوابوں میں دنیا فتح کررہا تھا تو قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اُسے فالج کا اٹیک ہوا اور صبح تک اُس کا جسم، اُس کا چہرہ اور تمام عضلات کسی بھی قسم کی حرکت سے معذور ہوچکے تھے۔ اُس کا دماغ کچھ کچھ کام کر رہا تھا مگر اُسے بڑی مشکل پیش آرہی تھی۔ یہ سوچتے ہوئے کہ وہ کون ہے؟ اُس کا نام کیا ہے؟ بیوی بچے، ماں باپ کون ہیں؟ وہ سب کچھ بھولتا چلا جارہا تھا۔ یاداشت کا کھونا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی قسطوں میں خود کشی کرے۔ ہلکے ہلکے، رفتہ رفتہ، مدھم مدھم  وہ تمام لوگ جن کے ہونے کو ہم زندگی کہتے ہیں دماغ سے رخصت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دل میں رہتے ہیں مگر دل تو احساسات کا مجموعہ ہے۔ شکل کو نام اور صفات تو دماغ دیتا ہے۔

 

مسٹر صدیقی کو بستر پر پڑے پڑے آج تیسرا روز تھا۔ موبائل فون تو اُس دور میں ہوتے نہیں تھے اور اگر ہوتے بھی تو وہ کون سے اِس قابل تھے کہ وہ ہاتھ ہِلا سکتے۔ گھر میں موجود فون بجتا رہا، کبھی آفس والے کال کرتے تو کبھی پاکستان میں گھر والے۔

 

اتنی بے بسی تو شاید مُردوں کو بھی نہ ہوئی ہوگی کہ انہیں کم از کم اِس بات کا تو سکون ہوتا ہوگا کہ وہ مرچکے ہیں۔ مرنا کتنی بڑی نعمت ہے انہیں آج سمجھ آرہا تھا۔

 

چوتھا دن، پانچواں دن اور آج چھٹا دن، غلطی سے آج ڈاکیا دروازہ کھلا دیکھ کر مسٹر صدیقی کو ہیلو ہائے کرنے آگیا کہ اُن کے اخلاق اچھے تھے اور وہ ہمیشہ ڈاکیے کو دیکھتے تو حال احوال پوچھتے۔

 

ڈاکیے نے کھلی آنکھوں مگر ساکت جسم کو دیکھا تو 911 پر ایمرجنسی کال کردی۔ وہ آئے اور اٹھا کر لے گئے۔ اگلے 9 ماہ صدیقی صاحب کومے میں رہے۔ وہاں سے ہوش آیا تو کینٹکی کے ایک ہاس پائس ری ہیبیلی ٹیشن سنیٹر میں منتقل کردیا گیا۔ یہاں ایسے لوگوں کو رکھا جاتا تھا جن کا واحد علاج خود موت ہوتی تھی۔ دن، ہفتے، مہینے اور سال گزرتے چلے گئے۔

 

بیوی نے سمجھا کہ ’کسی اور‘ کے ساتھ گھر بسالیا اور اسے بھول گئے، اُس نے بھی کہیں اور شادی کرلی۔

 

بہن بھائیوں اور رشتہ داروں نے سمجھا کہ پیسے کی ہوس نے تمام رشتے ناطے توڑنے پر مجبور کردیا۔

 

باپ نے سمجھا کہ بیٹا امریکی زندگی میں مصروف ہوگیا اور گھر والوں کی خیریت لینے کا وقت نہیں ہے، وہ ناراض ہوگیا اور اُسی ناراضگی میں کچھ سالوں بعد باپ کا انتقال ہوگیا۔

 

ماں پھر ماں ہوتی ہے، وہ آخری وقت تک انتظار کرتی رہی کہ ایک دن اُس کا بیٹا ضرور واپس آئے گا۔ اُس نے مرتے وقت بھی وصیت کردی کہ جب بیٹا آئے تو اُس کی قبر پر ضرور لے آئیں۔

 

آج اِس واقعے کو 33 سال اور 4 ماہ ہونے کو آئے ہیں۔ مسٹر صدیقی (کوئی اُن کا پورا نام نہیں جانتا) آج بھی بولنے کی سکت نہیں رکھتے مگر تھوڑا بہت کھا پی سکتے ہیں۔ پچھلے چند ماہ سے اِس سینٹر میں ایک پاکستانی آتا ہے، اُس کا نام شاہد ہے۔ شاہد انہیں دیکھتا تو اسے شک گزرتا  کہ یہ پاکستانی ہیں مگر ایک کلین شیو بوڑھے کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل تھا۔ بول تو وہ سکتے نہیں تھے۔

 

آج مسٹر شاہد کو ایک ترکیب سوجھی، وہ گھر سے پاکستانی چکن بریانی لے گئے اور مسٹر صدیقی کے سامنے رکھ دی۔

 

مسٹر صدیقی کے پورے جسم میں صرف آنکھیں بولتی تھیں، آج تو جیسے وہ ابل پڑیں۔ نرس چمچ سے بریانی آہستہ آہستہ منہ میں ڈالتی جاتی مگر اتنے آنسو اس میں مل جاتے کہ اندازہ کرنا مشکل ہوجاتا کہ چمچ میں چاول کی مقدار زیادہ ہے یا آنسوؤں کی۔

 

یہ آنسو اِس بات کا ثبوت تھے کہ بندہ یا تو پاکستانی ہے یا انڈین۔ شاہد نے مریض کو گلے لگالیا اور دونوں نجانے کتنی دیر تک روتے رہے۔

 

اگلے 6 ماہ 

میں شاہد نے سب پتہ لگالیا کہ یہ شخص کون ہے مگر اب 33 سالوں بعد فیملی کی تلاش ایک بڑا مسئلہ تھا۔

 

اُس نے اُن کی تصاویر کھینچ کر فیس بک پر لگادیں۔ دو ہی ہفتوں میں اُن کا مسٹر صدیقی کی گزشتہ بیوی اور بہن سے رابطہ ہوگیا۔

 

اِس ہفتے مسٹر صدیقی اپنی بہن سے امریکہ کے ایک اسپتال میں ملے۔ نہ کچھ بول سکے اور نہ ہاتھ ہلا سکے، ہاں مگر آنسو تو کم بخت ہیں فالج میں بھی نکل آتے ہیں۔

 

آج رات شاہد سوچ رہا تھا کہ آدمی غرور و تکبر کس بات کا کرے؟ چلتے ہوئے نظام میں سے قدرت نے ایک آدمی کو بِناء موت کے 33 سال کیلئے نکال کر باہر رکھ دیا۔ وہ جو سمجھتا تھا کہ اگر وہ کام نہ کرے تو کھائے گا کہاں سے؟ اُسے بھی بٹھا کر، بلکہ لٹا کر 33 سال کھلاتے رہے۔ صرف بندہ اپنے آپ کو دیکھ لے۔ اُن تمام بیماریوں کا اندازہ کرلے جو اپنے جسم میں ساتھ لے کر چلتا ہے اور اُن میں سے کوئی نکل پڑی تو وہ کہیں کا نہیں رہے گا تو غرور و تکبر آنسو بن کر بہہ جاتے ہیں۔

_____

 

اللّٰہ تعالیٰ توفیق دیں ہم سبھی کو تکبر کی آگ سے بچنے کی آمین

 

یا اللّٰہ ہر انجان بیماری سے ہم تمام  امّت کی حفاظت فرماء ....

*آمین

منقول

 

 

 

💫 ضروریات ان کو کہتے ہیں جن کو پورا کیئے بغیر جینا مشکل ہوتا ہے اور خواہشات وہ ہوتی ہیں جن کو پورا کرنے کے چکر میں جینا مشکل ہو جاتا ہے۔

 

🌹🌹🌹🥀🥀🥀

 💫گھر میں چھوٹی موٹی باتیں تو ہوتی رہتی ہیں اور پر سکون زندگی گزارنے کے لیے ان باتوں کو نظر انداز کرنا اور ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہی اصل رشتے نبھانا ہے

🌹🌹🌹🥀🥀🥀

 💫 عیاری اور مکاری اس چھوٹے کمبل کی مانند ہے جس سے سر چھپاؤ تو پیر ننگے ہو جاتے ہیں۔

 

🌹🌹🌹🥀🥀🥀

 💫 ہوا کے تیز جھونکے سے وہ ٹہنی ٹوٹ جاتی ہے جسے اپنی بلندی پر زرا بھی ناز ہوتا ہے۔

 

🌹🌹🌹��🥀🥀

: 🏵🌼ســنــھــری بــاتــیــں🌼🏵 

 

‏جو عورت جوانی میں بیوی بن کر علٰیحدہ رہنے پر زور دیتی ہے

وہی بڑھاپے میں ساس بن کر اکٹھے رہنے پر دلیلیں دیتی ہے

 

 

 

لوگ کیا کہیں گے؟؟؟؟ یہ ایسی گھٹیا سوچ ھے - جو اللہ کا ڈر نکال کے لوگوں کا خوف ذہن پہ غالب کر دیتی ھے .....!!!



کُچھ طالب علم ساری ساری رات جاگتے ہیں اور پڑھائی کرتے ہیں لیکن وہ نماز نہیں پڑھتے اُن سے گزارش ہے کہ اس بات کی فکر کریں نماز پڑھا کریں قیامت کے دن نماز کے بارے سوال ہوگا نہ کہ یہ پوچھا جائے گا کہ آپکے میٹرک ایف ایس سی اور بی ایس سی میں کتنے کتنے نمبر آئے تھے؟

آج کل بچوں کو سکھایا جارہا ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہے نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ روح کی غذا تو تلاوتِ قرآنِ پاک ہے اپنے بچوں کو یہ بات یاد کروائیں اور اُنہیں تلاوتِ قرآنِ پاک کی عادت ڈالیں

جس طرح گرم کھانا کھانے سے منہ جل جاتا ہے اِسی طرح غصے میں کوئی فیصلہ کرنے سے کام بگڑ جاتا ہے لہٰذا ٹھنڈے دماغ سے فیصلہ کیا کریں

: جس طرح شہد کی مکھی پھولوں کے ناقص رس کو شہد میں تبدیل کر کے عمدہ بنا دیتی ہے اسی طرح اللہ والوں کی صحبت بھی بندے کو انمول بنا دیتی ہے

 

 

 

 

 

No comments:

Post a Comment